تاریخ شیعیت (رافضیت)
ابو عبداللہتاریخِ شیعیت (رافضیت)
شیعت کا لغوی معنیٰ”گروہ یا فرقہ“ ہے اور رافضیت کا لغوی معنیٰ”چھوڑ دینے والا“ ہے. چونکہ یہ لوگ اسلام کو چھوڑ کر اندرونی طور پر ایک گروہ یا فرقہ بن گئے تھے اس لیے ان کو شیعہ یا رافضی کہا جاتا ہے.
تاریخِ شیعیت کو ہم تین ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں:
- حضورﷺ کے دور میں جب یہ لوگ عبداللہ بن ابی سمیت بعض دیگر سردارانِ منافقین کے ساتھ الگ الگ گروہوں میں تقسیم تھے ۔
- سیدنا عثمانؓ کے دور میں جب عبداللہ بن سباء نے ان تمام گروہوں کو منظم کیا اور نظریۂ امامت ان میں متعارف کروایا ۔
- عبید اللہ ثقفی سے لے کر آلِ بویہہ تک جب ان کے عقائد کی تدوین ہوتی رہی ۔
اس سے پہلے کہ ہم ان تین ادوار کو بیان کریں ہم آپ کو یثرب کے حالات سے آگاہ کرتے چلیں۔
اس وقت یثرب میں مشرکینِ عرب کے دو بڑے اور با اثر قبائل اوس اور خزرج کے علاوہ، اشوری اور رومی مظالم سے بھاگ کر آنے والے، یہودی بھی بڑی تعداد میں آباد تھے جو کہ عربی رنگ میں رنگ جانے کے باوجود بھی نسلی عصبیت اور نسلی تفاخر میں مبتلا تھے. جادو ٹونا، جھاڑ پھونک اور فال گیری کی وجہ سے اپنے آپ کو صاحبِ علم و فضل اور اسرائیلی عصبیت کی وجہ سے اپنے آپ کو قائد و پیشواء اور عربوں کو نہایت حقیر سمجھتے تھے. اور صرف یہ ہی نہیں بلکہ یثرب کی معیشت پر مکمل کنٹرول بھی ان یہود کا تھا کیونکہ یہود کو دولت کمانے کے فنون میں بہت مہارت تھی۔ یثرب کی تجارت تو تھی ہی ان کے ہاتھ میں، مگر ان کی ذیادہ دلچسپی سودی لین دین میں تھی ۔ اس کے لیے وہ عرب شیوخ اور سرداروں کو سود پر رقمیں دیا کرتے تھے. جس کو شیوخ اور سردار حصولِ شہرت کے لیے بے دریغ استعمال کر دیتے تھے. یہود ان سے قرض کی رقوم کے بدلے قرض داروں کی زمینیں ، کھیتیاں اور باغات رہن رکھوا لیتے اور چند سال گزرنے کے بعد خود ان کے مالک بن جاتے تھے یہی نہیں بلکہ یہود جنگ و فساد کی آگ بھڑکانے میں بھی بڑے ماہر تھے ۔ یہ لوگ قبائل کو ایک دوسرے کے خلاف لڑاتے اور خود تماشہ دیکھتے اور دشمنی کی آگ ٹھنڈی نہ ہونے دیتے تاکہ سودی لین دین کی بدولت دھرا نفع کمائیں. یثرب میں یہود کے تین قبائل مشہور تھے ۔
- بنو قینقاع (یہ یثرب کے اندر رہتے تھے اور خزرج کے حلیف تھے)
- بنو نضیر ( یہ یثرب کے اندر رہتے تھے اور خزرج کے حلیف تھے)
- بنو قریظہ ( یہ یثرب کے اَطراف میں رہتے تھے اور اوس کے حلیف تھے)
ایک مدت سے یہی قبائل اوس اور خزرج کے مابین جنگِ بعاث کے شعلوں میں عربوں کو ایندھن بنا کر اہلِ عرب کو اپنے معاشی شکنجہ میں جکڑ رہے تھے اور اب یہ یہودی ایک سازش کے تحت ایک طویل عرصے سے باہم دست و گریباں اوس اور خزرج قبائل کو اپنے حلیف اور آلہ کار عبداللہ بن ابی بن سلول کی سربراہی پر متفق کر چکے تھے اور اس کی بادشاہت کی تیاریاں زوروں پر تھیں ۔ تاکہ یہودی عربوں کو صرف معاشی طور پر ہی نہیں بلکہ مکمل طور پر غلام بنا سکیں۔
