موجود قرآن اور پوشیدہ قرآن میں فرق
مولانا اللہ یار خانموجود قرآن اور پوشیدہ قرآن میں فرق
قاعدہ یہ ہے کہ انسان جب کوئی دعویٰ کرتا ہے تو لازماً کسی دلیل کی بنیاد پر ایسا کرتا ہے اور اگر بے سوچے سمجھے کوئی دعویٰ کر بیٹھے تو اسے ثابت کرنے کے لیے دلیل تلاش کرنی پڑتی ہے اور اگر نہ ملے تو اپنی انا کی تسکین کے لیے دلیل گھڑنی پڑتی ہے خواہ وہ دلیل کتنی بودی اور بے سروپا ہو انسان اس جھوٹی تسلی پر ہی اکتفا کر لیتا ہے۔
شیعہ نے موجودہ قرآن کو کتاب الٰہی تسلیم کرنے سے انکار کیا اور ایک موہوم کتاب کو کتاب الٰہی تسلیم کرنے پر اصرار کیا اس لیے ان ہر دو دعووں کے لیے دلیلیں تیار کرنا ضروری تھا تیار کرنا اس لیے کہ کسی موہوم چیز کی دلیل ہوا نہیں کرتی مگر تیار کرنی پڑتی ہے چنانچہ اس سلسلے میں شیعہ کے چند دلائل کا ذکر کیا جاتا ہے۔
1۔اصول کافی باب انہ لم یجمع القرآن کلا الا الائمتہ وتفسیر مراة الانوار ص__37
امام باقر سے روایت ہے ۔۔
ماادعى احد من الناس انه جمع القران كله كما انزل الله الا كزب وما جمعه وما حفضه كما انزل الله الا على بن ابي طالب والائمتہ من بعدہ ۔
جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ اس نے سارا قرآن جیسا نازل ہوا تھا جمع کیا ہے ۔تو وہ جھوٹا ہے سوائے علی ابن ابی طالب کہ صرف انہوں نے سارا قرآن جمع کیا اور حفظ کیا اور ان کے بعد کے اماموں نے۔
2_ تفسیر البرہان جلد 1 ص_ 1 ۔امام باقر سے یہی روایت درج ہے
پہلا فرق یہ ہے کہ سارا قرآن حضرت علی کے بغیر کسی نے جمع نہیں کیا حفظ نہیں کیا اور موجودہ قرآن چونکہ حضرت علی نے جمع نہیں کیا لہٰذا یہ سارا قرآن وہ ہے جو صرف حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے جمع کیا
روایت میں واللائمتہ من بعدہ کا لفظ کچھ اشکال پیدا کرتا ہے۔ اگر اس کا تعلق جمع اور حفظ دونوں سے ہے تو یہ ممکن نہیں کیونکہ بعد کے آئمہ نزول قرآن کے وقت یا تو پیدا ہی نہیں ہوئے تھے یا اس عمر کو نہیں پہنچے تھے کہ انہیں قرآن جمع کرنے کا شعور ہو ہاں اگر اس کا تعلق حفظ سے ہو تو اس امر کا امکان ہے کہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے جمع کر کے جو قرآن بعد کے آئمہ کے لیے چھوڑا انہوں نے اس کو خوب حفاظت کی ایسی حفاظت کے اسے ہوا بھی نہیں لگنے دی۔
2_ فصل الخطاب ص238
ان القرآن الذي جاء به جبرئيل الى النبي صلى الله عليه وسلم سبعتہ عشر الفاية وفي رواية سليم ثمانیہ عشرایۃ۔
یقیناً جو قرآن جبرائیل امین نبیﷺ کے پاس لائے تھے وہ سترہ ہزار آیت کا تھا اور سلیم کی روایت کے مطابق وہ 18 ہزار آیت کا تھا۔
ايضا ص 104
ان الموجود منه على القول المعروف ستة الاف اية ومانه اي. دست وثلاثون ایۃ۔
موجودہ قرآن 6234 آیت کا ہے۔
یہ دو روایات پہلے فرق کی تائید کرتی ہیں کہ واقعی سارا قرآن وہی ہو سکتا ہے جو سترہ یا اٹھارہ ہزار آیات کا ہے ۔ 6236 آیتوں والا قرآن سارا قرآن نہیں ہو سکتا۔ اب اس فرق کی وجہ ملاحظہ فرمائیں۔
4_ فصل الخطاب ص24
و باحتمال اخفائه عليهم بعض ما انزل واختصاصه عليا بالقرآن وله احتمال انفرادہ امیر المومنین ببعض ما كتبه بین اظهر هم کانفراد وغیرہ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ رسول خدا نے بعض حصّہ قرآن صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہ کے پڑھنے کے لیے مختص کیا ہو۔ اور یہ احتمال بھی ہے کہ رسول خداﷺ نے بعض قرآن نے حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کو منفرر کیا جو انہوں نے لکھا جیسا کہ بعض اوروں کو منفرد کیا تھا بعض حصہ قرآن سے۔
