مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دائمی صحبت
علی محمد الصلابیمدینہ میں نبی کریمﷺ کی دائمی صحبت
قوی معاون جو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شخصیت میں اثر انداز ہوا اور آپؓ کی صلاحیتوں کو نکھارا، آپؓ کی طاقت میں جوش پیدا کیا اور نفس کی تہذیب کی وہ نبی کریمﷺ کی مصاحبت اور مدرسہ نبوت میں آپ کا تلمذ تھا، چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسلام لانے کے بعد مکہ میں اور ہجرت کے بعد مدینہ میں آپﷺ کی صحبت کو لازم پکڑا۔ سیدنا عثمانؓ نے اپنے نفس کو منظم کیا، معلم بشریت اور ہادی برحقﷺ کے ہاتھوں کہ جنہیں اللہ عزوجل نے اچھی طرح علم و ادب سے سنوارا تھا مدرسہ نبوت کے مختلف علوم و فنون کے حلقوں میں تلمذ کے حریص رہے۔ سید الخلقﷺ سے قرآن و سنت سیکھنے کا اہتمام کیا۔ سیدنا عثمانؓ خود نبی کریمﷺ کے ساتھ اپنی وابستگی اور صحبت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یقیناً جب اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، اور آپﷺ پر کتاب نازل فرمائی تو میں اللہ و رسول کی دعوت کو قبول کرنے اور ایمان لانے والوں میں سے تھا۔ میں نے پہلی دو ہجرتیں کیں اور رسول اللہﷺ کا داماد ہونے کا شرف حاصل کیا، اور آپﷺ کے اسوہ کو دیکھا۔‘‘
(فضائل الصحابۃ، ابو عبداللہ احمد بن حنبل: جلد، 1 صفحہ، 597 إسنادہ صحیح)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآنی منہج پر تربیت پائی اور آپؓ کے مربی رسول اللہﷺ رہے آپ کی تربیت کا نقطہ آغاز رسول اللہﷺ سے ملاقات تھی۔ صرف نبی کریمﷺ کے ساتھ رابطہ و ملاقات سے آپؓ کی زندگی میں عجیب انقلاب پیدا ہوا اور پھر اچانک ہدایت حاصل ہوئی، اور آپؓ دائرہ ظلمت سے نکل کر دائرہ نور میں پہنچ گئے۔ ایمان حاصل کیا اور کفر کی چادر اتار پھینکی اور اسلام اور اس کے بلند عقائد کی راہ میں مصائب و مشکلات کو برداشت کرنے پر ڈٹ گئے۔
نبی کریمﷺ کی شخصیت میں دوسروں کے اندر جذب و تاثیر کی عجیب قوت تھی، اللہ تعالیٰ نے اپنی آنکھوں کے سامنے آپؓ کو سنوارا تھا اور روئے زمین کی تاریخ میں آپﷺ کو انسان کی کامل ترین صورت عطا فرمائی تھی۔ لوگ ہمیشہ عظمت کے گرویدہ اور دلدادہ ہوتے ہیں اور دلدادہ لوگ اس کے گرد جمع ہوتے ہیں اور اس سے چمٹے رہتے ہیں۔ لیکن آپﷺ صرف عظمت کے مالک نہ تھے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آپ رسول اللہﷺ تھے، اللہ کی وحی آپ پر نازل ہوتی تھی اور آپﷺ لوگوں تک اس کے مبلغ تھے۔ یہ دوسرا پہلو ہے جو آپﷺ کے سلسلہ میں مومن کے شعور کو بیدار کرنے میں اپنا اثر رکھتا ہے۔ دیگر بڑی شخصیات کی طرح صرف آپﷺ کی ذات کی وجہ سے ایک مومن آپﷺ سے محبت نہیں کرتا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس عطیہ ربانی کی وجہ سے آپﷺ سے محبت کرتا ہے جو اللہ کی طرف سے آپﷺ کو عطا ہوئی تھی۔ لہٰذا وہ آپﷺ کے ساتھ قابلِ تکریم وحی الہٰی کے حضور میں ہوتا ہے اور اس طرح رسول اللہﷺ کی شخصیت میں بشرِ عظیم اور رسول عظیم آ ملتے ہیں پھر آخر میں دونوں شے واحد ہو جاتے ہیں اور آغاز و اختتام میں کوئی امتیاز باقی نہیں رہتا۔ عمیق محبت رسول بشر یا بشر رسول کو شامل ہوتی ہے اور اللہ کی محبت رسول اللہﷺ کی محبت سے مرتبط ہو جاتی ہے، اور یہ دونوں محبتیں اس کے اندر ایک ساتھ مل جاتی ہیں پھر یہی دونوں محبتیں اس کے وجدان و جذبات میں تمام جذبات کا نقطۂ ارتکاز اور شعوری و عملی حرکت کا محور ہوتی ہیں۔
یہ محبت تھی جس نے اسلام کی اولین جماعت یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حرکت بخشی تھی۔ یہ اسلامی تربیت کی کنجی، نقطۂ ارتکاز اور مرکز ہے جہاں سے اس کا آغاز ہوتا ہے۔
(منہج التربیۃ الاسلامیۃ، محمد قطب: صفحہ، 34۔ 35)
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی کریمﷺ کی صحبت و تربیت کی برکت سے بلند ایمانی حوصلہ ملتا تھا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ کے سامنے زانوائے تلمذ تہ کیا۔ آپﷺ سے قرآن و سنت، احکامِ تلاوت اور تزکیہ نفس کی تعلیم حاصل کی۔ ارشاد الٰہی ہے:
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللّٰه وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللّٰهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ
(سورة آل عمران: آیت 6)
ترجمہ: ’’آپ کہہ دیجیے کہ اے اہلِ کتاب ایسی انصاف والی بات کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں برابر ہے، کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں، نہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں، پس اگر وہ منہ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں۔‘‘
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جنگ و صلح میں رسول اللہﷺ کی صحبت میں رہ کر ہدایتِ نبوی میں تبحر حاصل کیا، اور اس صحبت سے آپؓ کو جنگی امور میں تجربہ و مہارت اور علم و واقفیت اور نفوس کے طبائع و رجحانات کی معرفت حاصل ہوئی، آئندہ صفحات میں ان شاء اللہ ہم مدنی زندگی میں رسول اللہﷺ کے ساتھ جہادی، سیاسی، اجتماعی اور اقتصادی میدان میں آپ کے مواقف و کردار کو بیان کریں گے۔