Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

تلاش حق داستان هدایت ..... محمد حسین صاحب مختار

  مولانا محمد اسماعیل میسوِی

تلاش حق

داستان هدایت ..... محمد حسین صاحب مختار

محمد حسین صاحب مختار شیعہ مذہب سے تعلق رکھتے تھے ان کو اپنے آبائی مذہب کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے تو وہ دین اسلام کی تلاش میں مصروف ہوگئے اور جو اشکالات و شبہات انھیں شیعہ مذہب کے بارے میں ہوئے تھے وہ تمام شبہات لکھ کر شیعہ علماء ،مناظرین اور مجتہدین کی طرف روانہ کیے اور ان سے جواب طلب کیے مگر وہ جواب نہ دے سکے بعضوں نے جواب دیے لیکن تسلی بخش نہ تھے جس کی بناء پر انھیں یقین ہو گیا کہ سنی مذہب سچا اور حق ہے اور یہی حقیقی دین اسلام ہے۔ چنانچہ انھوں نے سنی مذہب اختیار کر لیا اور اپنے وہ سوالات ایک رسالہ کی شکل میں شائع کرا دیے اس رسالہ کا نام انھوں نے حصول اسلام رکھا پھر کچھ عرصہ بعد وہ رسالہ دوبارہ "برق برخرمن شیعہ" کے نام سے شائع کرایا ۔ اس رسالہ سے ہم چیدہ چیدہ باتیں آپ کے سامنے نقل کرتے ہیں

      بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْتَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ

ترجمہ: وہ ایک جماعت تھی جو گزرگئی ان کا وہ ہے جو وہ کر گئے اور تمہارا وہ ہے جو تم کرو گے اور تم سے ان کے اعمال کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔

اس آیت سے ثابت ہے کہ مجھے خدا نے جج یا منصف بنا کر دنیا میں نہیں بھیجا کہ میں خلافت کی ڈگری سیدنا علیؓ کے حق میں صادر کردوں ، نہ میں فدک اور جنگ جمل اور جنگ صفین وغیرہ کے جھگڑے طے کرنے آیا ہوں اور نہ مجھے اختیار ہے، مجھے تو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے لئے کچھ کام کرنے کو بھیجا ہے کہ میں برے کام کو چھوڑ دوں اور اچھے کام کروں اور اللہ تعالیٰ کی یاد اور اسکا ذکر کروں اپنے نفس کی اصلاح کروں اور یہی قیامت میں اللہ تعالیٰ مجھ سے پوچھیں گے کہ تو کیا کر کے لایا ہے۔ یہی قرآن فرماتا ہے اور یہی دنیا کے سارے مذھب کہتے ہیں اس لیے مجھے ان جھگڑوں میں پڑ کر اپنا قیمتی عبادت کا وقت اور اللہ کے ذکر کرنے کا وقت برباد کرنے کی ضرورت نہیں ہے، مجھے تو اپنی فکر ہے کہ میں کیا کروں۔