یعنی یہ فرق دو وجہ سے پڑ سکتا ہے۔
1) نبی کریم نے قرآن کا بعض حصہّ صحابہ رضی اللّٰہ عنہ سے پوشیدہ رکھا وہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کے لیے مختص کیا ہو۔
دلیل بنانے کا کچھ حق تو ادا کیا۔ مگر اس کا بودا پن بھی ظاہر ہے کیونکہ اس بات کا کہیں ثبوت نہیں ملتا کہ اللّٰه اپنے رسول پر کتاب نازل کرے مگر وہ انسانوں سے چھپانے کے لیے۔ یہ بات کچھ اس طرح بنی کہ ڈاکٹر کہے کہ یہ دوا فلاں مرض کی ہے مگر خبردار نہ کسی کو بتانی ہے نہ استعمال کرانی ہے۔ کوئی پوچھے کہ اس بتانے میں کیا تُک ہے۔
2_دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ قرآن کے کچھ حصہ کے پہلے حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کو منفرد کیا جو صرف انہوں نے لکھا یعنی جو حصّہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کے لیے منفرد کیا وہ صرف انہی کیلئے تھا دوسروں کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ فرق اتنا بڑا ہے کہ اس پر کچھ حصہ کا لفظ صادق نہیں آتا۔ یعنی قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے 6236 آیتیں اور صرف حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کے لیے 1764 آیتیں کیا یہ کچھ حصّہ بنتا ہے یا قریباً دو گنا بنتا ہے۔
پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن تو کتاب ہدایت ہے پوری انسانیت کی ہدایت کے لیے 6236 آیتیں کافی ہیں اور حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کی ہدایت کے لیے 11764 آیتیں بلکہ اس سے بھی زیادہ کیونکہ 6236 میں بھی حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کسی نہ کسی حد تک حصہ دار ضرور ہیں۔ حیرت ہے کہ حضرت علی کی ہدایت کا اتنا اہتمام کیوں کیا گیا حالانکہ داناؤں کا قول ہے عقلمند را اشارہ کافی است. اور حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ تو ابو الائمہ ہیں اور عقل مجسم ہیں اور ان کو ہدایت دینے پر اتنا زور لگایا گیا۔ پہلا احتمال کہ نبی کریمﷺ نے قرآن کا کچھ حصہ چھپا کے رکھا گو نبی کریمﷺ کی صریح توہین ہے ۔ مگر اس چھپانے کی وجہ بھی شیعہ نے تراش لی ۔
5_فصل الخطاب ص 81
وكتمان القرآن عن هؤلاء في هذا المقام أولى من وجوه عديدة بل تسليمه اليهم اشبه بيع السلام من أعداء الدين اذفيه تقوية المنافقين ولصوص الشريعة سيد المرسلین و وجود فرد تام صحیح محفوظ منه عند الامام كان فى اسقاط الوجوب الكفائي عن النماعۃ۔
اس موقع پر قرآن کا صحابہ رضی اللّٰہ عنہم سے پوشیدہ رکھنا کئی وجہ سے بہتر تھا قرآن کا ان کے حوالے کر دینا ایسا تھا جیسے دشمن کو ہتھیار دے دیتا ہے دشمنان دین کو قرآن دینے میں منافقوں کو قوت ملتی تھی اور شریعت سید المرسلین کے چوروں کو تقویت حاصل ہوتی تھی اور قرآن كا صحیح اور سالم نسخہ امام غائب کے پاس محفوظ ہے جو باقی جماعت سے وجوب کفائی کے ساقط کرنے کے لیے کافی ہے۔
