Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

نامور مبلغ کا مذھب اہل سنت کو خوش آمدید

  مولانا محمد اسماعیل میسوِی

نامور مبلغ کا مذھب اہل سنت کو خوش آمدید

 داستان هدایت .. شیعہ کے عظیم مبلغ سید ابوالحسن فیضی

شیعوں کے نامور مبلغ اعظم علامہ سید ابوالحسن فیضی جنھوں نے قم یونیورسٹی سے سند فراغت حاصل کی، کئی لیکچر براہ راست شیعہ راهنما آیت اللہ خمینی سے بھی سنے فراغت کے بعد پندرہ سال تک تبلیغ کی اور پھر شیعہ مذھب سے براءت کا اعلان کر دیا۔ پھر کفارہ ادا کرنے کیلئے شیعہ کے خلاف ایک کتاب لکھی جس کا نام ” نقاب کشائی“ رکھا اس کتاب نے شیعیت کا واقعی اصلی چہرہ بے نقاب کر دیا ۔ اس کتاب کے مقدمے میں اپنا یادگار واقعہ جس نے انکی زندگی کا رخ بدل دیا۔ خود لکھتے ہیں خود ان کی زبانی سنیے۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ وَالصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى سَيِّدِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِينَ وَعَلَى آلِهِ وَازْوَاجِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ أَمَّا بَعْدُ -

 تعارف

 بنده سید ابوالحسن فیضی مدت مدید، عرصہ دراز سے ملت جعفریہ کا نقیب مبلغ رہا ہے عزاداری سیدنا حسینؓ نہایت احترام عقیدت سے مناتا رہا، کراچی سے خیبر تک بڑی بڑی مجالس و محافل میں شامل ہو کر عظیم مبلغ کی حیثیت سے نوازا جاتا تھا۔ کربلا کے شہیدوں کے خون ناحق سے خوب لقمے تر ہوتے رہے۔ تقریباً پندرہ برس تک اپنی جعفری برادری میں امتیازی حیثیت سے سلسلہ تبلیغ جاری ساری رہا۔

 احساس زیاں

 میرے دل میں ہمیشہ یہ احساس رہا کہ ہمارے مبلغ اور ذاکرین حضرات کی علمی و عملی حیثیت بہت ہی کمزور ہے، پنجتن کی پاکیزہ اسٹیج پر سچ کی نسبت زیادہ جھوٹ سے کام لیا جاتا ہے اس بھولی بھالی قوم کو خوب بے وقوف بنا کر عقل و فکر سے عاری کر دیا گیا ہے ۔ شیعان پاک کے پاکیزہ منبر پر وہ مبلغ اور ذاکر کامیاب ہوتا ہے جو فضائل و مناقب کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور امہات المومنینؓ پر تبرا یعنی لعنت کرنے کے علاوہ وگتی یعنی ٹھٹھ مذاق بھی کرے۔ جو بھی تاریخ کی روشنی میں واقعات کربلا وقوع پذیر ہوئے ہیں ہمارے مبلغین حضرات اور ذاکرین حضرات بیان نہیں کرتے جو کچھ بھی بیان کیا جاتا ہے وہ سب کا سب جھوٹ کا پلندہ ہوتا ہے، ہنسنا ہنسانا ، رونا رلانا، بس اس کے سوا کچھ نہیں ، نہ اس فرقہ کی کوئی معیاری درسگاہیں ہیں اور نہ ہی کوئی اچھی تربیت گاہیں ہیں اور جو ہیں ان میں صرف فن تبلیغ کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے یعنی ان کی درسگاہوں میں فنکار اور گلو کار تیار کیے جاتے ہیں۔

ذاکروں کی علمی و عملی پوزیشن

موجودہ دور میں ہر مبلغ کے پاس ” مصباح المجالس جس کے تین چار حصے ہیں اور مولوی نجم الحسن کراروی صاحب کے چودہ ستارے اردو میں ۔اور جناب مرزا یوسف حسین صاحب کی کتابیں ہونی چاہیں بس جناب مبلغ اعظم تیار ہو جاتے ہیں ۔ ذاکرین کے لئے مرزا انیس و دبیرکی سوز خوانی کے علاوہ سرائیکی زبان میں بند ، ڈوہڑے یاد کرنے سے اچھا ذاکر تیار ہو جاتا ہے۔ یہ ہے ان کے مبلغین و ذاکرین حضرات کا معیار علم اگر ان کا عمل دیکھو تو اکثر ان میں تارک الصلوۃ، روزہ خور ، جھوٹ گوئی، افتراء پردازی، وعدہ خلافی ، اور بد عملی جیسے محاسن کے زیور سے آراستہ و پیراستہ ہیں۔

وہابی شیعه

 اگر ان میں کچھ اہلِ علم یعنی عراق و ایران کے پڑھے لکھے ہیں تو عامۃ الناس میں ان کی کوئی قدر و منزلت نہیں ہے اور ان کو وہابی شیعوں کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ کیونکہ عوام قصہ کہانیاں اور دوہڑوں کی شوقین ہو گئی ہے اور علم سے بالکل دور ہے اور نہ ہی علم سے شغف ہے ۔ مثلاً مولوی سید محمد یار صاحب، سید گلاب شاہ صاحب، مفتی عنایت علی شاہ صاحب ، مولوی محمد حسین صاحب ڈھکو وغیرہ مگر یہ حضرات بھی تبرائی شیعہ ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تبرا کرتے ہیں۔

