Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

افتراء: سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا نے مردوں کو غسل کر کے دکھایا۔

  مولانا ابو الحسنین ہزاروی

افتراء: سیدہ عائشہؓ نے مردوں کو غسل کر کے دکھایا۔

(بخاری مسلم مترجم وحید الزمان)

الجواب

1- روافض کی خصلت و عادت دھوکہ دینے کی ایسی ہے جو کبھی ان سے جدا ہونے والی نہیں ہمیشہ ایک درست اور صحیح بات کو ایسا ٹیڑھا بھونڈا بنا کر پیش کرتے ہیں کہ دیکھنے والا حیران ہو کر رہ جاتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں یہ جو عنوان اختیار کیا وہ رافضی دماغوں میں موجود گندگی کا ڈھیر ہے گویا گڑ کا منہ کھل گیا ہو۔ اِس عنوان کو پڑھتے ہیں ذہن میں جو نقشہ اُبھرتا ہے وہ بہت گھناؤنا اور شرافت سے دور ہے جیسے سیدہ عائشہ صدیقہؓ غسل فرما رہی ہوں اور غیر محرم مرد دیکھ رہے ہوں حالانکہ خدا شاہد ہے یہ مطلب نہ حدیث پاک کا ہے اور نہ ہی یہ واقع کے مطابق ہے بلکہ اِس گھناؤنے عنوان سے حدیث پاک کے ہر لفظ کا دامن بالکل پاک ہے۔ بلکہ بات صرف اتنی ہے کہ سیدہ عائشہؓ سے ان کے رضاعی بھائی اور رضاعی بھانجے نے یہ مسئلہ دریافت کیا کہ جب غسل فرض ہو جائے تو کتنے پانی سے غسل ہو سکتا ہے تو سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے ایک صاع پانی منگوایا پھر جائے غسل میں پردہ اور حجاب میں غسل کیا یہ بتلانے کے لئے کہ جب ایک صاع پانی سے عورت غسل کر سکتی ہے جس کے بال بھی ہوتے ہیں تو مرد بدرجہ اولیٰ اتنے پانی سے غسل کر سکتا ہے۔ مگر رافضی قلم نے اس بات کو کیا سے کیا بنا ڈالا ہے۔ 

2- ارباب دانش انصاف فرمائیں ابوسلمہؓ سیدہ عائشہؓ کے رضاعی بھانجے ہیں اور حضرت عبیداللّٰہ بن یزید سیدہ عائشہؓ کے رضاعی بھائی ہیں بھائی اور بھانجے کو شرعیت کا مسئلہ بتانا اور اس کی وضاحت کرنا ایک بڑی بہن اور خالہ کیلئے کسی طرح بھی معیوب نہیں۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے بھائی اور بھانجے کی موجودگی میں حجاب اور پردے میں غسل کیا ان تینوں باتوں کی وضاحت حدیث پاک کے الفاظ میں موجود ہے۔

1- دخلت على عائشة انا و اخوها من الرضاعة.

2- فسألها عن غسل النبي صلى الله عليه وسلم-

3 - بيننا وبينها ستر وفي حديث بيننا و بينها حجاب.

(الف) کہ سائل آپ کے بھائی وغیرہ قریبی محرم تھے۔

(ب) انہوں نے غسل کا مسئلہ پوچھا کہ آپﷺ کتنے پانی سے غسل فرماتے تھے۔

(ج) جب ان کی ماں برابر بہن نے غسل کیا تو ان کے اور ان کے درمیان پردہ تھا۔ ان تمام باتوں کو سامنے رکھ کر فرمائیے۔

1-کیا یہ عنوان جو روافض نے اختیار کیا حدیث رسولﷺ کا مزاح اور ظالمانہ اقدام نہیں؟

2 کیا یہ اعتراض سراسر سوئے مزاج کی علامت نہیں؟

ارباب انصاف ذرا عزت و غیرت کا لحاظ رکھتے ہوئے غور فرمائیں کہ تقریبا ہر گھر میں ماں بہن بیٹی ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ وہ نہاتی بھی ہوں گی اور ان کے نہانے کے وقت ان کے بھائی باپ وغیرہ بھی گھر میں ہوتے ہوں گے جو مرد ہیں تو کیا یہ عنوان اختیار کرنا کہ وہ فلاں کی بہن بیٹی یا ماں نے مردوں کے سامنے غسل کیا۔ کیا ایسا کہنا درست ہو گا ؟ جبکہ گھر میں ماں بہن وغیرہ نے اپنے مرد بھائی باپ وغیرہ کے گھر ہوتے ہوئے غسل کیا۔

بعین یہی صورت مذکورہ مقام پر پائی جا رہی ہے کہ بہن نے بھائی کے گھر میں ہوتے ہوئے حجاب میں غسل کیا جس کی وضاحت بصراحت حدیث میں موجود ہے مگر اس کے باوجود محض آتش جہنم کی طرح بعض جسموں میں پرورش پانے والی آتش حسد کو تسکین دینے کے لیے یہ گھناؤنا اور بھونڈا عنوان اختیار کیا گیا۔ ارباب انصاف ہی فیصلہ فرمائیں جب کسی عام خاتون کے بارے میں جبکہ اُس نے بھائی وغیرہ کی موجودگی میں گھر کے اندر باپردہ غسل کیا اس پر مذکورہ عنوان کی طرح کوئی جملہ بول دیا جائے تو اسے غیرت کو چیلنج کرنا قرار دیا جاتا ہے اور اس طرح کے جملے کہنا سننا کوئی برداشت نہیں کر سکتا تو کیا ایک سیدہ عائشہ الصدیقہؓ زوجه رسولﷺ ہی اتنی مظلوم رہ گئیں کہ ایک ایسا شخص جو متعہ جیسی عبادت کی موجودگی میں جزم و یقین سے اپنا نسب نہیں ثابت کر سکتا وہ اس مقدمہ پر ایسی ظالمانہ تعبیر اختیار کرے اور اسے کوئی پوچھنے والا نہ ہو؟ 

3- رہا یہ مسئلہ کہ سائل نے غسل کے بارے میں سوال کیا ہے اس سے یہ کیسے جان لیا گیا کہ سائل کا مقصد غسل میں استعمال ہونے والے پانی کی مقدار تھی۔ تو اس سلسلہ میں عرض ہے کہ امام بخاریؒ نے یہ روایت باب الغسل بالصاع ونحوہ میں درج کی ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سائل نے یہ پوچھا تھا کہ غسل کے لیے کتنا پانی کافی ہو سکتا ہے۔