Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مرتے دم تک صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی وکالت کروں گا

  مولانا محمد اسماعیل میسوِی

مرتے دم تک صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی وکالت کروں گا

داستان هدایت .... حضرت مولانا محسن رضا فاروقی

 مولانا محسن رضا فاروقی شیعہ مذہب کے خطیب و ذاکر اور پیش نماز تھے ان کے والد محمد حسین سلطان المدرسہ لکھنو کے فاضل تھے اور انھوں نے حیدر آباد سندھ میں کئی ہندوں کو شیعہ کیا محسن رضا فاروقی بتاتے ہیں کہ جب ان کے مرنے کا وقت آیا تو میں نے کہا پنج تن پاک کو یاد کرو تو ان کی چیخ نکل گئی اور کہا صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نظر آ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں محمد حسین تو نے پوری زندگی ہم پر سب و شتم کیا اب تیرا ٹھکانہ جہنم ہے جب میں نے یہ سنا تو میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی اور ان کی وفات کے بعد میں سنی بن گیا۔ ان کی پوری روئیداد ان کی اپنی زبانی سنیۓ ..

 خطبه

اعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم

 بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله الذي عجزت عن بيان ذاته اوهام الواصفين وعن ادراك كماله عقول العاقلين لم يلد ولم يولد لاندله ولا نظير ولا مثل له ولا مثيل وخلق كل شئى من العدم وقدره تقديرا درود پڑھو حسینوں کی ذات پر والصلوة والسلام على محمدي النبى الأمى رحمة للعالمين خاتم النبين شفيع المذنبين ابى قاسم محمد وعلى آله واصحابه وازواجه وبناته رضى الله تعالى عنهن اما بعد فقد قال الله تبارك و تعالى فى كلامه المجيد وفرقانه الحميد بسم الله الرحمن الرحيم محمد رسول الله والذين معه اشداء على الكفار رحماء بينهم صدق الله العظيم

 تمہید حضرات سامعین ! اللہ تعالیٰ تمہارا چل کر آنا قبول فرمائے اور میرا بھی اس مقام یعنی لاہور میں آنا قبول فرمائے میری تقریر کا عنوان تو وہ آیت ہے جو میں نے تمہارے سامنے تلاوت کی ہے اس سے پہلے کہ میں اپنی تقریر شروع کروں میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ میں اپنا تعارف کرالوں اگر تمہارا ارادہ ہو کہ میں اپنا تعارف ضرور کراؤں تو پھر میں کراؤں گا۔ (ضرور کراؤ ضرور کراؤ) مگر میں صرف اپنا تعارف نہیں کراؤں گا بلکہ ہر جگہ ہر تحصیل ہر ضلع ہر ڈویژن ہر صوبے میں سنی ہونے کا سبب پیش کرتا ہوں کہ میں سنی کیوں ہوا؟ میں مسلمان کیوں ہوا؟۔

 تعارف

 میرا نام محسن رضا فاروقی ہے مگر آج سے سال ڈیڑھ سال پہلے میرا نام اس سے کچھ لمبا تھا اس لیے کہ وہاں ہرچیز لمبی ہے صرف نام نہیں قرآن لمبا، اذان لمبی، کلمہ لمبا، روزے کا ٹائم رکھنے کا لمبا، چھوڑنے کا لمبا ضلع لائل پور (فیصل آباد ) تحصیل ٹوبہ ٹیک سنگھ تھانہ پیر محل بستی ناصر نگر ، یہ بستی ناصر نگر اور اس کے علاوہ چھ بستیاں اور بھی ہیں وہاں تمام سادات عظام رہتے ہیں سارے نقوی اور بخاری ہیں۔ میں سات سال سے ناصر نگر کی بہت بڑی امام بارگاہ اور جامع مسجد میں شیعہ خطیب تھا چھ سو روپے تنخواہ تھی (1965ء کی بات ہے ) چھ کلو دودھ بھینسوں کا روزانہ آتا تھا کیونکہ میں جس کا پیش نماز تھا یعنی ناصر الدین شاہ وہ سات سو مربع کا مالک تھا محرم کے عشرہ کے بھی پیسے لیتا تھا، یکم محرم سے دس محرم تک دس ہزار روپے لیتا تھا، میرے والد صاحب کا نام محمد حسین تھا یہ سلطان المدرسہ لکھنو کے فارغ التحصیل تھے اور وہ لائل پور جڑاں والا کے درمیان چک نمبر 64 میں پیش نماز تھے اور میں ناصر نگر میں پیش نماز تھا۔ شاید کوئی بندا بن جائے میری تقریر غور سے سن لو یہ دشمن پروار کرنے کیلئے اچھا موقع ہے، اور تمہاری صداقت تمہارے مذھب کی صداقت کی واضح اور زندہ نشانی میں ہوں اس لیے ذھنوں کو حاضر رکھو میری باتیں قیمتی موتی ہیں جو تمہیں بازار میں نہیں ملیں گے۔ چند چیزیں میں پیش کرنا چاہتا ہوں شاید کہ کوئی بندہ بن جائے اس لیے خاموشی سے توجہ سے سنو اگر شور کرو گے تو شاید کوئی بندہ سن نہ سکے پھر قیامت دن کہے گا کہ میں نے محسن رضا کی تقریر نہیں سنی تھی۔

