Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

خلافتِ خلفائے ثلاثہ کا قرآن سے ثبوت

  مولانا اللہ یار خانؒ

خلافتِ خلفائے ثلاثہ کا قرآن سے ثبوت

فاتح اعظم مولانا اللّٰه یار خانؒ  کی معرکۃ آلاراء تقریر

مؤرخہ 24 ،25 مارچ سن 1957ء کو دو میل اور تھٹہ ضلع کمیل پور میں عظیم الشان اجلاس منعقد ہوئے۔ جن میں مولانا عبد القیوم شاه صاحب (رحمہ اللّٰہ) اور حضرت فاتح اعظم مولانا اللّٰه یار خان صاحب (رحمہ اللّٰہ) نے شرکت فرمائی۔ 24 مارچ سن 1957ء کو دومیل میں فاتحِ اعظم مولانا اللّٰه یارخان صاحب (رحمہ اللّٰہ) نے خلافت کے موضوع پر تقریر فرمائی جس میں خلافتِ خلفائے ثلاثہؓ پر قرآن و حدیث سے زبردست دلائل پیش فرمائے۔ آپ رحمہ اللّٰہ نے اپنی تقریر کا آغاز آیت استخلاف کی تلاوت سے فرمایا:

وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡكُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَـيَسۡتَخۡلِفَـنَّهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ كَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡۖ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمۡ دِيۡنَهُمُ الَّذِى ارۡتَضٰى لَهُمۡ وَلَـيُبَدِّلَــنَّهُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِهِمۡ اَمۡنًا‌ ؕ(سورۃ النور: آیت 55)

ترجمہ 

اللّٰہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو تم میں سے ایمان لائے ہیں اور اعمال نیک کئے ہیں ضرور بالضرور ان کو زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا اور ضرور بالضرور ان خلفاء کے لئے دین کو مضبوط کرے گا جس دین کو اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے اور یقیناً ان کے لئے خوف کے بعد امن بدل دے گا۔

آپ رحمہ اللّٰہ نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے حاضرین سے (جو نزولِ آیت سے پہلے ایمان لاچکے تھے) تین نعمتوں کا وعدہ فرمایا ہے۔

پہلی استخلاف فی الارض۔

دوسری تمکینِ دین۔

تیسری امن بعد از خوف۔

آیت کے لفظ مِنۡكُمۡ میں كُمۡ کی ضمیر حاضرین کے لیے مخصوص ہے اس لیے اس آیت کا مصداق وہ لوگ نہیں بن سکتے جو وقت نزولِ آیت پیدا ہی نہیں ہوئے تھے اور وہ لوگ بھی خارج ہو گئے جو اس وقت تک مشرف بااسلام نہیں ہوئے تھے۔ اگر آیت میں غائبین کو شامل کرنا مقصود ہوتا تو اتنا ہی فرما دیتے کہ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ! مِنۡكُمۡ فرمانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ لہٰذا حضرت مہدی علیہ الرضوان اس آیت کا مصداق نہیں بن سکتے کیونکہ وہ حاضرین میں موجود نہیں تھے اور سیدنا علیؓ بھی اس آیت کے مصداق نہیں ٹھہرائے جا سکتے کیونکہ ان کو امن نہیں ملا تھا۔ حضرات اہلِ تشیع کے نزدیک تو امن کا نہ ملنا ظاہر ہے کہ بدامنی کی وجہ سے سیدنا علیؓ کو (خلافت کے معاملے میں) درجۂ اول سے درجۂ چہارم پر لایا گیا اور اہلِ سنت کے علمائے کرام تصریح فرما چکے ہیں کہ اس آیتِ مبارکہ سے سیدنا علیؓ کی خلافت ثابت نہیں ہوتی۔ حضرت امام رازیؒ اسی آیتِ استخلاف کے ماتحت فرماتے ہیں: ولم يحصل ذلك في ايام علیؓ

ترجمہ: اور سیدنا علیؓ کے زمانہ میں یہ امور حاصل نہیں ہوئے۔

اور صاحبِ تحفہ اثناء عشریہ فرماتے ہیں:

کہ مجموعہ ایں امورا سوائے خلفائے ثلاثہؓ یافتہ نہ شد۔

ترجمہ: جمیع امور خلفائے ثلاثہؓ کے علاوہ کسی کے زمانہ میں نہیں پائے گئے۔

اب تین ہی صورتیں ہیں:

