Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

ہدایت کی کہانی اپنی زبانی داستان هدایت (سابق شیعہ مجتہد آیت الله علامہ ابو الفضل برقعی)

  مولانا محمد اسماعیل میسوِی

ہدایت کی کہانی اپنی زبانی داستان هدایت ..... سابق شیعہ مجتہد آیت الله علامہ ابو الفضل برقعی

 میں جوانی میں شیعہ امامیہ میں سے تھا اور اپنے آباء کا مقلد تھا باوجود اس کے کہ میں طالب علم اور علوم دینیہ کے حصول میں مگن تھا میری یہی حالت رہی حتی کہ میں نے ان کے علماء اور مراجع کی تصدیق سے مجتہد کا درجہ حاصل کر لیا میں متعصب قسم کا شیعہ تھا اور اس مذہب کا مبلغ اور داعی شمار ہوتا تھا ہم اور ہمارے جیسے دوسرے مجتہدین شیعہ مذہب کی خرافات کو صحیح ثابت کرنے کیلئے کمزور توجیہات کا سہارا لیتے تھے جن پر ہم خود بھی مطمئن نہیں ہوتے تھے میں نے اپنے سابقہ مذہب کے مطابق بہت ساری تصانیف کی ہیں ہم یہ سمجھتے تھے کہ ہمارے مذہب کے علماء ہادی اور مہدی ہیں یہاں تک کہ جب میری عمر چالیس سال کو پہنچی تو میں نے کتاب اللہ کی آیات میں تدبر اور غور و فکر شروع کر دیا، میں نے دیکھا کہ میرے مذہب کے بہت سے مسائل قرآنی آیات کے موافق نہیں ہیں بلکہ میرے مذہب کی اکثر روایات بھی آیات قرآن کے خلاف ہیں تو اللہ تعالی نے اپنی آیات کی برکت سے مجھے ہدایت دی اللہ تعالی اپنی کتاب کے ساتھ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ان کی کہانی ان کی اپنی زبانی سنئے .....

الحمد لله الذي هدى عبده الفقير العاجز الى نور التوحيد واخرجه من الظلمات الداكنة الى المحجة البيضاء التي ليلها كنهارها فادرك الحق ونبذ الباطل فقد هداني ربي الى صراط مستقيم فله الحمد وله الشكر الحمد لله الذي هدانا لهذا وما كنا لنهتدي لولا ان هدانا الله الهى و خالقى ورازقي انت دللتني اليك ولولا انت لم ادر ما انت والصلاة والسلام على الرسول المحمود محمد المصطفى وعلى اهله واصحابه واتباعه الذين اتبعوه باحسان الى يوم لقاءه بعدد خلق الله ورضى نفسه وزنة عرشه ومداد كلماته اما بعد...

 میرے بعض دوستوں اور محبت رکھنے والوں نے مجھ سے اصرار کیا کہ میں اپنی زندگی کے واقعات اور اپنے گذشتہ دنوں کے حالات لکھ دوں جن میں اپنے عقائد اور اس حق کی وضاحت کردوں جس تک میں اپنی زندگی کے مراحل میں پہنچا، تا کہ میرے مرنے کے بعد میرے دشمن مجھ پر کوئی تہمت نہ لگا سکیں اور خواہشات اور توہمات کے پجاریوں اور بدعات وخرافات میں مبتلاء لوگوں میں سے جس نے مجھ پر زبان درازی کی ہے اور مجھ پر طعن و تشنیع کی ہے وہ مجھ پر کوئی جھوٹی بات نہ گھڑ سکے۔ کوئی شک نہیں کہ جو آدمی بھی اسلام کا جھنڈا بلند کرتا ہے اور شرک و بدعت اور بتوں کے پھینکنے کی دعوت دیتا ہے تو اس کے سامنے اتنی ہی تعداد میں دشمن آتے ہیں جتنی کہ بدعتیں اور خواہشات ہیں جو نہ اللہ سے ڈرتے ہیں اور نہ ان میں تقوی و خشیت ہے اس لیے وہ اپنے مخالفین کو کافر کہنے اور فسق و فجور سے متہم کرنے سے باز نہیں آسکتے بلکہ وہ اپنے ان اعمال سے اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مذہب کے اصول میں سے ہے اور اس پر اجر و ثواب ملے گا اور انھوں نے ان جیسے اعمال شنیعہ کیلئے جن کو نہ عقل پسند کرتی ہے اور نہ کوئی انسانی احساس قبول کرتا ہے جھوٹی حدیثیں اور من گھڑت روایات اپنی کتب حدیث میں درج کی ہوئی ہیں۔ جاہل اور عام لوگ بہت زیادہ یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ صحیح حدیثیں ہیں پھر ان پر عمل کر کے اللہ کا قرب حاصل کرتے ہیں۔ اگرچہ میں اپنے آپ کو عظیم خالق کے سامنے ایک حقیر اور کمزور بندہ سمجھتا ہوں اور مجہول لوگوں میں سے شمار کرتا ہوں اس لیے مناسب تو نہیں ہے کہ میں اپنی ذاتی سیرت لکھوں تاکہ اس کے ذریعے میں زمانہ میں اپنی شہرت کا طالب بن جاؤں لیکن میں اپنے دوستوں کے اصرار کو چھوڑ نہیں سکتا اس لیے میں ان کی بات قبول کرتے ہوئے مجبور ہوں کہ میں اپنے کچھ حالات لکھوں اگرچہ میں نے اپنی دوسری تصنیفات میں بعض حالات کی طرف بطور وعظ و نصیحت کے اشارہ کر دیا ہے

نسب نامه

 میری ولادت ایران کے شہر قم میں ہوئی تیس نسلوں سے میرے آباء اسی شہر میں رہ رہے ہیں میرے جد اعلی جو اس شہر میں آکر ٹھہرے تھے وہ سیدنا موسی مبرقع بن سیدنا محمد تقی بن سیدنا السید علی بن موسی الرضا ہیں ان کی قبر آج بھی قم شہر میں مشہور و معروف ہے چونکہ ہمارا شجرہ نسب سیدنا موسی مبرقع تک پہنچتا ہے اس لیے ہمیں برقعی کہا جاتا ہے اور چونکہ ہم سیدنا رضا کی اولاد سے ہیں اس لیے ہمیں رضوی یا ابن الرضا کہا جاتا ہے میں نے بھی اسی وجہ سے اپنے شناختی کارڈ پر اپنا نام ابن الرضا لکھوایا ہے۔

