Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا عراق کی طرف خروج

  حامد محمد خلیفہ عمان

سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے عراق کی طرف خروج کو اگر گہری نگاہ سے دیکھا جائے، تو صاف نظر آئے گا کہ یہ خروج مختلف الاطراف فتنہ کے مقدمات میں سے ایک مقدمہ تھا، جس کے جال کے تار و پود ہر جانب پھیلے ہوئے تھے اور اس کی آگ کی لپٹوں نے متعدد معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہوا تھا۔ یہ فتنہ اس قدر دقیق اور زیر زمین تھا کہ اس کی پشت پر کارفرما خفیہ ہاتھ دکھائی اور سجھائی نہ دیتا تھا۔ پھر اس قدر پے درپے واقعات رونما ہوتے چلے گئے کہ سچ کو جھوٹ سے جدا کرنے کی کسی کو مہلت ہی نہ مل سکی۔ کیونکہ حالات نہایت سرعت کے ساتھ ادل بدل رہے تھے اور پیش منظر نہایت برق رفتاری کے ساتھ بدلتا چلا جا رہا تھا کہ کسی کی نگاہ اس پر ٹھہرنے نہ پا رہی تھی، ہوش و خرد کو قابو کر لینے والے ان واقعات میں غور و تدبر اور فکر و نظر کی گنجائش کا نکلنا ناممکن سا ہو گیا تھا۔ شاید ان تمام متغیر اور تبدیل ہوتے حالات کے پیچھے اہل کوفہ کا ہاتھ تھا اور یقینا تھا۔ جن کی پوری کوشش تھی کہ اس سے قبل کہ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما یزید کی بیعت کر لیں اور ان پر حقائق منکشف ہوں، جناب حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی سازش کے جال میں بری طرح جکڑ لیا جائے۔ چنانچہ کوفہ کے اوباشوں نے مسلم بن عقیلؓ کی نصرت کا غل مچا دیا۔ جب مسلم بن عقیلؓ کو یقین ہو گیا کہ اہل کوفہ کی کثرت ان کی مدد پر آمادہ ہے، تو انہوں نے سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو کوفہ چلے آنے کا خط لکھ دیا۔ جس کو دیکھ کر سازشیوں کو یقین ہو گیا کہ ان کی سازش کامیابی کی طرف گامزن ہو گئی ہے۔ چنانچہ اب انہوں نے اہل کوفہ کی صفوں میں افواہیں اڑانی شروع کر دیں، جس سے ایسی بد دلی پھیلی کہ ہر ایک اپنے اپنے گھر جا گھسا۔ جبکہ اس سے قبل اہل کوفہ کی سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ طویل خط و کتابت ہو چکی تھی اوران کے مابین مراسلت پایۂ تکمیل کو پہنچ چکی تھی۔ یہ وہی لوگ تو تھے جنہوں نے مسلم بن عقیلؓ کا بھرپور استقبال کیا تھا اور انہیں اپنی مدد کی یقین دہانی کرائی تھی۔ ان لوگوں کے اسی ولولہ اور جوش و خروش کو دیکھتے ہوئے ہی تو مسلم بن عقیلؓ نے خط لکھ کر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ چلے آنے کی دعوت دی تھی اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے تمام استفساری خطوط کا زبردست تسلی آمیز جواب لکھ بھیجا تھا۔

مسلم بن عقیلؓ کا سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے اس بات کا مطالبہ کرنا کہ وہ اپنے اہل سمیت کوفہ چلے آئیں، اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں ان غدار کوفیوں کی باتوں پر پورا یقین ہو گیا تھا۔ لیکن ان کوفیوں نے مسلم بن عقیلؓ سے بدعہدی اور غداری کرتے ذرا دیر نہ لگائی اور انہیں بے یار و مددگار باغیوں کے حوالے کر دیا۔ حتیٰ کہ خود اس کوفی نے یہ شرم ناک حرکت کی تھی جس نے انہیں اپنی مدد ونصرت اور تائید و حمایت کا بھرپور یقین دلایا۔

ادھر سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو مسلم بن عقیلؓ کے ایسی کسمپرسی کی حالت میں مارے جانے کا مطلق علم نہ تھا۔ بلکہ آپ جلد از جلد کوفہ روانہ ہونے کی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے تاکہ تاخیر نہ ہو جائے۔ امام ابن کثیر رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:

’’سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے جب کوفہ روانہ ہونے کا پختہ عزم کر لیا، تو ایام ترویہ میں مسلم بن عقیلؓ کے قتل سے ایک دن قبل مکہ سے روانہ ہوئے۔ یاد رہے کہ مسلم بن عقیلؓ یوم عرفہ کو قتل ہوئے تھے۔ لوگ آپ کے خروج کے ارادوں کو سن کر بے حد غم زدہ ہو گئے اور نہیں آپ پر بے حد ترس آیا۔ لوگوں نے آپ کو کوفہ جانے سے روکنے کی ازحد کوشش کی۔ اہل رائے اور ارباب محبت و عقیدت نے آپ کو عراق نہ جانے کا مشورہ دیا اور انہیں مکہ میں ٹھہرے رہنے کو کہا۔ ان کوفیوں نے سیدنا علی اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہما کے ساتھ جو جو غداریاں اور عیاریاں کی تھیں، ان حضرات نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے اس سب کو ذکر کیا۔‘‘ (البدایۃ و النہایۃ: جلد، 8 صفحہ 172)