اول):- یہ ہے کہ اصحاب ثلاثہؓ کو مومنِ کامل مان کر ان کو برحق خلیفۂ رسولﷺ تسلیم کر لیا جائے۔

دوم):- یہ کہ حاضرین سے کوئی مصداقِ آیت قرآنی پیش کیا جائے کہ حاضرین میں سے فلاں، فلاں اشخاص پر یہ وعدہ پورا ہوا۔

سوم):- یہ کہ وعدہ خدائی کا جھوٹا ہونا تسلیم کر لیا جائے کہ خدا نے جو وعدہ کیا تھا اس میں خدا کو بداء (جہل) ہوگیا اور وعدۂ خدا ہی غلط ہوگیا۔

آپ رحمہ اللّٰہ نے اپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ:

میں نے اس آیت کو سات مناظروں میں پیش کیا ہے اور جواب طلب کیا ہے مگر حضرات اہلِ تشیع کی طرف سے کسی کو صحیح جواب دینے کی ہمت نہیں ہوئی اور آئندہ ہو بھی نہیں سکتی۔

نہ خنجر اُٹھے گا نہ تلوار ان سے

یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں

  فرمایا: میں آج بھی علمائے شیعہ کو دعوت دیتا ہوں کہ آئیں اور وہ ذریعہ بتائیں جس کے ذریعے خلفائے ثلاثہؓ کی خلافت کے انکار کے بعد آیت پر ایمان رہ سکتا ہے تو میں آج ہی شیعہ ہونے کا اعلان کردوں گا۔

هَاتُوا بُرْهَانكُم ان كُنتُمْ صَادِقِينَ

مولاناؒ نے فرمایا کہ: علمائے شیعہ غلط اعتراض کیا کرتے ہیں مثلاً یہ کہ یہ لفظ مِنۡكُمۡ سے صرف حاضرین مراد لیے جائیں تو نماز، روزہ، حج، زکوٰة، حرام و حلال تمام احکام خداوندی حاضرین کے ساتھ خاص ہو جائیں گے لہٰذا آج کل کے لوگ مکلّف نہ رہے۔

پہلا جواب یہ ہے کہ یہ آیت آیاتِ احکامی سے نہیں ہے۔ یہ تو آیاتِ انعامیات میں سے ہے۔ اس میں دنیا کی سب سے بڑی نعمت جو حکومت علٰی منہاج النبوت ہے اس کا ذکر ہے اور جو اعتراض شیعہ حضرات کرتے ہیں وہ آیاتِ احکامی پر وارد ہوتا ہے آیاتِ انعامی پہ نہیں کیا جا سکتا ۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ بقاعدہ اصولِ فقہ حاضرین میں غائبین کو احکام میں دلیلِ خارجی کی وجہ سے داخل کر لیاجاتا ہے اور یہاں تو دلیلِ خارجی ہے ہی نہیں، اگر ہے تو پیش کریں! اور علمائے شیعہ کی اس کی تصریح کر چکے ہیں۔ جیسا کہ معالم الدين وملاذ المجتهدين  از ابن الشهيد الثاني میں صفحہ 193 پر موجود ہے:

لأنا نقول: أحكام الكتاب كلها من قبيل خطاب المشافهة، وقد مر أنه مخصوص بالموجودين في زمن الخطاب، وأن ثبوت حكمه في حق من تأخر إنما هو بالاجماع

ترجمہ "تحقیق ہم کہتے ہیں کہ احکامِ قرآن تمام کے تمام از قبيل بالمشافہ کے ہیں اور یہ پہلے گزر چکا ہے کہ خطاب کا حکم حاضرین موجودین کے ساتھ خاص ہوتا ہے۔ باقی اس حکم کا ثبوت ان لوگوں کے لئے جو زمانہ خطاب کے بعد آئے ہیں وہ اس حکم میں اجماعِ امت سے داخل ہیں"

لیجئے حضرات۔۔۔۔! آیاتِ احکامی میں بھی غائبین دلائلِ خارجیہ کی وجہ سے داخل ہیں، خطاب کی وجہ سے نہیں۔

اس کے بعد مولانا نے شیعہ کتاب احتجاج طبرسی جلد 1، صفحہ 111 سے یہ عبارت پڑھی وما من الأمة أحد بايع مكرها غير علي وأربعتنا...

