[ہدایت و گمراہی اور رب کی مشئیت ]:اور رب تعالیٰ کی تعلیم و ہدایت یہ بندوں کے ایک دوسرے کو تعلیم دینے کی طرح نہیں ہے۔ کیونکہ معلم کہتا ہے اور متعلّم ایسے اسباب کے ساتھ سیکھتا ہے جن پر معلم قادر نہیں ہوتا اور یہ رب تعالیٰ ہی ہے جو علم کو متعلمین کے دلوں میں ڈالتا ہے۔ اسی لیے تو رب تعالیٰ یہ بات دعا کر کے مانگی جاتی ہے: ﴿اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمo﴾جب کہ یہ بات کسی بندہ بشر کے حق میں نہیں مانگی جاتی، کیونکہ بندے اس بات پر قادر ہی نہیں ہیں اور بندہ رب تعالیٰ سے یہ دعا مانگتا ہے کہ وہ علم و فہم نصیب کرے، شرح صدر سے نوازے اور ایمان اور عمل صالح کو اس کے نزدیک محبوب بنا دے جبکہ یہ بات غیر اللہ سے نہیں مانگی جاتی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰہُ صَدْرَہُ لِلْاِِسْلَامِ فَہُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہِ﴾ (الزمر: ۲۲)’’تو کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہے، سو وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر ہے (کسی سخت دل کافر جیسا ہو سکتا ہے؟)‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا﴾ (الانعام: ۱۲۵)’’تو وہ شخص جسے اللہ چاہتا ہے کہ اسے ہدایت دے، اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ اسے گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ، نہایت گھٹا ہوا کر دیتا ہے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ فَفَہَّمْنٰہَا سُلَیْمٰنَ﴾ (الانبیاء: ۷۹)’’تو ہم نے وہ (فیصلہ) سلیمان کو سمجھا دیا۔‘‘رب تعالیٰ نے سیدنا سلیمان علیہ السلام کو تفہیم کے ساتھ خاص فرمایا حالانکہ دونوں حاکم اور قاضی تھے اور دونوں میں سے ایک کو علم ظاہری کے ساتھ خاص نہ فرمایا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰہَاo فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰہَاo﴾ (الشمس: ۷۔۸)’’اور نفس کی اور جس نے اسے ٹھیک بنایا! پھر اس کی نافرمانی اور اس کی پرہیزگاری (کی پہچان) اس کے دل میں ڈال دی۔‘‘اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر ان الفاظ کے ساتھ قسم اٹھایا کرتے تھے:’’ لَا وَ مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ‘‘[1][1] صحیح البخاری: ۸؍۱۲۸۔۱۲۹۔ جامع الترمذی: ۳؍۴۸۔ سنن النسائی: ۷؍۳۔ سنن ابن ماجہ: ۱؍۶۷۶۔ سنن الدارمی: ۲؍۱۸۷۔ الموطا: ۲؍۴۸۰۔ مسند احمد: ۷؍۱۷، ۲۱۵، طبعۃ المعارف۔’’اس ذات کی قسم جو دلوں کو پلٹنے والی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’سب بندوں کے دل رب رحمان کی دو انگلیوں کے بیچ ہیں ، اگر اللہ اسے سیدھا رکھنا چاہے تو اسے سیدھا کر دیتا ہے اور اگر اسے ٹیڑھا کرنا چاہے تو اسے ٹیڑھا کر دیتا ہے۔‘‘[1][1] سنن ابن ماجہ: ۴؍۱۸۲، ’’التعلیق‘‘ میں رقم ہے کہ ’’الزوائد‘‘ میں ہے کہ اس حدیث کی اسناد صحیح ہے اور یہ حدیث مسند احمد (۴؍۱۸۲) طبعۃ الحلبی میں مروی ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے ’’کتاب السنۃ لابن عاصم (۱؍۹۸۔