Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

اللہ کا کرم داستان ہدایت (مولانا سید محمد علی شاہ صاحبؒ)

  مولانا محمد اسماعیل میسوِی

اللہ کا کرم

 داستان ہدایت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا سید محمد علی شاہ صاحبؒ

 تعارف و تعلیمی مراحل

  بہاولپور کے ایک قدیمی قصبے کا نام پپلی راجن ہے جہاں سادات کی زیادہ آبادی ہے جو اکثر شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں یہاں پر ایک بزرگ عالم دین مولانا سید محمد علی شاہ صاحبؒ ہوتے تھے مولانا سید محمد شاہؒ حسنی حسینی سید تھے آپ کا پورا خاندان رافضی تھا حق تعالی نے کرم کا معاملہ کیا آپ نے مولانا مفتی واحد بخش صاحبؒ سے احمد پور شرقیہ میں دینی تعلیم حاصل کرنی شروع کی بلاکہ ذہین تھے اعلی تعلیم کے لیے شاہ صاحبؒ نے جامعہ عباسیہ بہاولپور (موجودہ اسلامیہ یونیورسٹی) میں داخلہ لیا مولانا محمد گھوڑی صاحب شیخ الجامعہ تھے امام العصر مولانا محمد انور شاہ کشمیریؒ کے شاگرد رشید مولانا محمد صادقؒ بہاولپوری صاحب بہاولپور میں ناظم امور مذہبی تھے آپ نے ان سے اکتساب علم کیا اس زمانے میں جامعہ عباسیہ کے ایم اے کی ڈگری کو علامہ کہا جاتا ہے شاہ صاحبؒ نے جامعہ کی انتہائی ڈگری "علامہ" اعلی نمبروں سے حاصل کر کے جامعہ میں پہلی پوزیشن حاصل کی شیخ الجامعہ مولانا غلام محمد صاحبؒ نے بخاری شریف کے پرچے پر 100 فیصد نمبر دے کر اس پر نوٹ دیا" میں اصول کی رو سے 100 سے زیادہ نمبر نہیں دے سکتا ورنہ مولانا سید محمد علی شاہ صاحبؒ اس سے بھی زیادہ نمبروں کے مستحق تھے" اپنے وقت کے شیخ صاحبؒ کے متعلق یہ رائے آپ کے لیے بہت بڑا اعزاز تھی

 نیم ملا تو شیعہ عالم دین تو سنی

جس زمانے میں شاہ صاحبؒ جامعہ عباسیہ میں زیر تعلیم تھے اس وقت ایک شیعہ زمیندار نے سنی زمیندار سے کہا کہ ہمارا نوجوان (سید محمد علی شاہؒ )دین پڑھ رہا ہے جو ہماری طرف سے سنیت کا مقابلہ کرے گا سنی زمیندار نے کہا اگر تو محمد علی شاہ صاحبؒ نے کتب پوری نہ پڑھی نیم ملا رہا تو پھر تمہارا ہے اگر پوری کتابیں پڑھ لی عالم دین بن گئے تو پھر یہ ہمارے عالم ہوں گے تمہارے نہیں اللہ رب العزت نے کرم کیا مولانا سید محمد علی شاہ صاحبؒ بہت بڑے سنی عالم نامور مناظر حق گو مجاہد فی سبیل اللہ متبحر عالم دین ثابت ہوئے۔

        دینی خدمات

تب شیعہ برادری نے مخالفت کی آپ نے نوعمری میں فارغ التحصیل ہو کر قصبہ پپلی راجن سے ترک سکونت کر کے نہر کے کنارے رہائشی مکانات بنوائے اس نئی آبادی کا نام انہوں نے عثمان پور رکھا یہاں ایک مدرسہ قائم گیا جو رفیق العلماء بستی عثمان پور کے نام پر تھا یہ ریاست بہاولپور کا سرکاری سکول تھا اس زمانے میں اسکولوں میں جامعہ عباسیہ کا نصاب پڑھایا جاتا تھا یہ جامعہ عباسیہ کے زیر اہتمام تھا اور اس کا ریاست میں مڈل کے برابر درجہ تھا۔

مدرسہ رفیق علماء عثمان پور کے صدر المدرسین مولانا محمد علی شاہ صاحبؒ تھے اسکول کی ڈیوٹی کے علاوہ طلبہ کو دوسرے اوقات میں دینی کتب درس نظامی پڑھاتے تھے آپ کے سینکڑوں شاگرد اس وقت دین متین کی خدمت کا مقدس فریضہ سرانجام دے رہے ھیں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ تبلیغ اسلام کا فریضہ بھی انجام دیتے تھے ایسے مخلص بے لوث انسان تھے کہ شب و روز میلوں کا پیدل یا سائیکل پر سفر کر کے دور دراز تک تبلیغ اسلام کے لیے تشریف لے جاتے تھے حق گو مجاہد نڈر اور بے باک خطابت سے علاقے میں آپ نے ڈھاک بٹھا رکھی تھی بدی کو روکنے میں آپ کا وجود اور در عمر کی حیثیت رکھتا تھا رفض و بدعت کے مقابلے میں اللہ کی تلوار تھے۔