ترجمہ: حضرت ابو بکر صدیقؓ کی بیعت کے سلسلے میں کوئی شخص ایسا نہ تھا جس نے خوشی سے بیعت نہ کی ہو سوائے سیدنا علیؓ اور ہمارے چار شیعہ شخصوں کے۔

مگر شیعہ حضرات کی ہمیشہ یہی چال رہی ہے کہ یہ بیعت جبری تھی لہٰذا اس کا کوئی اثر نہیں ہے۔ اس جبری بیعت کے متعلق عرض یہ ہے کہ یہ شیعہ کی خانہ ساز روایات ہیں۔ اگر سیدنا علیؓ پر جبر کیا تھا، تو سعد ابنِ عبادہؓ پر بھی کرتے مگر ان سے جبراً کسی نے بیعت نہیں کروائی۔ اگر بالفرض تسلیم کر بھی لیا جائے کہ سیدنا علیؓ پر جبر ہوا تھا تو بھی خلافتِ صدیقی کی حقانیت کی دلیل ہوگی جیسا کہ فرمانِ الٰہی سے ظاہر ہوتا ہے-

وَلِلّٰهِ يَسۡجُدُ مَنۡ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ طَوۡعًا وَّكَرۡهًا

ترجمہ اور وہ اللّٰه ہی ہے جس کو آسمانوں اور زمین کی ساری مخلوقات سجدہ کرتی ہیں، کچھ خوشی سے، کچھ مجبوری سے"

اللّٰه تعالیٰ اپنے معبود الٰہ ہونے پر سجدۂ مخلوق کو گواہ بنا رہے ہیں کہ آسمان و زمین کی تمام چیزیں میرے سامنے سجدہ کر رہی ہیں، خواہ خوشی سے یا عدم خوشی کی حالت میں۔

عین اسی طریقے پر حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت ہے، جس طرح اکراہی سجدہ سے اللّٰہ تعالیٰ کی ربوبیت اور الوہیت میں کوئی فرق نہیں آتا، اسی طریقہ سے اکراہی بیعت سے حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اگر مجبوری سجدہ سے خدا کا معبود ہونا برحق ہے تو صدیقؓ کا خلیفہ ہونا بھی برحق ہے۔ جب تمام مخلوق خدا پر متفق نہ ہوئی، رسولوں پر نہ ہوئی، صدیقؓ پر نہ ہو تو ان کا کیا نقصان، مگر یہ تمام افسانے ہیں حقیقت نہیں ہے، اصل حقیقت یہ ہے کہ کتابوں میں بیعت علیؓ بر دستِ صدیقؓ کے متعلق دو قسم کی روایتیں دستیاب ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ سیدنا علیؓ نے چھ ماہ کے بعد بیعت فرمائی اور دوسرے یہ کہ فوراً بیعت کر لی۔

آپ رحمہ اللّٰہ نے فرمایا: دیکھو یہ میرے ہاتھ میں فتح الباری: جلد 7، صفحہ 495 ہے۔ اس سے پڑھتا ہوں۔ فرماتے ہیں:

وَقَدْ صَحَّحَ ابْنُ حِبَّانَ وَغَيْرُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَغَيْرِهِ أَنَّ عَلِيًّا بَايَعَ أَبَا بَكْرٍ فِي أَوَّلِ الْأَمْرِ

ترجمہ:- ابنِ حبان وغیرہ نے ابو سعید خدریؓ کی حدیث کی تصحیح فرمائی ہے کہ تحقیق سیدنا علیؓ نے سیدنا ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت اول امر میں کی تھی۔

اور اسی طرح استیعاب ابن عبد البر میں ہے:

عن قيسِ بن عُبادٍ، قال: قال لي عليُّ بن أبي طالبٍ: إنَّ رسولَ اللهِ ﷺ مرِض لياليَ وأيَّامًا يُنادِي بالصَّلاةِ فيقولُ: "مُروا أبا بكرٍ يُصَلِّي بالنَّاسِ"، فلمَّا قُبِض رسولُ اللَّهِ ﷺ نَظَرتُ فإذا الصَّلاةُ عَلَمُ الإسلامِ، وقِوامُ الدِّينِ، فَرَضِينا لدُّنيانا مَن رَضِيَ رسولُ اللهِ ﷺ لدينِنا، فبايَعْنا أبا بكرٍ