یہ سن ہجری کے ابتدائی ایام تھے اور جمعۃ المبارک کا دن تھا. اس دن نہ صرف عبداللہ بن ابی کی بادشاہت کا خواب چکنا چور ہو گیا بلکہ یہود کے تمام منصوبے بھی خاک میں مل گئے. کیونکہ یثرب مدینۃ النبیﷺ بن چکا تھا اور الله کے آخری نبیﷺ مدینہ تشریف لا چکے تھے. جو تمام تعصبات سے بالاتر ہر انسان کو انسان کی غلامی سے نکل کر صرف اللّٰه کی غلامی کے سایۂ عافیت میں آنے کی ترغیب دیتے تھے۔
اس وقت تو یہود کے علم وفضل کا غرور اور پیشوائیت کا غرور پاش پاش ہو گیا جب ان کے سامنے سب سے بڑے عالِم حصین بن سلام نے یہود کی نظر میں انتہائی حقیر قوم عرب کے ایک شخص جو اللہ کے آخری نبیﷺ بھی تھے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کر کے اور عبدالله بن سلام بن کر اسرائیلی تفاخر کی دھجیاں اڑا دیں ۔ یہی وجوہات تھیں کہ یہود مسلمانوں سے سخت متنفر تھے کیونکہ تعصب نے انہیں اندھا اور بہرہ کر دیا تھا. اس تعصب کی وجہ سے ہی یہود نے ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا بازار گرم رکھا اور آتشِ انتقام میں یہود نے بدر و احد اور خندق کے معرکوں میں اپنی صلاحیتیں مسلمانوں کے خلاف استعمال کیں. مگر فتح مکہ کے بعد تو ان کے تمام ارادوں پر اوس پڑ گئی اور اب جبکہ یہ مسلمانوں کو کسی میدان میں شکست نہ دے سکے تو انہوں نے اپنی فطرت کے زیرِ اثر گھر کا بھیدی بن کر لوگوں کا لنکا ڈھانے کی سوچی اور یہ لوگ منافقت کی آڑ میں مسلمان ہونا شروع ہو گئے۔عبداللہ بن ابی، سعد بن حنیف ، زید بن الصلت ،نعمان اونیٰ ابن عمرو ، راضع بن حریملہ ، سلسلہ ابنِ برہام ،رفاعہ بن زید ، کنانہ ابنِ صوریا ان لوگوں سمیت بڑے بڑے یہود ان کے سرخَیل تھے اور انہوں نے اسی وقت مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش شروع کی مگر خود ایک فرقہ بن گئے. جس کی طرف قرآن نے واضح اشارہ دیا.
وَلَا تَكُوۡنُوۡا مِنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَۙ مِنَ الَّذِيۡنَ فَرَّقُوۡا دِيۡنَهُمۡ وَكَانُوۡا شِيَعًا ؕ
ترجمہ: مسلمانو!مشرکین میں سے نہ ہو جانا جنہوں نے دینِ اسلام میں تفریق پیدا کی اور شیعہ ہو گئے۔
(سورۃ روم آیت نمبر 31،32)
اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِیْ شَیْءٍؕ-
بے شک جنہوں نے دین میں تفرقہ ڈالا اور شیعہ ہو گئے (اے نبیﷺ) تیرا ان سے کوئی تعلق نہیں۔
(سورۃ الانعام آیت نمبر 159)
حضورﷺ کا زمانہ انبیاء میں سب سے آخری زمانہ ہے۔ آپﷺ نے منافقت کے پردے میں چُھپے اس دشمن سے آگاہ ہونے کے بعد فرمایا:
"قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم: یظھر فی آخر الزمان قوم یسمون الرافضة، یرفضون الاسلام
رسول اللهﷺ نے فرمایا: آخری زمانے میں ایک قوم ظاہر ہوگی اور جو رافضہ ہوگی اور جو اسلام سے نکل جائے گی
( مسندِ احمد جلد 1،صفحہ 103)
صرف یہی نہیں بلکہ نبی کریمﷺ نے ان روافض کی واضح نشانی بھی بتائی.