قرآن کو چھپا رکھنے کے وجوہ پیش کرنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ اگر یہ بات حقیقت پر مبنی ہوتی تو کہہ دیا جاتا ہے کہ اللّٰه نے چھپا رکھنے کا حکم دیا تھا۔ نبی کریمﷺ نے چھپا رکھا بات ختم ہوئی مگر موجودہ قرآن میں اس کے خلاف قرآن کی تبلیغ دعوت تبلیغ کے احکام ہیں چھپا رکھنے کا کہیں اشارہ بھی نہیں ملتا۔ رہی یہ بات کہ پوشیدہ قرآن میں شاید کچھ حصہ چھپا رکھنے کا حکم ہو ۔ اس کا احتمال تو ہے مگر شیعہ نے جو وجوہ عدیدہ گھڑنے کی کوشش کی ہے وہی اس کی تردید ہے ورنہ شیعہ مفسرین امام باقر سے کوئی روایت تیار کر دیتے کہ پوشیدہ قرآن میں اس کو پوشیدہ رکھنے کا حکم خود اللہ نے دیا تھا۔
منافقین کی قوت میں اضافہ کرنے کا خطرہ کے پیش نظر اور فی ہذا المقام کے پیش نظر اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ صحابہ رضی اللّٰہ عنہم کے سامنے وہ پوشیدہ قرآن اس وجہ سے ظاہر نہیں کیا گیا مگر اس کی کیا وجہ ہے کہ حضرت علی نے اپنے عہد خلافت میں اس کو کیوں ظاہر نہیں کیا اگر ان کے عہد میں بھی منافقین اور نصوص شریعت کے قوت پکڑنے کا خطرہ تھا تو کیا شیر خدا میں اس موہوم خطرے کا مقابلہ کرنے کی قوت نہیں تھی ؟ اس سے تو معاذ اللہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کی بے بسی اور پرے درجے کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے۔
نصوص شریعت کی ترکیب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پوشیدہ قرآن میں کچھ ایسے بنیادی مسائل تھے کہ خصوصی شریعت ان آیتوں سے غلط مسائل استنباط کر کے شریعت کو بگاڑ دیتے۔ واقعی بات تو خطرے کی ہے مگر حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے وہ اصل شریعت جس میں چوری کا عنصر نہ ہو اپنے عہد میں کیوں رائج نہ کی اب کون فیصلہ کرے کہ علامہ نوری طبرسی شیعہ عالم نے نصوص شریعت کس کو قرار دیا ہے ایک طرف چوری کا موہوم خطرہ ہے دوسری طرف بالفعل چوری کا ثبوت مل رہا ہے۔
آخری بات یہ کہی گئی ہے کہ قرآن کی حفاظت شیعہ کے نزدیک فرض کفایہ ہے اور قرآن کی حفاظت کا مفہوم یہی ہے کہ جس مقصد کے لیے قرآن نازل کیا گیا تھا اس سے وہی کام لیا جاتا رہے، وہ مقصد دو ہیں اول اس پر ایمان دوم اس کی تعلیمات کے مطابق عمل تو شیعہ کا عقیدہ یہ ہوا کہ قرآن پر ایمان ہو یا عمل امام غائب کر رہا ہے۔ لہٰذا شیعہ اس بار سے سبکدوش ہو گئے۔ انہیں قرآن پر نہ ایمان لانے کی ضرورت ہے۔ نہ اس پر عمل کرنے کا تکلف ضروری ہے اور یہ عقیدہ عین عقل کے مطابق ہے کہ جب وہ قرآن بندوں کے لیے نازل ہی نہیں ہوا۔ بلکہ حضرت علی ؓ کے لیے نازل ہوا تو امام جانے اور قرآن جانے شیعوں کا قرآن سے کیا واسطہ ۔
حضرت علی کے منفرد ہونے کے ثبوت میں ارشاد ہوتا ہے۔
6_ انوار النمانیہ ص267ص268
عثمان و اضرابه ما كانوا يحضرون الا في المسجد من جماعة الناس نما يكتبون الا ما نزل به جبرئيل بين الملادو اما الذي كان ياتی به داخل بیته صلی الله عليه وسلم فلم يكن يكتبه الا امیر المومنين لان له محرمیته دخولا د و خروجاً فكان ينفرد بكتابه هذا و هذا القرآن الموجود الان في ايد الناس هو خط عثمان۔