(الاستیعاب: جلد 4، صفحہ 215)

ترجمہ:  قیس ابن عبادؓ بیان فرماتےہیں کہ سیدنا علیؓ نے ہم سے بیان  کیا کہ رسولِ خداﷺ چند دن راتیں بیمار ہوئے۔ نماز کے لئے بلایا جاتا تھا پس فرماتے تھے (حضورﷺ) ابوبکر صدیقؓ کو حکم دو کہ لوگوں کو نماز پڑھائے پس جب رسول خداﷺ نے دارِ فانی کو ترک فرمایا تو میں نے دیکھا کہ نماز ایک نشانِ دین ہے پس ہم نے ابوبکرؓ کو اپنے دنیاوی کاموں کے لئے مقرر کر لیا جس کو رسولِ خداﷺ نے دین کے لئے مقرر فرمایا تھا۔ پس ہم نے سیدنا ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔

اور اول الامر میں سیدنا علیؓ کا سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنا مرفوع و صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ جیسا کہ بیہقی جلد 16، صفحہ 512 پر موجود ہے:

فلَمّا قَعَدَ أبو بكرٍ - رضي الله عنه - على المِنبَرِ نَظَرَ في وُجوه القَوم، فلَم يَرَ عَليًّا - رضي الله عنه -، فسألَ عنه فقامَ ناسٌ مِنَ الأنصارِ فأتَوا به، فقالَ أبو بكرٍ - رضي الله عنه -: ابنَ عَمِّ رسولِ اللهِ - صلى الله عليه وسلم - وخَتَنَه، أرَدتَ أن تَشُقَّ عَصا المُسلِمينَ؟ فقالَ: لا تَثريبَ يا خَليفَةَ رسولِ اللهِ. فبايَعَه، ثُمَّ لَم يَرَ الزُّبَيرَ بنَ العَوّامِ - رضي الله عنه - فسألَ عنه حَتَّى جاءوا به، فقالَ: ابنَ عَمَّةِ رسولِ اللهِ - صلى الله عليه وسلم - وحَواريَّه، أرَدتَ أن تَشُقَّ عَصا المُسلِمينَ؟ فقالَ مِثلَ قَولِه: لا تَثريبَ يا خَليفَةَ رسولِ اللهِ. فبايَعاه

ترجمہ : سیدنا ابوبکرؓ نے منبر پر چڑھ کر قوم کی طرف نگاہ دوڑائی تو سیدنا علیؓ ابنِ ابی طالب کو نہ پایا تو ان کے بارے میں پوچھا تو انصار میں سے کچھ لوگ کھڑے ہو کر آپؓ کو لے آئے۔حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا اے رسولﷺ کے عم زاد بھائی اور داماد کیا آپؓ مسلمانوں کی جماعت کو  ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں۔ پس سیدنا علیؓ نے فرمایا اے خلیفۂ رسولِ خداﷺ مجھ پر عتاب نہ کریں پس بیعت کر لی۔ پھر سیدنا ابوبکرؓ نے قوم کے چہروں پر نظر ڈالی تو حضرت زبیرؓ کو نہ پایا، پھر حضرت زبیرؓ کو بلوایا اور فرمایا کہ اے رسولِ خداﷺ کے عم زاد بھائی(چچا زاد) اور حواری! آپ مسلمانوں کی جماعت میں افتراق پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ حضرت زبیرؓ نے جواب دیا، اے خلیفۂ رسولِ خداﷺ مجھ پر عتاب نہ فرمائیں اور کھڑے ہو گئے اور بیعت کر لی۔

یہ بیہقی کی روایت البدایہ والنہایہ ابن کثیر جلد 5 صفحہ 350 پر بھی موجود اور تاریخ ابوالفداء میں بھی موجود ہے اور ابن کثیرؒ نے البدایہ والنہایہ میں فرمایا:

قال الحافظ ابوبكرؒ البيهقى سند جید -

یعنی حافظ ابو بکر بیہقیؒ نے سیدنا علیؓ اور زبیرؓ کی بیعت کو مجمع عام میں پہلے روز ہونا جو بیان کیا ہے تو اسکی سند بالکل صحیح ہے اور بڑی عالی شان ہے ۔

اسی روایت کو حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری میں صحیح فرمایا ہے اور البدایہ والنہایہ: جلد 7، صفحہ 06 پر تحریر فرماتے ہیں:

وقد اتَّفقَ الصَّحابةُ رضی اللّٰہ عنہم على بيعة الصّدّيق في ذلك الوقت، حتى عليّ بن أبي طالب والزُّبير بن العَوّام رضی ﷲ عنہما ، والدليل على ذلك ما رواه البيهقيُّ

ترجمہ  تمام صحابہ کرامؓ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی بیعت پر متفق ہو گئے۔ یہاں تک کہ سیدنا علیؓ ابن ابی طالب اور حضرت زبیرؓ نے بھی بیعت کرلی اور اس بیعت پر واضح دلیل وہ حدیث ہے جس کو بیہقی نے روایت کیا ہے۔

اور یہی علامہ ابن کثیرؒ "البدایہ والنہایہ" کے جلد 7، صفحہ07 پر یوں فرماتے ہیں:

وأخرجه الحاكمُ في "مستدركِه" من طريقِ عفانَ بن مسلم، عن وهيب مطوَّلًا كنحو ما تقدَّم.

و روينا من طريق المَحَاملي، عن القاسمِ بن سعيد بن المُسيّب، عن علي بن عاصم، عن الجُرَيْري، عن أبي نَضْرَة، عن أبي سعيدٍ فَذَكره مثلَه في مبايعةِ علي والزبير رضی ﷲ عنہما يومئذٍ.

وقال موسى بن عقبة في "مغازيه" عن سعد بن إبراهيم: حدَّثني أبي أن أباه عبد الرحمن بنَ عوفٍ كانَ معَ عمرَ وأنَّ محمَّد بنَ مَسْلمة كسر سيفَ الزُّبير، ثم خطب أبو بكر واعتذر إلى النَّاس وقال: واللهِ ما كنتُ حريصًا على الإمارةِ يومًا ولا ليلةً، ولا سألتُها اللهَ في سِرٍّ ولا علانيةٍ، فقَبِلَ المهاجرونَ مقالتَه، وقال عليٌّ والزبيرُ: ما [غصَبنا] إلا لأنَّنا أُخِّرْنا عن المشورة، وإنا نرى أبا بكرٍ أحقَّ النّاسِ بها، إنَّه لصاحبُ الغارِ، وإنَّا لنعرفُ شرفَه وخَيْره. ولقد أمَرَه رسولُ الله ﷺ بالصلاةِ بالنّاسِ وهو حيٌّ

ترجمہ  اور حاکم نے اپنی مستدرک میں عفان ابن مسلم سے،اور انہوں نے وہیب سے مفصل طور پر ایسے ہی روایت کی ہے، جیسے ہم پہلے بیان کر چکے ہیں اور ہمیں بھی محاملی عن القاسم، ابنِ سعید، ابنِ مسیب عن علی ابنِ عاصم عن جریری، عن ابی نضرہ کے طریق سے یہ روایت ملی ہے۔ انھوں نے بھی حضرت علیؓ اور زبیرؓ کے متعلق تصریح کی ہے کہ حضرت علیؓ وحضرت زبیرؓ نے پہلے دن ہی بیعت کر لی تھی ۔ اور موسیٰ ابنِ عقبہ نے اپنی مغازی میں سعد ابنِ ابراہیم سے روایت کی ہے اور انہوں نے اپنے باپ سے روایت کی ہے اور فرمایا ہے کہ میرے والد عبدالرحمٰن بن عوفؓ حضرت عمرؓ کے ساتھ تھے، پھرحضرت ابوبکر صدیقؓ نے خطبہ دیا اور لوگوں سے عذر بیان کرتے ہوئے فرمایا: خدا کی قسم میں شب و روز میں کسی وقت بھی امارت و خلافت کا طلبگار نہ تھا اور نہ ہی میں نے اللّٰہ تعالیٰ سے کبھی ظاہر اور پوشیدہ تمنا کی تھی۔

پس مہاجرین نےحضرت ابوبکرؓ کی اس تقریر کو تسلیم کر لیا اور حضرت علیؓ و حضرت زبیرؓ نے فرمایا کہ ہمیں صرف یہی اعتراض ہے کہ ہم مشورہ سے رہ گئے ورنہ ہم جانتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ روئے زمین کے لوگوں سے زیادہ حقدارِ خلافت ہیں اور وہ تو رسولِ خداﷺ کے صاحبِ غار ہیں اور ہم ان کے شرف اور خیر کو اچھی طرح سے جانتے ہیں۔مزید برآں حضورﷺ نے اپنی زندگی اقدس میں ابوبکر صدیقؓ کو نماز کے لئے لوگوں کا امام بنایا۔

