Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اسماعیلیہ کے منفی کردار کے محرکات

  سید تنظیم حسین

عرب و عجم کی کشمکش:

قرامطہ نے خصوصی طور پر حاجیوں کا قتل عام کیا مساجد کو جلایا حتیٰ کہ بیت اللہ شریف کی بے حرمتی کی حجرِ اسود کو اکھاڑ کر ہجر بحرین کے دار الحکومت لے گئے اور تو اور قرامطہ جیسا کہ گزشتہ باب میں ذکر کیا گیا ہے ظاہری اعمالِ شریعت سے مثلاً نماز، روزه، حج، وغیرہ سے بے نیاز ہو گئے تھے اس لئے ان کی نظر میں مساجد بیت اللہ حجرِ اسود اور حجاج کرام کا وہ احترام ہی نہ رہا تھا جو ایک عام مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے لیکن اس میں عرب اور عجم کی کشمکش کی شدت بھی نظر آتی ہے کیوں کہ اس کو صرف اس ذوق حکمرانی کی تسکین پر محمول نہیں کیا جا سکتا جو عام طور پر حوصلہ مند افراد یا قبائل کو قسمت آزمائی کے لئے راغب کیا کرتی ہے قرامطہ کا مقصد حجرِ اسود کی منتقلی سے یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ بحرین میں حج مقرر کرنا چاہتے تھے حاجیوں کو لوٹنے سے بھی یہ مقصد ہو سکتا ہے کہ وہ حجاج کو بلادِ عرب جاتے ہوئے دیکھنا پسند نہ کرتے تھے ان کو عرب کی یہ سر بلندی شاق گزرتی تھی اس نفرت کا اندازہ فردوسی محمود غزنوی کا درباری شاعری کے ان اشعار سے ہوتا ہے:

زشیر شتر خوردں و سوسمار

عرب را بجائے رسید و است کار

کہ تاج کیاں را کنند آرزو

تصویر تو اسے چرخ گرداں تفو۔

ترجمہ: اونٹنی کا دودھ پیتے پیتے اور گوہ کا گوشت کھاتے کھاتے عرب اب اس قابل ہو گئے کہ وہ قیصر و کسریٰ کے تاج کی آرزو کرنے لگے اے آسمان تو برباد ہو فردوسی کے بعد ناصر خسرو علوی 395ھ، 480ھ، 1005ء، 1087ء با قاعدہ قتل و غارت کی ترغیب دیتا نظر آتا ہے:

وقت آن آمد کہ روز کیں چو خاک کربلا

 آب را در دجلہ از خون عدد احمر کنی

 اے نبیره آن که زد شد در جہاں خیبر سحر 

دیر بر ماید کہ تو بغداد را خبر کنی

ترجمہ: اب وہ وقت آگیا ہے کہ میدانِ کربلا کی طرح تو دشمنوں کے خون سے دجلہ کے پانی کو سرخ کر دے اے فاتحِ خیبر کے پوتے تو بغداد کو خیبر کرنے یعنی فتح کرنے میں کیوں دیر لگا رہا ہے۔

ناصر خسرو علوی کے بعد ہم رضائے کرد کے اشعار بھی پیش کرتے ہیں جن کو براؤن نے عرب اور ایران کی کشمکش کی تائید میں تاریخِ ادبیاتِ ایران میں پیش کیا ہے:

نوٹ: اس سلسلہ میں اس دور کے مصنف آقائے حسین کاظم زادہ کی تصنیف تجلیات روح ایرانی در ادوار تاریخی کا مطالعہ بہت ضروری ہے:

بشکست عمرؓ پشت ہزیران حجم را

بر باد فتاد اورگ و ریشہ جم را

این عربد در غصب خلافت ز علیؓ نیست

با آل عمرؓ کینہ قدیم است حجم را

ترجمہ: حضرت عمرؓ نے ایران کے شہسواروں کی کمر توڑ دی اور ایرانی عظمت کی دھجیاں اڑا دیں ہمارا یہ جھگڑا حضرت علیؓ کی خلافت کے غصب کرنے پر نہیں ہے بلکہ عربوں سے تو ہماری خصومت پرانی ہے۔