لیکن سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اکابر کی بات نہ مانی، کیونکہ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما یہ سمجھتے تھے کہ وہ دلیل پر ہیں، وہ یہ کہ اہل کوفہ نے ان کی بیعت کر لی ہے۔ اہل کوفہ کا ان سے یہ رابطہ کوئی آج کا نہ تھا۔ اس کا آغاز سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی وفات سے ہو چکا تھا اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد تو اس رابطہ میں بے پناہ زور آ گیا تھا۔ گویا اہل کوفہ کا سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ غیر منقطع رابطہ کب سے قائم تھا اور وہ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو اس بات کا یقین دلانے کے لیے کب سے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے کہ انہیں سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ بے پناہ عقیدت و محبت ہے اور وہ ان کی خاطر جان و مال قربان کرنے سے کبھی دریغ نہ کریں گے۔

چنانچہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد بھی اہل کوفہ کا ایک وفد جناب حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے پاس آیا تھا اور آپ کو اس بات کی دعوت دی کہ آپ معاویہ (رضی اللہ عنہ) کی بیعت ترک کر دیں تاکہ ہم آپ کی بیعت کریں اور یہ بھی کہا کہ ہمیں آپ کی اور آپ کے بھائی کی رائے معلوم ہے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کو یہ جواب دیا: ’’مجھے امید ہے رب تعالیٰ میرے بھائی کو خوں ریزی روکنے اور بند کرنے کی نیت پر نیک اجر دے گا اور مجھے ظالموں سے جہاد کرنے کی محبت پر نیک اجر دے گا۔‘‘ (تاریخ الاسلام للذہبی: جلد، 1 صفحہ 556 مختصر تاریخ دمشق، باب جوامع حدیث مقتل الحسین: جلد، 2 صفحہ 440)

کچھ لوگوں نے سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے بھائی محمد بن حنفیہ سے بھی رابطہ کیا اور انہیں کوفہ خروج کر آنے کی دعوت دی مگر انہوں نے انکار کیا۔ محمد بن حنفیہ نے اپنے بھائی حسین رضی اللہ عنہ کو آ کر سارا قصہ گوش گزار کر دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ: یہ لوگ ہمارے خونوں کے پیاسے ہیں۔ یہ سن کر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ بے حد مغموم و مضطرب ہو گئے، وہ اس بات کا فیصلہ نہ کر پا رہے تھے کہ ان کے ساتھ جائیں یا نہ جائیں۔ (تاریخ الاسلام: جلد، 1 صفحہ 556 مختصر تاریخ دمشق: جلد، 2 صفحہ 440)

پھر جب لوگوں نے یزید بن معاویہ کی بیعت کر لی تو یزید کی بیعت نہ کرنے والوں میں ایک سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ اہل کوفہ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دَور میں بھی ان کے خلاف خروج کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے ان کے ساتھ خط و کتابت رکھتے تھے لیکن سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے اس بات سے ہمیشہ انکار کیا تھا۔ (مختصر تاریخ دمشق، باب جوامع حدیث مقتل الحسین: جلد، 2 صفحہ 440)

کیونکہ سیدنا حسین اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان محبت و مودت اور عقیدت و احترام کا بے پناہ تعلق قائم تھا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا وفد شام سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے یزید بن معاویہ کے ساتھ مل کر غزوۂ قسطنطنیہ میں بھی شرکت کی تھی۔ حضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما شام گئے، تو جناب معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کی خدمت میں ایک ہی وقت میں دو لاکھ درہم پیش کیے۔ (تاریخ الاسلام للذہبی: جلد، 2 صفحہ 83)

یہ نصوص بتلاتی ہیں کہ خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دَور میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور آل بیت رسول میں زبردست عقیدت و محبت کا تعلق تھا۔ اس کی تاکید و تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ خود جناب حسین رضی اللہ عنہ نے اسبابِ خروج کی تحقیق نہ کی تھی بلکہ فتنہ پروروں نے آپ پر خروج کرنے کا اصرار کیا تھا اور اپنے مکر و باطنیت کے ہتھیاروں کو استعمال کرتے ہوئے آپ پر معاملہ ملتبس کر دیا تھا حتیٰ کہ آپ یہ اعتقاد کرنے لگے کہ خروج کے جواز کے اسباب مہیا ہو گئے ہیں اور یہ خروج امت کی اصلاح اور ان کے حال کو زیادہ بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے۔ جنابِ حسین بن علی رضی اللہ عنہما عالم الغیب نہ تھے اور نہ آپ اس سوء ظن کا شکار ہی تھے، جو اعدائے صحابہ کے عقیدہ و عمل کا اساسی رکن ہے۔ ان لوگوں کی کل کائنات بغض صحابہ ہے اور اسی بغض نے انہیں آلِ بیت رسولﷺ کے پاک خونوں سے اپنے ناپاک ہاتھ رنگنے پر اکسایا تھا اور آج تک یہ طبقہ مسلمانوں کے ساتھ اسی مکر و فریب اور بغض و نفرت کے رویے کو روا رکھے ہوئے ہے۔