عن علیؓ قال قال رسول اللهﷺ سیأتی بعدی قوم لھم نبز یقال لھم الرافضة فان ادرکتھم فاقتلھم فانھم مشرکون قلت یا رسول اللّٰه ما العلامۃ لھم او فیھم قال یقرظونک ما لیس فیک ویطعنون علی السلف وینتحلون حبنا اھل البیت ولیسوا کذلك و رأیت ذلك یسبون ابابکرؓ وعمرؓ
سیدنا علیؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: میرے بعد ایک قوم ہوگی جسے رافضی کہا جائے گا۔ اگر تم انہیں پاؤ تو ان سے قتال کرو کیونکہ وہ مشرک ہوں گے ۔ سیدنا علیؓ کے استفسار پر نبی کریمﷺ نے ان کی علامتیں بتائیں کہ وہ تمہاری ذات میں غلو کریں گے، اسلام پر طعن کریں گے، اہلِ بیت کی محبت کا دعویٰ کریں گے حالانکہ وہ ہماری محبت سے خالی ہوں گے اور ابوبکرؓ اور عمرؓ کو برا بھلا کہیں گے(گالیاں دیں گے)۔
(دارقطنی، صواعق المحرقہ صفحہ 13، ابنِ حجر ہیشمی)
مگر منافقت کے پردے میں چھپے شیعوں (روافض) نے اپنی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا جال بڑی منافقت اور شاطر بازی سے پھیلایا. اسی وجہ سے نبی کریمﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے فوراً بعد ارتداد اور منکرینِ زکوٰۃ کے جو فتنے پیدا ہوئے وہ بھی شیعوں (روافض) کی زیرِ زمین تحریک کا نتیجہ تھے. جن کو خلیفۂ رسول سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے الله کے فضل سے بڑے تدبّر اور فراست سے ختم کر دیا اور خود اپنے یارِ غارﷺ سے جا ملے ۔ آپؓ کے بعد سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے بھی اللہ کے فضل سے دنیا کی دو عظیم الشان سپر طاقتوں، روم کی عیسائی اور ایران کی مجوسی سلطنتوں کی دھجیاں اڑا کا اسلام کا جھنڈا بلند کیا. مگر ہنگامے اور فتوحات کے اس دور میں بھی آستین کے سانپوں کی تحریک کو اپنی طاقت بڑھانے کا خوب موقع ملا اور سقوطِ ایران کے بعد تو ایران کے مجوسی بھی ان کی طاقت بن گئے تھے. کیونکہ اقوامِ عالم کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے حضرات یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ احساسِ برتری یا تفاخر کے نفسیاتی عارضے میں مبتلا اقوام مفتوح ہو جائیں یا ان کی حیثیت متاثر ہو جائے یا ان کی طاقت چھن جائے جس سے ان کے نفسیاتی عارضہ کو ٹھیس پہنچے تو وہ اقوام فتنوں اور سازشوں کے ذریعے تخریبی کاموں میں مشغول ہو جاتی ہیں اور مذکورہ عوامل کے ذریعے اپنی انفرادیت قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں. سیدنا فاروقِ اعظمؓ کے دور میں چونکہ اس تحریک کو کبھی کھل کر کام کرنے کا موقع نہیں مل سکتا تھا. اس لیے سیدنا امیر المومنینؓ کو شہید کیے بغیر کوئی چارہ کار نہ تھا. اس لیے ایرانی ابو لُؤلؤ فیروز ملعون، خلیفتہ الرسول کو شہید کر کے تاریخِ شیعیت میں بابا شُجاع کے نام سے معروف ہو گیا. حتیٰ کہ سیدنا عثمان ذوالنورینؓ کی خلافت کا زمانہ آگیا. اس دور میں سیدنا ذوالنورینؓ کی نرم دلی، تواضع، انکساری اور رحم دلی سے یہود اور مجوسیوں کو کھلم کھلا گٹھ جوڑ کا موقع ملا. مشہور شیعہ مؤرخ حسین کاظم زادہ نے اس گٹھ جوڑ کی وجہ یوں تحریر کی ہے۔