       جرات مند انسان

شجاع آباد کے مولانا قاضی محمد یاسینؒ مولانا محمد واصلؒ اور مولانا محمد علی شاہؒ تینوں حضرات کی ایک جماعت تھی جو مجاہدین فی سبیل اللہ تھے ان کے نام سے کفر اس طرح بھاگتا تھا جس طرح سیدنا عمرؓ کے سائے سے شیطان آپ کی زندگی حق گوئی اور بے باقی کی علامت تھی ایک دفعہ علاقے کے تمام زمینداروں نے مشترکہ میٹنگ میں فیصلہ کیا کہ اپنے علاقے میں کسی عالم دین کی تقریر نہ ہونے دیں گے ان دنوں بستی فقیراں میں ایک تبلیغی جلسہ تھا زمینداروں نے پولیس سے مل کر اسپیکر پر پابندی اور باہر کے علماء کا داخلہ بند کر دیا جو حضرات آگئے ان کی زبان بندی کرا دی مولانا دوست محمد قریشیؒ (جوشیعہ کے خلاف خوب تبلیغی تقریری و تحریری کام کر رہے تھے انہوں نے شیعہ کے خلاف کئی کامیاب اور فیصلہ کن مناظرے کئے اور شیعہ کے رد میں کئی لاجواب اور ٹھوس کتابیں لکھی ہیں وہ) اور دوسرے حضرات پہنچ گئے ان سے زبان بندی کے احکامات کی تعمیل کرالی گئی ظہر تک جلسہ نہ ہو سکا تمام انتظامات مکمل ہیں اسپیکر لگا ہوا ہے علماء موجود ہیں مگر جلسہ شروع نہ ہو سکا ظہر کے قریب مولانا محمد علی شاہ صاحبؒ تشریف لائے نماز پڑھائی اسپیکر لگوایا خطاب شروع کر دیا علاقے کی پولیس اور زمیندار موقع پر موجود ہیں مگر شاہ صاحبؒ کی حق گوئی اور بہادری کے سامنے کسی کی نہ چلی آپ نے زمینداروں اور جاگیروں کو للکارا شرم کے مارے ان کے منہ لٹک گئے ندامت کے مارے سر جھک گئے اس طرح کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ ایک دفعہ کسی نے کبڈی کا دنگل رکھا ہزاروں کا اجتماع ہوگیا پروگرام شروع ہوگیا شاہ صاحبؒ ساتھی کے ہمراہ سائیکل پر کسی تبلیغی سفر سے واپس آرہے تھے سائیکل موڑی اور دنگل میں جا پہنچے ان کو دیکھتے ہی لوگوں پریشان ہو گئے پھنچتے ہی آپ نے اذان کہی لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی نماز باجماعت ادا کی اور واعظ شروع کر دیا جو لوگ بچ گئے وعظ کی مجلس میں شامل ہو گئے۔

     مناظرہ جھوک وڑھیل

 یہ ہمیشہ کے لیے فیصلہ کن مناظرہ ہے جو ضلع بہاولپور میں مناظر اعظم اہلِ سنت مولانا عبدالستار تونسویؒ اور شیعہ مناظر مولوی محمد اسماعیل گوجروی کے درمیان ہوا جس میں مولوی محمد اسماعیل لاجواب اور مبہوت ہو کر میدان مناظرہ چھوڑ گیا جس پر علاقے کے شیعہ سنی ہزاروں مسلمان گواہ ہیں اور جس سے سب حاضرین کو یقین کامل ہو گیا کہ واقعی شیعہ حضرات کی کتابوں میں ائمہ کرام کہ ارشادات سے ثابت ہے کہ حضور پر نورﷺ کی حقیقی بیٹیاں چار تھی مناظر شیعہ کوئی ایک معتبر روایات پیش نہ کر سکا جس سے ثابت ہوتا کہ آپﷺ کی صرف ایک ہی بیٹی سیدة النساء فاطمہ زہراؓ تھیں۔