میرا شجرہ نسب جیسا کہ کتابوں میں ہے اور میں نے اپنی کتاب تراجم الرجال میں لکھا ہے وہ یہ ہے ابوالفضل بن حسن بن احمد بن رضی الدین بن میر یحیی بن میران بن میران الاول ابن امیر صفی الدین بن میر ابو القاسم بن میر یحیی بن میر السيد محسن الرضوی الرئيس بمشهد الرضا من اعلام زمانہ بن رضی الدین بن فخر الدین علی بن رضی الدین حسین بادشاہ بن ابی القاسم علی بن ابی علی محمد بن احمد بن محمد الاعرج ابن احمد بن موسی المبرقع ابن الامام محمد الجواد رضی اللہ عن آبائی وعنی و غفر لهم ولی ۔ میرے والد سید حسن نے دنیا کی زیب وزینت اور ساز و سامان کو چھوڑ کر فقیرانہ زندگی گزاری ہے اور وہ انتہائی زاہد تھے، وہ عمر بھر کام کر کے اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے رہے زندگی کے آخر تک وہ کام کرتے رہے اور اپنی حلال کمائی کو ہی خوراک بنائے رکھا حالانکہ وہ بڑھاپے میں بیمار اور کمزور ہو گئے تھے لیکن اس کے باوجود انھوں نے محنت و مشقت کو نہیں چھوڑا حتی کہ وہ سخت سردیوں میں بھی کام کرتے تھے اس کے ساتھ ساتھ وہ بڑے سعادت مند، عبادت گزار انسان تھے انھوں نے تہجد کو کبھی نہیں چھوڑا ، انھوں نے زندگی شرافت و سخاوت اور تواضع کے ساتھ گزاری ہے میرے دادا جان سید احمد مجتہد تھے اور صاف گو اور کھرے انسان تھے ، منافقت اور ریاء کاری کو تو جانتے ہی نہیں تھے، وہ میرزا شیرازی کے قابل اور معتمد ترین شاگرد تھے جب انھوں نے درجہ اجتہاد حاصل کر لیا تو سامراء کو چھوڑ کر قم تشریف لائے اور دینی امور میں لوگوں کیلئے وہ ایک مرجع بن گئے ، عوام کے مال کو انھوں نے کبھی لالچ کی نگاہ سے نہیں دیکھا زاہدانہ شان کے مالک تھے ان کے گھر کی حالت ایسے تھے جیسے سیدنا سلمان فارسیؓ کے گھر کی حالت تھے اور ان کی زندگی زہد میں سیدنا ابوذرؓ کی زندگی کے مشابہ تھی میں نے ان کی تفصیلی حالات ” تراجم الرجال میں ذکر کر دیے ہیں۔

ابتدائی تعلیم

 میرے والد میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ میری تعلیم کا خرچہ ایک لمبے عرصہ تک برداشت کر سکیں البتہ میری والدہ ہماری تعلیم کی بڑی خواہش مند تھی ، وہ اسی کی خاطر دن، رات کو جاگا کرتی تھی اور اسی کوشش میں لگی رہتی تھی کہ ہمارے استاذ کیلئے وہ ایک ریال کا انتظام کر سکے تا کہ میری تعلیم کا سلسلہ جاری رہ سکے، میں نے اس طرح ابتدائی تعلیم کا مرحلہ طے کیا ہے۔ میری والدہ جس کا نام سکینہ سلطان تھا وہ ایک عبادت گذار ، زہد وقناعت کرنے والی خاتون تھی ، وہ شیخ غلام رضا القی جو ریاض الحسینی کے مصنف ہیں کی بیٹی تھی اور شیخ غلام حسین واعظ جو فائدۃ الممات“ کے مصنف ہیں اور الحاج شیخ علی محرر کی بہن تھی۔ وہ ایک دانا اور عقلمند عورت تھی اس نے اپنی اولاد کو جہالت، ہلاکت اور قحط سے بچانے کی خوب کوشش کی ، پہلی عالمی جنگ میں جب روسی فوج ایران میں داخل ہوئی تو اس وقت میری عمر پانچ سال سے زیادہ نہیں تھی اس وقت جو میرے استاذ تھے انھوں نے کلاس میں میری طرف کبھی توجہ اور خاص اہتمام نہیں کیا لیکن جب وہ دوسرے طلبہ کی طرف توجہ اور خاص خیال کرتے تھے تو میں بھی ان کے ساتھ ساتھ لگا رہتا تھا اور جب طالب علم سبق کا تکرار کرتے تھے تو میں غور سے سنتا تھا اس طرح میں نے ابتدائی لکھنا پڑھنا سیکھا، اس وقت تمام طلبہ کی بڑی کلاسیں نہیں ہوتی تھیں بلکہ استاذ ایک ایک کر کے طالب علموں کو پڑھاتا تھا چونکہ میرے پاس استاذوں کو وظیفہ دینے کیلئے کوئی انتظام نہیں تھا اس لیے میرا کوئی خاص استاذ نہیں تھا حتی کہ کتابوں، کاغذوں اور کاپیوں کے خریدنے کی بھی میرے پاس طاقت نہیں تھی اور میں باقی بچوں کے سبق میں جاتا تھا اور دکانوں والے جو استعمال شدہ کاغذ پھینک دیتے تھے، میں ان کو استعمال کرتا تھا اللہ کا شکر ہے کہ اس وقت مزین کلاسیں اور خاص چیزوں وردی وغیرہ کے ساتھ مزین تعلیم نہیں ہوتی تھی کہ جو صرف مالدار بچوں پر بند ہو جائے اور تنگ دست و غریب لوگ حاصل ہی نہ کر سکیں جیسا کہ آج کل شروع ہو چکی ہے، آج کل تو طالب علم کو کلاس میں اس وقت تک بیٹھنے کی اجازت ہی نہیں ملتی جب تک کہ اس کے پاس کتابوں، کاپیوں قلموں اور بستے کی گٹھری نہ ہو میں نہیں جانتا کہ جیسے میں نے زندگی گزاری ہے اسی طرح کی زندگی والا طالب علم آج ان چیزوں کو کیسے حاصل کرتا ہوگا کیونکہ میں تو پورا پورا سال ایک قلم اور ایک کاپی کے خریدنے پر بھی قادر نہیں ہوتا تھا۔

