Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کیا قرآن کریم میں تحریف اور کمی بیشی والا قول شیعہ علماء کے نزدیک تواتر کی حد کو پہنچ چکا ہے؟

  الشیخ عبدالرحمٰن الششری

کیا قرآنِ کریم میں تحریف اور کمی بیشی والا قول شیعہ علماء کے نزدیک تواتر کی حد کو پہنچ چکا ہے؟ 

 جواب: جی ہاں!
ان کے علامہ عبد اللہ شبر نے کہا ہے:
بلاشبہ وہ قرآن جو نبیﷺ پر نازل ہوا تھا وہ اس سے کہیں زیادہ تھا جو آج ہمارے ہاتھوں میں ہے، اس میں سے ایک بہت بڑا حصہ چھوڑ دیا گیا ہے جس طرح کہ اس بات پر ایک دوسری کی معاونت کرنے والی روایات جو متواتر ہونے کے قریب ہیں دلالت کر رہی ہیں۔ اور بلاشبہ ہم نے اس بات کی وضاحت اپنی کتاب منية المحصلين فی حقية طريقة المجتهدين میں کر دی ہے۔
(مصابيح الأنوار فی حل مشكلات الأخبار: جلد، 2 صفحہ، 295 حدیث نمبر، 153)
کمر دہری کر دینے والی مصیبت:
 شیعہ علماء نے روایت نقل کی ہے کہ سیدنا علیؓ نے اللہ تعالیٰ کے فرمانِ اقدس کی تفسیر میں ارشاد فرمایا ہے:
 فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِىۡ شَىۡءٍ فَرُدُّوۡهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوۡلِ اِنۡ كُنۡـتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ‌ ذٰلِكَ خَيۡرٌ وَّاَحۡسَنُ تَاۡوِيۡلًا۝
(سورۃ النساء: آیت، 59)
ترجمہ: پھر اگر تم کسی جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو تو یہ بہتر ہے انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹانے سے مراد کتاب کی آیاتِ محکمہ سے فیصلہ لینا ہے۔
(نہج البلاغة: صفحہ، 399 خطبة نمبر، 294 یہ کتاب ان کلمات اور خطبات پر مشتمل ہے جن کے متعلق خیال ہے کہ یہ علیؓ بن ابو طالب کے ہیں جنہیں المدعو محمد بن الحسین الموسوی المتوفی سنہ 406 ھ) نے جمع کیا ہے۔ بحار الانوار: جلد، 2 صفحہ، 244 حدیث نمبر، 48 باب علل اختلاف الاخبار و كيفية الجمع بينها والعمل بها الخ)
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف اختلاف کو لوٹانے کا مطلب اس بات کو اس کی کتاب کی طرف لوٹانا ہے۔ اور یہ اس وجہ سے ہے کہ آپ ان کے اعتقاد کے مطابق یہ کتاب تحریف سے محفوظ ہے۔
رافضی علماء کی کذب بیانی کی دلیل کے لیے یہی کافی ہے کہ سیدنا علیؓ بن ابی طالب جو کہ اکثر شیعہ کے نزدیک الٰہ و خالق و معبود ہیں، اور کچھ کے نزدیک نبی ناطق ہیں اور تمام شیعوں کے نزدیک امام معصوم ہیں۔ وہ پانچ سال 9 ماه تک مطلق العنان فرماں روا رہے اور پوری طاقت والے خلیفہ رہے۔ اس دوران ان کی سلطنت کی ہر مسجد میں قرآن پڑھا جاتا تھا۔ اور وہ اسی قرآنِ مجید کے مطابق لوگوں کو نمازیں پڑھاتے تھے۔ مصحف ہر وقت ان کے پاس اور سامنے موجود تھا۔ اگر وہ اس میں تحریف اور تبدیلی کے قائل ہوتے تو کیا وہ اپنی طویل حکمرانی کے دور میں اس تحریف کو اسی طرح باقی رہنے دیتے؟ جیسا کہ رافضی شیعوں کا پروپیگنڈہ ہے۔ پھر ان کے بیٹے کی حکومت آئی اور وہ شیعوں کے نزدیک اپنے والد جیسے اوصاف کے حامل ہیں، ان کے دور میں بھی معاملات ایسے ہی چلتے رہے انہوں نے بھی اس تحریف کی اصلاح کی ضرورت محسوس نہ کی؟ لہٰذا اب ان دھوکے باز خیانت کاروں کو کیسے زیب دیتا ہے کہ یہ دعویٰ کریں کہ قرآن مجید میں کوئی حرف کم یا زیادہ ہے یا قرآن تبدیل شدہ ہے؟ اگر ایسا ہوتا قرآن مجید کو تبدیل کرنے والوں اور اسلام کا حلیہ بگاڑنے والوں کے ساتھ جہاد کرنا زیادہ ضروری تھا بنسبت اہلِ شام کی جنہوں نے سیدنا علیؓ سے صرف ایک رائے میں اختلاف کیا تھا اور انہوں نے ان سے جہاد کیا تھا۔
اس منہ توڑ دلیل سے رافضی شیوخ کا کذب و افتراء واضح ہو گیا یہ ایسی زبردست دلیل ہے۔ جس کو ماننے سے کوئی مفر نہیں ہے۔ 
یہاں تک کہ اسلام کے جھوٹے دعویدار شیعہ حضرات کے بالکل برعکس یہود و نصاریٰ کے بھی اہلِ انصاف علماء نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ قرآنِ کریم ہر قسم کی تحریف اور کمی و بیشی سے محفوظ ہے۔
فرانسیسی عالم لوبلوا کہتا ہے: آج قرآن ہی وہ واحد ربانی کتاب ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
(مدخل إلى القرآن الكريم: صفحہ، 40 للدكتور محمد عبدالله دراز، دار القلم كويت: 1413ھ)
یہودی عالم مؤیر لکھتا ہے: بیشک وہ مصحف جسے سیدنا عثمانؓ نے جمع کیا تھا وہ تواتر کے ساتھ ہم تک منقول ہوتا چلا آیا ہے۔ اس میں کوئی تحریف نہیں ہوئی اور اس کی حفاظت کا انتہائی سخت انتظام کیا گیا ہے۔ اس لیے اس میں کسی بھی تبدیلی کا ذکر تک نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ: 
وسیع تر بلاد اسلامیہ میں متداول اس کے بے شمار نسخوں کے باوجود علی الاطلاق اس کتاب میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ ان تمام اسلامی فرقوں میں باہم تنازعات اور جھگڑوں کے باوجود صرف ایک ہی قرآن پایا جاتا ہے۔ اجتماعی طور پر آج تک ان تمام لوگوں کے ہاں ایک ہی نص کا مقبول ہونا یہ سب سے بڑی دلیل شمار کیا جاتا ہے کہ اس قرآن کی نص اسی طرح ہمارے پاس محفوظ موجود ہے جیسے یہ آسمان سے نازل سے ہوا تھا۔ اور جسے مظلوم خلیفہ سیدنا عثمانؓ نے جمع کیا تھا۔
(المصدر السابق)