جس دن سعد بن ابی وقاص نے خلیفۂ دومؓ کی جانب سے ایران کو فتح کیا. ایرانی اپنے دلوں میں کینہ و انتقام پالتے رہے یہاں تک کہ فرقہ شیعہ کی بنیاد پڑنے پر اس کا پورے طور پر اظہار کرنے لگے۔
آگے چل کر یہی رقمطراز ہیں۔
ایرانی ہرگز اس بات کو نہیں بھول سکتے تھے، نہ معاف کر سکتے تھے، نہ قبول کر سکتے تھے کہ مٹھی بھر ننگے پیروں پھرنے والے عربوں نے جو صحراؤں اور جنگلوں کے رہنے والے تھے ان کی مملکت پر تسلط کر لیا ہے اور ان کے قدیم خزانوں کو لوٹ کر غارت کر دیا ہے اور ہزاروں لوگوں کو قتل کر دیا۔
(ملخص از تجلیات روح ایران در ادوارتاریخی)
یہاں میں اس بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ فتنہ شیعہ یا روافض کی اصل طاقت اور مرکز تو ایران ہی تھا. مگر اسکے بانی و مؤجد اور اس طاقت کو صحیح طور پر منظم کرنے کا سہرا عبداللہ ابنِ سباء یمنی کے سر ہے جو انتہائی شاطر یہودی تھا. یہی وجہ ہے کہ بعد کے لوگ اس فتنہ کو سبائی تحریک یا سبائیت بھی کہتے ہیں. ہمارے اس بیان کی تائید میں علامہ مجلسی کشی سے رقمطراز ہیں:
وذکر بعض اھل العلم ان عبداللہ بن سباء کان یھودیا فاسلم و والی علیا علیہ السلام وکان یقول وھو علی یھودیة فی یوشع بن نون وصی موسیٰ من الغلو. فقال فی اسلامه بعد وفات الرسولﷺ فی علی مثل ذلک و کان اول من اشھر بالقول بفرض امامة علیؑ. واظھر براءة اعدائه و کاشف مخالفیه واکفرھم فمن ھمنا قال من خالف الشیعة اصل التشیع والرفض ماخوذ من الیھودیة.
بعض اہلِ علم نے ذکر کیا ہے کہ عبداللہ ابنِ سباء یہودی تھا پس اسلام لے آیا. اور سیدنا علیؓ کی ولایت کا قائل ہوا. یہ اپنے یہودیت کے زمانے میں یوشع بن نون کے بارے میں غلو کرتے ہوئے کہا کرتا تھا کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وصی ہیں. پس اسلام لانے کے بعد وہ اس قسم کی باتیں سیدنا علیؓ کے متعلق کہنے لگا کہ نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد وہ آپﷺ کے وصی تھے. یہ سب سے پہلا شخص تھا جس نے اس بات کو مشہور کیا کہ سیدنا علیؓ کی امامت کا قائل ہونا فرض ہے اور اس نے سیدنا علیؓ کے دشمنوں پر اعلانیہ تبراء کیا اور سیدنا علیؓ کے مخالفین کو واشگاف کیا اور ان کو کافر کہا. یہیں سے وہ لوگ جو شیعہ کے مخالف ہیں یہ کہتے ہیں کہ تشیع اور رافضیت یہودیت سے ماخوذ ہے۔
(بحار الأنوار جلد 25،صفحہ 287)
اور اسی صفحے پر علامہ موصوف کا یہ حاشیہ بھی بڑا معنی خیز ہے :
کان قبل ذلك یتقون ولا یقولون علانیة تلک الامور فظھر وترک التقیة وعلن القول بذلک القول بکفر المخالفین مختصاته لعنة اللہ علیه۔
اس (عبداللہ بن سباء) سے پہلے لوگ تقیہ سے کام لیتے تھے اور ان امور (تبراء اور غلو) کو اعلانیہ نہیں کہتے تھے لیکن اس ملعون نے تقیہ چھوڑ کر ان باتوں کو اعلانیہ ذکر کرنا شروع کر دیا. مخالفینِ امامت کو بھی کافر کہنا اس کی خصوصیات میں سے ہے. لعنت ہو اس پر اللہ کی۔
( حاشیہ بحار الانوار جلد 5 صفحہ 287)