 علوم شرعیہ کی تعلیم

 میں نے ان مشکل حالات میں قرآن اور فارسی کے اسباق مکمل ہی کیئے تھے کہ ایک مشہور عالم شیخ عبدالکریم الحائری الیزدی جو اراک شہر کے بڑے علماء میں سے تھے، ہمارے شہر قم والوں کے بلانے پر قم میں آئے ، انھوں نے علوم شرعیہ کیلئے ایک ادارہ قائم کیا، اس وقت میری عمر بارہ سال سے زیادہ نہیں تھی میں نے ارادہ کیا کہ میں بھی علوم شرعیہ کے اسباق میں شریک ہو جاؤں چنانچہ میں پرانی بازار میں موجود مدرسہ رضویہ میں گیا شاید کہ وہاں مجھے رہائش مل جائے اور میں مدرسہ میں داخلہ لے سکوں، مدرسہ کے نگران میری والدہ کے خالہ زاد سید محمد صحاف تھے لیکن انھوں نے مجھے چھوٹی عمر کی وجہ سے رہائش نہ دی ، البتہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جو چند میٹر لمبا اور چوڑا تھا جس میں مدرسہ کا چوکیدار صفائی کے آلات جھاڑو وغیرہ رکھا کرتا تھا اس چوکیدار نے احسان کرتے ہوئے مجھے اجازت دے دی کہ میں رات یہاں گذار لیا کروں اس کا چونکہ دروازہ نہیں تھا تو اس چوکیدار نے مزید احسان کرتے ہوئے اس کمرہ پر ایک ٹوٹا ہوا دروازہ کھڑا کر دیا، چنانچہ میں اپنی والدہ کے گھر سے چٹائی کا ایک ٹکڑا اور بستر لایا اور پڑھائی شروع کر دی۔ میں رات دن اسی جگہ میں گزارتا تھا جو نہ مجھے سخت گرمی سے بچاتا تھا اور نہ ہی سخت سردی سے ، کیونکہ دروازہ ٹوٹا ہوا تھا اور جگہ جگہ اس میں سوراخ تھے۔ زندگی سے مقابلہ کرتے ہوئے اور حصول علم میں محنت کرتے ہوئے میں نے اس میں دو سال گزارے، میں کبھی کبھی بعض تاجروں یا بعض دکانوں پر کچھ کام کر لیتا تھا جس سے کچھ مال کما کر میں اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کر لیتا تھا میں نے ان دنوں میں نہ اپنے والد کی طرف سے کوئی تعاون حاصل کیا نہ رشتہ داروں کی طرف سے اور نہ شہر والوں کی طرف سے کہ جس سے مجھے اس علم کے راستہ پر جاری رہنے میں تقویت ملتی میں المغنی اور شرح جامی یعنی صرف و نحو کا سبق اسی طرح مکمل کیا۔ میں شیخ عبدالکریم حائری اور دوسرے علماء کے سامنے امتحان کیلئے پیش ہوا تو میں نے ممتاز نمبروں سے امتحان میں کامیابی حاصل کی جس کی وجہ سے انھوں نے میرے لیے ماہانہ پانچ ریال مقرر کیے لیکن یہ مقدار میرے پورے مہینہ کے مصارف کیلئے ناکافی تھی تو میں نے ایک آدمی کے واسطہ سے شیخ عبدالکریم حائری سے بات کروائی کہ میرا وظیفہ آٹھ ریال تک بڑھا دیں اگرچہ یہ مقدار بھی گزارے لائق تھی لیکن میں اس پر اکتفاء کر کے حصول علم کیلئے فارغ ہو سکتا تھا ،۔ میں نے اسی طرح تعلیم جاری رکھی یہاں تک کہ میں فراغت کے آخری درجہ تک پہنچ گیا اور فقہ اور اصول فقہ بھی پڑھ لیا تعلیم کے ساتھ ساتھ میں نئے آنے والے طالبعلموں کو بھی پڑھاتا تھا زندگی کا پہیہ اسی طرح چلتا رہا یہاں تک کہ میں حوزہ علمیہ میں علوم شرعیہ کا مدرس بن گیا حالانکہ میں کتابوں کا مالک نہیں تھا میں طالبعلموں کو فقہ، اصول فقہ، صرف، نحو، منطق زبانی پڑھایا کرتا تھا۔ ( قم میں آپ کے مشہور اساتذہ میں سے چند یہ ہیں آیۃ اللہ شیخ عبدالکریم الحائری الیزدی ، آیت اللہ اعظمی حجت کوه کمری اور دونوں سے سند اجازت حاصل کی پھر طالب علموں کی عادت کی طرح اعلی تعلیم کیلئے نجف اشرف کی طرف سفر کیا اور وہاں کے بڑے بڑے علماء سے شاگردی حاصل کی خاص طور پر شیخ عبدالنبی نجفی عراقی ، آیت اللہ سید ابوالحسن اصفہانی ان دونوں سے اور ان کے علاوہ دوسرے متعدد مجتہدین سے اجتہاد کی اجازت حاصل کی مثلاً ابو القاسم کاشانی، آغا بزرگ طہرانی وغیرہ) طہران کے جنوب شاہپور روڈ میں مشہور مسجد وزیر دفتر میں امامت و خطابت کے فرائض سر انجام دینے شروع کیے یہ مسجد ڈاکٹر محمد مصدق کے والدین اور خالہ نے بنوائی تھی اس مسجد کا انتظام پہلے محمد ولی میرزا کے پاس تھا اس نے آیت اللہ کاشانی سے کہا کہ اس مسجد کی امامت کیلئے کوئی عالم ہمیں دیدیں تو علامہ برقعی کہتے ہیں کہ آیت اللہ کاشانی مجھے اس مسجد میں اپنے ساتھ لے گیا اور مجھے امامت کرنے کا کہا اور بذات خود اس مسجد میں انھوں نے میری اقتدا میں نماز پڑھی اور مجھے اس کے بعد امام بنا دیا گیا۔ علامہ برقعی نے اس مسجد میں دروس دینا شروع کیے خالد بن محمود بدیوی لکھتے ہیں کہ ایک آدمی نے مجھ سے بیان کیا کہ انقلابی تحریک سے پہلے میں ان کی زیارت کرنے گیا اور ان کے ایک درس میں شریک ہوا اس درس تفسیر میں جو طالب علموں کی تعداد تھی وہ تقریبا دو سو تھی ۔ علامہ برقعی جب تیس سے چالیس سال کے درمیان میں تھے تو امامیہ اثنا عشریہ مذہب کے بنیادی عقائد سے آہستہ آہستہ دور ہونے لگے ان کے اس سفر ہدایت کی ابتداء کی ایک وجہ علامہ مصلح مصطفى الحسینی طباطبائی اور استاد قلمداران سے متاثر ہونا تھا یہ دونوں شیعہ مذہب کے مضبوط عالم تھے پھر انھوں نے شیعہ مذہب چھوڑ کر سنی مذہب اختیار کر لیا تھا ان کے حالات ان شاء اللہ اس کتاب کے دوسرے حصے میں آئیں گے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ انھوں نے ایک کتاب درسی از ولایت لکھی ۔ اس کتاب میں نظریہ ولایت تکوینیہ کا مفصل اور مدلل رد ہے اس کتاب کے آنے کی دیر تھی شیعہ حلقوں میں کھل بلی مچ گئی کچھ موافق تھے اور کچھ مخالف تھے یہ مسئلہ معرکۃ الآراء بن گیا۔ اس کے جواب میں غالی شیعوں کی طرف سے کتابیں لکھی گئیں اور تقریریں کی گئیں خاص طور پر آیت اللہ میلانی نے ایک فتوی دیا کہ یہ کتاب ضلالت اور گمراہی ہے اس کا مصنف گمراہ ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا حتی کہ آیت الله کاظم شریعتمداری کی زیر نگرانی قم کے چند مشائخ کا اجلاس ہوا اور انھوں شاہ کی طرف چھ ہزار دستخط کرا کر بھیجے کہ یہ راہ راست سے منحرف ہو گیا ہے اور اور یہ اہلِ بیت کے مذہب کو گرانا چاہتا ہے تو انھیں گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا گیا مگر ان پر جو تہمتیں لگیں تھیں ان کا ثبوت پیش نہ کر سکے تو ان کو چھوڑ دیا گیا چنانچہ وہ دوبارہ اپنی مسجد میں آگئے لیکن پھر بھی ان شیعہ علماء کی سازشوں سے نہ بچ سکے چنانچہ کچھ دنوں کے بعد انھوں نے علامہ برقعی کی مسجد پر حملہ کر دیا اوباش قسم کے نوجوانوں اور عوام کو بھڑکا کر ان کو مسجد سے نکال دیا گیا۔ علامہ برقعی نے مزید تحقیق شروع کر دی چنانچہ انھوں نے کئی علمی و تحقیقی و اصلاحی رسالے لکھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اثنا عشری مذہب کے بنیادی عقائد سے نکل گئے ہیں چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔ ان سالوں میں میں نے فارغ وقت پایا جس کی وجہ سے مطالعہ، بحث و تحقیق اور تصنیف و تالیف اور کتاب اللہ میں غور و فکر کرنے میں مجھے کافی مدد ملی چنانچہ میرے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہوگیا میں اور میرے مذہب کے تمام علماء خرافات میں غرق ہیں اور اللہ تعالی کی کتاب سے غافل ہیں اور شیعہ علماء کی آراء اور مسائل قرآن کے مخالف اور معارض ہیں۔ چنانچہ شیعہ مذہب کے جو بنیادی خاص اور اختلافی عقائد و نظریات ہیں ان کو چھوڑ دیا مثلاً سیدنا علیؓ اور دوسرے ائمہ کی امامت کے منصوص ہونے ، ان کے معصوم ہونے اور ان کی رجعت کا انکار کیا ، شیعہ کا جو بارھواں سیدنا مہدی منتظر غائب ہے اس کا انکار کیا ، متعہ کے حلال نہ ہونے کا قول اختیار کیا اسی طرح جن جن لوگوں نے ان کو خمس میں سے اگر کچھ دیا تھا تو اعلان کر کے ان کو بلایا اور ان کا دیا ہوا مال ان کو واپس کیا اور مال غنیمت کے علاوہ دوسرے اموال سے خمس لینے کی حرمت پر فتوی دیا جبکہ دوسرے تمام شیعہ مجہتدین خمس کا مال لیتے ہیں اور یہ ان میں مشہور اور رائج ہے۔ علامہ برقعی فرماتے ہیں کہ اکثر محدثین اور احادیث کے اکثر راوی غالی قسم کے تھے یا باطل عقیدہ رکھتے تھے یا مجہول ہیں لہٰذا ان کی طرف رجوع کرنا اور ان پر اعتماد کرنا ممکن نہیں ہے حالانکہ شیعہ مذہب کی بنیاد ہی انہی پر اعتماد کرنے پر ہے کیونکہ اگر ان پر شیعہ علاء اعتماد نہ کریں تو شیعہ مذہب ختم ہو جاتا ہے پھر شیعہ مذہب کی تمام بنیادی کتابیں چھوڑنی پڑیں گی نیز نہ وہ علماء اور مجتہدین تھے بلکہ وہ تو تاجر اور محنت مزدوری کرنے والے تھے قرآن نہیں سمجھتے تھے اس لیے ان کی نقل کردہ روایات کے مضامین کو پرکھے بغیر ان کی جو بعض توثیقیں منقول ہیں ہم ان پر اکتفاء کیسے کر سکتے ہیں حتی کہ شیخ صدوق المتوفی 381 ھ یہ علامہ برقعی کے نزدیک صرف چاولوں کا ایک تاجر تھا جو کچھ اس نے کسی سے سنایا کہیں پایا اس نے جمع کر کے رکھ دیا۔ علامہ برقعی کو اخیر زندگی میں سنہ 1987 م میں طہران کے شمالی جانب ایوین کی جیل کے اندر چھ ماہ قید رکھا گیا پھر قید سے آزادی ملی تو کچھ مدت بعد ان کو وسط ایران میں واقع شہریزد کی طرف جلا وطن کر دیا گیا پھر جب ان کی آزادی کا حکم ملا تو وہ واپس طہران آگئے اور طہران کی شمالی جانب شہر کن میں اپنے بیٹے کے گھر میں ٹھہر گئے اور وہیں ان کی 1922 م میں وفات ہوئی اور امام زاده شعیب کی قبر کے پاس ان کو دفنا دیا گیا۔

علامہ برقعی کے اساتذہ

 علامہ برقعی لکھتے ہیں اب میں اپنی اسناد اجازت اور مدارک اجتہاد ذکر کرتا ہوں اور اللہ تبارک و تعالی جانتے ہیں کہ ان کے ذکر کرنے سے میرا مقصد فخر کرنا بالکل نہیں ہے بلکہ میرا مقصد یہ ہے کہ میرے دشمن مجھ پر جھوٹ نہ گھڑ دیں اور حقائق کا انکار نہ کر دیں اس لیے کہ جن علماء کے عقائد صیح نہیں اور جو خرافات میں مبتلا ہیں ان سے اجازت حاصل کرنا کوئی فخر کی بات نہیں ہے ، مجھے یقین ہے کہ یہ اجازت کی سندیں اور مدارک اجتہاد قیامت کے دن مجھے کوئی نفع نہیں دیں گی۔ بہرحال میں نے اپنے زمانہ کے بڑے بڑے شیعہ علماء سے تعلیم حاصل کی ہے مثلاً سید محمد تقی خوانساری موسوی یہ شیخ عبد الکریم حائری کے شاگرد ہیں ایک مدت تک نجف اشرف میں رہے ہیں اور آقا ضیاء الدین عراقی سے علم کی تکمیل کی ہے، ان کے علاوہ شیخ ابو القاسم کبیر قمی ، الحاج الشیخ محمد علی قمی کربلائی ، سید میرزا محمد سامرائی، سید محمد حجت کوه کمری ، الحاج الشيخ عبد الكريم الحائری ، السید ابوالحسن اصفهانی، سید آقا شاه آبادی ، وغیرہ مشائخ اور مراجع عظام سے اسباق پڑھے ہیں اور انھوں نے مجھے اجازتیں دی ہیں بلکہ بعض نے تو مجھے اجتہاد کی شہادت اور سند دی ہے ، الاشارات والدلائل اور مستدرک البحار“ کے مصنف محمد بن رجب علی طہرانی سامرائی نے مجھے اجتہاد کی شہادت دی ہے اب ان کی اسناد اور شہادات ملاحظہ فرمائیں۔ محمد بن رجب علی طہرانی سامرائی کی شہادت و اجازت بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله رب العالمين والصلاة على عباده الذين اصطفى محمد وآله الطاهرين وبعد فيقول العبد الجاني محمد بن رجب على الطهراني عفا عنهما وأوتيا كتابهما بيمينهما قد استجازني السيد الجليل العالم النبيل فخر الأقران والأوائل أبو الفضل البرقعى القمى أدام الله تعالى تأييده رواية ماصحت لى روايته وساغت لى إجازته، ولما رأيته أهلاً لذلك وفوق ما هنالك استخرت الله تعالى وأجزته أن يروى عنى بالطرق المذكورة في الاجازة المذكورة والطرق المذكورة في المجلد السادس والعشرين من كتابنا الكبير مستدرك البحار وهو على عدد مجلدات البحار لحبرنا العلامة المجلسي قدس سره وأخذت عليه ما أخذ علينا من الاحتياط في القول والعمل، وأن لا ينساني في حياتي وبعد وفاتي في خلواته ومظان استجابة دعواته كما لا أنساه في عصر يوم الإثنين الرابع والعشرين من رجب الاصب من شهور سنه خمس وستين بعد الثلاثمائه وألف حامداً مصلياً مستغفراً

 اجازت و سند شیخ آیت الله بزرگ طہرانی

 شیعہ کی مشہور کتاب ”الذریعہ الی تصانیف الشیعہ“ کے مصنف شیخ حاج آیت اللہ آقا بزرگ طہرانی نے علامہ برقعی کو جو سند و اجازت دی وہ درج ذیل ہے

بسم الله الرحمن الرحيم وبه ثقتى الحمد لله وكفى والصلاة والسلام على سيدنا ومولانا ونبينا محمد المصطفى وعلى أوصيائه المعصومين الائمه الاثنى عشر صلوات الله عليهم أجمعين إلى يوم الدين وبعد فإن السيد السند العلامة المعتمد صاحب المفاخر والمكارم جامع الفضائل والمفاخم، المصنف البارع والمؤلف الماهر، مولانا الأجل السيد أبو الفضل الرضوى نجل المولى المؤتمن السيد حسن البرقعي القمى دام أفضاله وكثر في حماة الدين أمثاله قد برز من رشحات قلمه الشريف ما يغنينا عن التقريظ والتوصيف قد طلب منى لحسن ظنه إجازة الروايه لنفسه ولمحروسه العزيز الشاب المقبل السعيد السديد السيد محمد حسین حرسه الله من شر كل عين فأجزتهما أن يرويا عنى جميع ما صحت لي روايته عن كافة مشايخي الأعلام من الخاص والعام، وأخص بالذكر أول مشايخي وهو خاتمة المجتهدين والمحدثين ثالث المجلسيين شيخنا العلامة الحاج الميرزا حسين النورى، المتوفى بالنجف الأشرف في سنه 1320 فليرويا أطال الله بقاء هما عنى عنه بجميع طرقه الخمسه المسطورة في خاتمة كتاب مستدرك الوسائل والمشجرة في مواقع النجوم لمن شاء وأحب مع رعاية الاحتياط، والرجاء من مكارمهما أن يذكراني بالغفران في الحياة وبعد الممات حررته بيدى المرتعشه في طهران فى دار آية الله المغفور له الحاج السيد احمد الطالقاني، وأنا المسىء المسمى بمحسن والفاني الشهير بآقا بزرك الطهراني في سالخ ربیع المولود 1382 (مهر) آیت اللہ عراقی کی اجازت مرزا حسین کے قابل ترین شاگرد اور مشہور مصنف "عوالی اللالی فی فروع العلم الاجمالی “ کے مصنف سید عبدالنبی نجفی عراقی نے علامہ برقعی کے متعلق لکھا ہے الحمد لله رب العالمين الذي فضل مداد العلماء على دماء الشهداء ، والصلاة والسلام على محمد وآله الأمناء على أصحابه التابعين الصلحاء إلى يوم اللقاء . أما بعد .. أشهد بأن الجناب المستطاب العالم الفاضل؛ جامع الفضائل والفواضل، قدوة الفضلاء والمدرسين، معتمد الصلحاء والمقربين عماد العلماء العالمين، معتمد الفقهاء والمجتهدين، ثقة الإسلام والمسلمين، السيد سيد أبو الفضل القمي الطهراني المعروف والملقب بالعلامة الرضوى حضر دروس العبد الفقير في درس الخارج في النجف الأشرف سنين متمادية، كما أنه حضر دروسي لعدة سنوات في الحوزة في قم، وقد اجتهد كثيراً في تحصيل المعارف الإلهية والعلوم الشرعية والمسائل الدينية والنواميس المحمدية، فاجتهد وبالغ في الكد والمكافحة في سبيل العلم حتى بلغ بحمد الله إلى قوة الإجتهاد، ويجوز له استنباط الأحكام الشرعية على النهج المعهود بين الأصحاب رضوان الله عليهم أجمعين. وقد أجزت له أن ينقل رواياتي بالطرق التسعة من هذا العبد الفقير إلى الأئمة المعصومين، كما أجيز له نقل فتاواى، كما أجيز له التصرف في الأمور الشرعية التي لا يجوز التصرف فيها إلا بإذن المجتهدين وإجازتهم، ويجوز له قبض الحقوق والمال ولاسيما حق الإمام ، وكل ذلك مشروط بالحيطة والتقوى. بتاريخ : ذى الحجة الحرام من عام 3701

من الفاني الجافي النجفي العراقي (الختم)

 آیت اللہ کاشانی کی اجازت اجتہاد

 آیت الله سید ابوالقاسم کاشانی نے سید علامہ برقعی کو ان الفاظ سے اجازت دے بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله رب العالمين، والصلاة على رسوله وعلى آله الطاهرين المعصومين. وبعد : فإن جناب العالم العادل حجة الاسلام والمسلمين السيد العلامه أبو الفضل البرقعى الرضوى، قد صرف أكثر عمره الشريف في تحصيل المسائل الأصولية والفقهية حتى صار ذا القوة القدسية من رد الفروع الفقهيه إلى أصولها، فله العمل بما استنبطه واجتهده ويحرم عليه التقليد فيما استخرجه وأوصيه بملازمة التقوى ومراعاة الاحتياط والسلام عليه وعلينا وعلى عباد الله الصالحين. الأحقر أبو القاسم الحسيني الكاشاني (الختم)

اجازت آیت الله العظمی سید ابو الحسن الاصفهانی

 علامہ برقعی نے جس دن نجف اشرف سے واپس قم آنے کا ارادہ کیا اس آخری دن آیت الله العظمی سیدابوالحسن اصفہانی نے ان کو یہ سند و اجازت لکھ کر دی بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على خير خلقه محمد و آله الطيبين الطاهرين، واللعنة الدائمة على أعدائهم أجمعين، من الآن إلى يوم الدين. وبعد فإن جناب الفاضل الكامل والعالم العادل مروّج الأحكام قرة عينى الأعز السيد أبو الفضل البرقعى دامت تأييداته ممن بذل جهده في تحصيل الأحكام الشرعيه والمعارف الإلهيه برهة من عمره وشطراً من دهره، مجدا فى الاستفادة من الأساطين، حتى بلغ بحمد الله مرتبة عالية من الفضل والاجتهاد، ومقروناً بالصلاح والسداد، وله التصدى فيها وأجزته أن يأخذ من سهم الإمام بقدر الاحتياج وإرسال الزائد منه إلى النجف وصرف مقدار منها للفقراء والسادات وغيرهم وأجزته أن يروى عنى جميع ما صحت لى روايته واتضح عندى طريقه وأوصيه بملازمة التقوى ومراعاة الاحتياط وأن لا ينساني من الدعاء في مظان الاستجابات، والله خير حافظاً وهو أرحم الراحمين. 22 ذى الحجه 62 أبو الحسن الموسوى الاصفهاني (الختم)

