Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سنی و شیعہ مناظرہ: اصحاب کلھم عدول (شیعہ عالم میثم رضوی کو بدترین شکست)

  جعفر صادق

مناظرہ بعنوان عقیدہ اصحاب کلھم عدول کی روشنی میں عبداللہ ابن ابی منافق یا صحابی رسول

مناظر از طرف شیعہ خیرالبریہ: سید میثم رضوی

مناظر از طرف مذہب اہلسنت: ممتاز قریشی

دعویٰ شیعہ خیر البریہ

عبداللہ ابن ابی اہلِ سنت کے عقیدے اصحاب کلھم عدول کے باعث صحابیِ رسول ہے، اسے منافق ماننے کے لیے اصحاب کلھم عدول کے عقیدے سے برأت لازم ہے

جواب: دعویٰ اہلِسنّت 

عبداللہ بن ابی اصحاب کلھم عدول کے عقیدے سے صحابیِ رسول نہیں بلکہ اصحاب کلھم عدول کے عقیدے کی روشنی میں قرآن اور حدیث سے وہ منافق ہو کر صحابیت سے خارج ہے

شرائط مناظرہ از شیعہ خیرالبریہ

1- بات موضوع پر رہ کر بغیر قیاس کے مختصر اور ٹو دی پوائنٹ ہوگی، بےکار لفاظی نہیں کی جائے گی۔

2- دلائل اصول مناظرہ کے مطابق صرف قرآن مجید اور صحیح السند احادیث یا صحیح السند روایات سے دیے جائیں گے۔

3- خلاف قرآن مجید اور احادیث کوئی بھی بات قابل قبول نہیں ہو گی۔

4- باہمی ادب واحترام کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا اور مقدسات کی توہین کسی طور برداشت نہیں کی جائے گی۔

5- ایک ٹرن تین وائسز ، 2 حوالہ جات اور تین تحاریر سے زائد نا ہوگی، وائسز 2 منٹ تک محدود ہوں گی۔

6- کسی نکتے کو متفق علیہ ثابت کرنے کے لیے اس نکتے کی ہر شرائط بھی متفق علیہ ثابت کرنا ہو گی۔

7- مذکورہ بالا 6 شرائط میں سے کسی ایک کو بھی توڑنے والے کی شکست تسلیم کی جائے گی۔

شیعہ دلائل

صحیح بخاری کی احادیث:

عبداللہ ابن ابی کے لئے لسان نبوی سے لفظ اصحاب کی موجودگی  

عبداللہ ابن ابی کا توہینِ رسالت کرنا اور پھر دو مؤمن جماعتوں میں جھگڑا ہو جانا۔  

نبی کریم نے عبداللہ ابن ابی کا جنازہ پڑھایا 

اہلِسنّت دو ٹوک مؤقف:

قرآن بمعہ شیعہ تفاسیر (مختلف آیات قرآنی)اور دوسری صحیح احادیث سے عبداللہ ابن ابی رئیس المنافقین تھا،  صحابی کی لغوی معنی کے مطابق عبداللہ ابن ابی بظاہر صحابی تھا، لیکن درحقیقت اس کی منافقت دور نبویﷺ میں ہی عیاں تھی،منافق بنص قرآن دل سے گواہی نہیں دیتا اس لئے ملعون و جہنمی ہے، جب عبداللہ ابن ابی مسلمان ہی نہیں تھا تو عقیدہ اصحاب کلھم عدول کی روشنی میں شرف صحابیت رسول میں شمار نہیں کیا جا سکتا ہے۔

مناظرے کا مختصر احوال

 اہلِ سنّت مؤقف کو مکمل سمجھے بغیر شیعہ عالم نے ایسا دعویٰ کر دیا جس پر ان کے پاس کوئی مضبوط دلیل ہی نہ تھی۔

 عقیدہ اہلِ سنّت اصحاب کلھم عدول:  شرف صحابیت کے لئے حالت ایمان میں دیدار نبیﷺ حاصل ہونا اور ایمان بالخیر پر ہونا لازم ہے۔

