تعلیم وتربیت
نقیہ کاظمیتعلیم وتربیت
پیغمبر اسلامﷺ اصحابِ صفہؓ کے سامنے قرآن کریم پڑھنے اور علمِ دین حاصل کرنے کی فضیلت واہمیت بیان کرکے تعلیمِ قرآن دیا کرتے تھے۔ حضرت عقبہ بن عامرؓ فرماتے ہیں! نبی اکرمﷺ تشریف لائے، ہم لوگ صفہؓ میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ آپ نے اصحابِ صفہؓ کو مخاطب کرکے فرمایا: تم میں کون شخص اس کو پسند کرے گا کہ صبح سویرے بازار ’’بُطحان‘‘ یا ’’عقیق ‘‘ میں جائے اور دو اونٹنیاں عمدہ سے عمدہ بلا کسی قسم کے گناہ اور قطعِ رحمی کے پکڑ لائے صحابہؓ نے عرض کیا: اس کو تو ہم میں سے ہر ایک شخص پسند کرے گا۔ رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا: مسجد میں جا کر آیتوں کا پڑھنا، پڑھانا دو اونٹنیوں سے اور تین آیت کا تین اونٹنیوں سے، اسی طرح چار کا چار سے افضل ہے اور ان کے برابر اونٹنیوں سے افضل ہے۔
(صحیح مسلم: صفحہ270،جلد1)
رسول اللّٰہﷺ اصحابِ صفہؓ کی تعلیم و تربیت کا بہت خیال رکھتے تھے، شدتِ بھوک کی حالت میں بھی ان کو سبق پڑھاتے، حضرت ابوطلحہ انصاریؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں نے نبی اکرمﷺ کو سخت بھوک کی حالت میں کھڑے ہوکر ’’صفہؓ‘‘ کے طلبۂ کرام کو پڑھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس وقت آپﷺ اپنی پشتِ مبارک سیدھی رکھنے کے لیے اپنے پیٹ سے پتھر کا ایک ٹکڑا باندھے ہوئے تھے۔
(حلیۃ الاولیاء: صفحہ342،جلد1)
نبی اکرمﷺ کی تعلیم وتربیت بہت ہی اچھے اور نرالے انداز پر ہوتی تھی، طالبِعلم سے کتنی بڑی سخت غلطی ہوجائے پھر بھی نہ آپﷺ کسی کی پٹائی کرتے اور نہ ڈانٹ ڈپٹ کرتے،بلکہ بڑے پیار بھرے لب ولہجہ میں سمجھاتے، جس سے طالب علم بڑا متاثر ہوتا اور تعلیماتِ نبویﷺ سے اپنے آپ کو خوب مزین وآراستہ کرلیتا۔
’’صفہؓ ‘‘ کے ایک ہونہار طالب علم حضرت معاویہؓ بن حکم سلمیؓ۔
(حلیۃ الاولیاء:صفحہ33،جلد2) اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز میں رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہاتھا ، نماز یوں میں سے کسی کو چھینک آگئی، میں نے ’’ یرحمک اللّٰہ ‘‘ اس کے جواب میں کہہ دیا ، اتنا کہنا تھا کہ لوگ مجھے گھورنے لگے، میں نے کہا: کیا ہو گیا تم لوگ مجھے کیوں گھور رہے ہو؟ نماز میں بولنے کی بنا پر وہ لوگ اپنی اپنی رانوں پر ہاتھ مارنے لگے، تو میں سمجھ گیا کہ نمازمیں بولنے کی وجہ سے یہ لوگ مجھے خاموش کرا رہے ہیں۔ بالآخر میں خاموش ہوگیا۔