 اجازت آیت اللہ شہاب الدین مرعشی

 آیت الله سید شہاب الدین مرعشی المعروف سید نجفی صاحب نے شجرات اور انساب میں علامہ برقعی کو یہ اجازت لکھ کر دی۔ بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله على ما من نعمة وأجاز، والصلاة والسلام على محمد وآله مجاز الحقيقة وحقيقه المجاز. وبعد : فإن السيد السند والعالم المعتمد شم سماء النبالة وضحيها وزين الاسرة من آل طه علم الفخار الشامخ ومنار الشرف الباذخ قاعدة المجد المؤثل وواسطة العقد المفصل، جناب السيد أبو الفضل ابن الشريف العابد السيد حسن الرضوى القمي السيداني – دام علاوه وزيد في ورعه وتقاه أحب ورغب في أن ينتظم في سلك المحدثين والرواة عن أجداده الميامين ويندرج في هذا الدرج العالي والسمط الغالى، ولما وجدته أهلاً وأحرزت منه علماً وفضلاً أجزت له الرواية عنى بجميع ما صحت روايته وساغت إجازته تم سنده وقويت عنعنته عن مشايخى الكرام أساطين الفقه وحملة الحديث، وهم عدة تبلغ المائتين من أصحابنا الإمامية، مضافاً إلى مالى من طرق سائر فرق الإسلام الزيدية والإسماعيلية والحنابلة والشافعية والمالكية والحنفية وغيرها، ولا يمكنني البسط بذكر تمام الطرق فأكتفى بتعداد خمس منها تبركاً بهذا العدد، وأقول ممن أروى عنه بالإجازة والمناولة والقراءة والسماع والعرض وغيرها من أنحاء تحمل الحديث إمام أئمة الرواية والجهبذ المقدام في الرجال والدراية مركز الإجازة مسند الآفاق علامة العراق أستاذى ومن إليه في هذه العلوم إستنادي وعليه اعتمادى حجة الإسلام آية الله تعالى بين الأنام مولاى وسيدى أبو محمد السيد حسن صدر الدين الموسوى المتوفى سنه ... 1354 هذا ما رمت ذكره من الطرق وهي ستة. فلجناب السيد أبي الفضل ۔ ناله الخير والفضل – أن يروى عن مشايخي المذكورين بطرقهم المتصله المعنعنة إلى ائمتنا إلى الرسول وسادات البرية مراعياً الشرائط المقررة في محلها من التثبت في النقل ورعاية الحزم والاحتياط وغيرها وفي الختام أوصيه – دام مجده وفاق سعده وجد جده – أن لا يدع سلوك طريق التقوى والسداد فى أفعاله وأقواله، وأن يصرف أكثر عمره في خدمة العلم والدين وترويج شرع سيد المرسلين، وأن لا يغتر بزخارف هذه الدنيا الدنية وزبرجها، وأن يكثر من ذكر الموت فقد ورد أن أكيس المؤمنين أكثرهم ذكراً للموت، وأن يكثر من زيارة المقابر والاعتبار بتلك الأجداث الدوائر، فإنه الترياق الفاروق والدواء النافع للسل وعن الشهوات وأن يتأمل في أنهم من كانوا ... وأين كانوا .. وكيف كانوا .. وإلى أين صاروا .. وكيف صاروا ... واستبدلوا القصور بالقبور، وأن لا يترك صلاة الليل ما استطاع وأن يوقت لنفسه وقتاً يحاسب فيه نفسه، فقد ورد من التأكيد منه ما لا مزيد عليه فمنها قوله حاسبوا قبل أن تحاسبوا وقوله حاسب نفسك حسبة الشريك شريكه فإنه – أدام الله أيامه وأسعد أعوامه – إن عين لها وقتاً لم تضيع أوقاته فقد قيل : توزيع الأوقات توفيرها – ومن فوائد المحاسبه أنه إن وقف على زلة في أعماله لدى الحساب تداركها بالتوبة وإبراء الذمة وإن اطلع على خير صدر منه حمد الله وشكر له على التوفيق بهذه النعمة الجليلة . وأوصيه حقق الله آماله وأصلح أعماله – أن يقلل المخالطة والمعاشرة لأبناء العصر سيما المتسمين بسمة العلم فإن نواديهم ومحافلهم مشتملة على ما يورث سخط الرحمن غالباً إذا كثر مذاكرتهم الاغتياب وأكل لحوم الإخوان، فقد قيل : إن الغيبة أكل لحم المغتاب ميتاً وإذا كان المغتاب من أهل العلم كان اغتيابه كأكل لحمه ميتاً مسموماً، فإن لحوم العلماء مسمومة . عصمنا الله وإياك من الزلل والخطل ومن الهفوة فى القول والعمل إنه القدير على ذلك والجدير بما هنالك، وأسأله تعالى أن يجعلك من أعلام الدين ويشد بك وأمثالك أزر المسلمین آمین آمین . وأنا الراجي فضل ربه العبد المسكين أبو المعالي شهاب الدين الحسيني الحسنى المرعشى الموسوى الرضوى الصفوى المدعو بالنجفي، نسابة آل رسول الله عفا الله عنه، وكان له وقد فرغ من تحريرها في مجالس آخرها لثلاث مضن من صفر 1358 ببلدة قم المشرفه . حرم الأئمة (الختم)

اسی طرح شیخ عبدالکریم الحائری ، آیت اللہ سید حجت کوه کمری سے بھی اجتہاد کی اجازات ملی تھیں جو وزارة الثقافۃ کے رجسٹروں میں محفوظ ہیں

۔ علامہ برقعی دوسرے علماء کی نظر میں

 آیت الله شریعتمداری

 میں زمانہ طالب علمی میں آیت اللہ شریعتمداری کا دوست تھا اور ہم قم میں اکٹھے تھے مجھے کبھی گمان نہیں ہوا کہ وہ بھی میری مخالفت کریں گے وہ میرے قریب ہی رہا کرتے تھے یہاں تک کہ میری کتاب درسی از ولایت“ شائع ہوئی تو انھوں نے اس بارے میں میری تائید کی بلکہ اس پر تقریظ بھی لکھ دی جس میں انھوں نے میری تعریف کی اور میرے اس اقدام پر مجھے سراہا میں نے اس کتاب میں جو کچھ ذکر کیا تھا ان کو مقبول اور شرعی امور قرار دیا لیکن ایک لمبی مدت کے بعد ڈھال کی پشت تبدیل ہوگئی اور اور وہ میرے مخالف ہو گئے حتی کہ میری کتاب کے متعلق ایک استفتاء میں صاف انکار کر دیا۔

آیت الله المحلاتی

 اسی طرح آیت اللہ الحاج الشيخ ذبیح الله المحلاتی نے میری کتاب درسی از ولایت کو عین حق قرار دیا چنانچہ اپنے ایک استفتاء میں لکھتے ہیں میں نے کتاب درسی از ولایت کا مطالعہ کیا ہے جو امام عادل حجتہ الاسلام السید البرقعی کی ہے اور میں اس کے عقیدے کے صحیح ہونے کا اقرار کرتا ہوں اور اس بات کا بھی اقرار کرتا ہوں کہ وہ وہابیت کی طرف دعوت نہیں دے رہے اور جو کچھ ان کے بارے میں لوگ کہتے ہیں وہ بہتان بازی اور من گھڑت باتیں ہیں جن کی کوئی بنیاد نہیں ہے تم اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ علامہ برقعی کہتے ہیں کہ ہمارے لیے یہ کہنا صحیح نہیں کہ لا يضيع العالم الا اذا اهلكه على ولا تقوم الساعة الا اذا اقامها علی کہ عالم (جہاں) ضائع نہیں ہوگا مگر اس وقت جب اس کو سیدنا علی ہلاک کریں اور قیامت قائم نہیں ہوگی مگر اس وقت جب سیدنا علی اس کو قائم کریں گے میں بھی یہی کہتا ہوں کہ اس جیسے اشعار صحیح نہیں ہیں۔

 علامه مشکینی

اسی طرح الشیخ علی المشکینی النجفی نے بھی میری تائید کی چنانچہ وہ لکھتے ہیں میں نے کتاب درسی از ولایت کا مطالعہ کیا ہے اور میں نے اس کے اندر ایک گہرا علم اور اہم موضوعات کو پایا ہے جو عقل سلیم اور دین قویم کی منطق کے مطابق ہیں۔

