Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعہ مذھب کو خیر باد کہہ دیا

  مولانا محمد اسماعیل میسوِی

شیعہ مذھب کو خیر باد کہہ دیا

داستانِ هدایت. .. نامور مناظر مولانا شیر علیؒ

قیام پاکستان سے قبل حیدر آباد سندھ کے بعض شیعہ جاگیرداروں نے اپنے مزارعین کو وارننگ دی کہ ہماری زمین چھوڑ دے یا شیعہ مذهب اختیار کرلیں ۔ مزارعین اہلِ سنت مسلمان تھے ان پر بے پناہ ظلم کیے گئے لیکن انھوں نے اپنا مذھب نہ چھوڑا آخر مجبور ہوکر جاگیرداروں نے مناظرہ طے کیا کہ اہلِ سنت مزارعین کو مرعوب کیا جا سکے یہ مناظرہ شہر حیدر آباد سے متصل وسیع و عریض عید گاہ میں تجویز کیا گیا مذھب اہلِ سنت و جماعت کی طرف سے اعلی حضرت پیر قطبی شاہؒ ملتانی اور شیعہ مذھب کی جانب سے مولانا شیر علی ولد غلام محمد لکھنویؒ مناظر مقرر ہوئے شیعہ جاگیرداروں نے مناظرہ کا بہت بڑا پروپیگینڈا کر کے ہزاروں کی تعداد میں عوام کو جمع کیا مناظرہ کا موضوع ” ایمان اصحاب ثلاثہؓ طے ہوا یعنی شیعہ مناظر کا دعوی تھا اصحاب ثلاثہؓ سیدنا ابوبکرصدیقؓ ، سیدنا عمر فاروقؓ ، سیدنا عثمان غنیؓ نعوذ باللہ بے ایمان تھے اور مسلمان مناظر پیر قطبی شاہ ملتانیؒ نے ثابت کرنا تھا کہ مذکورہ اصحاب مومن مسلمان تھے۔

پیر صاحب کی دعا

مناظرے سے چند دن پہلے مسلمان مناظر پیر قطبی شاہ صاحبؒ نے اپنے مرشد پیر تاج محمد سہروردیؒ مادر شریف کو عریضہ لکھا کے مقابل شیعہ عالم بہت قابل آدمی ہے اور کافی عرصہ سے مناظرے کا چیلنج کرتا ہے، خط کے جواب میں تاج محمد سہروردیؒ نے صرف ایک شعر لکھ بھیجا۔

اے قطب زماں حافظ تیرا اللہ ہے،

اک تیرے گھنگھرو کی ٹھوکر سے قم باذنِ اللہ ہے

پیر تاج محمد صاحبؒ کی اسی دعا کا اثر تھا کہ اللہ تعالی نے مدد کی اور مناظرہ کے وقت پیر قطبی شاہؒ نے پہلا سوال کر کے شیعہ مناظر کے تمام راستے بند کر دیے۔

مناظرہ

پیر قطبی شاہؒ: اصحاب ثلاثہؓ نے صرف دو زمانے دیکھے نبی کریمﷺ کا تمام زمانہ اور سیدنا علیؓ کا زمانہ اگر اصحاب ثلاثہؓ مومن نہ تھے اور کافر تھے تو کس زمانے میں؟

مولانا شیر علیؒ: یہ لوگ نبی کریمﷺ کے زمانہ میں تو مومن تھے اور رسول اللہﷺ کے بعد سیدنا علیؓ کے زمانہ میں منافق بن گئے تھے۔

پیر قطبی شاہؒ: نے 28 پارہ سورۃ تحریم کی آیت :

يا ايها النبي جاهد الكفار و المنافقين...

 ترجمہ : (اے نبی کفار اور منافق سے جہاد کرو)

تلاوت فرما کر اپنی مدعی ثابت کیا کہ کیوں سیدنا علیؓ نے اس آیت پر عمل نہ کیا اگر اصحاب ثلاثہؓ کافر و منافق تھے بقول تمہارے تو سیدنا علیؓ ان سے جنگ کرتے اور سختی کرتے لیکن انہوں نے الٹا اتحاد و تعلقات کے رشتے قائم کر دیے سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کی لڑکیوں سے خود نبی کریمﷺ نے نکاح کیا، ان کو اپنا سسر بنایا اور سیدنا عثمانؓ کو اپنا دہرا داماد بنایا اور سیدنا علیؓ نے سیدنا عمرؓ کو اپنی بیٹی ام کلثومؓ دے کر اپنا داماد بنا لیا اور اپنے بیٹوں کے نام انہی کے نام پر ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ رکھے؟

مولانا شیر علیؒ: کافی کلینی کی ایک عبارت پیش کی جس میں لکھا تھا "حضرت نبی کریمﷺ نے وفات کے وقت وصیت فرمائی تھی کہ میرے بعد تم کسی سے جنگ نہ کرنا حتٰی تموت حتٰی کہ تمہیں موت آ جائے" تو اس لیے سیدنا علیؓ نے اصحاب ثلاثہؓ سے جنگ اور سختی نہیں کی۔