مندرجہ بالا بیان سے جہاں ہماری بات کی تائید ہوتی ہے وہاں اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ عبداللہ بن سباء کی اختراع عقیدۂ تقیہ شیعہ حضرات کے نزدیک اس درجہ اہم ہے کہ اس کے چھوڑنے والے پر لعنت بھیجی جاتی ہے نیز حضرات شیعہ کا محور عقیدۂ امامت اور تبراء کا مؤجد بھی عبداللہ ابن سباء تھا. عقائد کے اس بگاڑ سے اس کا مقصد یہود کو کھویا ہوا وقار بحال کرنے کے ساتھ ساتھ یہودی قوانین کا نفاذ اور یہودی حکومت کا قیام تھا. ہمارے اس بیان کو مزید تقویت حضرات شیعہ کی معتبر ترین ہستی کلینی کی کتاب میں موجود باب اور ذیلی روایات سے حاصل ہوتی ہے۔
باب فی الائمة انھم اذا ظھر امرھم حکموا بحکم آل داؤد ولا یسالون البینة
"یعنی کہ جب آئمہ کی حکومت ہوگی تو وہ آلِ داؤد کے موافق فیصلہ کریں گے اور شہادت طلب نہیں کریں گے
ل(اصول کافی کتاب الحجہ جلد 1،صفحہ 397)
دراصل عبداللہ ابن سباء کے ایجاد کردہ عقائد مشرکین، یہود ،نصاری اور ایران کی مجوسیت کا ملغوبہ تھا اور ان عقائد کا نشانہ زیادہ تر نو مسلم تھے کیونکہ پختہ نہ ہونے کی وجہ سے نو مسلموں کے لیے اُن عقائد میں بہت کشش تھی جو اُن کے قدیم مراسم اور سابقہ مذہبی عقائد سے بڑے حد تک مماثلت رکھتے تھے. عقائد کے اسی بگاڑ کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے اس رافضی گروہ نے نو مسلموں کی تخریبی انداز میں ذہن سازی کر کے پوری سلطنت میں تخریب کاری کا جال پھیلا دیا اور اس پورے تخریبی نظام کو وہ مصر سے کنٹرول کرتا رہا۔ مالک الاشتر النخعی، ثابت بن قیس الہمدانی ، کمیل ابن زیاد، زید بن صوحان، صعصعہ بن صوحان، صعصہ بن الکواء، عروہ بن الجعد، جندب بن زہیر الغامدی، جندب بن کعب الازوی، عمرو بن الحمق الخزاعی، ابنِ الحکنہ، عمیر بن ضابی، حکیم بن جبلہ العبدی اس کے تخریبی نظام کے اہم مہرے تھے.
اور یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے بالآخر سیدنا عثمانؓ کی نرمی کا فائدہ اٹھا کر اپنی بھرپور طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مظلوم ترین انسان امیر المومنینؓ کو انتہائی بے دردی کی حالت میں شہید کر دیا. سیدنا عثمانؓ کی شہادت ملتِ اسلامیہ کا وہ اَلمیہ ہے جو آگے چل کے جنگِ جمل و صفین کے معرکوں میں ایک لاکھ کے لگ بھگ مسلمانوں کی شہادت کا مؤجب بنا. مگر آپؓ کی شہادت کا یہ قصاص بھی کارکنانِ قضاء و قدر کے ہاں پورا نہ اترا اور رُبع صدی تک تمام عالمِ اسلام خاک و خون میں لوٹتا رہا اور آج تک شیعہ سنی چپقلش کی صورت میں موجود ہے. اور جب تک امتِ مسلمہ اپنے حقیقی منافق دشمن کو پہچان کر کوئی بہتر حکمتِ عملی اور صحیح لائحہ عمل اختیار نہیں کرتی تو جنگ جاری رہے گی. سیدنا عثمانؓ کے بعد سیدنا علیؓ کے دورِ حکومت میں بھی انہوں نے سیدنا علیؓ کو سخت کرب میں مبتلا رکھا. حضرات شیعہ کے نزدیک معتبر ترین کتاب نہج البلاغہ میں سیدنا علیؓ کے خطبے کے الفاظ ہیں کہ:
قاتلکم الله لقد ملائتم قلبی قبحا و شجنتم صدری غیظاً وجدعتمونی تعب التھام انفاسا فاسدتم علی رأبی بالخذلان والعصیان.