 شیعہ کی نفرت بدترین ہوگئی

 جب میں شیعہ تھا تو ایک مرتبہ میں نے 1973 ء میں علامہ عبدالستار تونسوی کی ایک کیسٹ سنی تھی انھوں نے سنی مذھب کے حق ہونے پر شیعی کتب سے زبردست حوالہ جات پیش کیے تھے جنھیں سن کر میں کچھ پریشان سا ہوا پھر میں نے اپنے علماء و مجتہدین سے پوچھا جوابات طلب کیے تو کہنے لگے ” یہ سب کچھ تقیہ پر مبنی ہے کبھی کہتے کہ یہ روایات ضعیف ہیں(مگر ایک ہی سال بعد میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا مشاہدہ کر لیا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سچے ہیں سنی مذھب حق ہے پھر تو مجھے حق الیقین ہوگیا پھر جب سنی ہونے کے بعد میں دفتر پہنچا تو علامہ عبدالستار تونسوی مدظلہ نے تحریف قرآن کے متعلق اتنا مواد پیش کیا کہ میرے دل میں شیعہ کی نفرت شدید ترین ہو گئی

عبرتناک شکست کھائی اسی دوران جھنگ سے مولانا علامہ حقنواز جھنگوی شہیدؒ مجھ سے ملنے کے لئے آئے کہ ذاکر محسن رضا شاہ نقوی کون ہے اس کے بعد میرے علامہ حقنوازؒ کے ساتھ آٹھ مناظرے ہوئے پہلا مناظرہ کلمہ طیبہ پر اور مسئلہ امامت پر ہوا علامہ جھنگویؒ نے فرمایا کہ جتنے کلمے ہیں وہ سب کے سب تو انبیاءؑ کے ناموں پر ہیں اور دو ہی جزو ہیں اگر تمہارا کلمہ صحیح ہے تو پھر سیدنا علیؓ کو نبی یا رسول ہونا چاہیے میں اس کا جواب نہ دے سکا۔ انھوں نے کہا کہ اگر واقعی یہ کلمہ منصوص من اللہ ہوتا تو پہلے قرآن میں اس کا صراحتا لازمی ذکر ہوتا جیسے لا الہ الا اللہ کی اور محمد رسول اللہ کی صراحت ہے اگر قرآن میں نہیں ہے تو اپنے بارہ اماموں سے ثابت کر دو کہ انھوں نے لوگوں کو یہ پڑھایا ہو مگر میں ثابت نہ کر سکا دوسرا مناظرہ مسئلہ امامت پر ہوا اس میں انھوں نے سوال کیا کہ اہلِ سنت کے اصول دین تین ہیں (1) توحید (2) رسالت (3) معاد، ان تینوں کا تذکرہ قرآن میں بالتفصیل موجود ہے جبکہ شیعیت کے اصول دین پانچ ہیں (1) توحید (2) رسالت (3) معاد (4) عدل (5) امامت ... چار کا تذکرہ تو قرآن میں ہے لیکن امامت کا تذکرہ قرآن میں نہیں ہے حالانکہ اس کا منکر شیعہ کے نزدیک کافر ہے، میں نے کہا قرآن میں اس کا ذکر موجود ہے انی جاعلك للناس اماما تو انھوں نے کہا، اس طرح تو یوں بھی قرآن میں ہے ائمة الكفر امام تو کفار میں بھی ہیں یہ تو ایک عام لفظ ہے اور جو تم خاص امامت مانتے ہو اس کا میں پوچھ رہا ہوں ۔ مگر میں جواب نہ دے سکا بہر حال آٹھ مناظرے ہوئے ان آٹھ میں ہی میں نے عبرتناک شکست کھائی۔ اس شکست کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی صداقت کا مشاہدہ بھی کر لیا بالآخر دل و جان سے اسلام قبول کر لیا اسکی تفصیل یہ ہے کہ میرے والد صاحب کا بیمار ہونا 1974ء میں