حضرات اس روایت سے تقریباً 9 امور ظاہر ہو رہے ہیں جو نہایت قیمتی اور عالی شان ہیں:

1):- حضرت علیؓ اور حضرت زبیرؓ نے ابوبکر صدیقؓ کے دستِ حق پرست پر روزِ اول بیعت کر لی تھی۔

2):- جمیع صحابہ کرامؓ ابو بکر صدیقؓ کی بیعت پر متفق تھے اور حضرت علیؓ اور زبیرؓ نے بھی مجمع عام میں بیعت فرمائی تھی۔

3):- حضرت ابوبکر صدیقؓ کو خلافت کا خیال ہی کبھی نہیں آیا۔ شیعہ حضرات کا یہ بہتان عظیم ہے کہ حضرت ابوبکرؓ تو مسلمان ہی خلافت کے لئے ہوا تھا اور جبراً لے لی۔

4):- یہ حدیث خبرِ واحد نہیں ہے بلکہ سب نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

5):- سیدنا علیؓ نے سیدنا صدیقؓ پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہ فرمایا صرف مشورہ کا سوال پیدا ہوا۔

6):-حضرت علی المرتضیٰؓ اور حضرت زبیرؓ کی نظر میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ سب سے زیادہ خلافت کے حقدار تھے۔

7):- سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو رسولِ خداﷺ نے اپنی زندگی میں لوگوں کے لئے نماز کا امام بنایا تھا۔

8):-سیدنا علیؓ نے سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی خلافت پر آیتِ غار سے استدلال فرمایا اور آپ کو یارِ غار اور صاحبِ رسولﷺ کے محبوب لقب سے ملقب فرمایا۔

9):-سیدنا علیؓ نے بھی اس امامتِ نماز سے آپ کی خلافت پر استدلال کیا کہ حضورﷺ نے خود ان کو امام اور خلیفہ بنایا تھا۔ اور اگر اس کے ساتھ ہی استیعاب کی روایت کوملا لیاجائے تو فرمانِ سیدنا علیؓ واضح ہو جائے گا کہ نماز دین کا کام تھا۔ اس پر جب رسولِ خداﷺ صدیقؓ کی امامت پر راضی تھے تو ہم دنیاوی خلافت پر کیوں راضی نہ ہوں۔

حضرت فاتحِ اعظمؒ نے اپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوے فرمایا: کہ یہاں تجدیدِ بیعت کے متعلق کچھ عرض کر دینا بھی خالی از فائدہ نہ ہو گا۔ کتابوں میں تجدیدِ بیعت کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اسےعظیم الشان مؤرخ حافظ ابن کثیرؒ نے البدایہ والنہایہ کے صفحہ 305 پر تحریر فرمایا ہے:

رای علیؓ بعد وفات سیدہ  فاطمةؓ ان يجدد البيعة مع ابي بكر كما متذکرہ فيما بعد ان شاء الله تعالے ما تقوم له من البيعته قبل دفن رسول اللہﷺ

ترجمہ سیدنا علیؓ نے دیکھا کہ وہ حضرت فاطمہؓ کی وفات کے بعد سیدناابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تجدید کرے جیسا کہ ہم آگے چل کر بیان کریں گے اور اس بیعت کا ذکر بھی کریں گے جو آنحضور ﷺکے دفن سے پہلے وقوع پذیر ہوئی تھی۔

پھر ابن کثیرؒ نے کتاب مذکورہ بالا کے صفحہ 07 پر فرمایا ہے:(صرف ترجمہ ملاحظہ ہو)

اور سیدنا علیؓ کی شان کے لائق بھی یہی ہے اور وہ روایات بھی یہی ثابت کرتی ہیں جن سے سیدنا علیؓ کا سیدنا صدیقؓ کے ساتھ نماز پڑھنا، اور واقعہ ذی القصہ کی طرف اکٹھا ہوکر نکلنا جیسا کے ہم آگے جاکر بیان کریں گے اور مجلس میں حاضر ہو کر مشورہ دینا اور کاموں میں نصیحت کرنا ثابت ہوتا ہے۔ باقی جو بعض احادیث میں وارد ہوا ہے کہ سیدنا علیؓ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ہاتھ پر بیعت بعد وفاتِ حضرت فاطمہؓ کی تھی اور حضرت فاطمہؓ کی وفات اپنے والد بزرگوار کے چھ ماہ بعد ہوئی۔ یہ دوسری بیعت کا ذکر ہے پہلی بیعت کا ذکر نہیں ہے۔