الله تمہیں ہلاک کرے تم نے میرا دل زخموں سے بھر دیا ہے، سینہ غموں سے لبریز کر دیا. ہر دم تم لوگوں نے مجھے غموں اور دکھوں کے جرح پلائے تم نے میرا ساتھ چھوڑا۔ میری نافرمانی کی اور مجھے رسواء کیا اور میری تدبیروں کو برباد کر دیا
(نہج البلاغہ صفحہ 47)
مشہور شیعہ مؤرِخ ابو الفرج اصفہانی سیدنا علیؓ کے خطبے کے الفاظ یوں لکھتے ہیں:
یا اشباہ الرجال والارجال و یا طغام الحلام و عقول ربات الحجال و درت انی لم اعدنکم بل وددت انی لم ارکم معرة واللہ جرعت ندما وملاءتم جوفی غیضاً بالعصیان والخذلان
اے زنان بصورت مردوں، اے کمینو زمانہ عقل والوں میری آرزو ہے کاش میں تمہیں نہ جانتا، نہ پہچانتا اور اے کاش میں نے تمہیں کبھی نہ دیکھا ہوتا. مجھے انتہائی ندامت ہے اور تم پر غصہ ہے تم میرے نافرمان اور رسواء کرنے والے ہو
(کتاب الاغانی جلد 1، صفحہ 43)
غرض کہ انہوں نے سیدنا علیؓ کی خلافت کو نام نہاد یا برائے نام بنا دیا اور آپ کو سخت رنجیدہ کیا ہمارے اس قول کی گواہی میں معتبر شیعہ قاضی نور اللہ شوستری رقمطراز ہیں:
وحاصل کلام آنکہ آنحضرت مادر آں ایام نام خلافت بیش نہ بودہ ھموارہ او فتند تمکن و فقاعد انصار وتخاذل اعوان شکایت ھی نمودنہ۔
ترجمہ: اور حاصلِ کلام یہ ہے کہ ان دنوں سیدنا علیؓ کی خلافت برائے نام تھی اور اپنی کمزوری اور اپنے اعیان و انصار (یعنی قریبی لوگوں ) کی پستی اور پہلوتہی کی شکایت فرماتے تھے
(مجالس المؤمنین مجلس اول صفحہ 24)
مختصراً یہ کہ سیدنا علیؓ کی ہستی وہ مظلوم شخصیت تھی جو اس زیرِ زمین سازشی تحریک کا سب سے زیادہ نشانہ بنی کیونکہ نبی کریمﷺ سے قریبی تعلق، خونی رشتہ، عظمت اور صاحبِ عِلم ہونے کی وجہ سے سیدنا علیؓ ایک ممتاز مقام رکھتے تھے. اس لیے اس سازشی تحریک نے آپؓ سے اپنی نسبت کا اظہار اور آپؓ سے اپنی قربت کا پرچار کرکے آپؓ کی شخصیت کو استعمال کرتے ہوے نہ صرف اپنے کام کے لیے میدان ہموار کیا بلکہ اپنے بہت سے ہمنوا بھی پیدا کیے. جس کی وجہ سے یہ اتنے طاقتور ہو گئے کہ کہیں تو سیدنا علیؓ کی الوہیت کی داستانیں گھڑیں اور کہیں سیدنا علیؓ کی ان کوششوں کو تاراج کیا جو آپس کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے سیدنا علیؓ کی طرف سے ہوئیں. جس کی وجہ سے جنگِ جمل و صفین میں بہت سے مسلمان ان کی سازشوں کی بھینٹ چڑھ گئے. یعنی انہوں نے سیدنا علیؓ سے اپنی نسبت کا پرچار کر کے نہ صرف یہ کہ سیدنا علیؓ کو مفلوج کر دیا بلکہ اس کو بطورِ دفاعی ہتھیار آج تک تھاما ہوا ہے. سیدنا علیؓ کی خلافت کو مفلوج کرنے سے اس سازشی ٹولے کا مقصد نظامِ خلافت کا خاتمہ تھا. اس کے لیے انہوں نے جو جال بچھایا خود سیدنا علیؓ بھی اس کی بھینٹ چڑھ گئے. آپؓ کی شہادت کے بعد آپؓ کے صحیح جانشین سیدنا حسنؓ نے کمالِ دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ اپنے والد سیدنا علیؓ کی وصیت:
وان علیاً ابی کان یقول لا تکرھوا امارة معاویة فانکم لو فار قتموہ لرأیتم الرؤس کندر عن کواھلحا کالحنظل
ترجمہ: میرے والد سیدنا علیؓ فرماتے تھے کہ سیدنا معاویہؓ کی امارت سے تم کراہیت نہ کرنا کیونکہ اگر تم نے ان کو بھی گنوا دیا تو تم دیکھنا کندھوں پر سے حنظل کی طرح سے سر گریں گے۔
(البدایہ والنہایہ جلد8، صفحہ 131، شرح نہج البلاغہ لابن ابی الحدید جلد 3 صفحہ 36)
اور حضورﷺ کی پیشن گوئی:
ابنی ھذا سید و لعل الله ان یصلح به بین فئتین عظیمتین من المسلمین
میرا یہ بیٹا(حسنؓ) سردار ہے. امید ہے اللہ تعالیٰ اسکے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گرہوں میں صلح کرائے گا
(تفہیم البخاری کتاب الصلح جلد1 صفحہ 1228)
کو پورا کر کے سیدنا معاویہؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور سبائیوں کے تمام منصوبے خاک میں ملا دیئے.