حضرت عثمان اور ان جیسے لوگ اس وقت قرآن لکھا کرتے تھے جو مسجد نبوی میں نازل ہوتا تھا مگر جو تنہائی میں نبی کریمﷺ کے گھر میں نازل ہوتا تھا وہ صرف حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ ہی لکھا کرتے تھے اس حصہّ میں وہ منفرد تھے حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ چونکہ محرم تھے اس لیے حضورﷺ کے گھر میں آنے جانے کی انہیں آزادی تھی۔ اور کسی کو یہ آزادی نہ تھی اور یہ قرآن جو موجود ہے یہ حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کا لکھا ہوا ہے۔
اس روایت میں حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کے انفراد کی وجہ یہ بتائی گئی کہ قرآن کا جو حصہ گھر میں نازل ہوتا تھا وہ صرف حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ لکھتے تھے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نزول قرآن کے متعلق جو روایات ملتی ہیں یا جن کو علماء شان نزول کے سلسلے میں نقل کرتے ہیں ان کو دیکھا جائے تو کیا یہ باور کیا جا سکتا ہے کہ 6236 آیات تو علی الاعلان نازل ہوئیں جو پوری انسانیت کے لیے اور 11764 آیتیں در پردہ گھر میں نازل ہوئیں اور وہ صرف ایک آدمی کے لیے تھیں ۔ کیا اس تناسب کو عقل عام باور کرتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ بیتہ میں ضمیر کا مرجع کون سا ہے؟
حضورﷺ کا گھر سے مراد ازواج مطہرات کے گھر ہی تو ہیں ان میں حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہ حضرت حفصہ رضی اللّٰہ عنہ ، حضرت ام حبیبہ رضی اللّٰہ عنہ اور دیگر ازواج مطہرات شامل ہیں، اگر حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ حضورﷺ کے داماد ہونے کی بنا پر محرم تھے تو حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کیوں نہ تھے جو دوہرے داماد ہیں کیا حضرت ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ اپنی بیٹیوں کے لیے محرم نہ تھے۔ کیا امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ اپنی بہن کے لیے محرم نہ تھے۔ صرف حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کی محرمیت میں کونسی خصوصیت ہے۔
حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کے منفرد ہونے کے وصف کو تقویت دینے کے لیے ایک اور نظیر پیش کی جاتی ہے۔
7_فصل الخطاب ص80٫81
ان جماعة ممن كانوا علی الحق ظاهر و باطنا لسلمان و اصحابه كانوا منفر دين ايضا ببعض الامیات كانفراد غيرهم .
ایک جماعت ظاہری اور باطنی طور پر حق پر تھی جیسے مسلمان اور ان کے ساتھی یہ لوگ بھی بعض آیات میں منفرد تھے ۔ جن کا علم دوسروں کو نہیں تھا۔
اس روایت سے ظاہر ہوا کہ آیات کے نزول میں منفرد ہی لوگ تھے جو بقول شیعہ ظاہر اور باطن حق پر تھے۔ اور وہ صرف چار تھے۔ مقداد، سلیمان ابوذر اور حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ حضرت علی جن آیات میں منفرد تھے ان کی تعداد حساب سے 11364 بنتی ہے اس کا کہیں سراغ نہیں ملتا کہ ان تین حضرات کے لیے جو آیات نازل ہوئیں ۔ جن میں یہ منفر د تھے اور جو کسی نے دوسرے کو نہیں بتائیں وہ کتنی آیات تھیں خیر اس کو تو جانے دیجئے اس روایت سے دو تو نئے نکتے حاصل ہو سکتے ہیں ۔ اول یہ کہ جو قرآن حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے جمع کیا وہ کل قرآن نہیں یہ دعویٰ غلط ہو گیا۔ کیونکہ سلمان اور ان کے ساتھی جن آیات میں منفرد تھے انہوں نے وہ آیتیں کسی کو نہیں بتائیں اور حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کے کل قرآن جمع کرنے کا دعویٰ غلط ہوا۔