حضرات اس روایت سے بھی چند امور ظاہر ہو رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ہاتھ پر دو دفعہ بیعت کی تھی۔ بخاری و مسلم کی روایتوں سے بیعت ثانی ثابت ہوتی ہے لیکن بیعتِ اول کا انکار ان میں نہیں ہے اور اہلِ سنت ثانی بیعت کے قائل ہیں۔

لہٰذا بیعتِ ثانی کو بخاری ومسلم نے بیان کر دیا اور بیعتِ اول کو باقی محدثین کرام نےبیان فرما دیا۔ تو اہلِ سنت دو بیعتوں کے قائل ہیں جو سیدنا علیؓ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ہاتھ پر کی تھیں۔ پہلی بیعت فوراً کر لی تھی اور دوسری بیعت چھ ماہ کے بعد فرمائی تھی ۔

اسی کتاب البدایہ والنہایہ کے جلد 5 صفحہ 407 پر مرقوم ہے۔

فهذه البيعةُ التي وَقَعَتْ من عليٍّ، ، لأبي بكرٍ، رضی ﷲ عنہما، بعد وفاةِ فاطمة رضی اللہ عنہا، بيعةٌ مُؤَكِّدةٌ للصُّلْحِ الذي وقعَ بينهما، وهي ثانيةٌ للبيعة التي ذكرناها أولًا يومَ السَّقيفة، كما رواه ابن خُزَيْمة وصَحَّحَهُ مسلم بن الحَجّاج، ولم يكنْ علىٌّ مجانباً لأبي بكرٍ هذه الستةَ أشهرٍ، بل كان يُصلّي وراءه ويحضُرْ عِنْدَه للمَشورةِ، وركبَ مَعَهُ إلى ذي القَصَّة

ترجمہ: یہ بیعت جو سیدنا علیؓ نے بعد وفات سیدہ فاطمہؓ، سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے کی تھی یہ صلح صفائی کے لئے بیعت موکدہ تھی اور یہ دوسرى بیعت تھی۔ اور پہلی بیعت وہ تھی جو سقیفہ بنو ساعدہ میں کی گئی تھی جس کو ہم ذکر کر چکے ہیں، اور اسی طرح یہ روایت ابنِ خزیمہ نے بیان کی ہے اور مسلم ابنِ حجاج نے اسکی تصحیح کی ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ سیدنا  علیؓ ان چھ ماہ میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے جدا نہ ہوئے بلکہ ان کے پیچھے نماز پڑھتے تھے اور مشورہ کے لئے تشریف لاتے تھے۔ ذوالقصہ کی لڑائی میں سیدنا صدیق اکبرؓ کے ساتھ تھے۔

حضرات ان روایات سے مندرجہ ذیل امور ثابت ہو رہے ہیں.

1):- کہ سیدنا علیؓ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے دست حق پرست پر برضا ورغبت بیعت فرمائی۔

2):- سیدنا علیؓ، سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے وزیر اور مشیر تھے۔

3):-سیدنا علیؓ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو اپنا خلیفہ اور امام تسلیم کر کے ان کے پیچھے نمازیں پڑھیں ۔

4):-سیدنا علیؓ ہر مصیبت اور تکلیف میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ رہے تھے حتیٰ کے قتالِ مرتدین کے وقت بھی ساتھ تشریف لےگئے۔

5):-یہ روایت بالکل سند کے لحاظ سے سولہ آنے صحیح ہے۔

اس کتاب البدایہ والنہایہ جلد 7 صفحہ 22 پر یوں لکھتے ہیں:-

ركبَ الصّدّيقُ أيضًا في الجيوش الإسلامية شاهرًا سيفه مسلولًا، من المدينة إلى ذي القصة، وهي من المدينة على مرحلةٍ، وعليُّ بن أبي طالب يقودُ براحلةِ الصّدّيق رضی ﷲ عنہ، 

لما برزَ أبو بكر إلى القصّة واستوى على راحلته، أخذ عليُّ بن أبي طالب بزمامها وقال: إلى أين يا خليفةَ رسولِ الله؟ أقول لك ما قال رسول الله ﷺ يوم أُحُدٍ: لمّ سيفَكَ ولا تَفْجَعْنا بنفسك، وارجع إلى المدينة، فواللهِ لئن فُجعنا بك لا يكونُ للإسلام نظامٌ أبدًا، فرجع.