مگر اس کے بعد بھی روافض نے اپنے گماشتوں کی معرفت مصالحت کے اس فیصلے کو سبوتاژ کرنے کے لیے آپؓ پر بہت دباؤ ڈالا مگر کامیاب نہ ہونے کی صورت میں اپنے ایک آلہ کار کے ذریعے آپؓ کو زہر دے کر شہید کرا دیا. سیدنا حسنؓ کی شہادت کے بعد آپؓ کے چھوٹے بھائی سیدنا حسینؓ کو بھی ایک سازش کے تحت کربلا میں بلا کر شہید کر دیا. اِس ساری سازش کے روح رواں یہی کوفی شیعہ تھے. ہمارے اس قول کی گواہی میں مشہور شیعہ مصنف صاحب خلاصۃ المصائب رقمطراز ہیں:
لیس فیھم شامی ولا حجازی بل جمیعھم اھل الکوفة
اہلِ بیت کو شہید کرنے والوں میں کوئی شامی یا حجازی نہیں تھا بلکہ سب کے سب کوفی تھے
( خلاصۃ المصائب صفحہ 201)
اور مشہور شیعہ مجتہد نور اللہ شوستری اہلِ کوفہ کے مذہب کے متعلق رقم طراز ہے:
تشیع اھل کوفہ حاجب باقامت حجت نہ دارد و سنی بودن کوفی الاصل خلاف اصل و محتاج دلیل است
کوفیوں کا شیعہ ہونا اتنا واضح ہے کہ اس کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں اور کوفی الاصل کا سنی ہونا خلافِ عقل اور دلیل کا محتاج ہے۔
(مجالس المومنین اول صفحہ 25)
یہی کوفی اشرار تھے جو سیدنا حسینؓ کو شہید کرنے کے بعد رونے پیٹنے سے بھی اپنے آپ کو بے قصور ثابت نہ کر سکے. اس سلسلے میں طبرسی سیدنا زین العابدین کے الفاظ رقم طراز ہے:
لما اتی زین العابدین بالنسوة من کربلا دو کان مریضاً واذا النسآء اھل الکوفہ ینتدین مشققات الجیوب والرجال معھن یبکون فقال زین العابدین بصوت ضیلیل فقد تھکتہ العلة ان ھولآء یبکون علینا فمن قتلنا غیرھم
جب سیدنا زین العابدین عورتوں کے ہمراہ کربلا سے تشریف لائے اور وہ بیمار تھے تو اس وقت کوفہ کی عورتیں اور مرد گریبان چاک کر کے رو پیٹ رہے تھے تو اس وقت سیدنا زین العابدین کمزور آواز سے فرمانے لگے یہ لوگ رو رہے ہیں. حالانکہ ان کے علاوہ ہمیں کسی غیر نے قتل نہیں کیا۔
(الاحتجاج صفحہ 158)
ہمارے اس بیان کے ثبوت میں کتب شیعہ سے مزید بہت سے حوالہ جات دستیاب ہو سکتے ہیں. اس سلسلہ میں جلاء العیون جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 597 پر سیدہ زینبؓ کے دل سے نکلی ہوئی بددعا:
اے ماتم کرنے والوں! تم قیامت تک ماتم کرتے رہو گے یہی تمہاری سزا ہے۔
باقر مجلسی صاحب نے لکھی ہے جوکہ:
دل سے جو آہ نکلتی ہے سو اثر رکھتی ہے
کے بمصداق رنگ لائی جس کے لیے ہمیں کوئی ثبوت پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہر عقل رکھنے والا شخص محرم میں ہمارے بیان کی تصدیق کر سکتا ہے.