فلما صلی رسول اللّٰہﷺ فبابي ہو وأمي ، مارأیت معلماً قبلہ ولا بعدہ أحسن تعلیماً منہ، فواللّٰہ ما کھر نی ولا ضربني ولا شتمني ثم قال :إن ہذہ الصلاۃ لایصلح فیہا شئ من کلام الناس، انما ہو التسبیح والتکبیر وقراءۃ القرآن۔
(صحیح مسلم: صفحہ203،جلد1، باب تحریم الکلام في الصلاۃ)
ترجمہ: رسول اللّٰہﷺ پر میرے ماں باپ قربان ہوں!میں نے آپﷺ جیسا معلم، نہ آپﷺ سے پہلے اور نہ آپ کے بعد دیکھا، جب آپﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو اللّٰه کی قسم! نہ آپ نماز میں بولنے کی بنا پر مجھ سے ناراض ہوئے نہ پٹائی کی اور نہ ڈانٹ ڈپٹ کی، بلکہ بڑے پیار بھرے لہجہ میں ارشاد فرمایا: نماز میں کسی قسم کی بات نہیں کی جاتی ہے اور نہ ایساکرنا درست ہے، بلکہ نماز میں صرف اللّٰه تعالیٰ کی پاکی اور بڑائی بیان کی جاتی ہے اور قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے۔
رسول اللہﷺ بعض دفعہ صفہ کے طالب علموں کو فرداً فرداً تعلیم و تربیت دیتے تھے، حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی اکرمﷺ نے صفہ کے ایک طالب علم ابورزینؓ نامی شخص سے فرمایا: اے ابو رزینؓ! جب تم خلوت وتنہائی میں رہو تو تم اپنی زبان پہ اللّٰہ تعالیٰ کا ورد جاری رکھو، جب تک اللہ تعالیٰ کے ذکر میں لگے رہوگے، برابر نماز ہی میں شمار کیے جاؤگے، اگر تم لوگوں کے سامنے ذکر کروگے تو لوگوں کے سامنے نفل نماز پڑھنے کے برابر تمہیں ثواب دیاجائے گا۔(حلیۃ الأولیاء:صفحہ366،جلد1، الإصابۃ:صفحہ70،جلد4)
نبی اکرمﷺ طلبۂ صفہ کی تربیت کی خاطر راتوں میں مدرسۂ صفہ میں گشت بھی لگاتے اور اگر کوئی کام خلافِ شرع پاتے تو اس پر تنبیہ فرماتے۔ حضرت ابوذر غفاریؓ ایک مرتبہ پیٹ کے بل مسجدِ نبویﷺ میں سورہے تھے۔ نبی اکرمﷺ نے انہیں اپنے پاؤں مبارک سے ٹھوکر مار کر جگا یا اور فرمایا: اے جُندُب! یہ کیا لیٹنے کا طریقہ ہے؟ یہ تو شیطان اور جہنمیوں کا طریقہ ہے۔
(سنن ابن ماجۃ:صفحہ264)
حضرت طِخْفہ غفاریؓ اپنے مدرسۂ صفہ کے ساتھیوں کے ساتھ رسول اللّٰہﷺ کے یہاں دعوت کھا کر مسجدِ نبوی میں پیٹ کے بل سوگئے۔ یہ خود ہی فرماتے ہیں! کسی نے پیر سے مجھے حرکت دی اور کہا: اس طرح لیٹنا اللّٰه تعالیٰ کو ناپسند ہے۔ کہنے والے کی جانب میں نے دیکھا تو وہ محسنِ انسانیتﷺ تھے۔
(الحلیۃ:صفحہ373،جلد1)
رسول اللّٰہﷺ نے طلبۂ صفہؓ کی تعلیم وتربیت کی خاطر استاد بھی متعین کر رکھا تھا حضرت عبادۃ بن صامتؓ فرماتے ہیں!