۹۹) طبعۃ المکتب الاسلامی: ۱۴؍۱۹۸۰ کی تخریج میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور اس حدیث پر مفصل کلام بھی کیا ہے۔رب تعالیٰ مومنوں کی دعا کو ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا وَ ہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُo﴾(آل عمران: ۸)’’اے ہمارے رب! ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر، اس کے بعد کہ تو نے ہمیں ہدایت دی اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، بے شک توہی بے حد عطا کرنے والا ہے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَ لَوْ لَآ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَکَ قُلْتَ مَا شَآئَ اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ﴾ (الکہف: ۳۹)’’اور جب تو اپنے باغ میں داخل ہوا تو کیوں نہ کہا ’’جو اللہ نے چاہا، کچھ قوت نہیں مگر اللہ کی مدد سے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَ لَوْشَآئَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّہُمْ جَمِیْعًا﴾ (یونس: ۹۹)’’اور اگر تیرا رب چاہتا تو یقیناً جو لوگ زمین میں ہیں سب کے سب اکٹھے ایمان لے آتے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَ لَوْ شَآئَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً﴾ (ہود: ۱۱۸)’’اور اگر تیرا رب چاہتا تو یقیناً سب لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَ لَوْ شَآئَ اللّٰہُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِیْنَ مِنْ بَعْدِہِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا جَآئَ تْہُمُ الْبَیِّنٰتُ﴾ (البقرۃ)’’اور اگر اللہ چاہتا تو جو لوگ ان کے بعد تھے آپس میں نہ لڑتے، اس کے بعد کہ ان کے پاس واضح نشانیاں آ چکیں ۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَ لَوْشِئْنَا لَاٰتَیْنَا کُلَّ نَفْسٍ ہُدٰہَا﴾ (السجدۃ: ۱۳)’’اور اگر ہم چاہتے تو ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ لَوْ شَآئَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوْہُ﴾ (الانعام: ۱۱۲)’’اور اگر تیرا رب چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَ لَوْشَآئَ اللّٰہُ مَآ اَشْرَکُوْا﴾ (الانعام: ۱۰۷)’’اور اگر اللہ چاہتا تو وہ شریک نہ بناتے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿اِنَّا جَعَلْنَا فِیْٓ اَعْنَاقِہِمْ اَغْلٰلًا فَہِیَ اِلَی الْاَذْقَانِ فَہُمْ مُّقْمَحُوْنَo وَجَعَلْنَا مِنْ بَیْنِ اَیْدِیْہِمْ سَدًّا وَّمِنْ خَلْفِہِمْ سَدًّا فَاَغْشَیْنٰہُمْ فَہُمْ لَا یُبْصِرُوْنَo﴾ (یٰسٓ: ۸۔۹)’’بے شک ہم نے ان کی گردنوں میں کئی طوق ڈال دیے ہیں ، پس وہ ٹھوڑیوں تک ہیں ، سو ان کے سر اوپر کو اٹھا دیے ہوئے ہیں ۔ اور ہم نے ان کے آگے سے ایک دیوار کر دی اور ان کے پیچھے سے ایک دیوار، پھر ہم نے انھیں ڈھانپ دیا تو وہ نہیں دیکھتے۔‘‘تقدیر کو ثابت کرنے والی آیات و نصوص بہت زیادہ ہیں جو سب کی سب معتزلہ وغیرہ قدریہ نافیہ کے قول کے بطلان پر دلالت کرتی ہیں ۔ ان دونوں فرقوں کے پاس نصوص ہیں اور ہر فرقہ دوسرے فرقہ کی نصوص کی فاسد تاویلات کرتا ہے اور وہ ان نصوص کے ساتھ ایسی باتوں کو ملاتا ہے جن پر وہ نصوص دلالت ہی نہیں کرتیں ۔