Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعہ کے ساتھ نکاح کرنا


 سیدنا صدیق اکبرؓ اور سیدنا فاروق اعظمؓ کو بُرا بھلا کہنے، اور حرام اُمور کو حلال قرار دینے کے باعث انسان صرف کافر ہوتا ہے۔ 

سلطنتِ عثمانیہ، اللہ تعالیٰ ہمیشہ عالی شان نصرت سے اس کی تائید فرماتا رہے، کہ علمائے کرام نے مذکور شیعوں کے بارے میں کثرت سے فتویٰ دیئے ہیں، اُن میں سے کثیر تعداد نے ان کے بارے میں سیرِ حاصل کلام فرمایا ہے، اور ان کے متعلق رسائل تحریر فرماتے ہیں۔ ایسا فتویٰ صادر فرمانے والے علماء میں سے صاحبِ تحقیق اور مفسرِ قرآن حضرت ابو مسعود آفندیؒ بھی ہیں، علامہ کواکبی حلبیؒ نے ان کی عبارات کو اپنے فقہی منظومہ کی شرح میں نقل فرمائی ہے۔ حضرت علامہ ابو مسعودؒ سے انہوں نے شیعہ مذہب کی قباحتوں کا اسی طرح ذکر کیا جو پہلے مذکور ہو چکا، پھر آپ نے ان کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام زمانوں کے علماء نے ان کے قتل کو مباح قرار دیا ہے اور جو شخص ان کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔

لہٰذا امام اعظمؒ، امام سفیان ثوریؒ اور امام اوزاعیؒ کے نزدیک اگر وہ اپنے کفر سے توبہ کریں، کفر سے رجوع کر کے اسلام لے آئیں تو وہ قتل ہونے سے بچ جائیں گے اور باقی کافروں کی مانند اِن کی معافی کی اُمید ہے جبکہ وہ توبہ کر لیں، لیکن امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ، امام لیثؒ اور باقی علمائے عظام کے نزدیک ان کی توبہ قبول نہ کی جائے، ان کے اسلام کا اعتبار نہ کیا جائے، اور حد کے طور پر ان کو قتل کر دیا جائے۔ امام اعظمؒ کے نزدیک ان کی توبہ کی قبولیت یقینی ہے، لیکن مجموعہ سے منقول حکمِ شرعی اس کے مخالف ہے اور مجھ پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ درست یہی ہے۔ 

بہر نہج بصورتِ سلطنتِ اسلامیہ اور جاری ہونے احکامِ اسلام کے اگر ایسے لوگ توبہ نہ کریں باتفاق واجب القتل ہیں، اور اگر توبہ کرلیں اور اپنے اقوالِ کفریہ سے رجوع کر لیں بطریقِ حد بعد توبہ ان کے قتل میں اختلاف ہے اور قولِ راجح علامہ شامی کے نزدیک عدمِ قتل ہے۔ جب وہ توبہ کرلیں مگر قولِ فیصل اور صحیح یہ ہے کہ بعد توبہ اگر آثار: استقامت على التوبہ ان سے ظاہر ہوں قتل نہ کئے جائیں اور اگر توبہ بطریقِ فریب و مکر ان کے افعال و اقوال سے ظاہر ہوں تو حاکمِ اسلام پر لازم ہے کہ ضرور ایسے لوگوں کو قتل کر دیں۔ 

چنانچہ علامہ شامیؒ عقود الدريہ جلد 1 صفحہ 104 تحریر فرماتے ہیں کہ علامہ ابو سعودؒ نے اس مسئلہ کا جواب دیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ اختلافی ہے، راہِ خدا تعالیٰ میں جہاد کرنے والے سلطان خان بن سلیم خان کے سامنے دو اقوال کے درمیان تطبیق اور اہلِ ایمان کی رعایت کیلئے یہ مسئلہ پیش کیا گیا (تو یہ فیصلہ کیا گیا) کہ بہتر یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کو بُرا بھلا کہنے کے بعد توبہ کرنے والے شخص کے حال کو دیکھا جائے، اگر اس کی جانب توبہ کی درستی، اسلام کی خوبی اور حال کی بہتری معلوم ہوتی ہو تو قبولِ توبہ میں احناف کے قول پر عمل کیا جائے اور اس کی تادیب کیلئے تعزیر اور قید پر اکتفا کیا جائے اور اگر اس سے بہتری مفہوم نہ ہوتی ہو تو دیگر ائمہ کے مذہب پر عمل کیا جائے۔ لہٰذا اس کی توبہ پر اعتماد نہ کیا جائے اور اسے حد کے طور پر قتل کیا جائے۔ لہٰذا سلطانِ مذکور نے اپنے ممالک کے تمام قاضیوں کو حکم دیا کہ آج کے بعد اس تطبیق کے مطابق عمل کیا جائے، کیونکہ اس میں اسلام کا نفع اور کفر کا خاتمہ ہے۔