’’علّمتُ ناساً من أہل الصفۃ القرآن والکتاب‘‘ میں نے صفہ کے کچھ طلبۂ کرامؓ کو قرآن کریم کی تعلیم دی اور لکھنا بھی سکھا یا تو ان میں سے ایک طالب علم نے مجھے ایک کمان ہدیہ میں دی۔
(سننِ أبوداؤد:صفحہ485،جلد2، الإجارۃعون المعبود: صفحہ203،جلد9)
طلبۂ صفہؓ اپنی علمی پیاس اکابرِ علمائے صحابۂ کرامؓ سے بھی بجھایا کرتے۔ اگر کوئی آیت یاد نہ ہوتی، یا کسی آیت کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا، تو حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ جیسے اکابرِ صحابہؓ سے چلتے پھرتے راستہ میں یاکسی بھی جگہ پوچھ کر اپنی معلومات میں اضافہ کر لیتے۔
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں سخت بھوک کی وجہ سے لوگوں کی گزرگاہ میں بیٹھ گیا۔حضرت ابوبکرؓ گذرے، میں نے ان سے قرآن مجید کی ایک آیت کے متعلق سوال کیا، تاکہ حضرت ابوبکرؓ سوال کا جواب دے کرمجھے گھر لے جاکر کھانا کھلائیں۔ حضرتابوبکرؓ نے سوال کا جواب دیا اورچلے گئے، مگر اپنے ساتھ نہیں لے گئے، پھر حضرت عمرؓ کا گذر ہوا، میں نے ان سے بھی قرآن کریم کی ایک آیت کے متعلق معلوم کیا تاکہ وہ مجھے اپنے ساتھ گھر لے جائیں اور کھانا کھلائیں، وہ بھی گذر گئے اور مجھے اپنے ساتھ نہیں لے گئے۔(صحیح بخاري:صفحہ955،جلد2 حدیث نمبر 6452)
صفہ کے ممتاز طالب علم حضرت واثلہؓ بن اسقع فرماتے ہیں: میں تین دن کا بھوکا تھا، عشاء کی نمازکے وقت حضرت ابوبکرؓ کو دیکھ کر میں نے ’’سورۂ سبا‘‘ کی کچھ آیتیں ان سے پڑھنے کی درخواست کی، وہ چلتے رہے، پڑھاتے رہے، جب اپنے گھر کے دروازہ تک پہنچ گئے تو میں اپنے دل میں بہت خوش ہوا کہ اب مجھے کھانے کے لیے ضرور بلائیں گے مگر وہ اپنے گھر کے دروازہ پر کھڑے کھڑے سمجھاکر خاموشی کے ساتھ اندر تشریف لے گئے اور مجھ سے کچھ نہیں کہا۔ پھر میں حضرت عمرؓ کے پاس قرآن کریم کی آیت سمجھنے کے بہانے سے گیا، انہوں نے بھی حضرت ابوبکرؓ جیسا معاملہ اپنا یا۔
(المستدرک: صفحہ116،جلد4)
حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت واثلہؓ بن اسقع کا مقصد اگرچہ ان دونوں حضراتؓ سے آیت کے سلسلہ میں پوچھنا نہیں تھا، بلکہ اس کے پسِ پردہ اپنی بھوک مٹانے کی خاطرچند لقمے حاصل کرناتھا، کہ شاید آیت سمجھنے کے بہانہ سے حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ ان کی بے بسی اور بھوک کی سختی کو دیکھ کر کھا نا کھلا دیں۔ مگر ایسے واقعات سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ صفہ کے طلبۂ کرام اکابرِ علمائِ صحابۂ کرام سے بھی اپنی علمی پیاس بجھاتے تھے، یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ یہی سمجھے کہ ان دونوں کا مقصد آیت کے سلسلہ میں ہی دریافت کرنا اور اپنی معلومات میں اضافہ کرناہے۔اس طرح صفہ کے طلبۂ کرامؓ علومِ نبوت سے مستفیض ہوتے۔
بعض طلبۂ کرامؓ نے مدرسۂ صفہ میں رہ کر اس قدرعلمِ حدیث حاصل کیا کہ دوسرے اس سے پیچھے رہ گئے۔ مثلاً: حضرت ابوہریرہؓ نے اپنے سینۂ گنجینہ میں احادیث طیبہ کا اتنا بڑا ذخیرہ جمع کیا کہ امت محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام کے سب سے بڑے حافظِ حدیث کہلائے۔ اور حضرت حذیفہ بن یمانؓ نے بطورِ خاص فتنوں سے متعلق احادیث یاد کرنے کا اس قدر اہتمام کیاکہدوسرے اس مقام کونہ پاسکے ۔ اور حضرت ابوذر غفاریؓ منبعِ نبوت سے اس قدر فیض یاب ہوئے کہ خلیفۃالمسلمین حضرت علیؓ نے ان کے بارے میں فرمایا ’’اوعی علماً عجز منہ‘‘ حضرت ابو ذرؓ ایسے علم کو حاصل کئے ہوئے ہیں جس سے لوگ عاجز آگئے۔
(طبقات ابنِ سعد: صفحہ232، جلد4)