اس لیے میں عرصہ سے تلاش حق یعنی اسلام کی تلاش میں مصروف تھا جو اللہ پاک نے اپنے حبیب کے ذریعے دنیا میں ھدایت کیلئے بھیجا تھا۔مجھے ماں باپ کے دیے ہوئے شیعہ مذھب میں جو شکوک پیدا ہو گئے تھے ان کو میں نے مختصر لفظوں میں ہاتھ سے کاپیاں لکھ کر، تا کہ دوسروں کو معلوم نہ ہو خفیہ طور پر حضرات علماء سہارنپور سے اور حضرت صدرا محققین شمس العلماء قبله و مجتهد لکھنو ناصر الملت سیدنا ناصر حسین صاحب سے اور حضرت علامہ قبلہ دار الشریعت مجتہد لاہور سید علی الحائری صاحب سے اور رسالہ اصلاح کے ایڈیٹر صاحب سے جو شیعوں میں معروف و مشہور بحث و مباحثہ و مناظرہ کرنے والے ہیں ان سے اللہ کی رضا کیلئے مدد چاہی اور سوالوں کی کاپیاں ان کے پاس بھیجیں مگر بے فائدہ! انھوں نے جواب دینے سے صاف جواب دے دیا۔ ایڈیٹر صاحب نے جواب ارسال فرمائے مگر بلا دستخط اور مولوی سید محمد نقوی صاحب نے زبانی جواب ارشاد فرمایا اور بحث و مباحثہ بھی ہوا مگر مجھے اطمینان نہیں ہوا اور مجھے یقین ہو گیا کہ حق سنی مذھب میں ہے اور یہی اصلی اسلام ہے چنانچہ میں سنی ہو گیا۔ جس میں مجھے صرف یہ کرنا پڑا کہ وضوء کا طریقہ موجودہ قرآن کے حکم کے مطابق اختیار کر لیا اور نماز میں فطرت انسانی کے مطابق عاجزی اور انکساری سے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا۔ یہاں کسی بزرگ کو گالیاں دینے کی ضرورت تو تھی ہی نہیں اور ماہ رمضان میں روزے رکھنے اور عشاء کے بعد تروایح بھی پڑھنے لگا۔

 خیالات باطله

بس پھر کیا تھا اکثر شیعوں نے اپنے اپنے ذہنوں کے مطابق یہ خیالات ظاہر کرنے شروع کر دیے۔

(1) ۔۔۔کسی عورت کے لالچ میں سنی ہو گیا ہے، فلاں سنی عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے۔

(2) ۔۔۔تقیہ کر لیا ہے

(3) ۔۔۔بڑا افسوس ہے لنگوٹوں کے پیچھے نماز پڑھنے لگا۔

(4)۔۔۔سنی ہو کر کیا ملا ؟

(5) ۔۔کسی لالچ کی بناء پر سنی ہوا ہوگا۔

(6)۔۔ آخری پیغام سید محسن علی صاحب اور ان کے ساتھ ایک اور شخص یہ لائے کہ تم سنی ہوئے تو خیر مگر اپنے سوالات مت چھپوانا ورنہ تمہاری ذاتیات پر حملے کیے جائیں گے یعنی تمہیں گالیاں دیں گے۔

               جوابات

سبحان الله ! جیسی ہمت ویسا خیال

 نمبر 1 کا جواب ...... متعہ وحدانیت ( ایک عورت کا ایک مرد سے متعہ کرنا ) اور متعہ دوریہ ایک عورت کا کئی مردوں سے متعہ کرنا) اور تحلیل ( میزبان کا اپنی باندی یا نوکرانی سے مہمان کی تفریح کرنا ) وغیرہ نے عورتوں کے مزوں میں شیعوں کو اس قدر محو کر دیا ہے کہ ان کے خیال میں مذھب صرف عورت کی خاطر ہی تبدیل ہو سکتا ہے ورنہ اللہ کا کوئی بندہ اس کے رسول ﷺ پر ایمان نہیں لا سکتا مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ عورتوں کا لالچ ہو اور شیعہ مذھب کو چھوڑ دے، جہاں اس قدر مزوں کا میدان موجود ہو کہ متعہ وحدانیہ اور متعہ دوریہ اور تحلیل جو چاہیے مرضی کرو اور ثواب بھی کماؤ ، مزے بھی اڑاؤ اور اس کے بدلے جنت بھی لو۔

 نمبر 2 کا جواب پہلے تو میں سمجھتا تھا کہ شیعہ حضرات تقیہ کو جان کے خوف کی حالت میں جائز رکھتے ہوں گے مگر اب اس اعتراض سے تو معلوم ہوا کہ بغیر جان کے خوف سے بھی ان کے ہاں تقیہ جائز ہے کیونکہ شیعہ رہتے ہوئے مجھے جان کاکسی قسم کا خوف نہیں تھا کہ جس کی بناء پر میں تقیہ کر کے سنی ہوتا۔

 نمبر 3 کا جواب ..... یہ اعتراض شیعوں کے خاندانی غرور سے پیدا ہوا ہے اور ایسے پیدائشی غرور کو اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں بتا دیا ہے کہ یہ غرور ابلیس نے کیا تھا کہ میں آگ سے پیدا ہوا ہوں اور حضرت آدمؑ مٹی سے پیدا ہوئے ہیں میں اس کو سجدہ کیوں کروں؟ میں تو اس سے بہتر ہوں حضرت عیسیؑ کے حواری مچھیرے اور گدڑیے تھے جو ایمان لے آئے تھے جبکہ بنی اسرائیل نبی زادے تھے مگر ان پر ایمان نہیں لائے۔حضرت نوحؑ کے مریدوں کو قوم کے سردار کمینے اور لنگوٹے کہتے تھے مگر وہ حضرت نوحؑ کے ساتھ کشتی میں سوار ہو کر سلامت رہے جبکہ حضرت نوحؑ کا بیٹا جو مغرور تھا طوفان میں غرق ہوا اور نبی کے گھر والوں سے خارج کر دیا گیا،

 نمبر 4 کا جواب ..... یہ سوال بھی کہ سنی ہو کر کیا ملا ؟ بےکار ہے اول تو ظاہر ہے کہ صحیح قرآن ملا، اسکو پڑھنے کا حق ملا کیونکہ شیعہ مذھب میں سوائے حضرات اماموں کے شیعوں کو قرآن شریف پڑھنے کا حق ہی نہیں، اور قرآن شریف کو سمجھنے کی قابلیت بھی ملی جو شیعوں کو ان کے اپنے مذھب کے بموجب حاصل نہیں۔ سنی ہو کر خدا ایسا ملا کہ جو خدائی کے قابل ہے یعنی جس کے نزدیک حلالی ہو یا حرامی، سید ہو یا غیر سید جو بھی ایمان لاوے اور اچھے کام کرے دنیا میں بھی اس کو عزت دے گا اور آخرت میں اس کو جنت دے گا یہ نہیں جیسا کہ شیعہ مذہب میں خدا خاص ذات اورخاص نسل کے لوگوں سے رعایت اور مروت کرتا ہے اور بے چارے چھوٹے لوگوں سے اور ولد الزنا سے ایسی خواہ مخواہ عداوت رکھتا ہے کہ وہ ایمان بھی لاویں اچھے کام بھی کریں اور برے کام بھی کوئی نہ کریں مگر پھر بھی نہ دنیا میں ان کی عزت ہے، نہ آخرت میں ان کیلئے بہشت ہے رسول ایسا ملا جو رسالت کے کام کرنے کے قابل ہے یعنی اپنی بدکار اولاد کی نیک لوگوں سے عزت نہیں کراتا جیسا کہ شیعہ مذھب میں ہے۔

 نمبر 5 کا جواب شیعہ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ کسی لالچ کی بناء پر سنی ہوا ہو گا ؟ یہ بھی بے کار ہے۔ کیا آپ حضرات کے خیال میں سارے کام لالچ ہی کئے جاتے ہیں سیدنا امام حسینؓ کیلئے رونا ، رلانا، ماتم کرنا سب بہشت کے لالچ سےکرتے ہیں رلانے والوں کو تو دنیا اور دین دونوں کا لالچ ہے ۔ یہ محبت اور صدق دل سے رونا نہیں۔ ذرا انصاف کروا کبھی کوئی صاحب اپنے کسی عزیز کے غم میں کیا یہ خیال کر کے روئے کہ ہم کو سب کچھ ملے گا۔ نہیں نہیں بلکہ محبت کے مارے روئے۔

ہائے افسوس ! سیدنا امام حسینؓ مظلوم کو بغیر لالچ کے یاد نہیں کرتے۔

 بھائیو! مجھے کوئی لالچ نہیں ورنہ میں اگر لالچی ہوتا تو غریب مسلمانوں کو چھوڑ کر کہیں اور جاتا کہ پیٹ بھرنے کو سب کچھ مل جاتا ۔ مجھے تو اس بات نے سنی کیا کہ تقیہ کے پردے میں مجھے جھوٹ بولنا پسند نہیں ، متعہ اور تحلیل کے لفظی پردہ میں زنا کرنا اور بیع الخیار کے پردہ میں سود لینے کو دل گوارا نہیں کرتا ان باتوں کو میری طبیعت نہیں مانتی کیونکہ یہ گناہ کے کام ہیں۔ بھائیو! مجھے دوسری قوموں کے سامنے متعہ اور تحلیل اور تقیہ سے شرم آئی اور میں سنی ہو گیا۔

 نمبر 6... کا جواب آخری پیغام اور گالیوں کی دھمکی سب سے بہتر ہے جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اعتراضوں کا جواب تو شیعہ مذھب میں ہے ہی نہیں، اس لیے مجبوراً سوالوں کے جواب میں برا بھلا کہیں گے اور گالیاں دیں گے اس کا مجھے ذرا سا افسوس اور شکایت نہیں اس واسطے کہ شیعہ صاحبان نے برا کہنے اور سخت الفاظ استعمال کرنے اور گالیاں تک دینے سے کسی بزرگ دین کو نہیں چھوڑا۔ اور سیدنا عباسؓ جو حضرت رسول مکرم ﷺ کے خاص چچا تھے ان کی ذات پر وہ الزام لگائے ہیں کہ میری تو مجال نہیں کہ میں ان کو بیان کروں۔ سنی بھائی بہت غصہ کرتے ہیں کہ شیعہ صاحبان حضرات اصحاب رسول ﷺ کو برا کہتے ہیں اور ان پر تبرا کرتے ہیں مگر جب ان کو یہ معلوم ہوگا کہ حضرت رسول ﷺ اور سیدنا علیؓ اور سیدہ فاطمہؓ کے خاص لاڈلوں اور جگر کے ٹکڑوں کو بھی نہ چھوڑا سو میں سے تقریبا نوے کو برا کہتے ہیں مثلاً سیدنا امام حسینؓ کی اولاد کے مقابلہ میں سیدنا حسنؓ کی اولاد کو برا کہتے ہیں ،سیدنا امام زین العابدینؓ کے پیارے بیٹے حضرت زید اور ان کی اولاد سیدنا یحییٰ وغیرہ کو برا کہتے ہیں، سیدنا امام جعفر صادقؒ کے پیارے بیٹے سیدنا اسماعیلؒ اور ان کی اولاد کو بھی برا کہتے ہیں، سیدنا نقی کے بیٹے اور سیدنا امام حسن عسکریؒ کے بھائی سیدنا جعفرؒ کو یہاں تک کہتے ہیں کہ خالی جعفر نہیں بلکہ ان کا نام جعفر کذاب رکھ رکھا ہے۔ یہ برکت ہے امامت کے اصول دین کی کہ امامت کے جھگڑے میں اسقدر اولادِ رسول ﷺ کو برا بھلا کہنا پڑا بلکہ ان کو ایمان سے خارج اور دین سے علیحدہ کرنا پڑا خدامجھے معاف کرے۔ اب تو میں سنی ہوں سارے بزرگوں کی تعظیم اور عزت کرتا ہوں ججی اور منصفی کا کام چھوڑ دیا ہے۔

شیعہ بھائیو! اگر آپ نے تسلیم کر لیا ہے کہ آپ کا مذھب ایسا کچا ہے کہ اعتراضوں کا جواب اس میں نہیں تو پھر ایسے مذھب کو کیوں اختیار کر رکھا ہے یہ آخرت کا معاملہ ہے اس میں بھائی بندی رشتہ داری کام نہیں دے گی چند روز کی زندگی ہے پھر خدا کا سامنا ہوگا حق کی تلاش کرو اور جہاں سے ملے اس کو قبول کرواگر آپ کے پاس کھوٹا سونا ہے تو کسوٹی والوں کو گالیاں کیوں دیتے ہو؟ آؤ بھائیوں میں کھرا سونا دوں اس کو جانچ لو اور لے لو وضوء قرآن جو موجود ہے اس کے مطابق کر لو یا مجھے ایسا قرآن لا دو جس میں زیر زبر کے لحاظ سے پیر پر مسح کرنے کا حکم ہو۔ اس موجودہ قرآن میں تو پیروں کو اخیر میں دھونے کا حکم ہے۔ کیا کر رہے ہو؟ ذرا سوچو! اور غور کرو! اگر میں غلطی پر ہوں تو میرا اطمینان کرا دو۔ میرا کچھ بگڑ نہیں گیا میں پھر واپس آجاؤں گا

 مہربان ہو کے بلالو مجھے چاہو جس دم،

میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں

تجربہ سے کام لو

یارو! ایک خاص بات بتلاتا ہوں عقلی دلائل کو بھی چھوڑو اور منقول پر بھی بحث کو جانے دو تجربہ سے کام لو۔ بھائی حافظ یار محمد صاحب جن کو آپ شیعہ حضرات نے دیکھا ہے اور حال ہی میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ کسی قدر شیعہ حضرات ان سنی صاحب کے پاس دعا کرانے کیلئے اس اعتقاد سے جاتے تھے کہ خدا ان کی سنتا ہے اور ان کی دعا قبول ہوتی ہے اور پھر اس کا تجربہ بھی ان کو تھا کہ واقعی ان حضرت صاحب کی دعا قبول ہوتی ہے۔ اگر سنیوں نے اپنے ایک بھائی کو پیر بنا رکھا ہے تو شیعہ صاحبان صرف جاہل نہیں بلکہ تعلیم یافتہ معقول پسند حق پسند بی اے، ایم اے کی ڈگری والے ان کی خدمت میں جاتے تھے اور اپنی مشکلات کے حل کیلئے دعا کراتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد ان کی پیشانی کو بوسے دیے اور ان کی قبر کو پیروں کی طرف سے زمین کو چومتے ہیں آخر کیوں؟ اس لیے کہ ان کو تجربہ نے بتا دیا ہے کہ اس سنی کو قرب الہی حاصل ہے وہ مذھب کے سنی گر تھے، شیعہ گرنہ تھے اور ان کے مرید کون تھے ؟ مذھب کے شیعہ اور ذات کے سید ان کے مرید تھے اگرچہ شیعہ مذھب میں حضرات اماموں کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو کوئی روحانی مرتبہ ملنے سے انکار ہے، نہ ولایت نہ کوئی درجہ روحانی کسی شخص کیلئے باقی ہے۔

حاجی عابد حسین صاحب اور سینکڑوں کی تعداد میں اہل سنت ہی سے روحانی بزرگ ہوئے ہیں اور موجود ہیں مگر ان کے مقابلہ میں سے شیعوں میں سے کوئی ایک ہی شخص بتا دیا جائے کہ فلاں سید اور فلاں شیعہ کو قرب الہی حاصل ہے اور دیکھو کس قدر سنی ان کی چوکھٹ چومتے ہیں مگر ایک بھی ایسا نہیں ہے۔

           رویائے صالحہ

شیعہ مذھب میں رویائے صالحہ سوائے حضرات اماموں کے کسی اور شخص کے نہیں ہوتے۔ بھائیو! میں خدا اور اس کے رسول ﷺ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھےرویائے صالحہ یعنی سچے خواب جن کو بشارت کہتے ہیں چند مرتبہ ہوئے ہیں اللہ کا احسان ہے کہ میں شیعیت میں بھی نماز کا قریب قریب پابند تھا اللہ اور اس کے رسولﷺ کو گواہ کر کے کہتا ہوں۔

              پہلا خواب

میں نے ایک مرتبہ خواب دیکھا کہ میں نماز بے رخ اور قبلہ کے جانب کے علاوہ دوسری جانب پڑھ رہا ہوں۔

            دوسرا خواب

دوسری مرتبہ پھر خواب دیکھا کہ میں مسجد کے باہر مسجد کے سامنے ننگی زمین پر نماز پڑھ رہا ہوں۔

             تیسرا خواب

پھر تیسری مرتبہ خواب دیکھا کہ چند آدمیوں نے مجھے بتایا کہ اس مسجد کے اندر جا کر نماز پڑھو وہاں بوریا بھی ہے اور رخ بھی قبلہ کی طرف ہے وہاں نماز پڑھنے سے نماز صحیح ہوگی اور یہ احساس مجھے ہر مرتبہ خواب میں ہوا کہ یہ مسجد اہلِ السنت و الجماعت کی ہے۔

تعبیر : اس کے بعد یہ خواب میں نے ایک صاحب کے سامنے ذکر کیے توانھوں نے مجھے صاف کہہ دیا کہ تم شیعہ نہیں رہو گے بلکہ سنی ہو جاؤ گے چنانچہ اس کے کچھ عرصہ بعد میں نے تحقیقات شروع کیں، کتب بینی کی ، علماء سے سوالات کیے اور بالاخر میں سنی ہو گیا ۔

بھائیو! تجربہ ہی کو پیش نظر رکھو اور حق کی تلاش کرو ورنہ

 گندم از گندم بروید جواز جو۔۔۔۔ از مکافات عمل غافل مشو

             جھوٹی روایت

عشرہ ثانیہ کی ایک مجلس میں ایک شیعہ عالم صاحب نے بر سر منبر فرمایا تھا کہ صلیب کی شب کو حضرت عیسیٰؑ اپنی والد حضرت مریمؑ کے پاس رہے اور انھوں نے ان کے ہاتھوں میں مہندی لگائی سر میں تیل ڈالا، آنکھوں میں سرمہ لگا کر گھوڑے پر سوار کر کے صبح کو میدانِ صلیب میں بھیجا۔

اور پھر اس عالم نے کہا یہ روایت انجیل مقدس میں لکھی ہے، جس پر مجلس کے فوراً بعد اس مولوی صاحب سے میں نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا کہ میں انجیل لاؤں مجھے دکھلا دیں اور بعد میں مولوی سید محمد نقوی صاحب کو بھی میں نے خط بھیجا کہ مذکورہ انجیل کا پتہ دیں مگر جواب ندارد۔

       کیا کچھ ہو گیا

ایک سید صاحب قصبہ نانوتہ میں شیعہ سے سنی ہو گئے ہیں کل تک وہ مولوی صاحب، حدیث خوان مجلس خوان تھے ان کی مجلس خوانی میں بڑی وقعت و عزت تھی۔ ان کو ہر محرم میں حدیث خوانی میں اجرت دے کر پڑھواتے تھے، اب وہ سنی ہو گئے ہیں۔

تو وہ توبہ ! توبہ شیعہ کے نزدیک بد معاش بن گئے ، جاہل بن گئے اور پتہ نہیں ان کے نزدیک کیا کچھ ہو گئے۔

تحریف قرآن پر میرا سوال اور ان کا جواب

میں نے تحریف قرآن کی چند معتبر روایتیں شیعہ علماء کے سامنے پیش کیں مثلاً سیدنا باقرؒ نے فرمایا کہ بس قرآن کو تحریف کر دیا گیا اور لوگوں نے اس میں ادل بدل کر دیا ہے ( حیات القلوب جلد 3 صحفہ 41 سطر 16) اس طرح کی اور روایتیں۔

تو انھوں نے جواب دیا کہ جن آیتوں میں روزہ نماز وغیرہ کا حکم ہے اور جو آیتیں نہایت ہی ضروری ہیں ان میں کچھ نہیں بدلا گیا ، بلکہ حضرات اماموں کی بابت جو آیات تھیں ان میں گھٹا دیا گیا ہے، ادل بدل کر دیا گیا ہے۔

             جواب پر نظر

مگر جواب دیتے وقت کچھ خیال نہ کیا دیکھو ! وضوء کے حکم میں شیعہ کہتے ہیں ارجلکم میں لام پر زیر تھی اس کو زبر کر دیا جس کی جگہ پیروں کے مسح کی جگہ پیر دھونا ہوگیا تو سارا وضوء غلط کر دیا جب وضوء غلط تو نماز غلط ہوئی ، پھر کس منہ سے کہتے ہیں کہ نماز وغیرہ کی آیتوں میں رد و بدل نہیں ہوا۔

اور لیجئے ! سب سے بڑا جھگڑا سیدناعلیؓ کی خلافت پر ہے کہ حضرت محمد ﷺ کے بعد سیدنا علیؓ اللہ کے حکم سے خلیفہ مقرر ہوئے تھے

 ”یا ایھا الرسول بلغ ما انزل اليك من ربك في ولاية على ،

اے رسول ! بتلا دے تو وہ جو تجھ پر اترا تیرے رب کی طرف سے سیدنا علیؓ کی خلافت کی بابت، شیعہ روایات میں ہے اس آیت میں سے فی ولایہ علی کے لفظوں کو نکال دیا بھلا اس سے بڑھ کر اور کون سی رد و بدل ہو گی کہ جس پر سنی شیعہ کے سارے جھگڑے کا دارو مدار ہے پھر یہ کہنا ضروری آیتوں میں تبدیلی نہیں ہوئی“ کہاں تک ٹھیک ہے ، جب اسلام کیلئے خلافت اتنی ضروری ہے جتنی کہ رسالت تو خلافت کے الفاظ نکالنے سے سارا اسلام گیا گزرا ہوا۔ پھر جب شیعہ کے نزدیک قرآن سے ایک اصول ایمان خلافت سیدنا علیؓ غائب ہوگیا اور صحیح وضوء غائب ہو گیا تو تحریف اس سے زیادہ کیا ہو گی ۔

میرا سوال اور ان کا جواب

میں نے شیعہ علماء سے سوال کیا کہ سیدنا علیؓ نے اپنے صحیح کیے ہوئے قرآن کو شیعوں میں رواج کیوں نہیں دیا! اور باقی اماموں نے اسکو اپنے شیعوں سےکیوں چھپائے رکھا اور آج تک چھپائے ہوئے ہیں۔

اس سوال کا جواب یہ دیا گیا کہ حضرت امام اپنا قرآن شیعوں کو دیتے تو مسلمانوں میں دو قرآن ہو جاتے اور فرقہ بندی ہو جاتی۔

             جواب پر نظر

مگر انھوں نے جواب دیتے وقت کچھ سوچ کر جواب نہ دیا کہ مسلمانوں میں اب کس قدر فرقے ہیں اور فرقہ بندی تو اب بھی ہوئی لیکن یہ کسی قدر نقصان ہوا کہ خود شیعوں کے پاس بھی صحیح قرآن نہیں ہے جس سے وہ کسی بھی سوال کا جواب دے سکیں۔ آج اگر شیعوں کے پاس صحیح قرآن ہوتا تو وہ دکھلا دیتے کہ وضوء کا صیح طریقہ یہ ہےاور سیدنا علیؓ کی خلافت کی بابت اس طرح آیت نازل ہوئی تھی اور دیکھو یہ یہ لفظ ان آیتوں میں سے بدل دیے اور نکال دیے۔ شیعہ صاحبان اگر اپنا صحیح قرآن پڑھتے تو اور کوئی نہ مانتا مگر میں تو مان لیتا اور در در پھر کر سنی تو نہ ہوتا ۔

امام زمانہ کے متعلق میرا سوال اور ان کا جواب

حضرت امام زمانہ کے متعلق میں نے سوال کیا تو ان کی نسبت یہ جواب دیا کہ ان کی طرف سے مولوی صاحبان ھدایت کیلئے نائب ہیں۔

         جواب پر نظر

مگر ان کا جواب میری سمجھ سے باہر ہے کہ ایک روحانی ھادی کے نائب بلا سند کیسے ہو گئے؟ معصوم کے نائب غیر معصوم کیسے بن گئے؟ اگر خود بن گئے یا لوگوں نے بنا دیا تو معلوم ہوا کہ لوگ روحانی ھادی کا نائب یعنی حضرت رسول اللہ

ﷺ کا خلیفہ بھی بنا سکتے ہیں تو پھر حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہ ﷺ کے بعد سیدنا ابو بکر صدیقؓ کو خلیفہ بنالیا تو یہ قاعدہ کے خلاف کیسے ہے؟۔

         افسوس

بھائیو! مجھے اصلی قرآن لا دو جو تمہارے نزدیک امام کے پاس ہے ، یا حضرت امام زمان کی زیارت کرادو ، مجھے تو یہ افسوس ہے کہ آج میرے پاس اگر سیدنا علیؓ والا قرآن ہوتا یا حضرت امام زمان ظاہر میں ہادی ہوتے تو سارا جھگڑاہی ختم تھا پھر تو میں اپنے شیعی قرآن سے اہل سنت و جماعت کی خوب ہی خبر لیتا اور پکڑ پکڑ کر اپنے امام زمان کے پاس لے جاتا اور ھدایت کراتا۔

    شیعہ مذھب چھوڑ دیا:

مجھے خود مشکل پڑ گئی کہ کوئی صاحب شیعوں والا اور اماموں کا جمع کردہ قرآن نہ دکھلا سکے، نہ حضرت امام زمان تک جزیرہ اخضر وابیض میں پہنچ سکا ، حضرت امام کےنائیوں نے بلا فیس للہ بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا واسطہ دینے کے باوجود بھی جواب نہ دیئے، میری مدد نہیں فرمائی آخر مجبوراً میں نے شیعہ مذہب چھوڑ دیا ۔ خاکسار، محمد حسین صاحب مختار عدالت کلکٹری سہارنپور 28 فروری 1934

 (ماخوذ از برق برخرمن شیعہ)

سیدنا جعفر صادقؒ کا فرمان

قالَ جَعْفَرُ الصَّادِقُؒ فِي مَرَضِ مَوْتِهِ

اللهُمَّ إِنى أُحِبُّ أَبَابَكْرٍؓ وَعُمَرَؓ فَإِنْ كَانَ فِي نَفْسِي غَيْرُ ذَلِكَ فلا تنلني شَفَاعَةٌ مُحَمَّدٍ ﷺ

 (الحسام المسلول على منتقصى اصحاب رسول اللہﷺ جلد 1صحفہ 73مؤلفہ محمد بن عمر بن مبارک الحضرمی المتوفی 930ھ)

سیدنا جعفر صادقؒ نے مرض الوفات میں کہا:

اے اللہ بے شک میں سیدنا ابوبکرؓ اور سیدناعمرؓ سے محبت رکھتا ہوں اگر میرے دل میں اس کے علاوہ کوئی چیز (بغض و نفرت) ہو تو (قیامت

کے دن) مجھے محمد رسول اللہﷺ کی شفاعت نصیب نہ ہو۔