شیعہ حضرات سے 25 سوالات
مولانا محمد جمال صاحب دارالعلوم دیوبندشیعہ حضرات سے 25 سوالات
سوال نمبر 1: شیعہ عقیدہ کے مطابق خلفائے ثلاثہ کا جہاد شرعی اور اسلامی جہاد نہیں تھا بلکہ ظالمانہ خون ریزی اور غارت گری تھی اس لیے کہ جہاد ایک خالص اسلامی فریضہ ہے جس کا مقصد اعلاء کلمۃ اللہ ہے اور یہ مقصد کافر سے ادا نہیں ہو سکتا بقول امام باقر آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد چار صحابہؓ حضرت علی، حضرت مقدادؓ،حضرت سلیمان فارسیؓ اور حضرت ابوذرؓکے علاوہ تمام صحابہؓ مرتد ہو گئے تھے(ترجمہ حیات القلوب حصہ دوم صفحہ 923 ملا باقر مجلسی بحوالہ الاجوتیہ الاربعين)
مذکورہ شیعی عقیدہ کے مطابق خلفائے ثلاثہؓ کے زمانہ کی تمام کاروائیاں ناجائز تھیں اور ان میں حاصل ہونے والا تمام مال حرام اور ناجائز تھا اور ان لڑائیوں میں شریک ہونے والے تمام صحابہؓ بشمول حضرت علیؓ ظالم اور جابر تھے اور جن حضرات نے مذکورہ مال غنیمت حصہ لیا وہ حرام اور ناجائز تھا حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں ایران فتح ہوا اور ایرانی شہزادی شہر بانو قید ہو کر مال غنیمت میں شامل ہوئیں اور بقول شیعہ حضرات غارت گری کا مال جب تقسیم ہوا تو ایرانی شہزادی شہر بانو حضرت حسینؓ کے حصے میں آئیں اور ان سے حضرت حسینؓ کے صاحبزادے علی بن حسین معروف بزین العابدین جو کہ شیعوں کے چوتھے امام پیدا ہوئے اب سوال یہ ہے کہ حرام مال سے حاصل کی ہوئی باندی کو مردانہ تصرف میں رکھنا کیسا ہے اور اس باندی کی اولاد کیسی ہوگی اور آئندہ نسل کا کیا حکم ہوگا؟
سوال نمبر 2: حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں بنو حنفیہ کے مرتدین سے جہاد کیا تھا جس میں حضرت علیؓ بھی شریک تھے اور مال غنیمت میں خولہ نامی ایک باندی قید ہو کر آئی تھی بقول شیعہ حضرات اس غارت گری کے مال میں سے مذکورہ باندی حضرت علیؓ کے حصے میں آئی تھی اور اس باندی سے حضرت علیؓ کے صاحبزادے محمد بن حنیفہ پیدا ہوئے تھے اب سوال یہ ہے کہ حضرت علیؓ کا خولیٰ نامی باندی کو قبول کرنا اور مردانہ تصرف میں رکھنا جائز تھا یا نہیں اگر جائز تھا تو اس کی کیا دلیل ہے اور اگر ناجائز ہے تو گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوئے حالانکہ معصوم سے گناہ کبیرہ کا ارتکاب محال ہے اور حضرت علیؓ شیعہ عقیدہ کے مطابق معصوم ہیں۔
سوال نمبر 3: حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کافریا مرتد تھے یا نہیں اگر نہیں تھے تو ان پر تبرہ کرنا اور لعنت بھیجنا کیسا ہے بقول شیعہ حضرات شیخینؓ پر لعنت بھیجنا نہ صرف جائز بلکہ صبح و شام لعنت بھیجنے سے ستر نیکیاں حاصل ہوتی ہیں جیسا کہ اہل تشیع کی کتاب مفتاح الجنان میں لکھا ہے ٫ان لعن الشیخین