دلائل

1: قرآن کریم میں  مسلمانوں اور منافقین کی الگ الگ حیثیت متعین کی گئی ہے۔  بے شمار آیاتِ قرآنی صحابہ  کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایمان کی تعریف اور شانِ صحابہؓ بیان کرتی ہیں دوسری طرف کئی آیات قرآنی میں منافقین کی زبانی گواہی کو مسترد ،ان کی مذمت، ان پر لعنت و ملامت کو واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔


 

ایک عام فہم بھی ان دونوں گروہوں کو ایک نہیں سمجھ سکتا کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اللہ عزوجل ایک ہی گروہ کی شان و فضیلت بیان کرتے ہوئے اسی گروہ کی مذمت بھی بیان کرے۔

عقیدہ اہلِ سنّت “اصحاب کلھم عدول” شیعوں کے عقیدہ صحابہؓ سے مختلف ہے۔

اہلِ تشیع کے ہاں صحابی کی لغوی معنی کی روشنی میں جو بھی نبی کی صحبت میں رہا چاہے منافق یا مرتد کیوں نہ ہو وہ صحابی ہے اور اسے شرف صحابیت حاصل ہے، جبکہ اہلِسنّت کا عقیدہ صحابہؓ قرآن و احادیث میں بیان کئے گئے شرف صحابیت کے اصل مقام و درجے کی بنیاد پر ہے۔

اہلِ سنّت کا عقیدہ عین قرآن و احادیث کے مطابق ہے، کیونکہ صحابی کی اصطلاحی تعریف اگر نہ کی جائے تو آیات قرآنی سے صحابی و منافقین میں تفریق کرنا ممکن ہی نہیں اور پھر شیعہ کی طرح یہ ماننا ہوگا کہ جنتی و جہنمی گروہ ایک ہے جو کہ ناقابل فہم اور غیر منطقی نظریہ ہے۔

اہلِسنّت عقیدہ کے مطابق شرف صحابیت ہر کسی کو نہیں دی جا سکتی۔ صحابی رسولﷺ کے لئے حالتِ ایمان کے ساتھ ایمان بالخیر پر ہونا لازم ہے، شانِ صحابہؓ کی آیات قرآنی صرف ان اصحاب پر لاگو ہوں گی جو اصطلاحی تعریف کے مطابق صحابیِ رسولﷺ  ہیں۔

دوران مناظرہ یہ ثابت کیا گیا کہ صحابی کی یہ اصطلاحی تعریف سُنی و شیعہ دونوں علماء کے نزدیک متفقہ علیہ ہے۔


  دوران مناظرہ اہلِ سنّت و اہلِ تشیع کتب  سے تین حوالے دیتے ہوئے  صحابی کی اصطلاحی تعریف پیش کی گئی جسے شیعہ عالم نے بغیر کسی دلیل سے اپنی ذاتی رائے سے مسترد کر دیا۔



 

دوران گفتگو شیعہ عالم کے دعویٰ کو دو حصوں میں تقسیم  کر کے شیعہ عالم کو بار بار موقعہ دیا گیا کہ

1: اہلسنت عقیدہ “اصحاب کلھم عدول” پر ایسی دلیل دیں جس سے ثابت ہو کہ اہلِ تشیع کی طرح اہلِسنّت  کے ہابہی مرتد و منافقین اور ہرقسم کی لوگ صحابی سمجھتے جاتے ہیں لیکن شیعہ عالم اپنے دعویٰ کا پہلا حصہ ثابت کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔

اس موقعہ پر شیعہ عالم کو آفر کی گئی کہ گفتگو کا رخ موڑا جائے ، اگر وہ چاہیں تو جواب دعویٰ کو زیرِ بحث لایا جائے،تاکہ عوام کو دونوں فریقین کے مؤقف و دلائل کا علم ہوسکے لیکن وہ اپنے دعویٰ پر ہی گفتگو کرنے پر مصر رہے ، دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ مدعی ہو کر بھی شیعہ عالم میثم رضوی صاحب  جواب دعویٰ فریق مخالف سے دلیل دینے کا مطالبہ کرتے رہے۔