رہے حضرات اہل سنت و حدیث جو کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین عظام، ائمہ مسلم اور اہل سنت و الحدیث کے علماء رحمہم اللہ ہیں ، جو پوری کتاب پر ایمان رکھتے ہیں ، اس میں سر مو بھی تحریف نہیں کرتے، وہ یہ کہتے ہیں کہ جو اللہ نے چاہا اور ہوا اور جو نہ چاہا وہ نہ ہوا۔‘‘ اور یہ کہتے ہیں : ’’رب تعالیٰ ہر شے کا خالق و مالک اور رب ہے۔ اس کے سوا سب اس کی مخلوق ہے اور اس کی قدرت و مشیت سے حادث ہے۔ اس کی حکومت و ملک میں وہ نہ ہو گا جو اس نے چاہا نہیں اور پیدا نہیں کیا۔ کسی میں رب تعالیٰ کو اس شے کے پیدا کرنے سے روکنے کی سکت نہیں جس کی تخلیق و تکوین کا اس نے ارادہ کر لیا ہے۔ کیونکہ اللہ ہی وہ واحد و قہار ذات ہے کہ جو:﴿مَا یَفْتَحِ اللّٰہُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَۃٍ فَلَا مُمْسِکَ لَہَا وَ مَا یُمْسِکْ فَلَا مُرْسِلَ لَہٗ مِنْ بَعْدِہٖ وَ ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُo﴾ (فاطر: ۲)’’جو کچھ اللہ لوگوں کے لیے رحمت میں سے کھول دے تو اسے کوئی بند کرنے والا نہیں اور جو بند کر دے تو اس کے بعد اسے کوئی کھولنے والا نہیں اور وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ان حضرات کا قول ہے کہ رب تعالیٰ نے ایمان اور عمل صالح کا حکم دیا ہے اور کفر و عصیان اور فسق و فجور سے روکا ہے اسے اپنا ہر مامور محبوب اور پسند ہے اور جس بات سے بھی اس نے روکا ہے وہ اسے ناپسند ہے اور وہ اس پر ناراض ہے۔ وہ فساد کو پسند نہیں کرتا اور نہ اپنے بندوں سے کفر پر راضی ہے۔یہ حضرات کہتے ہیں : رب تعالیٰ نے اپنے بندوں کو جن باتوں کا بھی حکم دیا ہے اور ان سے ان باتوں پر عمل پیرا ہونے کا ارادہ کیا ہے، تو اس سے یہ مراد نہیں کہ اس نے ان باتوں کو ان کے لیے پیدا کرنے کا اور ان پر ان کی اعانت کا بھی ارادہ کر لیا ہے بلکہ مامورین کی مامورات پر اعانت یہ اس کا دوسری نعمتوں کی طرح ایک فضل ہے اور وہ اپنی رحمت کے ساتھ جسے چاہے خاص کر لے۔ گزشتہ دونوں جماعتوں (قدریہ اور جبریہ) سے یہ غلطی ہوئی ہے کہ انھوں نے ان دو باتوں میں فرق نہیں کیا:۱۔ ایک یہ کہ رب تعالیٰ اپنے بندوں میں کسی چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ کرے۔۲۔ دوسری یہ کہ وہ بندوں کو دئیے جانے والے امروں کا ارادہ کرے۔جبکہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿اَ لَا لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ﴾ (الاعراف: ۵۴) ’’سن لو! پیدا کرنا اور حکم دینا اسی کا کام ہے۔‘‘پس رب تعالیٰ ہر شے کا خالق ہے۔ اس نے جو بھی پیدا فرمایا اپنے ارادے سے پیدا فرمایا ہے۔ پس اس نے جو چاہا وہ ہوا اور جو نہ چاہا وہ نہ ہوا۔ پس جو نہ ہوا تو بات یہ ہے کہ رب تعالیٰ نے اس کے پیدا کرنے کا ارادہ ہی نہ کیا تھا اور جو ہوا اس نے اس کے پیدا کرنے کا ارادہ کیا تھا اور وہ صرف اسی چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے جس کی بابت اسے پہلے سے علم ہو کہ وہ اسے پیدا کرے گا۔ کیونکہ رب تعالیٰ کا علم معلوم کے مطابق ہے۔