دوسری بات یہ ہے کہ قرآن دو نہ ہونے پانچ ہوئے ۔ اول وہ قرآن جو مسلمانوں کے پاس موجود ہے دوسرا وہ جو امام غائب نے چھپا رکھا ہے۔ تیسرا وہ جو سلمان کے لیے علیحدگی میں نازل ہوا۔ چوتھا وہ جس میں ابو ذر منفرد ہیں پانچواں وہ جو تنہائی میں مقداد کے لیے نازل ہوا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ پورا قرآن نبی کریمﷺ نے معاذ اللّٰه نہ اماموں کو دیا نہ مسلمانوں کو دیا کچھ حصہ کسی سے چھپا یا کچھ حصہ کسی سے چھپایا اور معاذ اللہ ان عليك الا البلاغ اور وما ارسلناك الاكافة للناس کا اعلان کرنے والا رب العالمین دیکھتا رہ گیا اور قرآن چوری ہوتا رہا ۔
لا حول ولا قوة الا بالله العلى العظيم
اس روایت میں سے ایک بات قابل غور ہے کہ سلمان و اصحابہ نے قرآن کا وہ حصہ جس میں وہ منفر د تھے کسی کو بتایا یا نہیں تو اس سلسلے میں دو احتمال ہیں اول یہ اپنے ساتھیوں کو ایک دوسرے نے بتا دیا ہو۔ دوسرا یہ ہے کہ تمام صحابہ کو بتا دیا ہو تو ان دونوں امور کی وضاحت کر دی گئی ہے ۔
8_ اصول کافی کتاب الحجۃ
عن الجا عبد الله قال ذكرت التقيته يوما عند على بن الحسين نقال والله لو علم ابوذر ما في قلب سلمان لقتل ولقد اخبار سول اللہ بينهما فما ظنكم بسائر الحق۔
امام جعفر نے فرمایا ایک روز امام زین العابدین کے پاس تقیہ کا ذکر چھڑا تو فرمایا خدا کی قسم اگر ابوذر کو معلوم ہو جاتا کہ سلیمان کے دل میں کیا ہے تو سلیمان کو قتل کر دیتا حالانکہ نبی کریمﷺ نے ان دونوں کے درمیان رشتہ اخوت قائم کیا تھا۔ یعنی بھائی بھائی بنایا تھا تو باقی مخلوق کے متعلق کیا پوچھتے ہو۔
ظاہر ہے کہ دل کی بات دین اور ایمان ہی تو ہے اور قرآن کی آیات دین سکھانے کے لیے نازل ہوئیں۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ ان منفر دیں نے جب اپنا دین اپنے کسی ساتھی کے سامنے ظاہر نہیں کیا تو قرآن کی وہ آیات جو صرف انہی کے لیے نازل ہوئیں اور حضورﷺ نے معاذ اللّٰه صرف اس کے کان میں کہ دیں وہ بھید کب اپنے ساتھیوں کو بتا سکتے تھے ۔ کون خواہ مخواہ قتل ہونا چاہتا ہے۔
فصل الخطاب ص 80
والظاهر جواز كتمانهم على الجماعة ما كان عندهم من القرآن لعدم وجوب تسليم عليهم قبل مطالبتهم به و بعدها و يحتمل كراهيته لهم لكونه و اخلاقی اعانة الظالمين بل حرمته من حيث كونه اعانته لهم في الظلم لوضوح كون جمعهم هذا في مقابل جمع اما مهم الذي كان يجب عليهم الطاعته والاخذ بما جاء به سيما مع تصدهم بجھم الاضرار عله کما علم
ابوذر رضی اللّٰہ عنہ اور سلیمان ؓرضی اللّٰہ عنہ کے پاس قرآن کا جو حصہ تھا۔ صحابہ رضی اللّٰہ عنہم سے چھپا رکھنے کا جواز ظاہر ہے ان پر واجب نہ تھا کہ قرآن صحابہ کو دیتے ان کے مطالبے سے پہلے اور بات اس کی کراہت کا احتمال بھی ہے کیونکہ ان پر ظاہر کرنا ظالموں کی امداد کرنا تھا بلکہ ان پر ظاہر کرنا حرام تھا کیونکہ ظالم کی امداد میں داخل تھا کیونکہ ان کا جمع کرنا قرآن کا حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کے مقابلے میں تھا اور یہ بات واضح ہے کہ صحابہ رضی اللّٰہ عنہم پر حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کی اطاعت واجب تھی اور جس قرآن کو حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے جمع کیا تھا اس پر عمل کرنا ان پر واجب تھا خاص طور پر صحابہ رضی اللّٰہ عنہ کا مقصد ہی حضرت علی کو نقصان پہنچانا تھا۔