میرے والد صاحب بیمار ہو گئے

 ان کے جسم پر فالج ہو گیا تھا تو میں ان کو اپنے پاس لے گیا اور علاج کرنا شروع کر دیا پورے تین مہینے میں نے علاج کیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا پھر یہ برکت والا مہینہ رمضان المبارک آیا یہ وہ مہینہ ہے جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے اس کا پہلا عشرہ بھی گزر گیا دوسرا عشرہ بھی گزر گیا تیسرا عشرہ شروع ہو گیا۔

 صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نظر آرہے ہیں

 مسلمانو ! ھسپتال کا کمرہ تھا ستائیس رمضان المبارک کی رات تھی ایک میں تھا اور دوسرا میرا والد تھا تیسری اللہ کی ذات تھی رات کا وقت تھا آٹھ یا ساڑھے آٹھ بجے کا وقت تھا۔ لاہور کے رہنے والے مسلمان ! جب میں نے جائزہ لیا والد صاحب کی حالت کا تو میرے والد صاحب کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوچکے تھے چہرہ زرد تھا، آنکھوں سے پانی جاری تھا بولتے تھے تو زبان اٹکتی تھی۔ اس وقت میں نے کہا ! ابا جان! یہ مصیبت کا وقت ہے اس وقت سیدنا علی بن ابی طالبؓ کو یاد کر لو، حسن مجتبی کو یاد کر لو، شہید کربلا کو یاد کرلو، سیدہ فاطمہ الزھراءؓ سيدة نساء العالمین کو یاد کرلو جناب محمدﷺ کو یاد کرلو میں نے اپنے عقیدے کے مطابق جب پنجتن پاک پورے کیے اور میں نے کہا ابا جان ! ان سے مدد مانگ لیتے تو ہماری مصیبت دور ہو جاتی۔ مسلمانو! ابھی میرے الفاظ ختم نہیں ہوئے تھے کہ میرے والد صاحب کا پورے کا پورا بدن کانپ گیا اور ان کی چیخ نکل گئی اور کہنے لگے ” یہ ٹھیک ہے مگر مجھے

صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نظر آ رہے ہیں جن کی پوری زندگی میں نے مخالفت کی سب و شتم کیا اب وہ نظر آ رہے ہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کہہ رہے ہیں محمد حسین تو نے پوری زندگی ہم پر سب وشتم کیا اب تیرا ٹھکانہ جھنم ہے۔ مسلمانو! میں نے اپنے کانوں سے سنا چودھویں صدی میں یہ بات اپنے کانوں سے سنی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین پر سب و شتم کرنے والوں کا ٹھکانہ جھنم ہے

 پاؤں تلے سے زمین نکل گئی

 بس جب میں نے یہ بات سنی یہ کوئی معمولی منظر نہ تھا معمولی مقام نہ تھا بہت بڑا انقلاب تھا کہنے والا بھی شیعہ خطیب، سننے والا بھی شیعہ خطیب، جب انھوں نے یہ بات کی کہ مجھے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نظر آرہے ہیں تو میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی اس لیے کہ یہ سب میرے مسلک کے خلاف تھا میں تو صحابہ کرام