   مولانا اللہ وسایا صاحبؒ لکھتے ہیں راقم عینی گواہ ہے کہ 1968ء ماہ شوال کے ساتھ تاریخ کو جھوک وڑھیل تھانہ نوشہرہ جدید ضلع بہاولپور میں مناظرہ تھا مولانا عبد الستار تونسویؒ مناظر تھے معین مناظر مولانا سید محمد علی شاہ صاحبؒ پپلی راجن مولانا حافظ اللہ بخشؒ گروان اہلِ سنت کی طرف سے تھے یہ حضرت کی جانب سے مولانا محمد اسماعیل گوجروی مناظر تھے ان کے معاون مولوی قاری سعید الرحمنؒ تھے مناظرہ میدان میں ہونا تھا سامعین شائقین اور ناظرین کے دونوں جانب سے ٹھٹھ لگے ہوئے تھے شیعہ نمائندے اہلِ سنت نمائندوں سے بات طے کر کے جاتے لیکن مولوی محمد اسماعیل پھر مکر جاتے دن بھر یہ کیفیت رہی لیکن شام تک شیعہ مناظر اپنے رہائشی مکان سے باہر نہ آئے مولانا علامہ تونسوی صاحبؒ صبح سے میدان میں اسٹیج پر براجمان ہوگئے جب مالی محمد اسماعیل گوجروی کسی طرح مناظرہ پر تیار نہ ہوئے تو شیعہ سنی رہنماؤں نے مولانا تونسویؒ سے درخواست کی کہ وہ تقریر کریں مولانا تونسوی صاحبؒ کی ڈاڑھی کالی 42 سال عمر شباب کا جوبن بھرپور قد کاٹھ چہار پہلو وی ٹوپی سفید کپڑے سینے پر پستول آویزاں ہوا خطاب کیا کیا جادو کر دیا۔ ان کی ایک ایک للکار شیر کی دھاڑ معلوم ہوتی تھی ایک ہی خطاب میں ہزاروں لوگوں کے عقائد کو صحیح کر گئے۔

(ماہ نامہ لولاک فروری 1434)

ایک دفعہ رافضیوں سے مباہلہ طے ہوا آپ اپنے اہل و عیال و رفقاء کو لے کر مقام مباہلہ پر پہنچ گئے مگر دوسرے فریق نے بھاگ جانے میں ہی عافیت سمجھی۔

     عالم بے بدل

آپ مناظر، خطیب،علم و فضل ، دلائل کی پختگی،غضب کا حافظہ، فقہ کی جزئیات پر عمیق نظر،اور آپ کے مجاہدانہ کردار نے آپ کو مقبول عام بنا دیا تھا علاقے کے عوام آپ سے دلی محبت کرتے تھے ان کے چشم آبرہ کے اشارے پر جان بازی کی لگانے پر تیار ہو جاتے تھے آپ کے فتوی کو حرف آخر سمجھا جاتا تھا۔ مولانا سید محمد علی شاہ صاحبؒ سائیکل پر سوار جا رہے ھیں راستے میں کسی نے روک لیا سائیکل سے اترے اس نے فتوی پوچھا جیب سے قلم کاغذ نکالا سورۃ مسئولہ لکھی خود ہی جواب لکھا دستخط کیے دنیا کے کسی دارالافتاء یا ہائی کورٹ تک وہ فتوی جاتا اس میں ایک لفظ کی کوئی تغلیط یا ترمیم نہ کر سکتا اتنے ذہین تھے کہ کتابوں کی طرف مراجعت کے بغیر زبانی سب کام چلاتے تھے تمام پڑھی ہوئی کتب کا کتب خانہ ان کا اپنا ذہن ہوتا تھا جس میں کمپیوٹر کی طرح ڈیٹا جمع ہوتا تھا

میں جانا فرض سمجھتا ہوں

راقم (مولانا اللہ وسایا صاحبؒ شاہین ختم نبوت) کے استاد محترم مولانا حافظ اللہ بخش صاحبؒ آپ کے شاگرد رشید ہیں فقیر راقم خان پور سے دورہ حدیث شریف کر کے گھر آیا تو میرے والد صاحب مرحوم نے استاد محترم مولانا حافظ اللہ بخش صاحب سے فرمایا کہ اسے دین کے کام پر لگانا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ میں تو زمیندار ہوں میرا کام حاضر ہے آج سے شروع کر دے مولانا حافظ اللہ بخش صاحب اپنے استاد مولانا سید محمد علی شاہ صاحب کے پاس تشریف لے گئے شاہ صاحب نے مولانا علی جالندھری کو خط لکھا کہ ہمارے علاقے سے ایک نوجوان اس سال فارغ التحصیل ہوئے ہیں آپ ان کو جماعت میں شامل کر لیں۔