 حجة الاسلام المرعشی

 سید حجة الاسلام وحید الدین مرعشی نجفی لکھتے ہیں ۔ سید علامہ برقعی دامت افاضاته العالیہ ایک عالم ، مجتہد عادل امامی المذہب ہیں اور جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ آدمی کی تصنیفات اور کتابیں اس کی عقل جانچنے کیلئے بہترین دلیل ہیں اور اس کے عقیدے کی وضاحت کیلئے بہترین آئینہ ہیں مؤلف محترم (علامہ برقعی) نے اپنی کتاب عقل و دین اور تراجم رجال جو ابھی چھپی ہے اور دوسری تصانیف میں سیدنا امیر المؤمنین سیدنا علی بن ابی طالبؓ اور دوسرے ائمہ دین کے مقام کے بارے میں انتہائی درجہ کے غلو کرنے کے متعلق کئی امور ذکر کئے ہیں۔ ان کی مفید کتاب درسی از ولایت ” کے بارے میں غافل، احکام میں جلد باز طعن و تشنیع کرنے والے افراد کے مجموعہ نے جو چیخ و پکار اور شور شرابا برپا کر رکھا ہے اس کی کوئی صیح بنیاد نہیں ہے یہ کتاب پڑھتے نہیں اور حکم لگانے میں جلد بازی کرتے ہیں اسی وجہ سے اپنا ایمان بھی ضائع کر دیتے ہیں یہ لوگ اپنی بے بنیاد طعن و تشنیع کے ساتھ اس عظیم آدمی پر ظلم کر رہے ہیں ان کے فیصلے کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور نہ بڑے علماء کی طرف سے کوئی تائید ہے۔ ہلاکت ہے اس شخص کیلئے جو ائمہ ہدی کی اس پاک اولاد کو تکلیف دیتا ہے اور اس شخص کیلئے جو اس مجتہد عالم کو تکلیف دیتا ہے جس نے کئی عظیم مراجع سے اجتہاد کی سند و شہادت حاصل کی ہے ہلاکت ہے اس شخص کیلئے جو اس مجتہد ، فقیہ، عالم پر اس جیسے بہتان لگاتا ہے اور اس کو متہم کرتا ہے۔ خادم الشرع المبین سید وحید الدین مرعشی نجفی

 آیت الله الخولی

آیت اللہ خولی مجھے اچھی طرح جانتے ہیں اور مجھے بہت پسند کرتے تھے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں خرافات اور توہم پرستی میں غرق تھا اور میں شہر نجف میں محاضرات (دروس) دیا کرتا تھا تو وہ میرا بہت شکریہ ادا کیا کرتے تھے بہت زیادہ پسندیدگی کا اظہار کرتے تھے جب میں منبر سے اترتا تو وہ میری پیشانی پر بوسہ دیا کرتے تھے۔

 آیت اللہ شاہرودی

 اسی طرح سید شاہرودی بھی مجھے پسند کرنے والوں میں سے تھے اور ہمیشہ میرا شکریہ ادا کیا کرتے تھے ، میری تعریف کر کے مجھے برانگیختہ کرتے تھے جس دن گمراہی میں ڈالنے والے فلسفہ کے درس کی نجف شہر میں ابتداء ہوئی اور بعض طلبہ فلسفہ سیکھنے اور فلسفیوں کے افکار پڑھنے کی طرف جلدی سے جانے لگے تو نجف کے مراجع نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں ان طالبعلموں کو جو قرآن وسنت سے جاہل ہیں کچھ دروس دوں اور ان کے سامنے بیان کروں کہ فلسفیوں کے افکار دین کے متضاد ہیں سید آیت

اللہ شاہرودی نے اپنے گھر کا صحن پیش کیا تا کہ میں اپنا درس دوں اور مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں منبر پر چڑھ کر درس دے کر طالب علموں کے سامنے واضح کروں چنانچہ میں نے اس کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے ان طلبہ کے سامنے دین کے حقائق بیان کیے انھوں نے میرے درس کو بہت پسند کیا اور وہ میرا ہمیشہ اکرام اور احترام کرتے رہے۔ لیکن اخیر وقت میں جب مجھے اللہ تعالی نے ہدایت دی اور مجھے توفیق دی کہ میں خرافت کے ختم کرنے اور بدعات و شرکیہ افعال کے پھینک دینے کی تبلیغ کرنے لگا تو یہ سارے جو میری پشت پناہی کیا کرتے تھے کھسک گئے اور مجھے اکیلا چھوڑ دیا وہ ایسے ہو گئے جیسے مجھے پہچانتے ہی نہیں بلکہ بعض نے تو میری مخالفت شروع کر دی۔

 آیة الله الخمینی

جب شاہ کی حکومت ختم ہوئی اور آیت اللہ خمینی نے حکومت کی باگ وڈور سنبھالی تو میں نے ارادہ کیا کہ میں آیت اللہ خمینی سے ملاقات کروں تقریبا تیس سال سے ہماری دوستی رہی تھی ہم ایک ہی مدرسہ میں پڑھاتے رہے ہیں وہ مجھے اچھی طرح جانتے تھے اور میری تعریف کیا کرتے تھے حتی کہ ایران واپس آنے سے پہلے اور اس شہر میں علماء کے جدید حالات پر مطلع ہونے سے پہلے اپنے ایک خطاب میں میری تعریف کی جو انھوں نے اپنے بڑے بیٹے آیت اللہ سید مصطفی خمینی کی وفات پر دیا تھا اگرچہ انہوں نے میرا نام ذکر نہیں کیا تھا لیکن میری طرف اشارہ کیا تھا چنانچہ اس نے کہا: علماء اپنے معاملہ میں غفلت میں پڑچکے ہیں ان کی عقلیں جامد ہو چکی ہیں کوئی شک نہیں کہ کوئی خفیہ ہاتھ ہیں جو ان کو غفلت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں یہ خفیہ ہاتھ کچھ کام کرتے ہیں پھر ان کے پیچھے سے شور شرابا برپا کر دیتے ہیں اور یہ واعظ اور علماء خطباء انھی واقعات کی طرف سمٹ جاتے ہیں اور اپنے آپ کو انھی میں ضائع کر دیتے ہیں وہ زید کو کافر کہتے ہیں اور عمرو کو مرتد کہتے ہیں اور اس کا نام وہابی رکھ دیتے ہیں حالانکہ وہ ایسا نہیں یہ لوگ ایک ایسے عالم کو وہابی کہتے ہیں جس نے اپنی عمر کے چالیس سال دعوت اور فقہ میں گزار دیے ہیں اور وہ اپنے تمام معاصرین سے زیادہ فقیہ اور فقہ و دین کو زیادہ جاننے والا ہے، یہ ان علماء کی بہت بڑی غلطی ہے تم لوگوں کو اپنے آپ سے دور نہ کرو اور صفوں میں افتراق پیدا نہ کرو تم ایسی باتیں نہ کرو کہ یہ وہابی ہے، وہ ملحد ہے، وہ ایسے ہے اگر تم نے ایسا شروع کر دیا تو تمہارے لیے کیا بچے گا۔