الحاصل ۔۔۔ اس زمانہ میں خصوصاً ہند میں، نہ حاکمِ شرع ہے اور نہ جمیع احکامِ اسلام جاری ہے۔ ضروری ہے کہ اس قسم کے لوگ خصوصاً قائل اقوال مذکورہ اور اس کے معتقدین اگر وہ اپنے عقائد فاسدہ مُکفرہ سے توبہ نہ کریں، اور ان کے نکاح میں جو اہلِ سنت اپنی بیٹیوں کو دے چکے ہیں، ان سے بذریعہ عدالت ضرور جدا کریں، اس واسطے کہ بعد مُرتد ہو جانے کے نکاحِ مرتد قائم نہیں رہتا۔ لہٰذا اگر وہ توبہ کرے از سر نو پھر تجدیدِ نکاح کر لی جائے، اور اگر وہ توبہ سے انکار کرے تو شرعاً عورت کو اختیار ہے جس سے چاہے نکاح کرلے۔

عقد الدريہ جلد 1 صفحہ 100 میں ہے کہ اگر کوئی شخص مرتد ہو جائے تو اس کی بیوی اس پر حرام ہو جاتی ہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اس کے نکاح کی تجدید کی جائے گی، ارتداد سے فی الفور نکاح فسخ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اس بارے میں قاضی کے فیصلہ کی ضرورت نہیں ہے، اور نہ ہی اس سے طلاقوں کی تعداد میں کمی واقع ہوتی ہے۔

ورنہ بعد ارتداد جو وطی واقع ہو گی اس کا حکم زنا کا ہے، اور اس سے جو اولاد پیدا ہو گی وہ ولد الزنا ہو گی۔ چنانچہ عقود الدريه في تنقيح فتاوىٰ حمديه جلد 1 صفحہ 101 میں ہے

ارتداد اور اس کے بعد ایمان قبول کے درمیان، یعنی کلمہ کفر بولنے کے بعد تجدیدِ نکاح سے قبل وطی کے ساتھ جو اولاد ہوگی ولد الزنا ہو گی۔ اگر عادت کے طور پر کلمہ شہادت پڑھے یہ اس کیلئے کافی نہیں ہے۔ جب تک اپنے کلمہ کفر سے رجوع نہ کرے، کیونکہ عادت کے اعتبار سے کلمہ شہادت پڑھنے سے کفر مرتفع نہیں ہوتا، اسے کفر سے توبہ اور رجوع کا حکم دیا جائے گا، اس کے بعد تجدیدِ نکاح کی جائے گی۔

اور ظاہر ہے کہ مرد کا قبلِ ارتداد جو نکاح تھا وہی باقی نہیں رہتا پھر بعد ارتداد جب تک صدقِ دل سے توبہ نہ کرے اور یقینی طور سے بقرائنِ معتبرہ اس کی سچی توبہ ظاہر نہ ہو جائے مسلمان عورت کا اس کے ساتھ کب نکاح ہو سکتا ہے۔ اور اس کو بیٹی دینا اور اپنی بہن، بیٹی کا اس کے ساتھ نکاح کرنا بعینہ ایسا ہے جیسے کہ گِبریا ہندؤ یا یہودی یا نصرانی کے ساتھ نکاح کر دیا جائے۔ اور ایسے شخص کے ساتھ نکاح کر دینے والے اگر ان کو اچھا سمجھ کر ان کے ساتھ نکاح کر دیں وہ خود مرتد ہیں ورنہ قیامت تک ان غریب عورتوں کے زنا کا عذاب ان کے ورثہ کی گردن پر رہے گا۔ اور اگر بوجہ نکاح وہ عورت بھی مرتدہ ہو گئی تو اس کے عذاب ارتداد میں وہ ورثہ بھی ضرور معذب ہوں گے۔ 

جو اِن اقوالِ مکفرہ کا مصدق ہے وہ کافر ہے۔ اس کے ساتھ مسلمہ غیر مصدقہ کا رشتہ زوجیت جائز نہیں، اور زوجین میں سے کسی ایک کا بعد نکاح ان اقوالِ کفریہ کی تصدیق کرنا موجب افتراق ہے۔ 

معتقد اِن اقوال کا اور اور قائل اِن اقوال کا کافر مطلق ہے۔ اس کے کفر میں کچھ شک نہیں۔ اور اِن اقوال کے قائل اور معتقد کے ساتھ نکاح مطلقاً جائز نہیں۔ اگر کرے بھی قابل واسطے افتراق کے ہے۔ 

(فتاویٰ دیداریہ: جلد، 1 صفحہ، 636)