فی کلی صباح و مساع موجب لسبعین حسنتا۔
(مفتاح الجنان بحواله مختصر تحفہ 235)
اور اگر کافر یا مرتد تھے جیسا کہ شیعوں کی معتبر کتاب آیات بینات میں صحابہ کرامؓ کے بارے میں لکھا ہے کہ: ہر کہ در کفراں شک کند کا فرست
شیعہ حضرات کی دوسری مستند کتاب حق الیقین میں لکھا ہے چوتھے امام زین العابدین نے فرمایا ابوبکرؓ و عمرؓ دونوں کافر تھے جو ان کو دوست رکھے وہ بھی کافر ہے تو حضرت علیؓ نے اپنے لخت جگر حضرت ام کلثومؓ کا جو کہ حضرت فاطمہؓ کے بطن سے تھی حضرت عمرؓ سے نکاح کیوں کیا؟ اور اگر حضرت عمرؓ نے جبراً نکاح کر لیا تھا جیسا کہ بس شیعہ کا خیال ہے تو حضرت علیؓ نے مزاحمت کیوں نہیں کی جبکہ حضرت علیؓ الشجع صحابؓہ تھے خاص طور پر حضرت عمرؓ پر حضرت علیؓ کو دیکھ کر لرزہ طاری ہو جاتا تھا جیسا کہ شیعہ حضرات کی کتابوں میں مذکور ہے۔
سوال نمبر 04: شیعہ حضرات آپسی اختلاف کو عداوت اور دشمنی پر محمول کرتے ہیں حالانکہ اختلاف کے لیے دعوت اور دشمنی لازم نہیں حضرت امام ابو حنیفہ سے صاحبین نے بہت سے مسائل میں اختلاف کیا ہے حالانکہ اس سے اختلاف کو کوئی دشمنی اور عداوت پر محمول نہیں کرتا اگر بزعم شیعہ حضرات اختلاف کے لیے دشمنی اور عداوت لازم ہے تو 12 اماموں نیز بعض اہلِ بیت کے درمیان یہی اختلاف تھا، صاحب فصول ابو مخنف سے روایت کرتے ہیں
ان الحسین بن علی یبداؤل کراھۃ لمافعلہ اخوہ الحسن من صلع معاویہ ویقول لو جن جز کان انفی کان اھب الی فعله اخی۔۔۔(بحوالہ جوتیہ الاربعین تفسیر صافی 389)
ترجمہ: جب حضرت حسنؓ نے امیر معاویہؓ سے صلح کر لی تو حضرت حسینؓ اپنی سخت ناراضگی اور ناگواری کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ کاش اس صلح کی بجائے میری ناک کاٹ جاتی تو بہتر تھا مگر اختلاف و محالفت کے لیے بقول شیعہ حضرات عداوت و دشمنی لازم ہیں جس کی وجہ سے اہل بیت سے اختلاف رکھنے والا ان کا دشمن ہے اور دشمنی اہل بیت سے موجب کفر ہے تو امام حسن اور حسینؓ کے درمیان خلع ہلاکت کے مسئلہ میں شدید اختلاف تھا اور اختلاف کے لیے چونکہ بقول شیعہ حضرات عداوت و دشمنی لازم ہیں لہذا امام حسنؓ اور حسینؓ کے بارے میں کہ درمیان بھی دشمنی ثابت ہوئی جو کہ طرفین کے لیے موجب کفر ہے لہذا جو توجیح حسنین کے اختلاف کی ہوگی وہی توجیح دیگر صحابہؓ کے اختلاف کی ہوگی۔۔۔
سوال نمبر 05: محمد بن حنفیہ جو کہ حضرت علیؓ کے صاحبزادے ہیں اور شیعوں کے ایک فرقہ کے امام ہیں کے درمیان اور علی بن حسین معروف بزین العابدین جو کہ اثنا عشری شیعوں کے چوتھے امام ہیں کہ درمیان امامت کے مسئلے میں شدید اختلاف تھا محمد بن حنفیہ زین العابدین کی امامت کے منکر اور اپنی امامت کے مدعی تھے امام حسینؓ کے حقیقی پوتے زید بن علی بن حسین کے اپنے حقیقی بھائی باقر بن علی بن حسین (جو کہ پانچویں امام ہیں) کے ساتھ مسئلہ امامت میں شدید اختلاف تھا حتی کہ امام باقر کی امامت کے منکر تھے زید بن علی نے اس مسئلہ میں ہشام بن حکم سے مناظرہ بھی کیا تھا اور آخر تک دعوی امامت سے دستبردار نہیں ہوئے یہاں تک کہ لڑ کر شہید ہو گئے، امام جعفر صادق کی اولاد بھی آپس میں برسر پیکار رہی، عبداللہ بن افطح بن امام جعفر صادق اور ان کے بھائی اسحاق بن جعفر دونوں امامت کے دعویدار تھے، اور آپس میں ایک دوسرے کے امامت کے منکر، گیارہویں امام حسن عسکری اور ان کے حقیقی بھائی جعفر بن علی کے درمیان شدید اختلاف تھا یہاں تک کہ تفسیق اور تذلیل تک نوبت پہنچی شیعہ حضرات بھی اس سے خوب واقف ہیں ان تمام حالات کے باوجود۔ شیعہ حضرات ان بزرگان اہل بیت کو واجب التعظیم سمجھتے ہیں اگر محض اختلاف و مخالفت سبب کفر ہے تو ان بزرگانِ اہل بیت کا کیا حکم ہوگا جن کے درمیان شدید اختلاف تھا.
سوال نمبر 06: تاریخ الاائمہ کی روایت کے مطابق پانچ اماموں کی وفات زہر خورانی سے ہوئی تھی اب سوال یہ ہے کہ ائمہ مذکورین کو زہر کی آمیزش کا علم تھا یا نہیں اگر نہیں تھا تو شیعہ حضرات کا یہ عقیدہ کہ ائمہ کو ماکان یا مایکون کا علم ہوتا ہے غلط ثابت ہوا اور اگر زہر کی آمیزش کا علم تھا مگر اس کے باوجود بھی کھایا تو خود کشی ہوئی جو کہ معصیت اور حرام ہے اور اس کا مرتکب فاسق و فاجر اور مخلد فی النار ہے۔ ائمہ کی معصومیت کا دعوی غلط ہوا حالانکہ شیعہ حضرات کے عقیدہ کے مطابق امام کا معصوم ہونا ضروری ہے۔
سوال نمبر 07: اذان میں جو اشہدان امیرالمومنین علی ولی اللہ مذہب شیعہ میں زائد ہوا ہے اگر دعویٰ یہ ہے کہ ایسی اذان رسول اللہﷺ کے زمانہ سے مروّج اور مروی ہے تو اس کی کیا سند ہے اور اگر بعد میں اجازت ہوئی تو کس امام کے زمانہ میں؟
سوال نمبر 08: امام مہدی کے روپوش ہونے کی کیا وجہ تھی اگر دشمن کے خوف سے رو پوشی واجب تھی تو امام حسینؓ نے یزید کے مقابلہ میں رو پوشی اختیار کیوں نہیں کی؟ اور واجب نہیں تھی تو تبلیغ دین اور رہنمائی قوم جو کہ واجب تھی اس کو ترک کر کے رو پوشی کیوں اختیار کی؟
سوال نمبر 09: امام مہدی نے اگر رو پوشی جان کے خوف سے اختیار کی تو بے معنی تھی اس لیے کہ بقول شیعہ حضرات ائمہ کی موت ان کے اختیار میں ہوتی ہے اور اگر ایزاء جسمانی کے خوف سے روپوشی اختیار کی تو یہ اللہ کے راستے میں تکلیف برداشت کرنے نیز جہاد جیسی عبادت سے فرار تھا؟
سوال نمبر 10: انبیاء اور ائمہ ہدایت خلق کے لیے ہوتے ہیں جب ائمہ نے تقیہ کے ذریعے حق کو چھپایا تو حق ظاہر کرنے والا کون ہوا، اور شیعہ حضرات تک حق کیسے پہنچا، اور جب ائمہ سے ہر مسئلہ میں دو زبانی ہوئی تو لوگوں نے حق کیسے پہچانا، زرارہ بن عین جو کہ اصول کافی کے راویوں میں ایک اہم راوی ہیں اور وہ روایت کرتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق سے ایک مسئلے میں دریافت کیا انہوں نے مجھے جواب دیا اس کے بعد اسی نشست میں ایک دوسرا شخص آیا اس نے بھی وہی مسئلہ دریافت کیا جو میں نے کہا تھا تو امام صاحب نے اس جواب سے مختلف جواب دیا جو مجھے دیا تھا، پھر اسی مجلس میں ایک تیسرا شخص حاضر ہوا اور اتفاق سے وہی مسئلہ دریافت کیا کہ جو میں نے کیا تھا،اس مرتبہ امام صاحب نے پہلے دونوں جواب سے مختلف جواب دیا جب یہ دونوں صاحب چلے گئے تو میں نے امام صاحب سے عرض کیا کہ اے رسول خدا کے فرزند عراق کے رہنے والے دو آدمی جو آپ کے شیعوں میں سے تھے آئے اور ان دونوں نے آپ سے ایک ہی مسئلہ دریافت کیا آپ نے دونوں کو مختلف جواب دیا یہ کیا بات ہوئی؟ تو امام صاحب نے فرمایا اے ذرارہ اسی میں ہماری تمہاری خیریت اور بقا ہے۔
اب آپ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ ان تین جوابوں میں سے کون سا حق اور کون سا باطل ہے۔
سوال نمبر11: شیعہ حضرات امام غائب کے مانند قران غائب کا بھی عقیدہ رکھتے ہیں چنانچہ رسالہ نافع 21 مصنف محسن علی شاہ لکھتا ہے کہ جناب امیر نے جو قران جمع کیا تھا وہ اس وقت شیعہ سنی دونوں کے پاس موجود نہیں ہے مگر ہے ضرور کہیں بھی ہو۔
اصول کافی صفحہ617اورصفحہ 139 کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علیؓ نے جو قرآن مرتب فرمایا تھا وہ موجودہ قرآن سے بالکل مختلف تھا حضرت علیؓ کی زندگی میں ان کے پاس رہا اور اس کے بعد ان کی اولاد میں سے ائمہ کے پاس رہا، اور اب وہ امام غائب کے پاس ہے، اب سوال یہ ہے کہ جس قرآن کے آپ قائل ہیں اس کو تو امام غائب لے کر غائب ہو گئے جیسا کہ مذکورہ بالا دونوں روایتوں سے معلوم ہوتا ہے، اور موجودہ قران بقول شیعہ حضرات محرف اور ناقص ہے تو پھر آپ کے پاس کون سی کتاب ہے ہدایت ہے جس سے آپ ہدایت حاصل کرتے ہیں؟
سوال نمبر 12: بقول شیعہ حضرات امام مہدی 259 ھجری میں اصلی قرآن لیکر غائب ہو گئے رسول اللہﷺ کے عہد مبارک سے امام مہدی کی غیبوبت تک تقریبا اڑھائی سو سال کی طویل مدت تک اصلی قرآن کا صرف ایک ہی نسخہ کیوں تھا، جس کو امام مہدی لے کر غائب ہو گئے، امتِ مسلمہ کتاب ہدایت بلکہ اس کے دیدار سے بھی محروم ہو گئی،
جبکہ مذکورہ مدت میں شیعہ مکتب فکر کی حکومتیں بھی قائم ہوئیں اور اہل تشیع کا بہت ممالک میں کافی فروغ بھی حاصل ہوا ہے خصوصاً حضرت علی ؓکا دور خلافت تو اصلی قرآن کی اشاعت کا نہایت سنہرا موقع تھا، اس ڈھائی سال کی مدت میں اصلی قرآن کی اشاعت کیوں نہیں ہوئی؟
سوال نمبر 13: بقول شیعہ حضرات صحابہؓ نے قرآن محرف کر دیا سوال یہ ہے کہ حضرت علیؓ نے قرآن کو کیوں محرف ہونے دیا؟ اور بزور شمشیر تحریف کو کیوں نہیں روکا؟ جبکہ صحابہؓؓ میں حضرت علیؓ سب سے زیادہ بہادر تھے، جس کی وجہ سے آپ کواسد اللہ کا لقب ملا تھا، زور آور اورطاقتور ہونے کے علاوہ بقول شیعہ حضرات جناب حضرت علیؓ کے پاس اسم اعظم، انگشتری سلیمانی، عصائے موسی بھی تھے۔ اگر اسم اعظم کو پڑھ کر اور انگشتری کو پہن کر اور عصائے موسی کو ہاتھ میں لے کر ذرا اشارہ کر دیتے تو قرآن میں تحریف کرنے والے دشمنانِ خدا اور رسول آنِ واحد میں بھی بھسم ہو جاتے، حضرت علیؓ اپنی نظروں کے سامنے قرآن کو محرف اور برباد ہوتے ہوئے خاموش تماشائی بنے ہوئے دیکھتے رہے، حضرت علیؓ تو حضرت علیؓ ہیں ایک معمولی مسلمان جس کے اندر ذرا برابر بھی ایمانی حرارت ہو قرآن کو اس طرح برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتا، کم از کم اپنی خلافت کے زمانہ میں اصلی قرآن کی اشاعت فرما دیتے تاکہ شیعہ حضرات کو اصلی قرآن کی زیارت نصیب ہو جاتی۔
سوال نمبر 14: بروایت امام جعفر صادق تقیہ کا تارک ایسا گنہگار ہے، جیسا کہ نماز کا تارک ایک تو امام حسینؓ نے یزید کے مقابلے میں تکیہ کیوں نہیں کیا حتیٰ کہ پوری جماعت کو شہید کرادیا۔
سوال نمبر 15: حضرت علیؓ نے کوفہ کی جامعہ مسجد میں برسرِ ممبر ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں شیخینؓ کی بارہا تعریف فرمائی یہاں تک کہ فرمایا کہ جو شخص مجھے شیخینؓ کی فضیلت دے گا میں اس کو مفتری کے مانند کوڑوں کی سزا دوں گا،حضرت علیؓ نے یہ تقیہ مردوں سے کیا تھا یا زندوں سے؟ اگر زندوں سے کیا تھا تو اس کی کیا ضرورت تھی؟ اس لیے کہ کوفہ میں سب حضرت علیؓ کے حمایتی اور عاشق تھے، اگر کوئی منافق ہو بھی تو اس سے کہا خوف،اگر مردوں سے خوف کی وجہ سے تقیہ کیا تھا تو یہ خلاف عقل ہے۔
سوال نمبر 16: بقول شیعہ حضرات حضرت علیؓ زندگی بھر تقیہ کرتے رہے اور بزعم خود مرتد اور کافروں کے پیچھے نماز پڑھتے رہے، کبھی ایک لفظ ان کی مخالفت میں نہیں بولے، یہاں تک کہ اپنی صاحبزادی ام کلثومؓ ایک کہنہ مشق مرتدو کافر حضرت عمؓر کو دے دی، حتیٰ کہ اپنے زمانہ خلافت میں بھی تقیہ کا لباس زیبِ تن کیے رہے،متعہ جیسی نفع بخش چیز جس کو حضرت عمرؓ نے حرام کر دیا تھا حلال نہ کر سکے اور نہ ہی باغ فدک کو واپس لے سکے، تو بالفرض اگر شیخینؓ کے زمانے میں خلافت مل بھی جاتی تو کیا فائدہ ہوتا؟ اس وقت بھی لباس تقیہ میں ملبوس ہو کر وہی کرتے جو اپنی خلافت کے زمانے میں کیا۔
