Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

واقعہ مباہلہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خاص خصوصیت نہیں ہے!

  امام ابن تیمیہ

واقعہ مباہلہ سیدنا علی کی خاص خصوصیت نہیں ہے!

اسی طرح مباہلہ بھی آپ کی خصوصیت نہیں ، کیونکہ حضرت فاطمہ حسن و حسین رضی اللہ عنہم بھی اس میں آپ کے ساتھ شریک تھے۔جیسا کہ یہی لوگ چادر کے نیچے چھپائے جانے میں بھی آپ کے شریک تھے۔ پس اس سے معلوم ہوا یہ حدیث نہ ہی مردوں کے ساتھ خاص ہے ‘ اور نہ ہی ائمہ کے ساتھ خاص ہے۔بلکہ اس میں عورت ؛ بچے اور دوسرے لوگ بھی شریک ہیں ۔ کیونکہ مباہلہ کے وقت حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہماچھوٹے بچے تھے۔ مباہلہ کا واقع سن نو یا دس ہجری میں فتح مکہ کے بعد اس وقت پیش آیا جب نجران کے عیسائیوں کا وفد آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو اس وقت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی عمر سات سال بھی نہیں تھی ۔ جب کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ آپ سے ایک سال بڑے ہیں ۔ان کو بلانے کی وجہ یہ تھی کہ حکم یہی ملا تھا کہ ہر گروہ اپنے قرابت داروں بیٹوں اورعورتوں کو بلائے اور خود بھی حاضر ہو۔ تو ان دونوں فریقین میں سے ہر ایک نے اپنے قریب تر رشتہ داروں کو بلانا تھا۔یہ لوگ نسب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریبی تھے۔

اگرچہ بعض دوسرے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ان سے افضل تھے۔ اس لیے کہ آپ کو یہ حکم نہیں ملا تھا کہ اپنے افضل ترین اتباع کاروں کو بلائیں ۔ مقصود یہ تھا کہ لوگوں میں سب سے قریبی اور خاص افراد کو بلایا جائے۔ اس لیے کہ انسان کی فطرت میں ہے کہ [ایسے مواقع پر] اسے اپنی ذات اور اپنے قریبی خونی رشتہ داروں کا ایک خوف سا رہتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ چادر والی روایت میں اور دعا میں بھی انہیں ہی خاص کیاہے۔
مباہلہ تو برابری کی بنا پر قائم تھا۔اس لیے عیسائیوں کو چاہیے تھا کہ وہ نسب کے لحاظ سے اپنے قریب تر رشتہ داروں کو بلا لائیں ۔ انہیں بھی اپنی اولاد کے بارے میں ایسے ہی خوف تھا جیسا خوف کسی اجنبی پر نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ مباہلہ کرنے سے رک گئے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہیں علم ہوچکا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حق پر ہیں ۔اور اگر انہوں نے مباہلہ کیا تو آپ کی بددعا ان کے لیے اور ان کے اقارب کے لیے قبول ہوجائے گی۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی انسان کو اپنی اولاد کے بارے میں اتنا خوف محسوس ہوتاہے کہ اتنا خوف اپنی جان کے بارے میں محسوس نہیں ہوتا۔
اگر یہ کہاجائے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جو فضائل صحیح سند کے ساتھ ثابت ہیں ؛ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان :
’’ کل میں یہ جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے ‘ اور اللہ اوراس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘
اور حدیث : کیا آپ اس بات پر راضی نہیں ہے کہ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی۔‘‘
اور یہ حدیث: ’’یا اللہ ! یہ بھی میرے اہل بیت ہیں ۔ان سے پلیدی کو دور کردے ‘ اور انہیں بالکل پاک کردے ۔‘‘
سوال :....اگر یہ کہا جائے کہ : یہ باتیں آپ کے خصائص میں سے نہیں ہیں ؛ بلکہ ان میں دوسرے لوگ بھی آپ کے شریک اور حصہ دار ہیں تو پھر بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ تمنا کیوں کی تھی کہ ایک کاش ! یہ مقام اسے مل جاتا ۔جیسا کہ حضرت سعد اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے ۔
جواب:....اس کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظاہراً و باطناً حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مومن ہونے کی شہادت دی تھی۔اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے موالات کا اثبات اور آپ کے لیے اہل ایمان کی محبت وموالات کا وجوب تھا۔ اس میں ان نواصب کا رد ہے جو آپ کے کافر یا فاسق ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ اوراسلام سے خارج گروہ خوارج پر رد ہے ؛ جو لوگوں میں سب سے بڑھ کر عبادت گزار تھے؛ جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
’’ تم ان کی نماز کے مقابلہ میں اپنی نمازاوران کے روزہ کے مقابلہ میں اپنے روزے ؛ اور ان کی تلاوت قرآن کے مقابلہ میں اپنی تلاوت کو حقیر سمجھوگے۔وہ قرآن پڑھیں گے، جو ان کے حلق سے تجاوز نہ کرے گا۔ دین سے وہ ایسے نکل جائے گی، جیسے تیرکمان سے نکل جاتا ہے ؛ تم انہیں جہاں کہیں بھی پاؤ تو قتل کر ڈالو۔‘‘

[صحیح بخاری:ح ۵۲]عن علِی وأبِی سعِید الخدرِیِ وجابِرِ بنِ عبدِ اللّٰہِ رضِی اللّٰہ عنہم فِی البخارِیِ:۴؍۲۰۰، کتاب المناقب باب علاماتِ النبوۃِ، مسلِم:۲؍۷۴۰، کتاب الزکاۃ، باب ذِکرِ الخوارِجِ وصِفاتِہِم، باب التحرِیضِ علی قتلِ الخوارِجِ، وانظر: جامِع الأصولِ لِابنِ الأثِیرِ:۱۰؍۴۳۶۔ سنن أبِی داود:۴؍۳۳۶، کتاب السنۃِ باب فِی قِتالِ الخوارِجِ، سنن ابنِ ماجہ:۱؍۶۰۔ المقدمۃ، باب فِی ذِکرِ الخوارِجِ، المسندِ ط۔ الحلبِیِ:۳؍۶۵۔] 

یہ خوارج حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کافر اور فاسق کہتے تھے ؛ اور آپ کو قتل کرنا حلال اور مباح سمجھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان خوارج میں سے ہی ایک شخص نے آپ کو قتل کردیا تھا۔اس قاتل کا نام عبد الرحمن بن ملجم المرادی تھا۔ حالانکہ یہ انسان لوگوں میں سب سے بڑا عبادت گزار تھا۔

رابط الكتاب: 
منہاج السنہ النبویۃ