Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت عمررضی اللہ عنہ نے متعہ نکاح سے منع کیا، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں متعہ نکاح کیا جاتا تھا، حکم خداوندی کو کیوں منسوخ کیا، اور اللہ کے حلال کردہ کو حرام کیوں قرار دیا.

  دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓ

حضرت عمرؓ نے متعہ نکاح سے منع کیا، حالانکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں متعہ نکاح کیا جاتا تھا، حکم خداوندی کو کیوں منسوخ کیا، اور اللہ کے حلال کردہ کو حرام کیوں قرار دیا. 

جواب اہلسنّت 

نکاح المتعہ کو پیغمبر خداﷺ نے ہی منسوخ فرمایا دیا تھا، اور حرام قرار دے دیا تھا، چند ایک افراد کو حدیث پہنچی، وہ اس مسئلہ میں اختلاف کرتے رہے، تا آنکہ حضرت عمرؓ نے رسول اللہﷺ کی متابعت کرتے ہوئے، اس سے سختی کے ساتھ روکا، اور اختلاف ختم کیا۔ اس مسئلہ اور ایسے ہی چند ایک دیگر متفق علیہ مسائل کی وجہ سے حضرت عمرؓ کی خصوصی منقبت ثابت ہوتی ھے، اور امت پر یہ ایک طرح کا احسان ہے، یہ کوئی طعن کی بات نہیں. حرمت متعہ کی روایت حضرت علیؓ. عمرؓ ابوہریرۃؓ، برۃ الجہنیؓ اور سلمۃؓ بن الا کوع اور دیگر جماعت صحابہؓ سے مروی ہے. 

 امام مالک ؒ اور دوسرے محدثین اپنی کتب میں درج کرتے ہیں:

عبداللہ سے اور حسن سے مروی ھے، جو کہ محمد بن علیؓ کے فرزند تھے، وہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں، وہ علیؓ سے کہا مجھے رسول اللہﷺ نے حکم دیا کہ متعہ کی ممانعت اور حرمت کا اعلان کر دوں. جب کہ جب پہلے اس کا امر تھا جنہیں ممانعت کا پتہ چل گیا، وہ رک گئے، اور جنہیں پتہ نہ چلا، وہ اس کی اباحت کے قائل رہے عمرؓ کو پتہ چلا تو اپنے دور خلافت میں شدت سے روکا اور نہی میں مبالغہ فرمایا. (مؤطا جلد 2 ص 12 طبع مصر.) 

 مسلم شریف میں ہے:

سلمہ بن اکوعؓ فرماتا ھے، رسول اللہ ﷺ نے اوطاس کے دن تین روز کے لئے متعہ کی اجازت دی، پھر اس سے منع فرما دیا رخصت بھی مجبور اور مضطر لوگوں کو دی تھی، عام مسلمانوں کو نہیں، (جس طرح کہ ایک ضرورت کے تحت زبیر کو ریشم پہننے کی رخصت دی) ، بعد میں ان کو ہمیشہ کے لئے متعہ سے منع فرما دیا. (مسلم ج نمبر 1 صفحہ ص451) 

 نیز مسلم میں ہے.

رسول اللہﷺ نے فرمایا میں نے تمہیں عورتوں کے متعہ کی اجازت دی تھی، اب قیامت تک کے لئے حرام قرار دیتا ھوں، جس کے پاس ایسی کوئی عورت ھو، اس کو چھوڑ دے، اور جو دے چکے ھو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ ھو. (ج نمبر 1 ص 451 بروایت سیرۃ الجہنی باب نکاح المتعہ الخ) 

 حضرت ابن عباسؓ نے بھی اضطراری اور مجبوری کی حالت میں جواز متعہ کا فتویٰ دیا تھا. جیسا کہ امام حازی (کتاب الاحتبار للحازمی رحمتہ اللہ المتوفی سہ 584 ھ ص 190) یہ طریق خطابی سعید بن جبر سے روایت کرتا ھے کہ میں نے حضرت ابن عباسؓ سے کہا لوگ آپ سے یہ فتویٰ نقل کر رہے ہیں کہ متعہ جائز یے، تو انہوں نے فرمایا :

خدا کی تنزیہ نے یہ فتویٰ نہیں دیا. یہ تو مردار اور خون اور خنزیر کے گوشت کی طرح ھے مضطر کے لئے البتہ حلال ھے. مگر بعد ازاں حضرت ابن عباسؓ نے اس فتویٰ سے بھی رجوع کر لیا۔ دیکھیئے جامع ترمذی جلد 1 ص 167 باب نکاح المتعہ) فرمایا تھا، اور مطلقاً حرمت متعہ کا فتویٰ دیا، جیسا کہ جمہور کا فتویٰ ھے.