غالی شیعه

 دوسرا گروہ غالی شیعہ سے پکارا جاتا ہے جن کی پورے ملک کے شیعوں میں شہرت ہے مثلاً مولوی محمد بشیر انصاری، مولوی آغا ضمیر الحسن ، مرزا یوسف حسین صاحب، مولوی شبیہ الحسنین صاحب محمدی ، مولوی نجم الحسن کراروی، وغیرہ یہ حضرات بھی اصحاب ثلاثہؓ اور امہات المومنینؓ پر ڈٹ کر تبرا یعنی لعنت کرتے ہیں۔ (ان کو شیعوں میں شیخی کہا جاتا ہے۔ از مؤلف )

ملنگان حیدر کرار

 ان میں ایک تیسرا گروہ ملنگان حیدر کرار کے نام سے پکارا جاتا ہے جس کا سرغنہ ملنگ صدا حسین ہے۔ یہ گروہ پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے یہ لوگ سیاہ لباس میں ملبوس پاؤں میں لوہے کے کڑے ، ہاتھوں میں گلاب، بعض کے کانوں میں بالیاں سر منڈے ہوئے ، یا لمبے لمبے بالوں کی بودیاں یعنی لٹیں ، اصول دین فروع دین سے بالکل بے پروا، ان کا نظریہ صرف علی علی کرنا ہے، اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مغلظ گالیاں دینا ہے ان کے نزدیک صرف یہی عبادت ہے، یہ سب سے زیادہ خطرناک گروہ ہے نہ تو یہ کسی کی سنتے ہیں اور نہ بک بک کرنے سے رکتے ہیں۔ یہ لوگ قریہ قریہ بستی بستی ، شہر شہر، پھرتے نظر آتے ہیں ۔ اور مسلمانوں کے گھروں کے دروازوں پر صدا دیتے ہیں اور ہر دروازے پر تبرا کرتے ہوئے بھیک مانگتے ہیں اور بھیک مانگنے کے بہانے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر لعنت کرتے ہیں اور سیدنا علیؓ کو خلیفہ بلا فصل کہہ کر آواز دیتے ہیں۔

ملنگوں کے نعرے

 مثلاً ان کا نعرہ یا تکیہ کلام یوں ہوتا ہے دمہ دم مست قلندر علی کا پہلا نمبر یا یوں کہتے ہیں او علی کے دشمن تجھ پر بے شمار ۔۔۔۔۔۔) کا سہ گدائی بھر کر مسلمانوں کے قبرستانوں پر ڈیرہ جما کر بیٹھ جاتے ہیں، بھنگ، چرس، افیون وغیرہ کھاتے ہیں شب و روز مذکورہ بالا نعرہ لگاتے ہیں۔

 نعروں کا مطلب

 ناظرین کی خدمت میں ذرا وضاحت کردوں پہلا نعرہ جو لگاتے ہیں دمہ دم مست قلندر علی کا پہلا نمبر“ اس نعرہ میں روافض کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمدﷺ کے بعد سیدنا علیؓ خلیفہ بلا فصل ہیں اور اس میں سیدنا صدیق اکبرؓ، سیدنا عمر فاروقؓ ، سیدنا عثمان غنی ذوالنورینؓ کی خلافت کا انکار ہے۔ اور دوسرا نعرہ بے شمار والا اس نعرہ میں اصحاب ثلاثہؓ اور امہات المومنینؓ کو بے شمار لعنت کرتا ہے

ملنگوں کی مکاری فریاد

  ناظرین کو جان لینا چاہیے کہ یہ گروہ بڑا خطرناک ہوتا ہے اگر ان لوگوں کو ملامت کی جائے یا ان کے کردار سے منع کیا جائے تویہ لوگ بڑا واویلا کرتے ہیں اور ان کے واویلا کرنے پر لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں اور ایک تماشہ بن جاتا ہے اور یہ مکار ملنگ رو رو کر، چیخ چیخ کر فریاد کرتے ہیں اور لوگوں کو کہتے ہیں کہ ہم غریب لوگوں پر بڑا ظلم ہوا ، ہم غریب لوگوں کو بھیک مانگنے سے روکا گیا بتاؤ لوگو ہم منہ کالے کہاں جائیں۔ اتنا شور کرتے ہیں کہ ہمارے ہی مسلمان بھائی اپنے بھائی کو الٹا ڈانٹتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کشتہ نفس اور تارک الدنیا کی گستاخی کیوں کی جلدی کرو ایسے اللہ والوں سے معافی مانگو تو اس شریف آدمی کو جان چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے یہ ہے ان لوگوں کا طریقہ کار یہ لوگ اسلام کے سخت دشمن ہیں ۔ بڑے بڑے بزرگان دین کے مزرات پر تکیہ لگائے بیٹھے ہیں۔

ملنگوں کا اجتماع

 جب ایام محرم یا چہلم کی تقریبات ہوتی ہیں تو یہ لوگ لاہور میں باواصدا حسین کے امام باڑہ میں جمع ہو جاتے ہیں مثلاً عشرہ ثانیہ محرم کی 12 تا 21 ان کا بہت بڑا ہجوم ہوتا ہے اسی یا نوے ذوالجناح نکالے جاتے ہیں شیخو پورہ اور فیصل آباد والی ٹریفک بند ہو جاتی ہے۔ شاہدرہ موڑ سے لے کر شیخو پورہ والی چونگی تک تقریبا دویا تین میل کا فاصلہ بنتا ہے ملنگان حیدر کرار کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر آتا ہے، تلواروں، چھریوں ، اور زنجیروں سے ماتم کیا جاتا ہے۔ یہ سارا حصہ سڑک کا خون سے لت پت ہو جاتا ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور امہات المومنینؓ بالخصوص جناب سیدہ عائشہ صدیقہؓ بنت صدیق اکبرؓ اور سیدہ حفصہؓ بنت فاروق اعظمؓ زوجہ رسولﷺ کو وہ گالیاں دی جاتی ہیں الامان والحفیظ پولیس کے بڑے بڑے افسران اور حج مجسٹریٹ صاحبان موجود ہوتے ہیں ان کی موجودگی میں سب کچھ ہوتا ہے مگر ان کی زبان کو کوئی لگام دینے والا نہیں ہوتا

بندہ کی حاضری

بندہ گناہ گار اللہ مجھے معاف فرمائے میں بھی اس اجتماع میں دس برس تک حاضر ہوتا رہا نہ صرف میں ہی بلکہ بڑے بڑے مبلغین اور ذاکرین حضرات بھی ہوتے ہیں۔ لگاتار مجالس کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو میں بھی مجلس پڑھنے کے سلسلہ میں جاتا تھا ایک دن کی کہانی میری زبانی بھی سماعت فرمالیں۔

المناک کہانی

 اور دریافت حق غالباً سترہ تاریخ کی رات پانچ مجلسیں پڑھ چکا تھا اٹھارہ محرم کو بعداز دوپہر میں نے مجلس پڑھنی تھی مجھے کچھ بخار ہو گیا ہلکا ہلکا سر میں درد بھی تھا، میں نے مجلس پڑھنے میں معذوری پیش کی اسٹیج سیکرٹری نے باواصدا حسین کے پاس جا کر میری ناسازی صحت اور مجلس کا نہ پڑھنا بیان کیا تو فوراً پیر ملنگاں میری قیام گاہ میں جلوہ افروز ہوئے اس نے آتے ہی کہا...... یاعلی مدد تو میں نے جواب میں کہا ..... پیر مولا علی مدد ( یہ فرقہ روافض کی علیک سلیک ہے ) وہ کہنے لگا۔ فیضی صاحب اٹھو اٹھو مجلس پڑھو میں نے عرض کیا حضور والا میری صحت ناساز ہے کسی اور صاحب کو میرا وقت دے دیا جائے باواصاحب نے کہا۔ آپ کی صحت کا ابھی بندوبست کرتا ہوں آپ ٹھیک ہو جائیں گئے یہ کہا اور اپنے چیلے کو حکم دیا کہ سفید کاغذ لاؤ چیلا سفید کاغذ لے کر آ گیا تو صداحسین نے اس کاغذ پر چار فوٹو بنائے اتنے برے نقش بنائے کہ میں ضبط میں نہیں لاسکتا ، سیدنا ابوبکرصدیقؓ سیدنا عمرفاروقؓ سیدنا عثمان غنیؓ اور سیدہ عائشہؓ کے نام بھی لکھے تھے پھر اس نے کہا جاؤ لیٹرین میں ان اسماء گرامی پر پیشاب کر دو ( نعوذ باللہ منہ ) فوراً صحت یاب ہو جاؤ گے۔ مجھے ویسے کوئی حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ ان ملنگان حیدر کرار کے ایسے ہی عملیات ہوتے ہیں اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں مگر آخر میں مولوی تھا کچھ چہرے پر چھوٹی چھوٹی داڑھی بھی موجود تھی، کبھی کبھی نماز وغیرہ بھی پڑھ لیتا تھا۔ میں نے کہا! باواجی چھوڑ ویسی باتیں“ میں مجلس پڑھ دیتا ہوں سرکار غازی عباس علمبردار کے صدقے سے شفا ہو جائے گی ، کوئی خاص بیماری تو ہے نہیں۔ لیکن اس نے بار بار اصرار کیا کہ میں یہ عمل ضرور کروں بالاخر طوعا و کرھا میں لیٹرین میں داخل ہوا، کاغذ کا ٹکڑا میرے ہاتھ میں تھا، ابھی میں نے دروازہ بند ہی کیا تھا کہ ایک بھاری پتھر میرے سر پر لگا ، سر پھٹ گیا ، خون کا فوارہ جاری ہو گیا بڑی مشکل سے دروازہ کھولا لڑکھڑاتے قدم اٹھا تا کمرہ میں آیا، باوا میرے کمرے سے جا چکا تھا، خون سے میرے کپڑے لت پت تھے ، میں چکرا کر اپنے بستر پر گرا اور بے ہوش ہو گیا جب مجھے ہوش آیا تو فرسٹ ایڈ کے خیمے میں میرے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور ہوش میں لانے کے متعدد انجکشن لگائے جاچکے تھے کچھ دوست احباب بھی قریب جلوہ افروز تھے ، شب کی تاریخی چھا چکی تھی میرے دل میں روشنی کی لہر اٹھ چکی تھی باطل جارہا تھا حق آ رہا تھا۔