رضوان اللہ علیھم اجمعین کو نہیں مانتا تھا ، میں تو سیدنا صدیق اکبرؓ کی خلافت کا منکر تھا جب انھوں نے یہ بات کی، یہ کوئی معمولی بات تو نہ تھی اور پھر مرتے وقت ...... اللہ اکبر ۔ صرف چند منٹ ، چند منٹ کیا چند سیکنڈوں کا فرق تھا جب وہ دنیا سے چلے مگر یہ کہہ کر جارہے ہیں کہ مجھے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نظر آ رہے ہیں معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی صداقت عیاں ہے

معاف کردو

 مسلمانو! اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا مجھے معاف کر دو، مجھے معاف کر دو، تین چار مرتبہ ان کی زبان سے ٹوٹے ہوئے الفاظ نکلے کہ مجھے معاف کردو۔ بھائیو! معاف تو وہی کر سکتا ہے جس کا آدمی جرم کرے کیونکہ یہ جرم تھا خاص صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا، لہذا صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین ہی معاف کر سکتے ہیں، نہ دنیا والے معاف کر سکتے ہیں نہ میں معاف کر سکتا ہوں خدا کی قسم اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین معاف نہ کریں تو خدا بھی معاف نہیں کریں گا۔

میں سید نہیں ہوں

 مسلمانو! ایک اور بات سنو ! انھوں نے یہ بھی کہا! بیٹا میں سید نہیں ہوں ساری زندگی انھوں نے مذھب شیعہ میں اپنے آپ کو سید کہلوایا اور ساری زندگی مذهب شیعہ میں پیش نمازی بھی کراتے رہے اور سید بھی کہلواتے رہے۔ حیدر آباد سندھ میں انھوں نے پانچ سو ھندو گھر شیعہ کیے اگر کسی کو یقین نہ ہو تو وہاں جا کر پوچھ سکتا ہے۔ جب انھوں نے کہا بیٹا میں سید نہیں ہوں تو پھر میں نے پوچھا؟ کہ ابا جان! اگر ہم سید نہیں تو پھر کون ہیں؟۔ میں نے یہ پوچھا اور ان کا دم نکل گیا اور مجھے نہیں بتا سکے کہ میں کون ہوں اور مجھے ضرورت بھی نہیں کہ میں اب پوچھتا پھروں کہ میں کون ہوں کیونکہ جنت میں جانے کا تعلق کسی ذات سے نہیں کہ سید جنت میں جائے گا غیر سید نہیں جائے گا بلکہ اس کا تعلق تو ایمان اور نیک عمل سے ہے۔

 سچ منہ سے کیوں نکلا ؟

 ساری زندگی یہ راز کسی کو نہیں دیا کہ میں سید نہیں ہوں ویسا بنا ہوا سید ہوں میں ان کا لاڈلا بیٹا تھا مجھے بھی نہیں بتایا تھا لیکن مرتے وقت انھوں نے کہا کہ میں سید نہیں ہوں ۔ جس وقت صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نظر آئے یہ سچ منہ سے کیوں نکلا ، ساری زندگی ملک جہالت ملک جھوٹ میں گزارا کرتے رہے سچ اس لیے کہنا پڑگیا تھا کہ ملک جھوٹ کی سرحد ختم ہو رہی تھی اور ملک صداقت کی سرحد شروع ہو رہی تھی۔

اعلان کیسے کروں

  مسلمانو! میرے والد صاحب تو دنیا سے چلے گئے مگر مجھے یہ تو پتہ چل گیا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سچے ہیں ھدایت کے ستارے ہیں، بہت عظیم ہیں، پھر میں سوچتا رہا کہ میں سنی ہونے کا اعلان کیسے کروں یہ معمولی بات تو تھی نہیں بہت بڑا انقلاب تھا۔ جہاں میں کھڑا تھا وہاں تو اعلان کر نہیں سکتا تھا کیونکہ بیوی جو ایف اے پڑھی ہوئی ہے وہ بھی شیعہ ہے، ساس شیعہ ہے ، سالے سالیاں شیعہ ہیں مقتدی شیعہ ہیں ، اب میں کیسے اعلان کروں سنی ہونے کا ؟ اگر ان کے سامنے سنی ہونے کا اعلان کرتا ہوں تو اس جامع مسجد میں انھوں نے مجھے گولی مار دینی ہے۔ اگر میں چھپ کر جاؤں تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا سارا منظر سامنے تھا خدا کی قسم میرا ٹھکانہ جھنم تھا کیونکہ حقیقت عیاں ہو چکی تھی حقیقت مل چکی تھی اور جس کو حقیقت مل جائے کیا وہ باطل کے پیچھے جاتا ہے۔ ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔

چلا جاؤں

 مسلمانو ! جب میں نے یہ سوچا کہ اگر میں ان کے سامنے سنی ہونے کا اعلان کروں تو انھوں نے مجھے مار دینا ہے اور میں شہید ہو جاؤں گا لیکن اگر میں شہید ہو جاؤں شہادت مل بھی جائے گی جنت بھی مل جائے گی مگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی کرامت کون بیان کرے گا ؟ وہ منظر کون پیش کرے گا ؟ مسلمانو! خدا کی قسم اس منظر کو بیان کرنے کیلئے خدا سے زندگی مانگی خدا مجھے زندگی دے میں پورے پاکستان کے چپہ چپہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی وکالت کروں گا ان کی صداقت بیان کروں گا کہ وہ تمام کے تمام صادق اور سچے تھے اس لیے میں نے پھر سوچا کہ بہتر یہی ہے کہ یہاں سے چلا جاؤں اور اس جگہ کو چھوڑ دوں۔

 بیگم کو دعوت اسلام

 میرے بھائی ! پھر میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں اپنی بیوی کے سامنے اس کا ذکر کروں کیونکہ وہ شریک حیات ہے اور قریب بھی زیادہ ہے حق بھی زیادہ رکھتی ہے ہو سکتا ہے کہ وہ مسلمان ہو جائے اور ہم ایک سے دو ہو جائیں چنانچہ میں نے بیگم کے سامنے پورا وہ منظر بیان کیا اور میں نے کہا اپنی بیگم کو بیگم ! میں تو سنی ہوتا ہوں کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سچے ہیں اب تو میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو مانتا ہوں تو بھی سنی ہوجا آگے سے بیگم نے جواب دیا “ محسن رضا تو ان کو مانتا ہے جنھوں نے بتول کے گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر جلانے کی دھمکیاں دی تھیں تو ان کو مانتا ہے جنھوں نے سیدنا علیؓ کے گلے میں رسی ڈال کر زبردستی بیعت لی تو ان کو مانتا ہے جنھوں نے بتول کا حق کھا لیا، تو ان کو اپنا ھادی مانتا ہے اور ان کو اپنا مقتدا مانتا ہے،۔ میں نے کہا بیگم! ایمان کے ساتھ بتا جتنے تو نے بہتان لگائے ہیں قرآن میں ہیں، کہنے لگی نہیں قرآن میں نہیں ہے میں نے کہا حدیث میں ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا تھا کہ جن کو میں دین سکھاؤں گا جو میری مدد کریں گے میں ان کی مدد کروں گا وہ مجھے رشتہ دیں گے میں ان کو رشتہ دوں گا وہ سارے کے سارے میرے مرنے کے بعد میری بیٹی کے دشمن ہو جائے گے۔ کہنے لگی نہیں حدیث میں بھی نہیں کیونکہ حضورﷺ نے پیش گوئی نہیں کی تھی میں نے کہا پھر آخر مسئلہ کہاں ہے کہنے لگی تاریخ میں ہے تاریخ بتاتی ہے کہ انھوں نے اہل بیت پر مظالم کیئے میں نے کہا ” بات سن قرآن ہے ایک زبان ، صرف اللہ کا کلام اس میں کوئی شریک نہیں حدیث ہے حضورﷺ کا فرمان اس لیے اس میں بھی کوئی شریک نہیں تاریخ ہے اجتماع یہ سارے لوگوں کا کلام ہے کسی کو اپنی زمینوں کا دکھ تھا کسی کو اپنی بستیوں کا دکھ تھا، کسی بد مذھب کو اپنے مذھب کے مٹنے کا دکھ تھا کسی نے کس طرح لکھ دیا کسی نے کس طرح لکھ دیا لہذا میں تو تاریخ نہیں مانتا۔ کہنے لگی تاریخ تو ماننا پڑگی کیونکہ وہ دنیا کی زندگی ہے۔ میں نے کہا سیدنا صدیق اکبرؓ پر دھبہ بھی تاریخ نے لگایا،سیدنا فاروق اعظمؓ پر دھبہ بھی تاریخ نے لگایا، سیدنا عثمان غنیؓ پر دھبہ بھی تاریخ نے لگایا ،سیدنا معاویہؓ پر دھبہ بھی تاریخ نے لگایا ، سیدنا علیؓ سیدنا حسنؓ سیدنا حسینؓ پر دھبہ بھی تاریخ نے لگایا سیدہ فاطمہؓ پر بھی دھبہ تاریخ نے لگایا اگر تاریخ مانوں تو سب پر دھبہ بھی ماننا پڑے گا۔ قرآن تو کہتا ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین جنتی ہیں انصار بھی جنتی ہیں مہاجرین بھی جنتی ہیں۔ قرآن تو ان کی زندگی کے کارنامے بیان کرتا ہے قرآن ان کی مدح کا قصیدہ بنا ہوا ہے میں کیسے اس تاریخ کو مانوں جو قرآن کے خلاف ہے جو قرآن کے موافق ہوگی صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی شان بیان کرے گی مان لوں گا جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے خلاف ہو گی قرآن کے خلاف ہو گی سمجھ لوں گا دشمن کی زبان ہے دشمن کا کلام ہے جس نے نبیﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین پر دھبے لگائے۔