2: دعویٰ کے دوسرے حصے عبداللہ بن ابی کے منافق ہونے یا صحابی رسول ہونے پر شیعہ عالم کی پہلی دلیل کو زیرِ بحث لایا گیا۔

  شیعہ عالم کی دلیل1 : صحیح بخاری کی حدیث میں نبی کریمﷺ نے عبداللہ بن ابی کو بھی اپنا "صحابی" فرمایا ہے۔

نبی کریمﷺ کا عبداللہ ابن ابی ابن ابی سلول کو اپنا صحابی کہنا

صحيح البخاري

كِتَاب الْمَنَاقِبِ

کتاب: فضیلتوں کے بیان میں

بَابُ مَا يُنْهَى مِنْ دَعْوَةِ الْجَاهِلِيَّةِ:

 باب: جاہلیت کی سی باتیں کرنا منع ہے۔

حدیث نمبر: 3518

حدثنا محمد، اخبرنا مخلد بن يزيد، اخبرنا ابن جريج، قال: اخبرني عمرو بن دينار، انه سمع جابرا رضي الله عنه، يقول: غزونا مع النبي صلى اللهعليه وسلم وقد ثاب معه ناس من المهاجرين حتى كثروا وكان من المهاجرين رجل لعاب فكسع انصاريا فغضب الانصاري غضبا شديدا حتى تداعوا، وقال: الانصاري يا للانصار، وقال: المهاجري يا للمهاجرين فخرج النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" ما بال دعوى اهل الجاهلية ثم، قال: ما شانهمفاخبر بكسعة المهاجري الانصاري، قال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" دعوها فإنها خبيثة، وقال عبد الله بن ابي ابن سلول: اقد تداعوا علينا لئنرجعنا إلى المدينة ليخرجن الاعز منها الاذل، فقال عمر: الا نقتل يا رسول الله، هذا الخبيث لعبد الله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لا يتحدث الناسانه كان يقتل اصحابه".

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو مخلد بن یزید نے خبر دی، کہا ہمیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عمرو بن دینار نے خبر دی اور انہوں نے جابرؓ سے سنا کہ ہم نبی کریمﷺ کے ساتھ جہاد میں شریک تھے، مہاجرین بڑی تعداد میں آپﷺ کے پاس جمع ہو گئے۔ وجہ یہ ہوئی کہ مہاجرین میں ایک صاحب تھے بڑے دل لگی کرنے والے، انہوں نے ایک انصاری کے سرین پر ضرب لگائی، انصاری بہت سخت غصہ ہوا۔ اس نے اپنی برادری والوں کو مدد کے لیے پکارا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان لوگوں نے یعنی انصاری نے کہا: اے قبائل انصار! مدد کو پہنچو! اور مہاجر نے کہا: اے مہاجرین! مدد کو پہنچو! یہ غل سن کر نبی کریمﷺ (خیمہ سے) باہر تشریف لائے اور فرمایا:

کیا بات ہے؟ یہ جاہلیت کی پکار کیسی ہے؟ آپﷺ کے صورتِ حال دریافت کرنے پر مہاجر صحابی کے انصاری صحابی کو مار دینے کا واقعہ بیان کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ ایسی جاہلیت کی ناپاک باتیں چھوڑ دو اور عبداللہ بن ابی سلول نے کہا کہ یہ مہاجرین اب ہمارے خلاف اپنی قوم والوں کی دہائی دینے لگے۔ مدینہ پہنچ کر ہم سمجھ لیں گے، عزت دار ذلیل کو یقیناً نکال باہر کر دے گا۔ سیدنا عمرؓ نے اجازت چاہی یا رسول اللہﷺ! ہم اس ناپاک پلید عبداللہ بن ابی کو قتل کیوں نہ کر دیں؟ لیکن آپﷺ نے فرمایا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ لوگ کہیں کہ محمد ( ﷺ ) اپنے صحابہؓ کو قتل کر دیا کرتے ہیں۔