اس اقدامات سے ظاہر ہے کہ منفردین کی جماعت نے کسی صحابی کو قرآن کا وہ حصہ نہیں بتایا جو صرف ان کا حصہ تھا مگر کیوں نہیں بتا اس کی کئی وجوہات ہیں اول یہ کہ ان پر بتانا واجب نہیں تھا یا یوں کہیے کہ چھپانا واجب تھا اور یہ بات معقول نظر آتی ہے۔ جب بقول شیعہ نبی کریمﷺ پر قرآن چھپانا واجب تھا تو اور کسی پر قرآن ظاہر کرنا واجب کیوں ہو بات وجوب اور عدم وجوب کی نہیں قرآن کا ظاہر کرنا حرام ہے ظاہر ہے کے جان بوجھ کر حرام کے مرتکب وہ کیوں ہوتے دوم یہ کہ قرآن کا صحابہ رضی اللّٰہ عنہم کے سامنے ظاہر کرنا ظلم پر اعانت کے مترادف تھا۔اس کا مطلب یہی بنتا ہے کہ قرآن کا جو حصہ ان کے پاس تھا اس میں معاذ اللّٰه ظلم کرنے کی تعلیم تھی لہٰذا انہوں نے یہی سمجھا کہ تھوک ظلم کے مقابلے میں پرچون ظلم نسبتاً حلقہ گناہ ہے اس لیے ہم ہی کرتے رہیں گے سب لوگ کیوں کریں۔
تیسری بات بڑی عجیب ہے بلکہ عجوبہ ہے کہ صحابہ رضی اللّٰہ عنہم میں قرآن جمع کرنے کا مقابلہ تھا۔ ایک طرف حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ دوسری طرف سارے صحابہ رضی اللّٰہ عنہم اور اس مقابلے کی عرض ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا تھا۔ معاذاللہ گویا نبی کریمﷺ نے نہ تو قرآن جمع کرنے کا حکم دیا نہ کس کو کاتب وحی مقرر کیا نہ اس کی حفاظت کا اہتمام کیا نہ اس کی ضرورت سمجھیں بس صحابہ رضی اللّٰہ عنہم نے از خود یہ سرد جنگ چھیڑی اور جاری رکھی ۔
10_ فصل الخطاب ص97
انه كان لا أمير المومنين قرانا مخصوصاً جمعه بنفسه بعد وقات رسول الله وعرضه علی القوم فاعرضوا عنه نحجبه عن اعين الناس وكان عند ولده يتورثونه امام عن امام كسائر خصائص الامامة و خزائن النبوة وهو عند الحجة عجل الله فرجه ليظهره الناس عند ظهورة ويأمرهم بقرأت وهو مخالف لهذا القرآن الموجود من حيث التأليف وترتيب السور والآيات بل الكلمات ايضا و من جهته الزيادة والنقيصة و من حيث أن الحق مع على وعلى معر الحق فتى القرآن الموجود تغير من جهتين فهو المطلوب .
حضرت علی کا ایک مخصوص قرآن تھا جو انہوں نے نبی کریمﷺ کے بعد خود جمع کیا تھا پھر قوم کے سامنے پیش کیا قوم نے اس سے اعراض کیا تو حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے قرآن چھپا دیا حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کے بعد یہ قرآن ان کی اولاد میں یکے بعد دیگر سے بطور میراث پہنچتا رہا اس طرح ان کی اولاد کو امامت کی خصوصیات اور نبوت کے خزانے بطور میراث پہنچتے رہے اب وہ قرآن امام مہدی کے پاس ہے اللّٰه انہیں جلد غار سے نکالے گا ، امام وہ قرآن ظاہر کرے گا اور لوگوں کو پڑھنے کا حکم ہے گا۔ وہ قرآن موجودہ قرآن کے مخالف ہے تالیف میں سورتوں کی ترتیب میں آیات کی ترتیب میں بلکہ کلمات میں بھی اور کمی اور زیادتی کے اعتبار سے بھی چونکہ حق علی کے ساتھ ہے اور علی حق کے ساتھ ہیں۔ اور موجودہ قرآن دو جہتوں سے اصل قرآن سے مختلف ہے۔ یعنی تالیف و ترتیب اور کی پیشی کی جہت سے اور شیعہ کوئی امر مطلوب تھا۔
موجودہ قرآن اور پوشیدہ قرآن میں فرق اور مخالفت کے تمام پہلو اس روایت میں بیان کر دیے گئے ہیں۔