 بھوکا مرنا ہے تو لاکھ مرتبہ سنی ہو

 مسلمانو! پھر میری بیگم نے کہا میں اپنی امی سے پوچھ لوں آگے میری ساس بھی کٹر شیعہ تھی ۔ میری بیگم نے جاکر اپنی ماں سے کہا امی ! محسن رضا تو سنی ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ مجھے بھی کہتا ہے تو بھی سنی ہو میری ساس نے کہا بیٹی سنی نہ ہونا میری بیگم نے کہا ”کیوں“ تو میری ساس نے کہا اگر تو نے بھوکا مرنا ہے تو لاکھ مرتبہ سنی ہو، بالآخر گھر کا کوئی فرد سنی نہ ہوا۔

 اپنے مسکن سے کوچ

 چونکہ میں نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اگر یہ منظر پوری دنیا دیکھ لیتی تو ساری دنیا سنی ہو جاتی چونکہ صرف میرے اوپر یہ منظر گذرا تھا اس لیے میں تو سیدنا صدیق اکبرؓ کے قدموں میں گر گیا۔ میری بیوی نے نہ مانا اور مجھے بہت کچھ کہا کہ یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا مگر میں نے گھر چھوڑ دیا، دو جوڑے کپڑوں کے اٹھائے اور گھر سے باہر نکل آیا۔ جب گھر سے باہر آیا تو ایک مرتبہ گھر کی طرف دیکھا لیکن یہ دیکھنا کسی حسرت کی بناء پر نہ تھا بلکہ میں نے اس لیے دیکھا تھا کہ یہ گھر ، بیوی اور میرا جو کچھ اس میں سرمایا ہے یا میرے باپ کا جو سرمایا ہے سارا کا سارا صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے جوتوں کی نوک پر قربان کرتا ہوں۔

 اکابرین دیوبند

  وہاں سے چل کر سیدھا لاہور جامعہ امامیہ میں آیا اس کے بعد میں سیدھا دفتر اہلِ سنت و الجماعت ملتان میں گیا جس طرح بھی پہنچا پہنچ گیا جب وہاں پہنچا تو اکابرین دیوبند اکابرین تنظیم نے مجھے سینے سے لگایا اور مجھ سے اس طرح سے سلوک کیا جس طرح انصار نے مہاجرین کے ساتھ سلوک کیا تھا۔ چنانچہ ایک ماہ کے بعد مجھے مرکزی تنظیم اہلَ سنت کا مبلغ بنا دیا گیا۔

 آخری آرزو

 میری پہلی اور آخری آرزو یہی ہے کہ خدا اس وقت تک موت نہ دینا جب تک پورے پاکستان میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی وکالت نہ کرلوں۔

 وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين