شیعہ مذہب میں حلال و حرام کے اصول
مولانا اللہ یار خاںشیعہ مذہب میں حلال و حرام کے اصول
اس امر کی وضاحت ہو چکی ہے کہ امام باقر سے پہلے شیعہ حلال و حرام سے واقف نہیں تھے۔ اب ذرا یہ دیکھتے ہیں کہ امام باقر اور بعد کے آئمہ نے شیعوں کو حلال و حرام کی تمیز کیسے سکھائی ۔
ا تفسیر عیاشی 382:383:1
عن زرارة قال سألت أبا جعفر عن الجرى فقال ما الجرى فنعته لہ مثال نقال لا اجد نیما اوحی إلى محرما الخ۔ ثم قال لم يحرم الله شيئا من الحيوان في القرآن الا الحنزير بعينه وبكره كل شئ من البحر ليس فيه قشر قال قلت وما القشر قال الذي مثل الورق وليس هو بحرام انما جو مکروہ۔
ترجمہ:
زرارہ کہتا ہے میں نے امام باقر سے مچھلی جرہی کے متعلق پوچھا۔ امام نے فرمایا وہ کیا چیز ہے میں نے مچھلی کی وضاحت کی تو امام نے فرمایا کہ میں تو اس چیز کو حرام کہتا ہوں جسے اللہ کی کتاب میں حرام کہا گیا ہے پھر فرمایا کہ اللّٰہ تعالٰی نے حیوانوں سے کسی چیز کو بھی حرام نہیں کہا قرآن میں۔ ہاں صرف خنزیر بعینہ حرام ہے۔ دریا کی کر چیز مکروہ ہے جس میں قشر ہو میں نے پوچھا قشر کیا ہے تو فرمایا مثل ورق کے ہے اور وہ بھی حرام نہیں صرف مکروہ ہے۔
روایت میں قرآن کریم کی آیت جس کا حوالہ دیا گیا ہے یوں ہے :۔
قل لا اجد فيمام اوحى إلى محرماً على طاعم يطعمه الا ان يكون میته ارد ما مسفحوحا او لحجر خنزير فأنه رجس اونقاً اهل. لغير الله به (الانعام)
یعنی امام باقر نے حلت و حرمت کے متعلق ایک اصول بیان فرمایا کہ حلت و حرمت کا فیصلہ قرآن کرتا ہے۔
دوسرا اصول یہ بیان فرمایا کہ خنزیر کے بغیر حیوانات میں سے کوئی چیز حرام نہیں۔
امام نے حوالہ کے طور پر قرآن کی جو آیت پڑھی اس سے چار چیزوں کی حرمت ثابت ہوئی جو وقت ذبح خارج ہوتا ہے، خنزیر کا گوشت، اور جو جانور غیر اللّٰه کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، باقی سب جانور حلال ہیں، کیونکہ اصول یہ ہے کہ چیزوں کی اصل حلت ہے ۔ شریعت نے حرمت بیان کی ہے اور قرآن جو شریعت کا پہلا ماخذ ہے اس نے صرف یہ چار چیزیں حرام قرار دی ہیں۔
لہٰذا باقی تمام چرند پرند درند حلال قرار پائے۔
حلال کے دائرے کی اس وسعت کو ذہن میں رکھئے اور اندازہ کیجئے کہ کوئی سو سال بعد شیعوں کو حلال و حرام سے آشنا کیا گیا تو اس میں کتنی سہولت اور دریا دلی کا ثبوت دیا گیا کہ چیل ، کوے ، سانپ بچھو سے لے کر کتے اور گدھے تک تمام جانور شیعوں کے لیے حلال قرار پائے کیونکہ قرآن نے ان کی حرمت کا کوئی حکم نہیں دیا اور چیزوں کی اصلی حلت ہے ۔
تفسیر البرہان 361:3 ، تفسیر عیاشی 382٫383:2 طبع تهران
عن حريز عن الى عبد الله قال مثل عن سباع الطير والوحش والقنافذ والوطواط، والحمير و البغال والخيل فقال ليس بحرام الاما حرم الله في كتابه وقد نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم خيبر عن اكل لحوم الحمير وانما نها هم۔ من اجل ظهر هو ان يفند اولیس الحمير بحرام و قال قرا هذا الآية قل لا اجد فيما أوحى الى اخ عن محمد بن مسلم عن ابی جعفر قال كان اصحاب المغيرة يكتبون الى ان اسئله عن الجرى والمار ما هي والذهير و ما ليس له قشر من السمك حرام هوام لا قال سالته من ذلك فقال يا محمد اقرا هذه الاية التي في الانعام تالى فقراتها حتى فرغت منها فقال انها الحرام ما حرم الله في كتابه ولكن لم يعافون اشياء
ترجمہ۔.