نبی کریمﷺ کی زیارت مبارکہ

ڈاکٹر صاحب نے مجھے آرام کرنے کا حکم دیا اور مجھے دوائی پلا دی گئی ، نیند کی دیوی نے اپنی گود پھیلا دی میں بستر استراحت پر محو خواب ہو گیا عالم خواب میں، میں باعث تکوین کائنات، فخر موجودات، سرکار مدینه، سرور سینه ، هادی سبل، ختم رسل حضرت محمد مصطفیﷺ کی زیارت سے مشرف ہوا، آپﷺ کے تشریف لانے پر میرا کمرہ معطر منور ہوگیا ان کی مہک نے غنچے کھلا دیے اور آپﷺ نے فرمایا گستاخان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے اوپر جہنم واجب کر لی ہے، کیا تم بھی جہنم کا ایندھن بننا چاہتے ہو؟“

 بس اتنا ہی فرما کر آپﷺ غائب ہو گئے وہ بھی چلے گئے بہاروں کے ساتھ ساتھ، چاند چھپ گیا ستاروں کے ساتھ ساتھ واما من خاف مقام ربه ونهى النفس عن الهوى ،

 بس پھر کیا تھا ، آنکھیں ہیں تو برس رہی ہیں نگاہیں ہے تو ترس رہی ہیں دل بے قرار ہے اس مقام پر میری آخری تقریر تھی میں حق کی تلاش میں کئی آستانے تلاش کئے ، بڑے بڑے سفر کئے ، کئی سنی مساجد کے سہارے لئے ، مگر اطمینان قلب نصیب نہ ہوا۔

دوبارہ علماء شیعہ سے رابطہ

 بہت سارے دشمن پیدا ہو گئے ، مخالفتوں نے سر اٹھائے ، کچھ مجبوریاں پیش نظر تھیں، بیوی اور بال بچوں کا بھی مسئلہ در پیش تھا اس لیے دوبارہ شیعہ علماء سے مراسم استوار کئے چونکہ ملنگان حیدر کرار سے شدید نفرت ہو چکی تھی اس لئے مجالس عزا میں بھی جانا کم کر دیا، میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں فرقہ روافض میں علم کی بہت کمی شدت سے محسوس کرتا ہوں اس لیے میں نے سوچا علمی مشاغل شروع کر دوں کوئی درس و تدریس کیلئے اچھی سی جگہ مل جائے اور بجائے تقریر کے تحریر سے اپنی گمراہ قوم کو هدایت کروں ۔ اس واسطے میں نے اہلِ علم علماء سے روابط قائم کیے اور مشورے بھی لیے تو میرے اس ارادے کو بڑا سراہا گیا۔

مدرسہ بنانے کا پروگرام اور علماء کی میٹنگ

میاں چنوں ضلع ملتان میں ایک اچھا سا قصبہ ہے وہاں کے مومنین سے رابط قائم کیا ۔ خوب غور و خوض سے ایک میٹنگ بلائی گئی اس میں طے ہوا کہ فی الحال مرکزی امام بارگاہ میں تدریس کا سلسلہ شروع کرو اس کے بعد کوئی وسیع جگہ تلاش کر لیں گے۔ اور یہ بھی طے پایا کہ ایک عظیم الشان اجلاس کیا جائے مختصراً عرض کروں ملک کے نامور مبلغین کو دعوت نامے دیے گئے اور مہمان خصوصی جناب آغا مرزا مرتضی پویا کو بلایا گیا اور اتفاق رائے سے مدرسہ کا نام مدرسہ دار العلوم الحیدریہ رکھا گیا اور مرکز امام بارگاہ میاں چنوں میں مورخہ 26 و 27 اپریل 1979ء بمطابق 27 29 جمادی الاولی بروز جمعرات و جمعہ ہمارا اجلاس شروع ہوا جس کی ہم نے چار نشستیں کیں۔ ملک کے علماء کرامؒ کو مدعو کیا گیا اور ملک کے مشاھیر ذاکرین کرام کو بھی بلایا گیا تھا اور بہت بڑا ہجوم جمع ہو گیا تھا۔

جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِل

مگر افسوس کہ آخری اجلاس میں ایک ذمہ دار مبلغ نے سیدہ عائشہ صدیقہؓ اور جناب سیدنا عمر فاروقؓ کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کیے، میں نے جب ٹوکا تو علماء کرامؒ اور عوام نے بہت برا محسوس کیا اور اس پر ایک طویل گفتگو کا سلسلہ شروع ہو گیا پورے ملک کے روافض حضرات میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ فیضی صاحب مرتد ہو رہے ہیں، میرے مقابلہ میں مناظرین حضرات کو بلایا گیا، مجھے ضد ہوچکی تھی گو میں بے یار و مددگار ہو کر رہ گیا تھا مجھے اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات پر پورا بھروسہ تھا میں نے قرآن کریم کی سورۃ نور کی سترہ آیات ربانی پڑھ کر سیدہ اماں عائشہ صدیقہؓ کی طہارت و پاکدامنی بیان کی تو مناظر صاحب حق کے سامنے نہ ٹھہر سکے جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ( حق آگیا، اور باطل کھسک گیا) کا نقشہ سامنے آگیا۔

 ناظرین ......

 یہ تھوڑی سی میری سرگزشت ہے جو میں نے بیان کر دی ہے اگر تمام واقعات جو وقوع پذیر ہوئے ہیں میں بیان کروں تو ایک ضخیم کتاب بن جائے گی ان شاء اللہ تھوڑا تھوڑا کر کے میں اپنی تقریروں میں بیان کرتا رہوں گا اب میں اس فرقہ باطلہ کی پوزیشن پیش کرنے کی سعادت حاصل کر کے قضائیں ادا کروں گا و ما توفیقی الا بالله بقلم خود سید ابوالحسن فیضی

 (ماخوذ از نقاب کشائی )۔

 اغواء اور قتل کرنے کی کوشش

 جب اللہ رب العزت نے سید ابوالحسن فیضی صاحبؒ کو ایمان کے نور سے منور کیا اور انھوں نے مذھب شیعہ سے براءت کا اعلان کر کے اسلام قبول کر لیا اب اگر تو شاہ صاحب اسلام قبول کرنے کے بعد خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھ جاتے اور اللہ اللہ شروع کر دیتے تو ان کی جان کو کوئی خطرہ نہ تھا لیکن انھوں نے اسلام کی حقانیت تسلیم کر لینے کے بعد بقیہ زندگی گوشہ تنہائی میں گزارنے کی بجائے شیعہ کے کفر کے خلاف جہاد کرنا اپنا فرض منصبی سمجھا اور اسی مقصد کیلئے انھوں نے کئی کتابیں

اور پمفلٹ شائع کیے جن میں ان کی کتاب نقاب کشائی اہل علم میں بہت مقبول ہوئی شاہ صاحب اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میں شیعہ کے خلاف کتابوں کی شکل میں تحریری جہاد کر کے بیشتر زندگی کا کفارہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ اسی جرم کی پاداش میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ظہر کے وقت شاہ صاحب کو گھر سے اغواء کیا گیا "اغواء کی کہانی خودان کی زبانی" سنیئے۔ قریبی گاؤں پنڈگی بھٹیاں میں ہمارے مرید اصغر علی بھٹی رہتے ہیں ان کے والد صاحب نے وفات سے قبل اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ جب میں فوت ہو جاؤں تو میرا جنازہ سید ابوالحسن شاہ صاحب پڑھائیں گے وہ عید سے چھ روز قبل وفات پاگئے تو وصیت کے مطابق مجھے جنازہ پڑھانے کی اطلاع ملی میں ظہر کے وقت وہاں جانے کیلئے تیار تھا، اسی اثناء میں بادامی رنگ کی بغیر نمبر پلیٹ کاریں سوار چار نوجوان آئے ان میں سے ایک کا نام اصغرعلی تھا جوان کی آپس کی گفتگو سے مجھے معلوم ہوا باقیوں کے نام میں نہیں جانتا انھوں نے مجھے اسی شخص کی نماز جنازہ پڑھانے کے سلسلے میں ساتھ چلنے کو کہا میں بالکل تیار تھا اس لئے ان کے ساتھ گاڑی میں سوار ہو گیا۔ گاڑی چل پڑی کافی وقت گزرنے کے بعد بھی مذکورہ چیک نہ آیا تو سب نوجوان ہنسنے لگے اور میرے ساتھ فحش مزاق کرنے لگے اور نعوذ باللہ اصحاب رسولﷺ کو ننگی گالیاں دینے لگے جب مجھے اصل حقیقت کا علم ہوا میں نے خداوند کی طرف مکمل توجہ شروع کر دی ، دل میں خداوند کریم سے دعا کرنے لگا۔ وہ لوگ مجھے چونیاں سے ہو کر ڈھائے کے ساتھ جنگل میں لے گئے اور جنگل کے درمیان میں جا کر انھوں نے گاڑی روکی، ایک لڑ کے نے میری داڑھی پکڑ کر گھسیٹنا شروع کر دیا۔ دوسرے لڑکے نے کہا ٹھہرو پہلے اس سے پوچھ گچھ کر لیتے ہیں انھوں نے مجھے کہا تم دوبارہ شیعہ ہو جاؤ ہم تمہیں خمس کی تمام رقم دیں گے اس کے علاوہ تمہارے ہر قسم کے معاشی مسائل کے بھی ہم ذمہ دار ہیں میں نے ان کے سامنے برملا کہا۔ مجھے جو لذت شیعہ مذهب ترک کر کے حاصل ہوئی ہے میں اس کو کھونا نہیں چاہتا لہذا آپ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں میں دوبارہ شیعہ مذہب قبول نہیں کر سکتا" اس کے بعد اصغر علی نے مجھے گھسیٹ کر ایک گڑھے میں ڈال دیا اور لاٹھیوں سے مارنا شروع کر دیا، میرا سر پھٹ گیا۔ جسم لہولہان ہو گیا میرے منہ میں چھریاں ماریں دانت ٹوٹ گئے میں نے آسمان کی طرف منہ اٹھا کر چیخ ماری اور بے ہوش ہو کر گر پڑا جب مجھے ہوش آیا عجیب منظر دیکھا میرے ارد گرد اونٹوں کا ایک بہت بڑا ریوڑ تھا تین جنگی قسم کے آدمی میرے منہ میں پانی ڈال رہے تھے انھوں نے مجھے بتایا کہ ہم اس جنگل میں اونٹ چراتے ہیں ہمیں ایک چیخ سنائی دی ہم اس طرف آئے تو تین چار نوجوان ہمیں اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ کر کار میں سوار ہو کر بھاگ گئے ہم نے 12 بور کا فائر بھی کیا لیکن کار دور نکل چکی تھی انھوں نے میرے زخموں سے خون صاف کیا میرے سر پر کپڑا باندھ کر مجھے چونیاں تک پہنچا دیا میں نے اپنے چک پھنچ کر ساری کاروائی انتظامیہ کے گوش گزار کی تھانہ والوں نے پرچہ درج کرنے سے صاف انکار کر دیا مجھے اب بھی دھمکیاں مل رہی ہیں لیکن حق بات کہنے کی پاداش میں تکالیف میری راہ نہیں روک سکتی خداوند کریم مجھے استقامت نصیب فرماۓ آمین