  مولانا محمد علی جالندھری نے حضرت شاہ صاحب کو خط لکھا مولانا لال حسین اخترؒ نے فجی آئی لینڈ سے ایک عالم دین کو بھیجا ہے ان کے لیے اسپیشل (شوال المکرم) میں تربیتی کلاس کھولنی ہے آپ ان کو بھی بھیج دیں چنانچہ مولانا عبد المجید فجیؒ آئی لینڈ مولانا بشیر احمدؒ مہتمم جامعہ عثمانیہ شور کوٹ اور فقیر راوم پر مشتمل سہ رکنی جماعت نے فاتح قادیان مولانا محمد حیاتؒ سے رد قادیانیت کا دو ماہی کورس مکمل کیا امتحان ہوا اللہ رب العزت نے فضل فرمایا امتحان سے فراغت کے بعد مولانا اقدس محمد علی جالندھریؒ نے فرمایا کہ (1) آپ امتحان میں اچھے نمبروں پر کامیاب ہوئے (2) آپ کے استاد مولانا محمد حیاتؒ نے آپ کو جماعت میں شامل کرنے کی سفارش کی ہے (3)آپ کے متعلق مولانا محمد علی شاہ صاحبؒ نے خط لکھا ہے۔

مولانا محمد علی شاہ صاحب میرے (مولانا محمد علی جالندھریؒ) کے نزدیک اس لیے قابل احترام ہے کہ سیدنا امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری صاحبؒ ان کا احترام اور ان کی رعایت کرتے تھے آل انڈیا مجلس احرار کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس چھوڑ کر پپلی راجن کے جلسے میں سیدنا امیر شریعتؒ شریک ہوتے تھے۔ چوہدری افضل حق مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ سیدنا امیر شریعتؒ سے اصرار کرتے کہ آپ اجلاس کو بھگتا کر جائیں تو شاہ جیؒ فرماتے تھے کے پورا خاندان اور علاقہ رافضی ہے وہاں ایک سید ہے (محمد علی شاہ صاحبؒ) اس کے جلسے پر میں جانا فرض سمجھتا ہوں۔ مولانا محمد علی جالندھریؒ نے یہ تین باتیں ارشاد فرما کر مجھے حکم فرمایا کہ آپ تیاری کریں آج سے ہی میرے ساتھ جماعت کے پروگرام پر چلنا ہے اس لحاظ سے مجلس میں فقیہ کی شمولیت کا باعث بھی سیدنا مولانا محمد علی شاہ صاحبؒ تھے۔

کلمہ پڑھتے ہوئے کوچ کر گئے

 93 سال کی عمر پائی داڑھی کے بال دوبارہ سیاہ ہونا شروع ہو گئے تھے آخری وقت تک تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے رہے اتنی بڑی عمر کے باوجود بڑے مضبوط قوی کے انسان تھے۔ قدرت نے علم و عمل کی طرح صحت کی دولت سے بھی نوازا تھا 17 جنوری کو مبارک پور کے قریب کسی گاؤں میں خطاب کیا مغرب کی نماز کی امامت شروع کی پہلی رکعت میں جب انعمت عليهم پر پہنچے تو خاموش ہو گئے کچھ دیر خاموش کھڑے رہے مقتدی پریشان ہو گئے آپ نے زور سے اللہ اللہ ! اللہ ! کہا اور لوگوں کے دل ہلا دیے نماز توڑ کر ساتھی آگے بڑھے اور آپ کو پکڑ کر بٹھا دیا فرمایا تم اپنی نماز پوری کرو ساتھی نماز سے فارغ ہوئے فرمایا مجھ پر فالج کا حملہ ہوا ہے آپ لوگ گواہ بن جائیں کہ میں تمام گناہوں سے توبہ کرتا ہوں اور پھر کلمہ شریف کا بار بار ورد کرتے رہے لوگوں کو کہا تم بھی کلمہ پڑھو کلمہ پڑھتے پڑھتے فالج کا اثر زبان پر پہنچا سواری کرا کے گھر لایا گیا صبح پانچ بجے راہی ملک بقاء ہوئے۔ آپ کی وصیت کے مطابق اسلامیہ مشن بہاولپور کے شیخ الحدیث مولانا محمدحنیف نے نماز جنازہ پڑھائی بلا مبالغہ ہزاروں کا اجتماع تھا مرد، عورتیں ، چھوٹے بڑے سب ان کے انتقال پر رو رہے تھے یہ ان کی قبولیت عامہ اور مقبولیت عند اللہ کی دلیل ہے وصیت کے مطابق عام قبرستان میں ہمیشہ کیلئے محو خواب ہوگئے اللہ رب العزت ان پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائیں

(فراق یاراں صفحہ 301 تا 304 مؤلفہ حضرت مولانا اللہ وسایا صاحب شاهین ختم نبوت)