جواب : اس حدیث میں مندرجہ ذیل قرائن سے شیعہ استدلال باطل قرار دیا گیا۔

1: حدیث کے مطابق عبداللہ ابن ابی کی طرف سے شان رسالت و شان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی گستاخی پر سیدنا عمر فاروقؓ نے اس خبیث کو قتل کرنے کی نبی کریمﷺ سے اجازت مانگی، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ عبداللہ ابن ابی کی منافقت بحیثیت رازدار نبی کریمﷺ سیدنا عمر فاروقؓ بخوبی جانتے تھے۔

2: نبی کریمﷺ نے سیدنا عمر فاروقؓ کی نفی یعنی قتل کرنے کی ممانعت عبداللہ ابن ابی کے مؤمن ہونے کی وجہ سے نہیں فرمائی بلکہ دوسرے لوگوں تک غلط تاثر پہنچنے کی وجہ سے منع فرمایا بصورت دیگر بارگاہ نبوت سے یہ فرمایا جاتا کہ ایک مسلمان کا قتل جائز نہیں ہے۔

3: یہ حدیث سیدنا عمر فاروقؓ کے ایمان پر ہونے کی دلیل بھی ہے کیونکہ ایک مؤمن ہی منافق کو قتل کرنے کا سوچتا ہے۔ منافق منافق کو قتل نہیں کرتا۔

4: حدیث کے مطابق نبی کریم ﷺ نے عبداللہ ابن ابی کو قتل کرنے سے اس لئے منع فرمایا کہ باقی لوگوں تک غلط تاثر پہنچے گا کہ محمدﷺ  اپنے صحابہؓ کو قتل کر دیتا ہے، یاد رہے کہ دور نبویﷺ میں منافق ظاہری طور پر مسلمان اور صحبتِ رسول اللہﷺ کی وجہ سے بظاہر صحابی سمجھے جاتے تھے۔ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ اوائل اسلام میں منافقین سے درگزر کرنے کی پالیسی رکھی گئی تھی تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ مسلمان ہوں۔

5: اس حدیث میں نبی کریمﷺ نے سیدنا عمر فاروقؓ کے ہاتھوں عبداللہ ابن ابی کا قتل اپنی طرف منسوب کیا ہے، یعنی فعل فاروقی کو فعل محمدی قرار دیا ہے، یہ بھی سیدنا عمر فاروقؓ کی ایک فضیلت ہے۔

دوران گفتگو یہ نکات کئی بار شیعہ عالم کو سمجھائے گئے اور الفاظ کے لغوی و اصطلاحی معنی و تعریف کا بھی سمجھایا گیا ، بطور مثال امام اور شیعہ کے الفاظ قرآن کریم میں موجود ہونا بتا کر پوچھا گیا کہ اگر الفاظ کے ایک ہی لغوی معنی سمجھے جائیں تو پھر شیعہ کا عقیدہ امامت اور امام کا منصب منصوص من اللہ ہونا اور عصمت امام کا دفاع کیسے ممکن ہوگا کیونکہ بنص قرآن امام جہنم کی طرف بھی بلاتے ہیں اور فرعون کے گروہ کو بھی شیعہ کہا گیا ہے ۔

  شیعہ عالم نے اس علمی نکتے کا کوئی جواب نہیں دیا۔

قرآن کے مطابق منافقین کا گروہ  صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  کے اندر کوئی دوسرا گروہ ہرگز نہیں ہے کیونکہ صحابی کے لئے مسلمان ہونا شرط ہے اور  مسلمان ہونے کے لئے زبان و دل سے توحید و رسالت کی گواہی دینا ضروری ہے۔ صرف زبانی گواہی سے کوئی بھی شخص دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوسکتا تو شرفِ صحابیتؓ تو بہت بڑا درجہ ہے۔