سوال نمبر17: خلعت امامت جو کہ شیعی عقیدہ کے مطابق رسالت نبوت کے مانند من جانب اللہ عطا کردہ ہوتی ہے تو کیا رسول اور امام کے لیے جائز ہے کہ اپنی رسالت و امامت سے کسی کافر کے حق میں دستبردار ہو جائے، اور خلعت امامت اس کے گلے میں ڈال دے اگر جائز نہیں ہے تو امام حسن نے خلعت امامت امیر معاویہؓ کو سپرد کر کے حرام کا ارتکاب کیوں کیا؟ حالانکہ شیعہ حضرات کے عقیدہ کے مطابق امام معصوم ہوتا ہے، اور اگر امام حسنؓ کا امیر معاویہؓ سے صلح کر کے خلعت امامت سے دستبردار ہونا جائز تھا تو حضرت امام حسینؓ نے جائز کام پر امام حسنؓ کو کیوں برا کہا، یہاں تک کہ فرمایا کہ کاش اس صلح کی بجائے میری ناک کاٹ دی جاتی تو بہتر ہوتا۔ ( بحوالہ مذکورہ)۔
سوال نمبر 18: ابن مطہر حلّی کی روایت کے مطابق 18 ذی الحجہ 10 ہجری کو غدیرخم کے مقام پر صحابہؓ کے مجمع میں رسول اللہﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا من کنت مولاہ فعلی مولاہ اور بقول شیعہ یہ حضرت علیؓ کی خلافت کا اعلان عام تھا، تو پھر بروایت امام باقر رسول اللہﷺ نے مرض الوفات میں حضرت عباسؓ کو طلب فرما کر انصار اور مہاجرین کے رو برو یہ کیوں فرمایا کہ اے عباسؓ میں انتقال کرنے والا ہوں، لہذا تم میری خلافت قبول کر کے مجھے خلیفہ بنانے کے اہم کام سے سبکدوش کردو حضرت عباسؓ نے فرمایا کہ خلافت کے لائق تو حضرت علیؓ ہیں، مجھ میں اس کے تحمل کی صلاحیت نہیں ہے،
اب سوال یہ ہے کہ مرض الوفات سے تقریبا تین ماہ قبل بقول شیعہ حضرات غدیر خم کے مقام پرحضرت علیؓ کو خلیفہ نامزد کر دیا تھا اور انصار و مہاجرین کے مجمع میں اس کا اعلان بھی فرما دیا تھا۔ تو اب حضرت عباسؓ کے خلیفہ بنانے کے کیا معنی، اور اگر بالفرض بنایا تھا تو حضرت عباس کو خلافت کی پیشکش کر کے حضرت علیؓ کو عہدہ خلافت سے معزول کر دیا۔
سوال نمبر 19: شیعہ حضرات ائمہ اثنا عشریہ کے لیے عصمت ثابت کرتے ہیں اور یہ عقیدہ یہ رکھتے ہیں کہ امام پیدائشی معصوم ہوتا ہے،اور ثبوت میں آیت تطہیر
اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًا۔
کو پیش کرتے ہیں حالانکہ آیت تطہیر کی دلالت ثبوت عصمت پر نہیں ہے اس لیے کہ آیت میں اہل بیت کے نجاست سے پاک ہو جانے کی خبر نہیں دی گئی بلکہ ان امور پر عمل کرنے کی دعوت دی گئی ہے جن پر عمل کرنے سے طہارت حاصل ہوتی ہے، اگر اللہ تعالی کو اہل بیت کے لیے اسباب طہارت مقصود ہوتی تو عبارت اس طرح ہوتی اذھب اللہ عنکم الرجس و طھّرکم تطھیرا۔۔کہ اللہ تعالی نے تم لوگوں کو گندگی اور نجاست سے پاک کر دیا معلوم ہوا کہ آیت تطہیر کی دلالت اثبات عصمت پر نہیں ہے، اس کے برخلاف آیت سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے اہل بیت کو پاک صاف کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا ہے، اور پاک صاف اسی چیز کو کیا جاتا ہے جو گندی اور ناپاک ہو، پہلے ہی سے پاک صاف ہو تو اس کو پاک کرنے کی کیا ضرورت ہے یہ تو تحصیل حاصل ہے۔
سوال نمبر 20: اگر کوئی شیعہ کسی سنی سے صحیح بات بلا تقیہ کہنا چاہے تو کس طرح کہے چونکہ تقیہ کے لیے شیعوں کے یہاں کوئی شدید قید نہیں ہے لہذا شیعہ کی ہر بات میں تقیہ کا احتمال ہے۔ اگر کوئی شیعہ مخاطب کو اپنی بات کا یقین دلانے اور باور کرانے کے لیے کہتا ہے کہ میں یہ بات بلا تقیہ کہہ رہا ہوں تو اس کی کیا دلیل ہے کہ بلا تقیہ میں تقیہ نہیں ہے لہذا بیان فرمائیں کہ مخاطب کو بات کے بلا تقیہ ہونے کا یقین دلانے کی کیا صورت ہوگی؟
سوال نمبر 21 : حضرت ابوبکر صدیقؓ کی شان میں اللہ تعالی نے کی اذ قال لصاحبه فرمایا ہے یعنی اللہ نے ابوبکر صدیقؓ کو رسول اللہﷺ کا صحابی فرمایا تو شیعہ حضرات حضرت ابوبکر صدیقؓ کو صحابی کیوں نہیں مانتے؟
سوال نمبر 22: شیعہ حضرات حضرت علیؓ کی خلافت بلا فصل ثابت کرنے کے لیے دعوت ذوالعشیرہ کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں(دعوت ذوالعشیرہ کی تفصیل محاضرہ3، صفحہ 29 پر ملاحظہ فرمائیں) اور اپنے دعوے کے لیے نص قطعی سمجھتے ہیں، روایت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے دعوت ذوالعشیر کے موقع پر 40 افراد کے روبرو دعوت توحید پیش فرماتے ہوئے فرمایا تھا کہ جو شخص میری اس دعوت و تبلیغ کے معاملہ میں تعاون کرے گا، وہ میرا خلیفہ ہوگا اور آپ کی دلی خواہش تھی کہ تمام حاضرین اسلام قبول کر لیں لہذا یہ عین ممکن تھا کہ تمام حاضرین یا اکثر ایمان قبول کرتے ہوئے آپ کا تعاون کرنے پر آمادہ ہو جائیں، اب سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں خلیفہ کون ہوتا، اگر سب خلیفہ ہوتے تو اجتماع خلفہ لازم آتا اور اگر ایک ہوتا تو ترجیح بلا مرجع لازم آتی۔
سوال نمبر 23: شیعہ حضرات کا اجماعی عقیدہ ہے کہ حضرت علیؓ بلکہ تمام ائمہ من جانب اللہ امامت کے لیے نامزد ہیں حالانکہ روایت ذوالعشیر کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علیؓ خلافت کے لیے من جانب اللہ نامزد نہیں تھے، بلکہ حاضرین میں سے وہ شخص خلافت کا مستحق تھا جو سبقت کر کے آپ کی دعوتِ توحید پر لبیک کہہ دیتا، اور وہ کوئی بھی ہو سکتا تھا۔ اور اگر حضرت علیؓ خلافت کے لیے نامزد تھے تو آپ کا دعوت کے موقع پر یہ فرمانا کہ جو شخص میرے اس دعوت و تبلیغ کے معاملے میں تعاون کرے گا وہ میرا خلیفہ ہوگا بے معنی بات تھی اور اگر خلافت کے لیے صرف اتنی بات کافی تھی کہ شہادتین کو قبول کر لے اور تعاون کرے تو یہ کام تو ساری امت کے نے کیا ہے، اور بنی عبدالمطلب میں سے حضرت حمزہؓ، حضرت جعفر، حضرت عبیدہ ابن الحارثؓ وغیرہ نے بھی شہادتین کو قبول کیا اور تعاون بھی کیا حالانکہ یہ حضرات خلیفہ نہیں ہوئے؟
سوال نمبر 24: حضرات شیعہ کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ رسول اللہﷺ کو یہ بات معلوم تھی کہ حضرت علیؓ اللہ کے نزدیک محبوب ترین ہیں، اور اسی وجہ سے اللہ تعالی نے حضرت علیؓ کو رسول اللہﷺ کے بعد خلیفہ نامزد کیا تھا، حالانکہ خود حدیث ہے طائر جس کو شیعہ حضرات حضرت علیؓ کی خلافت میں بلا فصل کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں معلوم نہیں تھا اس لیے کہ رسول اللہﷺ نے عام الفاظ کے ساتھ دعا فرمائی تھی۔
اللہم ائتنی باحب الخلق الیک والی یاکل معی ھذا الطیرافجا علی، آپ نے فرمایا اللہ تو کسی ایسے شخص کو میرے ساتھ اس پرندہ کو کھانے کے لیے بھیج دے جو تیرے اور میرے نزدیک تمام مخلوق سے زیادہ محبوب ہو تو حضرت علیؓ تشریف لائے۔
اگر رسول اللہﷺ حضرت علیؓ کے بارے میں احب الناس عند اللہ ہونا معلوم ہوتا تو رسول اللہﷺ دعا کے لیے عام الفاظ کی بجائے حضرت علیؓ کا نام لے کر اس طرح فرماتے اے اللہ تو حضرت علیؓ کو جو کہ تیرے اور میرے نزدیک میں احب الناس ہے کھانے میں شریک ہونے کے لیے بھیج دے (حدیث طیر کی تفصیل کے لیے محاضر4/5صفحہ17 ملاحظہ فرمائیں)
سوال نمبر 25: شیعہ حضرات کے نزدیک معتبر ترین کتاب نہج البلاغہ جو کہ ان کے نزدیک حضرت علیؓ کے اقوال کا مستند ترین مجموعہ ہے میں مذکور ہے کہ حضرت علیؓ نے اپنے دوستوں سے فرمایا تھا
لا تلقو عنہ مقالۃ بحق ومشورۃ بعدل فانی لست بفوق اٰن احطی و لااٰمن من ذلک فی فعلی،یعنی تم حق بات کے لیے اور انصاف آمیز مشورہ دینے سے باز نہ رہو اس لیے کہ میں خطا اور لغزش سے بالاتر نہیں ہوں، اور نہ اپنے فعل میں خطا سے مامون ہوں ظاہر ہے، کہ یہ الفاظ کسی معصوم کے نہیں ہو سکتے اگر حضرت علیؓ کا فرمان واقعہ کہ مطابق اور سچ نہیں تھا تو کذب ہے، اور کاذب معصوم نہیں ہو سکتا اور اگر واقعہ کے مطابق تھا تو حضرت علیؓ نے خود فرمایا کہ میں معصوم نہیں ہوں بہرحال دونوں صورتوں میں عصمت معدوم ہے۔
اَللّٰهُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اِتِّبَاعَهُ وَأَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَارْزُقْنَا اجْتِنَابَهُ.» آمین یا رب العالمین۔