 (ماهنامه خلافت راشده اکتوبر 1990ء)

سابق صدر جمہوریہ عراق صدام حسین کے نام کھلا خط

 سید ابو الحسن فیضی نے صدام حسین کے نام ایک خط لکھا تھا جس میں انھوں نے ایرانی انقلاب میں خمینی ملعون کے عزائم کو واضح کیا اور اس خط سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ سید ابوالحسن فیضی صاحب کا اہلِ تشیع میں کیا مقام و مرتبہ تھا اور وہ کتنی اونچی حیثیت پر تھے اس کے باجود ان کا مذھب اہلِ سنت اختیار کرنا یہ مذھب اہلِ سنت کی حقانیت اور شیعیت کے کفر پر بین دلیل ہے وہ پورا خط ملاخطہ فرمائیں۔

 خط کی عبارت

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

 محترم جناب صدام حسین صاحب، السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته جناب عالی! گزارش ہے کہ آپ کا حکومت کویت پر غاصبانہ قبضہ اور پر امن سعودی عرب پر للکارنا آپ کی عظمت، شجاعت، شرافت، حوصلہ مندی، اور سیاست کے منافی ہے۔ آپ نے عرصہ نو دس برس ایران سے جنگ کی ہم اس وقت آپ کو حق پر خیال کرتے تھے آپ کے سفیر معینہ پاکستان نے علماء پاکستان کو یہ تاثر دیا کہ ہم ایران کے ساتھ اصولوں پر جنگ کر رہے ہیں، چونکہ شیعوں کے پیشوا خمینی نے ہزار ہا بندگان خدا کو موت کا لقمہ بنا دیا ہے اور خونی انقلاب سے ھلاکو اور چنگیز خان کو بھی مات کر دیا۔ جناب صدر صاحب آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان کے اندر 90 فیصد مسلمان شیعہ ازم اور خمینی ازم کو پسند نہیں کرتے بلکہ اس مذہب باطل کو پاکستان کے غیور مسلمان کفر و الحاد قرار دیتے ہیں آپ نے ہم اہلِ اسلام پاکستانیوں سے جانی مالی مدد چاہی ہمارے علماء حق اور مسلم جوانوں نے آپ کی ڈٹ کر مدد کی کیا آپ اس کا انکار کر سکتے ہیں ہرگز نہیں اور ساتھ ساتھ کویت اور سعودی عرب نے بھی کھل کر آپ کی مدد کی مگر افسوس کہ آپ نے اپنے محسنوں کے ساتھ غداری کی ہم اہلِ پاکستان آپ سے سوال کرتے ہیں کہ یکدم آپ نے اپنی پالیسی کیوں بدل لی ؟ آپ نے ازلی حریف سے اتنی جلدی دوستی کیوں کر لی؟ اور مفتوحہ علاقہ واپس کیوں کر دیے؟ جناب ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ اندرون عراق عبداللہ بن سبا کی ذریت اور خمینی کے حواریوں نے آپ کے ساتھ دجل کیا ہے آپ کو اندرون عراق ایسے مشیر ملے ہیں جو خاص خمینی کے تربیت یافتہ ہیں ، ان کی چکنی چپڑی گفتگو نے آپ کی سوچ کا گھارا بدل دیا ہے انھوں نے آپ کو عمر ثانی قرار دیکر یہ تاثر دیا ہے کہ تمام خلیجی ممالک پر آپ قبضہ کر لیں گے، سعودی عرب پر قبضہ کرلو، چونکہ یہ بڑا ملک ہے اگر اس پر آپ نے فتح حاصل کر لی تو باقی تمام خلیجی ریاستیں آپ کی طفیلی بن جائیں گی، آپ کا خزانہ دنیا کے خزانے میں بڑا ہوگا اور آپ بہت بڑے فاتح بن جائیں گے۔ ہماری ایرانی عسکری قوت آپ کی آرمی میں ضم ہو جائے گی آپ کے ایک اشارہ ابرو پر اپنی جانیں قربان کر دیں گے، ہمارے امام حجت مہدی یعنی قائم آل محمدﷺ

 نے حکم دیا ہے کہ صدام حسین کی اطاعت کیلئے جھک جاؤ یہ بنو ہاشم کی نسل سے ہے اور یہ پکا مومن ہے۔ جناب صدام حسین صاحب !

سنو اپنے ماضی و حال کا تجزیہ کرو ادھر تو عجمی سازش آپ کو دھوکا فریب دے رہی ہے اور دوسری جانب ایران کے اندرون میں قد آور شخصیتوں نے آپ کی موت کا پروانہ لکھ دیا ہے، اگر آپ کی طرف سے ایک گولی بھی سعودیہ کی طرف چلی تو ظاہر ہے حرمین شریفین کے تمام محافظ آپ کی حکومت کی کمر توڑ دیں گے۔ آپ اپنے کسی حلیف ملک کو پکاریں گے تو آپ کا تماشہ دیکھنے کے سوا کوئی کچھ بھی نہ کر سکے گا پھر آپ کی بے بسی کسمپرسی ، ایران کو پکارے گی تو آپ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے ایرانی فورس عراق میں داخل ہو جائے گی اور صرف ایک گولی آپ کا کام تمام کر دیگی پھر آپ کو حکومت کی دیوی اپنی آغوش میں لے لے گی پھر آپ کے مردہ وجود کیلئے ایک ٹین تیل کافی ہوگا وہ قبر کھودنے کی تکلیف نہیں کریں گے، وہی عجمی کویت کی آزادی کا اعلان کرنے کے بعد کچھ حصہ سعودی عرب کو جنگ کی صورت میں دے کر صلح کا جھنڈا لہرا دیں گے، بغداد، تاوان، کاظمین سامرہ، بھرہ، کوفہ، کربلا نجف اشرف پر ایرانی حکومت ہوگی جو ایران کی صدیوں سے آرزو تھی اور عجمی فخر سے سر اونچا کر کے پکاریں گے کہ آج ہم نے سیدنا عمر فاروقؓ کے ہاتھوں کھائی ہوئی شکست کا بدلہ لے لیا ہے۔ صدام حسین صاحب میں بھی ایک شیعہ مجتہد تھا، خمینی میرا اتالیق تھا محسن حکیم طبا طبائی، اور آقا گل پائیگانی، آغا قاسم خوئی، یہ تمام میرے اساتذہ میں سے ہیں جن کو آپ بھی اچھی طرح سے جانتے ہیں ہم پاکستان سے سہ رکنی وفد لے کر فرانس میں خمینی کی پیشوائی کے لئے گئے تھے چونکہ میں خمینی کا شاگرد تھا اس لیے میں نے خمینی سے پہلا سوال کیا۔

 سید ابوالحسن فیضی:

 ... امام صاحب جب آپ ایران تشریف لے جائیں گے تو آپکا رد عمل کیا ہوگا ؟ آیت الله خمینی:

اگر میرے پاس تین طاقتیں ہوئیں

(1) پاور آف پریس

 (2) پاور آف سٹیٹ

 (3) پاور آف دیلتھ

 تو میرا ٹارگٹ روضہ رسولﷺ ہوگا جب تک سیدنا صدیق اکبرؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ کی قبریں روضہ اقدسﷺ سے ختم نہ کرلوں اپنے اس مشن میں نا کام سمجھا جاؤں گا۔

 ابوالحسن فیضی: جناب ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذکر تو قرآن مجید میں ہے۔ آیت اللہ خمینی:

 موجودہ قرآن صحیح نہیں ہے۔

ابو الحسن فیضی ...

اگر قرآن صحیح نہیں ہے تو کیا غلط ہے؟

 پھر ہمارے اصول دین فروع دین کسی کتاب سے ماخوذ ہیں؟

دو یوم کے بعد میں پاکستان چلا آیا اور پھر کچھ عرصہ بعد میں نے اس فریبی مذھب اور عبد اللہ بن سبا کی پارٹی سے نکل کر اسلام قبول کر لیا۔

 اخی المکرم !

 میں اپنا فرض سمجھ کر اس فریب سے آپ کو نجات دلانا چاہتا ہوں، خدارا آپ اپنی جان کی خیر منائیں اور اسلام کا احترام کریں اگر جنگ شروع ہوئی تو اس کے نتائج آپ کے حق میں نہیں ہوں گے صرف دو دن کے اندر اندر عراق کی مقدس سرزمین اجڑ جائے گی انسانی لاشوں کے انبار نظر آئیں گے، اب بھی وقت ہے کویت کو آزاد کر دو اور محافظین حرمین شریفین سے معاہدہ کر لو پاکستان ان شاء اللہ آپ کی ضمانت دے گا اگر آپ کو جنگ کرنے کا شوق ہے تو صیہونی طاقتوں کا مقابلہ کرو ان شاء اللہ تمام دنیا کے مسلمان آپ کی مدد کریں گے اور اللہ کی رضا بھی آپ کے شامل حال ہوگی فقط والسلام سید ابوالحسن فیضی سابق مجتہد فاضل عراق ۔ 9_ 10_ 1990ء ، خلافت راشده نومبر 1990ء)

بابر ندیم کا قبول اسلام

 ایک ساتھی عصر محمود نے آخری عشرہ رمضان کا اعتکاف کیا تو ان کے ساتھ محلہ کے دو اور لڑکوں نے اعتکاف کیا ان دونوں کا تعلق شیعہ مذھب سے تھا۔ جبکہ عنصر محمود کا تعلق نہ صرف اہلِ سنت سے تھا بلکہ سپاہ صحابہؓ سے تھا دوران اعتکاف بحث مباحثہ چلتا رہا جس کے نتیجے میں مسمی بابر ندیم نے مذھب شیعہ سے تائب ہو کر اسلام قبول کر لیا۔ اس مقدس کام میں جن بھائیوں نے تعاون کیا وہ حاجی محمد افضل نائب صدر سپاه صحابهؓ چهارم تحصیل چکوال، زاہداقبال صدیقی، عصر محمود بھلہ کریالہ ہیں،

 تعارف

ان کا پورا نام بابر ندیم ولد تاب عرف راجہ گاؤں بھلہ کریالہ تحصیل و ضلع چکوال۔ سوال ... آپ نے شیعہ مذھب کیوں چھوڑا؟

 جواب ..... جب بھائی عنصر محمود نے شیعہ لیٹریچر کے بارے میں آگاہ کیا اور اہلِ تشیع کے کفریات سے آگاہ کیا۔ تو مجھے پتہ چلا کہ .....