پیر قطبی شاہؒ: واہ سبحان اللہ! مولا علیؓ، شیر خدا موت تک مامور وصیت تھے تو 12 جنگیں سیدنا امیر معاویہؓ سے کیوں کی؟

مولانا شیر علیؒ: انہوں نے فوراً دوسرا رنگ بدلا اور جواب پیش کیا کہ مولا علیؓ کے پاس جنگ کی طاقت انتہائی کم تھی اس لیے جنگ نہیں کی۔

پیر قطبی شاہؒ : 1- علامہ کلینی نے کہا ہے "سیدنا علیؓ کے پاس 30 لاکھ 24 ہزار آدمی تھے"

2- آصف برخیا کے پاس دو اسم اعظم تھے تو تخت بلقیس سات ہزار میل سفر کر کے آنکھ جھپکنے سے پہلے حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے پیش کر دیا اور سیدنا علیؓ کو تو بہتر اسم اعظم پڑھائے گئے تھے۔

3- اور سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی جس کے جن،پری،اور پوری کائنات تابع تھی وہ بھی تو مولا علیؓ کے پاس تھی (یہ شیعہ عقیدہ کے مطابق ہے 12 مرتب) کیا ایسی طاقت سلیمانی کے ہوتے ہوئے بھی کمزور تھے؟

شیعیت سے براءت کا اعلان

یہ بات کرنے کی دیر تھی کہ ہزاروں کی تعداد میں اس اجتماع کے سامنے مولانا مناظر شیر علی صاحبؒ مبہوت ہو گئے اور دل پر انوار ھدایت وارد ہونے لگے اور ایک دم اعلان کر دیا "میں اس جھوٹے مذھب شیعہ کو چھوڑ کر اب میں اسلام قبول کرتا ہوں خداوند کریم مجھے استقامت نصیب فرمائے۔"

شیعہ مذھب سے براءت کے اعلان کے بعد سابقہ زندگی کا کفارہ ادا کرنے کے لئے مولانا شیر علیؒ نے ایک مختصر کتابچہ کی صورت میں شیعہ کے 79 عقیدے ان کی اساسی کتابوں کی روشنی میں ایسے مستند اور محکم دلائل کے ساتھ وضع کیے جس میں شیعہ کتب کی بعینہ عبارتیں اور ان پر مرتب ہونے والا نتیجہ مختصر لفظوں میں بیان کیا ہے جس نے سبائیت کا چہرہ بے نقاب کر دیا جس کا نام انھوں نے ”حقیقت مذھب شیعہ" رکھا۔

(خلافتِ راشدہ جولائی 1990ء، حقیقت مذہب شیعه صفحہ 2 تا 4)

اک کتاب نے کایا پلٹ دی

معاویہ کالونی نزد فاروق آباد کے محمد سرفراز اور غلام عباس دسویں جماعت کے طالبعلم ہیں ان کو عبدالستار جس کا تعلق اے ایس ایس سے ہے نے ایک عدد کتاب ”حقیقت مذهب شیعہ" جو مولانا شیر علیؒ نے لکھی ہے دی جب سرفراز نے کتاب دیکھی تو بہت غصہ ہوا لیکن اس کو عبدالستار نے کہا بھائی پڑھ لو بعد میں غصہ ہونا جب اس نے کتاب پڑھی تو وہ بہت پریشان ہوا اور کہنے لگا کہ اگر شیعوں کا یہ عقیدہ ہے تو پھر تو وہ کافر ہیں پھر سرفراز وہی کتاب گھر لے گیا اسکی ایک بہن جو پڑھنا لکھنا جانتی تھی اس کو پڑھائی پھر دوسرے بھائی کو پڑھائی وہ بھی بالاخر مسلمان ہو گئے۔ جب ان کے والد کو پتہ چلا تو پھر ان کے والد نے ان کو بہت مارا لیکن لڑکوں نے کہا چاہے جان سے مار دو اسلام نہیں چھوڑ سکتے پھر انھوں نے اپنی والدہ کو تمام باتیں سنائیں وہ بھی مسلمان ہوگئیں اور کہا کہ میں اپنے خاوند کو روٹی پکا کر نہیں دوں گی تب وہ تنگ آ کر گھر چھوڑ کر چلا گیا اب عبد الستار ان کو نماز یاد کرا رہا ہے۔

(ماهنامه خلافتِ راشده 1990ء)

امام باڑہ مسجد میں بدل گیا

شہدادکوٹ شہر سے 20کلومیٹر دور شہر میروخان میں امرونی چوک پر ایک جلسہ میں مناظر اہلِ سنت سید عبداللہ شاہ صاحبؒ اور فخر اھلِ سنت علامہ علی شیر حیدری صاحب مدظلہ صدر سپاہ صحابہؓ مدعو تھے معززین حسب معمول شیعہ کے کفر پر دلائل کے انبار لگاتے رہے۔ محمد علی نامی ایک شیعہ یہ تقریر اور وزن دار دلائل سن کر شیعہ مذہب سے تائب ہو کر مسلمان ہو گیا عجیب بات یہ ہے کہ محمد علی میروخان شہر میں شیعہ تنظیم کا سر پرست بھی تھا اور موصوف کا اپنا مدرسہ و امام باڑہ بھی تھا، محمد علیؒ نے نہایت جرات مندانہ اقدام کر کے امام باڑہ کو ختم کر کے اس جگہ ایک عالیشان مسجد کی بنیاد رکھ دی ہے اور وہاں روزانہ پنجگانہ نماز ادا کی جاتی ہے اور بچے قرآنی تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔

 شیعہ مذہب سے بیزاری کا ایمان افروز واقعہ

آج سے تقریبا آٹھ سال پہلے مہر محمد شریف ریاض صاحب چک نمبر 747 گ ب میں رہائش پذیر تھے ان کے والد نے انھیں ان کے نزدیکی شہر سندھیلیانوالی میں میڈیکل سٹور بنا کر دیا لہذا شریف ریاض صاحب نے میڈیکل چلانا شروع کر دیا اس میڈیکل پر کچھ شیعوں کا آنا جانا شروع ہو گیا ، ان شیعوں نے شریف ریاض صاحب کو اپنے حلقہ احباب میں لینے کے ساتھ ساتھ اپنے مذہب کی تبلیغ کرنا بھی شروع کر دی، اس طرح آہستہ آہستہ شریف ریاض صاحب ان کافروں کی چال میں آگئے اور ایسے ان کے دام میں پھنسے کہ دن رات انھی کے ساتھ رہنے لگے

شریف ریاض صاحب کے والد صاحب کو علم ہوا تو انھوں نے شریف ریاض صاحب کو ان کافروں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے روکنا چاہا تو شریف ریاض صاحب نے صاف صاف اپنے والد سے کہہ دیا کہ میں انھیں نہیں چھوڑوں گا کیونکہ ان کا مذھب صحیح ہے لہٰذا اگر تم نے مجھے زیادہ مجبور کیا تو میں تمہیں (یعنی والدین کو) چھوڑ دوں گا اور اسنے ایسا ہی کیا جب شریف ریاض صاحب والدین سے علیحدہ ہو گئے تو ان کافروں نے انھیں کسی طرح بھی والدین کی کمی محسوس نہ ہونے دی بلکہ ان کو ہر وقت ہر طرح خوش رکھنے میں کوئی کمی نہ چھوڑی اور خوراک لباس ہر قسم کی تفریح فراہم کرتے رہتے، اس طرح شریف ریاض صاحب کو انھوں نے خوب دام میں پھنسا لیا۔ شریف ریاض صاحب چونکہ ایک اچھے مقرر بھی تھے اس لئے انھوں نے شیعی مجالس میں بطور ذاکر شریک ہونا شروع کر دیا اور خوب مجالس پڑھیں۔ ایک دن اچانک ان کا ہمارے ہاں چک نمبر 662 گ ب میں آنا ہوا ہم نے بہت اصرار کیا کہ ہم آپ کو مولانا حقنواز جھنگوی شہیدؒ کی تقریر سنانا چاہتے ہیں مگر اس نے مولانا شہیدؒ کا نام سن کر بہت بہت غلط باتیں بھی کیں مگر ہم نے صبر کرتے ہوئے اس سے اجازت لیے بغیر مولانا حقنواز شہیدؒ کی یادگار پشاور چوک والی کیسٹ ٹیپ کے ذریعہ چلادی جب مولانا شہیدؓ کی کھری کھری باتیں شریف ریاض صاحب کے کانوں تک پہنچیں تو وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ وہ شخص جو کل تک کفر کا ذاکر تھا، جس کے دل میں سیدنا ابوبکرؓ، عمرؓ، وعثمانؓ کا بغض تھا اب وہ موم کی طرح پگھل رہا تھا اور اس کا دماغ پوری طرح اسلامی سانچے میں ڈھل چکا تھا ، اس نے اسی دن صرف شیعہ مذھب اور شیعی دوستی پر لعنت بھیجی بلکہ برسر عام سپاہ صحابہؓ میں شمولیت کا اعلان کیا ، والد صاحب اور والدہ صاحبہ سے معافی مانگی شیعوں سے مکمل بائیکاٹ کرنے کے بعد چک نمبر 662 گ ب میں رہائش اختیار کرتے ہوئے سپاہ صحابہؓ کی اس قدر خدمت کی کہ ہم نے ان کی خدمت کا اعتراف کرتے ہوئے چک کی سپاہ صحابہؓ کی صدارت کیلئے انھیں متفقہ طور پر منتخب کیا ھے۔

(ماهنامه خلافتِ راشده)