منافق بظاہر مسلمان ہیں لیکن درحقیقت وہ شروع سے آخر تک کافر ہی ہیں بلکہ کافر سے بدتر ہیں کیونکہ کفر کے ساتھ ساتھ منافقین مکر وفریب اور دھوکا دینے کے بھی مرتکب ہیں۔

  دوران مناظرہ قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیات پیش کی گئیں۔

1: اِذَا جَآءَکَ الۡمُنٰفِقُوۡنَ قَالُوۡا نَشۡہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوۡلُ اللّٰہِ ۘ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوۡلُہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَشۡہَدُ اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَکٰذِبُوۡنَ ۚ

(اے محمدﷺ) جب منافق لوگ تمہارے پاس آتے ہیں تو (از راہ نفاق) کہتے ہیں کہ ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ بےشک خدا کے پیغمبر ہیں اور خدا جانتا ہے کہ درحقیقت تم اس کے پیغمبر ہو لیکن خدا ظاہر کئے دیتا ہے کہ منافق(دل سے اعتقاد نہ رکھنے کے لحاظ سے) جھوٹے ہیں(۔سورت المنافقون:1)

اہلسنت استدلال: منافق توحید و رسالت کی گواہی صرف زبان سے دیکر جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ دل سے اقرار نہیں کرتے۔

شیعہ اعتراض: اس آیت میں کہاں لکھا ہے کہ منافق صحابیت سے خارج ہے؟

جواب:  آیت میں منافق کو جھوٹا کہہ کر بتایا گیا ہے کہ منافقین زبانی گواہی اگرچہ سچی دیتے ہیں لیکن پھر بھی جھوٹے ہیں کیونکہ دل میں ایمان نہیں رکھتے۔ اہلِ سنّت عقیدہ کے مطابق شرفِ صحابیتؓ کے لئے حالتِ ایمان پر ہونا شرط ہے۔

شیعہ اعتراض: کس اصول سے لسان نبویﷺ سے عبداللہ ابن ابی کو صحابی کی لغوی معنی پر محمول کرتے ہیں؟ اس کی منافقت کو ثابت کریں۔

جواب: عبداللہ ابن ابی رئیس المنافقین تھا، اس کی منافقت جنگ احد میں ظاہر ہوچکی تھی جب تین سو منافقوں کے ساتھ عبداللہ ابن ابی نے اسلامی لشکر کو چھوڑ دیا تھا۔ تمام سنی و شیعہ تفاسیر سے یہ حقیقت ثابت ہے۔

دلیل:

وَ لِیَعۡلَمَ الَّذِیۡنَ نَافَقُوۡا ۚ ۖ وَ قِیۡلَ لَہُمۡ تَعَالَوۡا قَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَوِ ادۡفَعُوۡا ؕ قَالُوۡا لَوۡ نَعۡلَمُ قِتَالًا لَّا تَّبَعۡنٰکُمۡ ؕ ہُمۡ لِلۡکُفۡرِ یَوۡمَئِذٍ اَقۡرَبُ مِنۡہُمۡ لِلۡاِیۡمَانِ ۚ یَقُوۡلُوۡنَ بِاَفۡوَاہِہِمۡ مَّا لَیۡسَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ ؕ وَ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا یَکۡتُمُوۡنَ

ترجمہ: اور منافقوں کو بھی معلوم کر لے جن سے کہا گیا کہ آؤ اللہ کی راه میں جہاد کرو، یا کافروں کو ہٹاو، ٴ تو وه کہنے لگے کہ اگر ہم لڑائی جانتے ہوتے تو ضرور ساتھ دیتے، وه اس دن بہ نسبت ایمان کے کفر سے بہت قریب تھے، اپنے منہ سے وہ باتیں بناتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں، اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جسے وه چھپاتے ہیں۔(سورت آل عمران:167)

اہلِسنّت استدلال:  اہلسنت و اہلِ تشیع تفاسیر کے مطابق یہ آیت جنگ احد میں عبداللہ ابن ابی اور اس کے تین سو ساتھیوں کی منافقت ظاہر ہونے کے بعد نازل ہوئی تھی۔

اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ منافق زبان سے دعویٰ کرتے ہیں لیکن دل میں ایمان نہیں رکھتے، اس لئے مسلمان ہی نہیں ہیں، شرفِ صحابیتؓ تو بہت بڑی فضیلت ہے۔

 شیعہ عالم نے اس دلیل کا کوئی جواب نہیں دیا۔

شیعہ عالم کی دلیل:2  صحیح بخاری کی حدیث جس میں عبداللہ ابن ابی نے توہین رسالت کی تو وہاں موجود دو جماعتوں میں لڑائی شروع ہوگئی اس موقعہ پر آیت کا نزول ہوا کہ اہلِ ایمان کی دو جماعتیں جھگڑ پڑیں تو صلح کرادی جائے۔

شیعہ استدلال: عبداللہ ابن ابی قرآن کے مطابق مؤمن تھا۔

جواب:  یہ واقعہ ہجرت کے فوراً بعد کا ہے، اس وقت عبداللہ ابن ابی نے زبان سے توحید و رسالت کا اقرار نہیں کیا تھا۔ 

اس کے مندرجہ ذیل قرائن ہیں۔

1: اس حدیث میں نبی کریمﷺ  تبلیغ دین کی خاطر عبداللہ بن ابی کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ اگر وہ پہلے سے توحید و رسالت کی گواہی دے چکا ہوتا تو پھر نبی کریمﷺ کو اس کے پاس جانے کی ضرورت کیا تھی؟ اور عبداللہ ابن ابی کو کھلم کھلا توہین رسالت کی جرأت کیسے ہوتی؟

2: حدیث میں واضح الفاظ موجود ہیں کہ دونوں طرف سے لوگوں نے لڑائی کی جبکہ عبداللہ ابن ابی کا بذات خود اس لڑائی میں شامل ہونا اس حدیث سے ثابت نہیں ہوتا۔

3: عبداللہ ابن ابی کی موت، تدفین و جنازہ کی تفصیل دوسری صحیح روایات میں بیان کی گئی ہے ، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ آخری گھڑی تک منافق ہی رہا تو پھر اسے مؤمن تسلیم کرنا ممکن نہیں ہے۔

مناظرے کے دوسرے دن اس وقت دلچسپ صورتحال سامنے آئی جب شیعہ عالم میثم صاحب کو اپنے دعویٰ کے مطابق اہلِسنّت عقیدہ “اصحاب کلھم عدول” کی روشنی میں عبداللہ ابن ابی کو صحابیِ رسولﷺ ثابت کرنا تھا، لیکن ان کی طرف سے صحیح بخاری کی ایسی حدیث پیش کی گئی جس سے عبداللہ ابن ابی کا منافق ہونا بیان ہوا ہے۔

شیعہ عالم کی دلیل:3 صحیح بخاری کی حدیث ، جب عبداللہ ابن ابی مر گیا تو نبی کریمﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔

شیعہ استدلال: عبداللہ ابن ابی منافق نہیں تھا، اسی لئے نبیﷺ نے جنازہ نماز پڑھائی۔

جواب:  اسی حدیث میں موجود مندرجہ ذیل نکات سے شیعہ استدلال باطل ہے۔

1: سیدنا عمر فاروقؓ نے نبی کریمﷺ کو یہ کہہ کر جنازہ پڑھنے سے روکنا چاہا کہ یہ منافق ہے۔ نبی کریمﷺ نے بجائے سیدنا عمر فاروقؓ کی نفی کرنے کے یہ فرمایا کہ مجھے اختیار دیا گیا ہے۔ جس سے واضح ہوا کہ عبداللہ ابن ابی واقعی منافق تھا بصورت دیگر یہ تصور بھی محال ہے کہ مسلمان کی نماز جنازہ پڑھانے کا اختیار نبی کو دینے کی ضرورت کس وجہ سے پیش آئی۔

2: اس وقت تک منافقوں کے جنازہ پڑھنے کی مکمل ممانعت کا حکم نہیں آیا تھا، اسی لئے نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ مجھے اختیار دیا گیا ہے  یعنی منافقین کا جنازہ  پڑھانے یا نہ پڑھانے کا اختیار دیا گیا ہے۔

3: نبی کریمﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر مجھے معلوم ہو کہ ستر سے زیادہ مرتبہ مغفرت مانگنے پر عبداللہ ابن ابی کو معافی مل جائے گی تو میں مغفرت مانگوں گا۔ اس سے بھی ثابت ہوا کہ عبداللہ ابن ابی منافق ہی تھا کیونکہ کسی مسلمان کے لئے نبی کریمﷺ کا ایک بار دعائے مغفرت مانگنا ہی کافی ہے۔

4: اسی حدیث کے مطابق عبداللہ ابن ابی کے جنازے کے  بعد مکمل ممانعت پر آیت نازل ہوئی کہ کسی منافق کی جنازہ نماز ہرگز نہ پڑھائی جائے۔ اس سے ثابت ہوا کہ عبداللہ ابن ابی منافق ہی تھا۔

شیعہ عالم آخر تک بضد رہے کہ لسان نبویﷺ سے عبداللہ ابن ابی کا منافق ہونا ثابت کیا جائے، حالانکہ قرآن کریم سے شیعہ تفاسیر سے اس خبیث کی منافقت ثابت کی جاچکی تھی، اس دلیل کا جواب دینے کے بجائے شیعہ عالم بار بار عبداللہ ابن ابی کی منافقت کو تسلیم بھی کرتے رہے اور فریق مخالف سے اس کی منافقت صحیح احادیث سے ثابت کرنے کا ضد بھی کرتے رہے۔ 

شیعہ عالم میثم رضوی کی ضد پر اہلِسنّت کے طرف سے مزید صحیح بخاری کی دو احادیث بھی دکھائی گئیں، جن کے مطابق سیدنا عمر فاروقؓ نے نبی کریمﷺ کے سامنے عبداللہ ابن ابی کو منافق بھی کہا ہے، جسے سن کر نبی کریمﷺ نے سیدنا عمر فاروقؓ کی درستگی نہیں کی، بصورت دیگر کسی مسلمان کو منافق کہنے پر نبی کریمﷺ ضرور ناراض ہوتے۔


 ان احادیث سے بھی ثابت ہوا کہ عبداللہ ابن ابی واقعی منافق تھا۔

شیعہ اعتراض: سیدنا عمر فاروقؓ اس حدیث کے آخر میں عبداللہ ابن ابی کو منافق کہنے پر پچھتا رہے ہیں۔

جواب:  ہرگز نہیں۔ حدیث میں واضح الفاظ موجود ہیں کہ سیدنا عمر فاروقؓ نے جنازہ نماز نہ پڑھنے سے نبی کریمﷺ کو روکنے والی حرکت پر احساس ندامت بیان کی ہے۔

اس مختصر تفصیل سے کسی بھی عقل مند کے لئے شیعہ عقیدہ صحابہ اور اہل سنت عقیدہ “اصحاب کلھم عدول” کو سمجھنا اور  ان کے مابین بنیادی اختلاف کو ذہن میں رکھتے ہوئے عبداللہ ابن ابی کے متعلق فیصلہ کرنا نہایت آسان ہے۔ 

اللہ عزوجل ہم سب کو ایسے عقائد سے محفوظ رکھے جن سے  قرآن و صحیح احادیث بلکہ سُنی و شیعہ تفاسیر سے ثابت شدہ حقائق جھٹلانے پر بھی ہمیں مجبور ہونا پڑے۔ آمین ثم آمین۔


قسط 1

ڈاؤن لوڈ


قسط 2

ڈاؤن لوڈ


قسط 3

ڈاؤن لوڈ


قسط 4

ڈاؤن لوڈ

 

 

 

قسط 5

  بڑی سائیز ڈاؤن لوڈ

چھوٹی سائیز ڈاؤن لوڈ