 (1) شیعہ تو تحریف قرآن کے قائل ہیں (چنانچہ تفسیر برہان کے مقدمہ میں لکھا ہے سیدنا باقرؒ نے فرمایا ان القرآن قد طرح منہ آى كثيرة

(مقدمہ تفسیر البرہان جلد 1 صفحہ 37)

 بیشک قرآن سے بہت سی آیات نکال دی گئی ہیں۔ محسن کاشی تفسیر صافی کے دیباچہ میں فرماتے ہیں ان القرآن الذی بین اظہرنا ليس بتمامه كما انزل على محمدﷺ بل منہ ما هو خلاف ما انزل اللہ و منہ م ہو مغیر و حرف وانه قد حذف منه اشياء كثيرة

 ( تفسیر صافی جلد 1صفحہ 49)

جو قرآن ہمارے درمیان ہے وہ پورا کا پورا جیسا کہ حضرت محمدﷺ پر نازل ہوا تھا نہیں ہے۔ بلکہ اس میں کچھ اللہ کے نازل کردہ کے خلاف ہے اور کچھ مغیر و محرف ہے اور یقینا اس سےبہت سی چیزیں نکال ڈالی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی روایات اور ان کے علماء و مجتہدین کے اقوال کتابوں میں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ مذہب کے مطابق قرآن محرف ہے )

 (2) سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی صحابیت کے منکر ہیں بلکہ شیخینؓ کو کافر کہتے ہیں ملا باقر مجلسی لکھتا ہے ہر دو ابو بکرؓ و عمرؓ کافر بودند و هرکه ایشان را دوست دارد کافر است

 ( حق الیقین صفحہ 245)

 سیدنا ابوبکرصدیقؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ نعوذ باللہ کافر تھے اور جوانکو دوست رکھتا ہے وہ بھی کافر ہے۔ شیعہ حضرات صرف ان شیخینؓ کو کافر نہیں کہتے بلکہ ان کے نزدیک تو رسول اللہﷺ کے بعد سوائے چار صحابہؓ کے باقی سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نعوذ باللہ مرتد ہو گئے تھے چنانچہ ملا باقر مجلسی لکھتا ہے مردم همه مرتد شدند بعد از رسول خدا بغیر از چهار نفر سلمانؓ و ابوذرؓ و مقدادؓ و عمارؓ

 ( حق الیقین جلد1 صفحہ 167، 175)

 رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد چار آدمیوں کے علاوہ سارے مرتد ہو گئے تھے وہ چار آدمی یہ ہیں سلمانؓ ، ابوذرؓ ، مقدادؓ ، اور عمارؓ )

 (3) اپنے اماموں کو تمام نبیوں سے افضل سمجھتے ہیں چنانچہ ملا باقر مجلسی لکھتا ہے مرتبہ امامت نظیر منصب جلیل نبوتست

 (حق الیقین جلد 1صفحہ 39 40)

مرتبہ امامت نبوت والی عظیم مرتبہ کے برابر ہے۔ صرف اسی پر بس نہیں کی بلکہ آگے جا کر ملا باقر مجلسی لکھتا ہے۔

 اکثر علماء شیعی را اعتقاد آن است که حضرت امیر وسائر ائمه افضل اند از پیغمبران سوای پیغمبر آخر زمان و احادیث مستفیضه بلکه متواتره از ائمه خود دریں باب روایت کرده اند

( حق الیقین جلد 1 صفحہ 73 )

 اکثر شیعہ علماء کا اعتقاد یہ ہے کہ سیدنا علی المرتضیؓ اور دوسرے ائمہ رسولﷺ کے علاوہ باقی تمام انبیاء ہی افضل ہیں اور اس بارے میں احادیث مشہورہ بلکہ متواترہ روایت کرتے ہیں ) اور سیدہ عائشہ صدیقہؓ پر تہمت لگاتے ہیں جو واقعی ہی کفریہ عقائد ہیں تو میں نے فوراً شیعیت سے توبہ کی اور اپنا رخ اسلام کی طرف کر دیا ، جب کہ میں شیعہ مذھب کو اس سے پہلے ایک مضبوط دیوار سمجھتا تھا پھر جھنگوی شہیدؒ کی تقاریر اور طاہر جھنگوی کی نظموں کی کیسٹوں نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا کیسٹیں سنتے ہی میرے ضمیر نے ہمیشہ کیلئے شیعہ مذھب سے تائب ہونے پر مجبور کر دیا۔

 ( قارئین سے استدعا ہے کہ اللہ مجھے استقامت نصیب فرمائے آمین ثم آمین )