Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعہ علماء کے نزدیک کتاب الکافی کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟ کیا وہ ان کے اضافوں سے بچ سکی ہے؟ کیا ان لوگوں کا اس کی کتابوں اور احادیث پر اتفاق ہے؟

  الشیخ عبدالرحمٰن الششری

شیعہ علماء کے نزدیک کتاب الکافی کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟ کیا وہ ان کے اضافوں سے بچ سکی ہے؟ کیا ان لوگوں کا اس کی کتابوں اور احادیث پر اتفاق ہے؟

جواب: کچھ شیعہ علماء کہتے ہیں جب الکلینی نے اپنی کتاب الکافی تحریر کی تو اسے اپنے بارہویں یا تیرہویں امام الغائب کے سامنے پیش کیا تو آپ نے تحسین کرتے ہوئے فرمایا: الْكَافِی كَافٍ لِشِيعَتِنَا

(بحار الانوار جلد، صفحہ، 89 حديث نمبر، 377 باب متشابہات القرآن و تفسیر المقطعات) 

ترجمہ: کافی ہمارے شیعہ کے لیے کافی ہے۔

ان کے شیخ عباس القمی نے کہا ہے: الکافی تمام اسلامی کتابوں میں سے عظیم المرتبت کتاب ہے اور امامیہ مذہب کی تصانیف میں سے عظیم ترین ہے، امامیہ مذہب کے لیے اس جیسی کتاب منصٸہ شہود پر نہیں آئی۔ 

ان کے شیخ محمد امین الاستر آبادی نے کہا ہے: ہم نے اپنے علماء و مشائخ سے سنا ہے، اسلام میں کوئی ایسی کتاب تصنیف نہیں ہوئی جو اس کے مساوی ہو یا اس کے ہم پلہ ہو۔ 

(الکنی و القاب القمی جلد 2 صفحہ 593 اور 594)

قارئین کرام! آئیں ذرا میرے ساتھ مل کر الکافی کے بعض ابواب اور اس کی نصوص و عبارات پر غور فرمائیں کہ ان لوگوں نے کتنے اضافے کر دیے ہیں؟

ان کا شیخ الخوانساری کہتا ہے: کتاب الروضہ کی بابت شیعہ علماء نے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ الکلینی کی تالیف ہے؟ یا بعد ازاں الکافی میں اضافہ کیا گیا ہے؟ 

(روضات الجنات جلد، 6 صفحہ، 118)

ان کا ایک اور علامہ ابنِ مطہر الحلی(متوفی 726ھ) نجم الدین مہنا المدنی سے کتبِ شیعہ کی مرویات میں اپنی سند کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے: اور ان میں سے ایک کتاب الکلینی بھی ہے۔ جو کہ محمد بن یعقوب الکلینی کی تالیف ہے۔ اور اسے الکافی کے نام سے جانا جاتا ہے یہ اپنی مذکورہ اسناد کے ساتھ پچاس کتب پر مشتمل ہے۔

 (بحار الانوار: جلد 107/ 146 باب الاجازات: 8)

ان کے ثقہ اسلام سید حسین بن حیدر الکرکی العاملی (المتوفی 1076ھ) نے کہا ہے: بلا شبہ الکافی میں پچاس کتابیں (چیپٹرز) اسانید کے ساتھ ہیں پھر ان میں ہر ایک حدیث ائمہ تک پہنچ رہی ہے۔

(روضات الجنات: جلد،6 صفحہ، 114 الکلینی و الکافی: حاشیہ نمبر 1 صفحہ، 403)

دراں حال یہ کہ اس طائفہ کے شیخ الطوسی (المتوفی 420ھ) یوں کہہ رہا ہے: کتاب الکافی تیس کتابوں پر مشتمل ہے پہلی کتاب العقل ہے اور آخری کتاب الروضۃ ہے۔ ہمیں شیخ مفید نے الکافی کی تمام کتب اور روایات بیان کی ہیں۔ 

(الفہرست الطوسی: صفحہ، 210 باب اللام: نمبر 17)

مندرجہ بالا اقوال سے آپ کے سامنے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ

 بلاشبہ الکافی میں جو باتیں بڑھائی گئی ہیں وہ پانچویں صدی ہجری اور گیارہویں صدی ہجری کے درمیان درمیان کا واقعہ ہیں۔ اور وہ ہیں بیس کتاہیں اور ہر ایک کتاب (Chapter) کئی ابواب پر مشتمل ہے۔ یعنی اس لمبی مدت کے دوران %40 کے حساب سے کتاب الکافی میں اضافے کیے گئے ہیں یہ تو وہ اضافے ہیں جو روایات میں تبدیلی الفاظ کے تغیر، فقرات کے حذف اور دیگر اضافوں کے علاوہ ہیں۔

یہ کون سی شخصیت ہے جس نے الکافی میں بیس کتابوں کا اضافہ کر دیا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ عمامہ والوں میں سے یہودیوں کے شیوخ میں سے کوئی ہو؟ یا اس طویل عرصے میں متعدد یہودیوں نے یہ معرکہ سر انجام دیا؟ یا یہ کام شیعہ قوم کا فطری کارنامہ ہے کیونکہ جو قوم رسول اللہﷺ آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور قرابت والوں کے بارے میں جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتی تو وہ اپنے علماء کے بارے میں بالاولیٰ جھوٹ بولے گی۔

 میں ہر ایک شیعہ سے سوال کرتا ہوں:

 کیا تمہاری الکافی، مسلسل تمہارے امام معصوم سے اس کے تہ خانے اور سرنگ سے منظوری اور توثیق پاتی رہی ہے اور وہ مسلسل اس کے متعلق اپنی رائے اور اپنی توثیق پر ہی ڈٹے رہے ہیں کہ یہ ہمارے شیعہ کے لیے کافی ہے؟

ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے اور تمہارے لیے ہدایت کا سوال کرتے ہیں۔