ترجمہ: واقعہ ذی القصہ میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ جیوش الاسلامیہ میں شامل ہو کر مدینہ سے اپنی تلوار کو ننگا کئے ہوئے نکلے، اور مقام ذو القصہ جو مدینہ منورہ سے ایک منزل دور ہے، اس کی طرف بڑھے تو سیدنا علیؓ، سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی سواری کو پکڑ کر چلا رہے تھے۔

جب سیدنا ابوبکر صدیقؓ نکلے اور اپنی سواری پر سوار ہوئے، سیدنا علیؓ شیرِ خدا نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی سواری کی باگ پکڑ کر فرمایا: اے خلیفۂ رسولﷺ کہاں جا رہے ہیں۔ میں آپؓ کو وہی الفاظ کہوں گا جو رسولِ خداﷺ نے اُحد کے دن کہے تھے۔ اپنی تلوار کو میان میں کر لیجئے اور اپنی ذات کی وجہ سے  ہمیں تکلیف نہ دیجئے، اور مدینہ منورہ کی طرف لوٹ جائیے۔ پس خدا کی قسم اگر آپؓ کو لڑائی میں تکلیف ہوئی تو اسلام میں پھر کبھی نظام نہ ہوگا۔ تو  پھر سیدنا صدیق اکبرؓ، سیدنا علیؓ کے مشورہ کے مطابق مدینہ لوٹ آئے۔

اس روایت سے چند امور ظاہر ہورہے ہیں:

1):-سیدنا علیؓ ذی القصہ کی لڑائی میں شریک تھے۔

2):-سیدنا علیؓ، سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو خلیفۂ رسولﷺ مانتے تھے۔

3):- سیدنا علیؓ، سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے دلی ہمدرد تھے اور خاص دوست تھے۔

4):- سیدنا علیؓ، سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو اسلام کا منظم، ماوٰی اور ملجا خیال کرتے تھے۔

مولاناؒ نے تقریر کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا۔

بیعتِ صدیقی کے بعد تمام کام سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے مشورہ سے ہوئے حتیٰ کہ جنازہ رسولِ مقبولﷺ بھی مشورہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے ہوا تھا۔ دیکھو میرے ہاتھ میں البدایہ والنہایہ ہے اس کی جلد پنجم صفحہ367  پر لکھتے ہیں:-

قَدْ قَدَّمنا أنَّهم  اشْتَغَلوا ببَيْعَةِ الصّدّيق بقيةَ يومِ الاثنين وبعضَ يوم الثلاثاء، فلمَّا تَمَهَّدَت وتَوطَّدَتْ وتَمَّتْ، شرعوا بعد ذلك في تَجْهيزِ رسولِ اللَّهﷺ مُقْتَدين في كل ما أشْكَلَ عليهم بأبي بكر الصّدّيق رضی ﷲ عنہ .

ترجمہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین، سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی بیعت میں دو شنبہ کے دن اور سہ شنبہ کے بعض دن میں مشغول رہے، اور جب خلافت مضبوط و استوار ہو گئی۔ تو آنحضرتﷺ کے غسل و کفن میں مشغول ہوئے، سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے مقتدی بن کر ہر اس کام میں جس میں کوئی مشکل پیش ہوتی تھی شرکت کرتے تھے۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضور نبی کریمﷺ کا غسل و کفن، دفن، جنازه، قبر وغیرہ امورِ تمام سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے حکم سے سر انجام پائے لہٰذا روافض(شیعہ) کا یہ کہنا کہ "سیدنا ابوبکر صدیقؓ تو جنازہ رسولﷺ میں بھی شامل نہیں ہوئے" غلط و ہذیان ثابت ہوا۔

اس کے بعد حضرت مولانا رحمہ اللّٰہ نے اپنی تقریر ختم فرمائی اور لوگ رحمتِ خداوندی سے مالا مال ہوکر گھروں کو تشریف لے گئے۔