میں شیعہ ذاکر سے سنی مسلمان کیوں ہوا
مولانا محمد اسماعیل میسوِیمیں شیعہ ذاکر سے سنی مسلمان کیوں ہوا
داستانِ هدایت ...... حافظ طالب حسینؒ
خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہم کو سنی مسلمان پیدا کیا اور حضور پاکﷺ کا امتی بنایا بے شک خدا تعالٰی نے انسان کو اشرف المخلوقات کے لقب سے نوازا مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک طرف تو خدا تعالٰی نے انسان کو اتنا عظیم بنا دیا کہ انسان کو فرشتوں سے سجدہ کروا دیا اور دوسری طرف انسان نے اپنے آپ کو اتنا حقیر بنا دیا کہ خود انسان نے بتوں کو سجدہ کرنا شروع کر دیا۔ سب اس خالق کائنات کی حکمت اور قدرت ہے کہ وہ جس کو چاہے راہ ہدایت پر لے آئے۔ جس نے خدا تعالی کو ایک مان لیا اور اس کے حکموں پر لبیک کہہ دیا اور نبی پاکﷺ کی لائی ہوئی شریعت پر یقین کے ساتھ ایمان لے آیا، قرآن و سنت کو مشعل راہ سمجھا، وہ کامیاب ہوگیا، کچھ اس طرح سے ھدایت پانے والا مرنے سے آٹھ روز قبل شیعہ ذاکر سے سنی مسلمان ہونے والا حافظ طالب حسینؒ ہے جس کو جیل میں شیعوں نے زہر دے کر قتل کر دیا اس سے ہماری پہلی ملاقات سنٹر جیل کوٹ لکھپت میں ہوئی جس کی کہانی ، رونگٹے کھڑے کر دینے والی، انتہائی ناقابل فراموش حقائق پر مبنی اور سنسنی خیز ہے، جو ہمارے ایمان کو تازہ کر دیگی اب ہم اس کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔
ملاقات
ہم مورخہ 4 دسمبر 1993 ء کو ڈسٹرکٹ جیل سرگودھا سے سنٹر جیل کوٹ لکھپت منتقل ہوئے کیونکہ ہمارے ایک مقدمہ کے تحت اس کیس کی باقاعدہ سماعت سنٹر جیل کوٹ لکھپت لاہور میں شروع ہوئی کیونکہ اس مقدمے میں غازی حق نواز جھنگوی شہیدؒ جو صادق گنجی کیس میں سزائے موت کا قیدی ہونے کی وجہ سے کوٹ لکھپت جیل کی سلاخوں کے پیچھے پابند سلاسل ہے وہ ہمارا مقدمہ وار تھے۔ جیل میں اس وقت اسیران ناموس صحابہؓ تقریباً اٹھارہ ساتھی بند تھے تمام ساتھیوں کی محبت و خلوص، پیار اور جیل میں ان کے مقام کو دیکھ کر دل خوشی سے جھوم اٹھا مشن جھنگوی کیلئے ان کے پختہ ارادے اور سچے جذبات دیکھ کر ایمان تازہ ہو گیا، اور جیل میں ان کے تبلیغی انداز سے کئی غیر مسلم مسلمان ہو گئے اس کے علاوہ گنجی کیس کے تمام ساتھی بھائی حق نواز جھنگویؒ وسیم بلوچ، اور بھائی محمد ریاض مشن جھنگوی کیلئے جوں کے توں ثابت قدم ہیں، کچھ روز جیل میں گزرنے کے بعد بھائی ریاض صاحب جو جیل میں سپاہ صحابہؓ کے امیر ہیں اور اپنی ذہانت، پیار و محبت، خوبصورت انداز اور اپنی عقل سلیم سے جیل کے ماحول کو اچھے طریقے سے چلا رہے ہیں انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں آپ کو ایک آدمی سے ملا کر لاتا ہوں میرے ساتھ میرے ساتھی حاجی منیر احمد کونسلر آزاد، خالد جونیجو بھی تھے وہ ہم کو بیرک نمبر 9 میں لے گئے وہاں انھوں نے ہم کو ایک جگہ ایک آدمی کے پاس بیٹھنے کو کہاوہ شخص شکل وصورت سے اور میلے لباس سے معلوم ہوتا تھا کہ شدید بیمار ہے۔ بھائی ریاض نے اس شخص سے ہمارا تعارف کروایا اس شخص کا جسم نڈھال تھا ریاض بھائی اور وہ باتوں میں مصروف ہو گئے اس کی باتوں سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کو کسی جھگڑے کی وجہ سے مخالف گروپ سے خوف و اندیشہ ہے تو میں نے بھائی ریاض صاحب پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟ تو میرے اس سوال پر وہ شخص میری طرف دیکھتے ہوئے بولا کہ دعا کیجئے میں صحت یاب ہو جاؤں اور میں آزاد ہو جاؤں تو پھر دیکھنا کہ میں پچاس پچاس کے ہجوم میں شیعیت کو کیسے بے نقاب کروں گا اور میں چیلینج کے ساتھ وعدہ کرتا ہوں کہ میں شیعوں کی گردن پر ننگی تلوار ثابت ہوں گا۔ یہ بات کہہ کر اس کی آنکھوں سے پانی بھرآیا اور اس نے اپنی داستان سنانا شروع کی۔
تعارف
میرا نام طالب حسین ولد محمد حسین ہے سکنہ غازی آباد مین بازار نزد چونگی تھانہ غازی آباد کا رہائشی ہوں۔ میرے چار بچے ہیں، میں سخت قسم کا متعصب ذاکر شیعہ تھا
میں شیعوں کی ھزاروں مجالس جلسے اور محفلوں میں شرکت کر چکا ہوں میں ذاکر حافظ طالب حسین کے نام سے مشہور تھا، میں شیعوں میں ان کے ایک بڑے ذاکر کی حیثیت
رکھتا ہوں میں نے جیل میں بھی شیعیت کے فروغ کیلئے بہت پروگرام کیے، ان کو شیعہ مذہب کے مطابق متعہ کے فضائل اور دیگر مسائل بھی بتاتا تھا۔ میں ایک بہت بڑے
ذاکر شیعہ سے سنی مسلمان کیوں ہوا؟ میرے اندر کا انسان کب اور کیوں بیدار ہوا؟
اس کے بارے میں تو میں صرف یہ کہوں گا کہ خدا کی حکمت اور قدرت کا کام ہے کہ جب چاہے جس کو چاہے راہ ھدایت پر لے آئے اور قبول کرلے۔
المناک داستان
میں تقریبا ڈیڑھ سال سے جیل میں ہوں ، جیل میں کافی شیعہ حضرات تھے۔ ان میں خصوصاً قربان علی اور اس کا بیٹا سخاوت علی جو جیل میں شیعوں کے لیڈر تھے انھوں نے مجھ سے پہلے بہت تعاون کیا اور مجھ سے جیل میں شیعوں کے مذھبی پروگرام کروائے، کچھ عرصہ کے بعد قربان علی ضمانت پر رہا ہو گیا میرے کیس کے بارے میں قربان علی ہمارے گھر آنے جانے لگا میرے کیس میں میرے مخالف مدعی حضرات نے میرے گھر والوں کو تنگ کرنا شروع کر رکھا تھا۔ پیچھے گھر میں میری بیوی اور جوان بیٹے و بیٹیاں تھیں تو میں نے ایک شیعہ ہونے کے ناطے قربان علی سے اپنے گھر والوں کو پناہ دینے کیلئے بات کی کہ کچھ عرصہ کیلئے میرے گھر والوں کو اپنے گھر رکھ لو جب میں آؤں گا تو میں خود لے جاؤں گا، اس نے ہاں کر دی۔
متعہ کی آڑ میں اجتماعی آبروریزی
مگر کچھ ہی عرصہ کے بعد قربان علی اور اس کے بیٹے جج ذو الفقار اور بھتیجے افتخار
نے میری بیوی اور بیٹیوں سے پناہ دینے کے عوض کافی عرصہ تک ان کی اجتماعی آبروریزی کرتے رہے۔ ان کی عزت سے کھیلتے رہے آخر کار میری بیوی اور بیٹیاں جب ملاقات پر جیل آئیں تو انھوں نے مجھ بے بس، بد نصیب باپ کو اپنی درد بھری روداد سنائی انھوں نے کہا تم نے جن کے پاس ہمیں پناہ کیلئے بھیجا تھا وہ انسان نہیں درندے ہیں۔ ان تمام لوگوں نے مل کر ہماری عزت کو تارتار کیا، ہم کسی کومنہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ طالب حسینؒ نے کہا یہ سن کر میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی مجھ پر آسمان ٹوٹ پڑا اور میں نے آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہا "یا اللہ یہ تو نے میرے ساتھ کیا کیا ؟ میں غم و غصہ کی حالت میں بھڑکتے جذبات سے پاگل ہورہا تھا اور میری غیرت اور ضمیر مجھ کو جنجھوڑ رہا تھا میں کیا کرتا ، میں مجبور تھا تو اس پر میں نے سخاوت علی سے (جو قربان علی کا بیٹا تھا) اور اس کے ساتھیوں سے احتجاج کیا اور لعن طعن کی ان سے اس المناک المیے اور ان کی بھیانک حرکات پر جھگڑا کیا مگر انھوں نے جواب میں بڑی عجیب بات کی اور کہا کہ ہم نے کوئی گناہ یا غلط کام نہیں کیا ہم نے وہی کیا جو تم ہم کو بتاتے تھے، ہم نے تو تمہارے بتائے ہوئے متعہ کے فضائل کو سامنے رکھتے ہوئے متعہ ہی کیا جس کی تم ہم کو تربیت اور ترغیب دیتے تھے، انھوں نے کہا ہم نے عبادت کی ہے کوئی برائی نہیں کی۔
شیعیت سے توبہ
اس وقت میری آنکھیں کھلیں اور متعہ کی حقیقت میری سامنے آئی تو میں نے کہا کہ اگر عبادت متعہ کرنے کا نام ہے تو جس مذہب کی یہ عبادت ہے اور اس میں یہ جائز ہے تو میں اس مذہب پر اور آپ پر لعنت بھیجتا ہوں اور میں آج سے پکا سنی مسلمان ہوں تو طالب حسینؒ نے کہا میں اس روز سے شیعہ مذهب کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر سنی مسلمان ہو گیا اور کلمہ پڑھ کر ایمان لے آیا۔
دوبارہ شیعہ کرنے کی کوشش
سوال ... میں نے کہا کہ اب آپ کی ایسی حالت کیوں ہے؟
ذاکر طالب حسین نے بتایا کہ مجھے شدید تکلیف ہے میں نے شیعوں کو چیلنج کیا کہ میں تم کو پوری دنیا میں ذلیل ورسوا کروں گا اور تمہارے چہرے سے نقاب اتار کر تمہارے اصلی کرتوت اور بھیانک چہروں کو لوگوں کے سامنے اجتماعی صورت میں بے نقاب کروں گا تو شیعوں نے اس ڈر سے کہ میں سنی مسلمان ہو گیا اور اب سنیوں کے ساتھ مل کر شیعہ مذہب سے پردہ اٹھاؤں گا تو یا اس کو دوبارہ شیعہ کیا جائے یا پھر اس کو ہمیشہ کیلئے راستے سے ھٹایا جائے اس لئے انھوں نے مجھے کہا کہ تم دوبارہ شیعہ ہو جاؤ مگر میں نہ مانا۔
دھمکیاں
اب مورخہ 21 دسمبر 1993 ء بروز منگل کو قربان علی میری ملاقات پر آیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ تم باز آجاؤ اور دوبارہ شیعہ ہو جاؤ ورنہ ہم تم کو اور تمہارے بیوی بچوں کو قتل کر دیں گے مگر میں نے اس کی ایک نہ سنی اور اپنے موقف پر قائم رہا اور الٹا میں نے اس کو یہ کہا کہ تم میرے باہر آنے کا انتظار کرو تو اس پر قربان علی بولا تم باہر نہیں آؤ گے
اندر جیل ہی میں تمہاری فاتحہ خوانی ہو جائے گی اس نے مجھ کو قتل کی دھمکیاں دیں۔
زہر دے دی
اسی روز شام کو ایک نا معلوم شخص جسے میں سامنے آنے پر پہچان سکتا ہوں اور مجھ کو بعد میں اس کا پتہ بھی چل گیا وہ اسلم عرف گونا جو سخاوت علی کا مشقتی تھا مجھے ملا
اس نے انتہائی خلوص سے مجھے برفی دی اور کھانے کے لئے اصرار کیا میں نے انکار
کر دیا مگر وہ مزید اصرار کرتا رہا تو میں نے سوچا کہ یہ خلوص سے دے رہا ہے اس کا دل ٹوٹ نہ جائے تو میں نے یہ سوچ کر برفی کھالی۔ کچھ دیر بعد میری طبیعت خراب ہونا شروع ہوگئی رات کو مزید طبیعت خراب ہوگئی ، مجھے ہسپتال لے جایا گیا میں اس وقت بے ہوش تھا تو اگلے روز مجھ کو دوبارہ بیرک میں بھیج دیا گیا قے آنے پر اب میری طبیعت کچھ بہتر ہے انھوں نے سنی مسلمان ہونے کے جرم میں مجھے زہر دیا ہے، وہ میری جان کے دشمن ہیں اور مجھے مارنا چاہتے ہیں آپ خدا کیلئے مجھے اپنے پاس لے جائیں۔ اگر مجھے قتل کر دیا گیا تو میری موت کے ذمہ دار سخاوت وغیرہ ہوں گے اس نے ہم کو تحریری بیان بھی لکھ کر دیا۔ بھائی ریاض صاحب نے ذاکر طالب حسین کو تسلی دی اور ہم واپس آگئے ریاض صاحب نے ہمیں تاکید کی کہ وقتا فوقتا اس کے پاس آتے رہا کرو اس کو حوصلہ رہے گا۔
دوبارہ زہر اور انتظامیہ کی بے حسی
اگلے روز میں اور خالد بھائی اس کے پاس جانے کیلئے تیاری میں مصروف تھے اور باقاعدہ انٹرویو لے کر آنا تھا ہم کو پتہ چلا کہ طالب حسینؒ انتقال کر گیا ہم اس کی بیرک میں گئے تو بیرک والوں نے بتایا کہ رات کو اس کی طبیعت دوبارہ خراب ہو گئی تھی اور تمام رات تڑپتا رہا سسکتا رہا اور کہتا رہا کہ مجھ کو دوبارہ زہر دیا گیا ہے میری قے کو لیباٹری میں ٹیسٹ کرواؤ اور وہ سخاوت علی کا نام لے کر اس کو اپنے قتل کا ذمہ دار ٹھہراتا رہا اور تمام رات پوری جیل میں واویلا کرتا رہا کہ مجھ کو سخاوت علی نے زہر دیا ہے زہر اس کی رگ رگ میں پھیل چکا تھا، وہ تڑپتا رہا مگر کوئی بھی ڈاکٹر یا جیل کی انتظامیہ اس کے علاج کیلئے نہ پہنچ سکی ، ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے یہ سب کچھ جیل انتظامیہ اور ڈاکٹر شفقت کی ملی بھگت سے ہوا ہے۔ ڈاکٹر شفقت جو کہ سخاوت علی کا بہت قریبی تھا مگر اس روز اس نے طالب حسینؒ کے گھر والوں کی اس سے ملاقات بھی نہ کروائی حافظ ذاکر طالب حسینؒ کو صرف مسلمان ہونے کے جرم میں زہر دے کر بے دردی اور انتہائی سفاکی سے شہید کر دیا گیا مگر طبعی موت کا نام دے کر ڈاکٹروں نے رپورٹ تیار کر دی ، خدا تعالی ان ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچائے اور طالب حسین کی مغفرت فرمائے
(آمین ثم آمین)
(ماهنامه خلافتِ راشده فروری 1994 ء)