تاریخ کا مطالعہ کرنے والے حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ شیعہ مذہب میں اتنا تضاد ہے کہ یہ بھان متی کا سوانگ اور مداری کا کرتب بن گیا ہے. اسی تضاد کے متعلق مشہور شیعہ مجتہد مولوی دلدار علی مجتہد رقمطراز ہے :
الاحادیث الماثورہ عن الأئمة مختلفة جداً. لایکاد یوجد حدیث الا و فی مقابلته ما ینافیه ولا یتفق خبراً الا و بازائہ ما یضادہ , حتی صار ذلک سببا لرجوع بعض الناقصین عن اعتقاد الحق کما صرح بہ شیخ الطائفة فی اوائل التھذیب والاستبصار
ائمہ سے منقول احادیث میں سخت اختلاف ہے. ایسی کوئی حدیث نہیں ملے گی جسکے مقابلے میں اسکے مخالف خبر نہ ہو یہاں تک کہ یہ اختلاف بعض ناقص لوگوں کیلئے مذہب سے انحراف کا سبب بن گیا. جیسا کہ شیخ الطائفہ نے تہذیب اور استبصار کے شروع میں اسکی تصریح کی ہے۔
( اساس الاصول صفحہ 51)
اسی تضاد کا شاخسانہ ہے کہ سیدنا علیؓ کو شہید کرنے والے گروہ کے ساتھی اور اپنے چچا سعد بن مسعود کو سیدنا حسنؓ کی گرفتاری کی ترغیب دینے والے مختار ثَقفی نے واقعہ کربلا کے بعد اس واقعہ کے ذمہ دار کوفیوں کو ساتھ ملا کر اس تحریک کو باقاعدہ ایک مذہبی شکل دے دی اور کبھی تو نبوت اور کبھی مہدویت کا دعویٰ کیا. اس نے سبائی تحریک کو مذہبی شکل دے کر لاکھوں مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا. اس کے بارے میں مشہور شیعہ نور اللہ شوستری لکھتا ہے:
مختار بن ابی عبید ثقفی رحمة اللہ تعالیٰ علامه حلی اور از جمله مقبولان ثمردہ
ترجمہ: مختار بن ابی عبید ثقفی اللہ کی اس پر رحمت ہو علامہ حلی نے اس کو مقبولان بارگاہ الہیٰ میں شمار کیا ہے۔
( مجالس المؤمنین صفحہ 51)
حالانکہ علامہ کشی رقمطراز ہیں:
عن ابى عبدالله قال كان المختار يكذب على على بن الحسين (علیھما السلام)
"سیدنا صادقؒ فرماتے ہیں کہ مختار سیدنا زین العابدین پر جھوٹ بکتا تھا
(رجال کشی صفحہ 125)
اور صرف یہی نہیں بلکہ عقیدہ بداء کا مؤجد بھی یہی مختار ثقفی تھا. اس نے اپنے سازشی منصوبوں میں اہلِ بیتِ اطہار کو رکاوٹ سمجھتے ہوئے سیدنا حسینؓ کے بھائی محمد بن علیؓ المعروف محمد بن حنفیہ کو بھی قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا. جب اس کا ظلم حد سے بڑھ گیا تو حضورﷺ کے پھوپھی زاد بھائی کے بیٹے اور سیدہ اماں عائشہؓ کے بھانجے عبداللہ بن زبیرؓ کو اس کے مقابلے پر اپنے چھوٹے بھائی مصعب بن زبیرؓ کو بھیجنا پڑا. جنہوں نے اللہ کے فضل و کرم سے اس ظالم کو قتل کیا. مگر جس فتنے کی بنیاد عبداللہ بن ابی نے رکھی اور عبداللہ ابن سباء نے جس فتنے کو منظم کیا، مختار ثقفی نے اس کو مذہبی شکل دے کر اس کی جڑیں مضبوط کر دی تھیں. اس لیے گمراہی کی بنیاد پر قائم تحریک میں مختار کی موت کے بعد بھی ہر دور میں مزید گمراہ فرقوں نے جنم لیا۔ جو گمراہی کی تمام حدود پھلانگ کر اپنے اسلاف سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے رہے. یہی وجہ ہے کہ آج اسلامی تاریخ میں آپ کو درجنوں ایسے فرقوں کا ذکر مل جائے گا جنہوں نے کہیں تو خدائی کا، نبوت کا اور مسیحیت کا دعویٰ کیا اور کہیں مہدویت اور امامت کے چکروں میں مسلمانوں کو گمراہ کیا۔ ان میں اکثریت شیعہ روافض فرقوں کی ہے جن میں سے بعض آج بھی دنیا میں موجود ہیں۔