حریز امام جعفر سے بیان کرتا ہے کہ امام سے ان پرندوں کے متعلق سوال کیا گیا جو چیرنے پھاڑنے والے ہیں اور درندہ جانوروں کے متعلق اور چمگادڑ کے متعلق گدھے اور گھوڑے اور خچر کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا حرام نہیں ہے حرام صرف وہ ہے جو اللّٰه نے اپنے کتاب میں حرام قرار دی اور خیبر میں نبی کریمﷺ نے گدھے کا گوشت کھانے سے جو معنی فرمایا تھا وہ صرف اس لیے تھا کہ سواری کے جانور ختم نہ ہو جائیں ورنہ گدھا حرام نہیں ہے پھر امام نے آیت قل لا احد الخ پڑھی محمد بن مسلم امام باقر سے بیان کرتا ہے کہ مغیرہ کے ساتھیوں نے مجھے لکھا تھا کہ میں امام باقر سے پوچھوں مچھلی جری کے متعلق ، سانپ کے متعلق اور جس مچھلی پر قشر نہیں اس کے متعلق کہ یہ حرام ہیں یا حلال تو میں نے امام سے پوچھا تو فرمایا اے محمد ! سورۃ الانعام کی یہ آیت پڑھ راوی کہتا ہے میں نے پڑھی جب بڑھ چکا تو امام نے فرمایا کہ حرام صرف وہ ہے جو اللّٰه نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے لیکن لوگ کراہت کرتے ہیں۔۔
ان روایات میں کئی جانوروں کے نام آئے ہیں جن کے متعلق پوچھنے والوں کو شبہ تھا کہ حرام ہیں یا حلال تو امام نے فیصلہ دے دیا کہ یہ سب جانور حلال ہیں یہ اور بات ہے کہ لوگوں کو ان سے گھن آنے لگے ۔ اللّٰہ نے ان کے کھانے سے منع نہیں کیا ۔ اب ذرا یہ فہرست ملاحظہ ہو۔
سباع الطير - شکاری پرندے مثلاً باز ، شکرا ، چیل، کوا وغیرہ سباع الوحش - درندے جانور شیر چیتا ، بھیڑیا گیدڑ ریچھ ، بندر وغیرہ۔
وطواط - چمگادڑ، قنافذ ، جمع ہے فنفذ کی خارپشت سے جھا کہتے ہیں۔
جری - شعبان الماء لینی پانی کا سانپ۔
حمبر - جمع حمار کی گدھے ، بغال خچر، فیل، گھوڑا
اس فہرست پر نگاہ دوڑائیے ،امام باقر سے پہلے شیعہ کو حلال و حرام کا علم نہیں تھا اب جو امام سے ان جانوروں کے متعلق سوال کیا تو ظاہر ہے کہ شیعہ ان جانوروں کا گوشت کھاتے ہوں گے صرف احتیاطی پوچھا یا دیکھا ہو گا کہ جو لوگ قرآن کو اللّٰہ کی کتاب مانتے ہیں اور نبی کریمﷺ کی شریعت کو برحق جانتے ہیں وہ تو ان جانوروں کو حرام سمجھتے ہیں، لہٰذا امام سے پوچھ لینا چاہئیے چنانچہ امام نے ان کی خلش دور فرما دی اور صاف بتا دیا کہ یہ سب جانور اور پرندے حلال ہیں کیونکہ قرآن میں ان کو حرام نہیں کہا گیا ہے۔ پہلے چار اماموں کے عہد میں شیعہ کو حرام و حلال کا تصور ہی نہیں تھا لہٰذا ان کے لیے میدان بڑا وسیع تھا خطرہ تھا کہیں یہ دائرہ تنگ نہ کر دیا جائے گو شیعوں کے پانچویں امام کو ایک طرف تو قرآن پر کامل عبور تھا دوسری طرف شیعوں کے ساتھ شفقت اور رعایت کا لحاظ بھی تھا لہٰذا قرآن کی روشنی میں شیعہ کو یہ مثردہ سنا دیا کہ چیل کوے سے لے کر کتے اور گدھے تک ہر جانور کا گوشت کھاؤ مزے سے کھاؤ ناک نہ چڑھاؤ اور دل میں شک نہ آنے دو۔ رہی یہ بات کہ تمہیں کسی نے بتایا ہے کہ نبی کریمﷺ نے جنگ خیبر میں گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا تو یہ ممانعت حلال و حرام سے تعلق نہیں رکھتی کہ اس میں ایک مصلحت پیش نظر تھی کہ جنگ میں اگر گدھوں کا گوشت کھانا شروع کر دیا جاتا تو سواری اور بار برداری کے لیے جانور کہاں سے ملتے لہذا یہ ایک وقتی مصلحت تھی ورنہ گدھا تو حلال طیب ہے۔
یہاں ایک سوال ابھرتا ہے کہ امام باقر امام جعفر کے اس احسان کی شیعوں نے کیوں نا قدری شروع کر دی ہے اگر یہ امام کے سچے پیرو ہوتے تو ملک کے کئی مسائل حل ہو سکتے تھے مثلاً شیعوں کے لیے گوشت کی دکانیں الگ ہوتی ان میں کتے، بلے ، گیدڑ ،گدھے، سانپ ، چوہے ، چیل ، کوے ذبح ہوتے بکتے اور شیعہ مزے اڑاتے اور یہ گوشت کا مسئلہ حل ہو جاتا لوگ کہتے ہیں صبح کا بھولا شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں کتنے اس لیے شیعہ اگر اب اپنے عظیم امام کی نافرمانی سے باز آ جائیں اور امام کے فیصلے کو قبول کر لیں تو خواہ تلافی مافات نہ ہو سکے آئندہ کے لیے قوم کے دلرر دور ہو جائیں گے۔