مشرقی اسماعیلیوں کی قتل و غارت گری کیلئے اس سے واضح محرک اور کیا ہو سکتا ہے مغربی اسماعیلی یعنی فاطمی تو ابتداء ہی سے عباسی خلافت کے درپے تھے لہٰذا قرامطہ کی ایمان سوز حرکتوں میں ان کا تعاون شاید اس وجہ سے تھا کہ قرامطہ کی دہشت گردی سے عباسی خلافت کا استحکام متاثر ہو رہا تھا اور اس سے ان کا بغداد پر قبضہ کا منصوبہ کامیاب ہوتا نظر آتا تھا اور ہوا بھی یہی کہ فاطمی 450ھ، 1058ء میں بغداد پر قابض ہو گئے یہ قبضہ صرف ایک سال رہا وہ تو فاطمیوں کا امیر بساسیری اگلے ہی سال طغرل کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔ 

(تاریخِ فاطمیینِ مصر: جلد، اوّل صفحہ، 303) 

ورنہ مؤرخین کا خیال ہے کہ یہ قبضہ دیر پا ثابت ہوتا

نزاری امامت کا قائم کرنے والا حسن بن صباح تھا حسن بن صباح نے اپنی زندگی میں جو کچھ کیا اس کے محرکات کیلئے ہم فان ہمیر کے تاثرات پیش کرتے ہیں:

and as he had not been successful in the

usual routine of ministerial ambition in playing a part in the empire of the Seljukides he after wards as nuncis and envoy paved the way to his own power and planned a system of administra tion of his own.

(فان ہمیر تاریخ حشیشین: صفحہ، 70)

ترجمہ: اور چونکہ وہ سلجوقیوں کی حکومت میں وزارت کے حصول میں ناکام ہو گیا تھا لہٰذا اس نے ایک اسماعیلی داعی کی حیثیت سے اپنے ذات اقتدار کے لئے راستے ہموار کیا اور نظم و نسق کے لئے خود اپنا طریق کار مرتب کیا۔

فان بمیر کے مندرجہ بالا تاثرات اپنی جگہ اہم ہیں ہمارا خیال یہ ہے کہ ہمیں پہلے یہ دیکھنا چاہیئے کہ حسن بن صباح جو پہلے امامیہ اثناء عشری تھا اس کو اسماعیلیت میں کون سی خوبی نظر آئی جو وہ اسماعیلی دعوت کا شکار ہوا دراصل امامیہ اثناء عشری میں بارہویں امام کی غیبت کے بعد سے ایک خلاء چلا آتا ہے وہ یہ کہ اگر بالفرض ان کو دنیاوی کامیاب ہو جائے تو اس کی سربراہی کے لئے امام کہاں سے آئے کیوں کہ ان کے یہاں امام مہدی تو قیامت سے قبل ہی ظاہر ہوں گے حسن بن صباح جس کے عزائم بہت بلند تھے وہ اس کمزوری کو سمجھتا تھا اس کا حل اسماعیلیہ کے یہاں موجود تھا کیوں کہ ان کے یہاں خلافت کا سلسلہ جاری تھا اور امام کی موجودگی میں بھی اصل حکومت داعیوں کے ہاتھ میں تھی ہمارا خیال ہے کہ حسن بن صباح کو اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے اسماعیلیت میں بہتر مواقع نظر آئے اور ہوا بھی یہی جیسا کہ تاریخ سے ظاہر ہے کہ اس کے دور میں نزاری امام ہادی و امام مہتدی برائے نام امام تھے اور خود حسن بن صباح سیاہ و سفید کا مالک تھا اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ عرب و عجم کی کشمکش سے بے نیاز تھا اسماعیلیت ہو یا اثناء عشری شیعیت دونوں کی ابتداء و ترقی میں ایرانی پیش پیش نظر آتے ہیں مگر صورتِ حال یہ تھی کہ وہ درخت جو ایرانیوں نے لگایا تھا اس کے پھل شمالی افریقہ، مصر و حجاز و شام والے کھا رہے تھے غالباً اس پسِ منظر میں حسن بن صباح نے شمالی ایران میں نزاری امامت کا سلسلہ قائم کیا اب رہی اس کی فدائیوں کی تنظیم اور دیگر حرکات تو وہ نفسیاتی طور پر ناکامی کا نتیجہ ہو سکتے ہیں جس کا ذکر فان ہمیر نے کیا ہے سب جانتے ہیں کہ جب ناکامی کے بعد انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی ہے تو انتقام کی پیاس گناہ گار اور بے گناہ کے خون میں تمیز نہیں کرتی بلکہ ایمان اور آخرت کا خوف بھی اس کی خون آشام تلواروں کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر رہتا ہے مختصراً حسن بن صباح کو جیسا کہ اس کی زندگی سے ظاہر ہے ایک نفسیاتی مریض بھی کہا جا سکتا ہے جو اسماعیلی عقائد اور اسماعیلی دعوت کا ایک لازمی نتیجہ جیسا کہ کچھ عرصہ قبل مصر میں فاطمی خلیفہ الحاکم بامر اللہ کے مجنونانہ افعال سے ظاہر ہوا جس میں سے ایک یہ بھی ہے:

412ھ میں الحاکم بامر اللہ نے جو فاطمی خلیفہ ہونے کے علاوہ روزیہ کا خدا بھی ہے یہ کوشش کی حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم اور دونوں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جسد ہائے مبارک چرا لئے جائیں اس کے بھیجے ہوئے اشخاص اس کوشش میں ناکام رہے اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 

(ڈکشنری آف اسلام: صفحہ، 345)

اسماعیلیہ کے منفی کردار کے اثرات:

قرامطہ کے قتل و غارت کے اثرات مشہور مؤرخ سید امیر علی کی زبانی سنئے:

لیکن قرامطہ کی بغاوت کے تباہ کن اثرات کبھی بھی زائل نہ ہو سکے جزيرة العرب اور شام کا بڑا حصہ ویران ہو گیا خلافت کے دست و باز و مفلوج ہو گئے اور بازنطینیوں کو جو اسلام کے قدیم دشمن تھے مسلمانوں کے علاقوں میں قتل و غارت گری کی کھلی چھوٹ مل گئی۔

(عربوں کی تاریخ امیر علی: صفحہ، 298، 299)

اسماعیلی فدائیوں کی ہلاکت خیزیوں اور صلیبیوں سے تعاون سے جو صورتِ حال پیدا ہوئی اس کو فان ہمیر نے چار سطروں میں بیان کیا ہے:

ترجمہ: عیسائیت اور الحاد یعنی نیک جنگجوؤں کی صلیب اور اسماعیلی فدائیوں کے خنجر دونوں نے ایک ہی وقت میں اسلام اور مسلمان حکمرانوں کی تباہی کے لئے خفیہ طور پر منصوبہ بندی کی

 (The History of the Assasins:page:83)

اسماعیلیہ کے اس منفی کردار سے اسماعیلیہ کو مسلمانوں کا ہمدرد سمجھنا تاریخ سے لا علمی کی دلیل ہے اور خود اسماعیلیہ کا یہ دعویٰ کہ وہ مسلمانوں کے ہمدرد رہے ہیں اور بدستور ہیں شاید آنے والی نسلیں ہی مستقبل کی کسوٹی کو پرکھ کر اور ماضی کو فراموش کرکے تسلیم کر سکیں ورنہ ہم تو یہی کہیں گے:

مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام

 ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں۔