آیة الله خمینی کو پیغام

 میں نے آیت اللہ خمینی کو ایک خط لکھا جو میری بیٹی لے کر اس کے پاس گئی جب اس نے میرا نام سنا تو میری بیٹی کا استقبال کیا اور اس کا خوب احترام کیا اور اس سے خط لے لیا پھر میری بیٹی خمینی کے گھر چلی گئی خمینی کی بیوی نے اسے کہا ہم سید خمینی صاحب سے آپ کے والد صاحب کے خط کا جواب لے کر آپ کے پاس طہران پہنچا دیں گے جب چند دنوں بعد خمینی کی بیوی طہران آئی تو میری بیٹی نے جواب کا مطالبہ کیا تو اس کے پاس لکھا ہوا کوئی جوابی خط نہیں تھا لیکن وہ کہنے لگی سید خمینی نے تمھارے والد صاحب کے خط کے جواب میں کہا کہ سید برقعی مجتہد اور صاحب رائے ہیں مگر لوگ ان سے اچھا معاملہ نہیں کرتے۔ آیت الله طالقانی جب وہ بغاوت کی ابتداء میں جیل سے نکلے تھے تو میں نے ان سے ملاقات کی تھی جب میں ان سے گفتگو کر رہا تھا تو اسی اثناء میں انھوں نے اپنا منہ میرے کان کے قریب کیا اور آہستہ سے کہا جو کچھ آپ کہہ رہے ہو وہ سب کچھ حق ہے لیکن ابھی ان حقائق کو ظاہر کرنا مصلحت کے خلاف ہے۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ اگلے جہاں اللہ تعالی ان سے پوچھیں گے کہ مصلحت کب اجازت دے گی جب تم حق بات کہو گے۔ المهندس بازر جان جن دنوں میں زیر علاج تھا تو میری عیادت کرنے کیلئے میرے گھر پر المهندس مہدی بازرجان ساتھیوں کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف لائے جن میں ڈاکٹر صدر اور مهندس توسلی شامل تھے، انھوں نے میری صحت کے متعلق پوچھا میں نے انہیں ان زخموں کی طرف اشارہ کیا جو میرے چہرے پر تھے میں نے انہیں کہا یہ اندھی تقلید کے نتائج ہیں یہ سب کچھ میرے ساتھ ایک مقلد آدمی نے کیا ہے جو اپنے آیت اللہ کے احکام کی بغیر سوچے سمجھے اور بغیر ان سے احکام کی دلیل طلب کیے اطاعت کرتا ہے میں تم سے امید کرتا ہوں کہ تم اور تمہارے ساتھی دیندار لوگوں کی اندھی تقلید سے دور ہو جاؤ اور اپنی عقلوں کی لگام ان کے ہاتھوں میں نہ دو۔ آیت اللہ فیض اس بغاوت کے زمانہ میں مصلحت پسند خفیہ ہاتھ علماء کی صفوں میں کھیل رہے تھے اور جہاں ان کی مصلحتیں ہوتیں وہیں ان کو ہانک کر لے جاتے ایک مرتبہ میں آیت اللہ فیض کے گھر ان سے تعزیت کرنے گیا وہ بھی قم شہر کے تھے اور میرے رشتہ داروں میں سے تھے اور اپنے آپ کو مرجع شمار کرتے تھے اس دن انہوں نے تعزیت ، دعاء اور رونے دھونے کی مجلس قائم کی تھی لیکن میں اس وقت چونک اٹھا جب وہ میرے سامنے آئے اور مجھ سے اچھے سلوک سے پیش نہ آئے حالانکہ وہ میرا ہمیشہ احترام کیا کرتے تھے ایسا لگتا تھا جیسے وہ مجھ سے ناراض ہیں اور ان کے دل میں میری مخالفت ہے تو میں نے ان سے ان کے غصے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ مجھے توقع نہیں تھی کہ آپ جیسی شخصیت بھی ایسا کام کرے گی؟ میں نے کہا: میں سمجھا نہیں آپ کس چیز کے متعلق بات کر رہے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ اس خط کے متعلق جو آپ نے مجھے لکھا تھا اور اس میں مجھے دھمکی دی تھی کہ اگر میں نے آیت الله بروجردی کو مرجعیت کی تربیت نہ دی تو آپ مجھے قم کے اندر بھری مجلس میں رسوا کریں گے ۔ میں نے ان سے کہا اللہ کی قسم میں نے ایسا نہیں کیا اور نہ مجھے اس قسم کی بات کے متعلق خبر ہے اگر آپ احسان کریں اور وہ خط مجھے دکھا دیں کہ اس پر میرا نام اور میرے دستخط ہیں یا نہیں؟ اور میں آپ کے سامنے قسم اٹھاتا ہوں کہ میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتا کوئی شک نہیں کہ کچھ لوگوں نے میرا جھوٹا نام گھڑ کر لکھ دیا ہو اور اس کے پیچھے ان کے خطرناک ارادے ہوں۔ جب میں اس کے پاس سے باہر آیا تو مجھے یقین ہوگیا کہ یہاں کوئی خفیہ ہاتھ ہیں جو کسی ایسے آدمی کو لوگوں کیلئے مرجع بنانا چاہتے ہیں جو ان کی مصلحتوں پر پورا اترے اور یہ صرف خط کا قصہ اور ہم دو آدمیوں میں ہونے والا واقعہ نہیں بلکہ کوئی لمبی پلاننگ ہے اس وقت میں نے اچھی طرح یقین کر لیا کہ مرجعیت ایک کھیل بن چکی ہے لوگ اپنی مصلحتوں کی خاطر اس کی قیمت بڑھا دیتے ہیں اور میرے تصورات سچ ثابت ہوئے اور ان خفیہ ہاتھوں نے آیت الله بروجردی کو مرجع تقلید بنا دیا اور اس کے پیچھے فائدہ اٹھانے کی اور مذموم مقاصد حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی۔

علامہ برقعی کی نور ہدایت کی طرف آمد اور آزمائشات

 تو اچھی طرح جان لے کہ میں جوانی میں شیعہ امامیہ میں سے تھا اور اپنے آباء کا مقلد تھا باوجود اس کے کہ میں طالب علم اور علوم دینیہ کے حصول میں مگن تھا میری یہی حالت رہی حتی کہ میں نے ان کے علماء اور مراجع کی تصدیق سے مجتہد کا درجہ حاصل کر لیا میں متعصب قسم کا شیعہ تھا اور اس مذہب کا مبلغ اور داعی شمار ہوتا تھا ہم اور ہمارے جیسے دوسرے مجتہدین شیعہ مذہب کی خرافات کو صحیح ثابت کرنے کیلئے کمزور توجیہات کا سہارا لیتے تھے جن پر ہم خود بھی مطمئن نہیں ہوتے تھے ہم ان کو رائج کرنے کی کوشش میں لگے رہتے اور بعید تاویلیں کرتے تھے میں نے اپنے سابقہ مذہب کے مطابق بہت ساری تصانیف کی ہیں ہم یہ سمجھتے تھے کہ ہمارے مذہب کے علماء ہادی اور مہدی ہیں یہاں تک کہ جب میری عمر چالیس سال کو پہنچی تو میں نے کتاب اللہ کی آیات میں تدبر اور غور و فکر شروع کر دیا تو اللہ تعالی نے اپنی آیات کی برکت سے مجھے ہدایت دی اللہ تعالی اپنی کتاب کے ساتھ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے میں نے دیکھا کہ میرے مذہب کے بہت سے مسائل قرآنی آیات کے موافق نہیں ہیں بلکہ میرے مذہب کی اکثر روایات آیات قرآن کے خلاف ہیں جیسا کہ کلینی کی کتاب ”کافی“ کی روایات اور علامہ مجلسی کی بحار الانوار" کی روایات ہیں اسی لیے میں نے اصول کافی فروع کافی کے رد میں کسر الصنم “ کتاب لکھی اور اس کی روایات کو قرآن اور عقل کے خلاف ثابت کیا میں نے قرآن کی آیات کے ترجمہ اور اس کے نکات اور حقائق کھولنے پر (احکام القرآن اور تابشی از قرآن) لکھی جس کی وجہ سے شیعہ مذہب کے متعصب علماء میرے دشمن بن گئے اور مجھے ان کتابوں کے چھاپنے اور شائع کرنے سے روک دیا اور اپنی مسجد میں مجھے جماعت کرانے سے بھی روک دیا جب اللہ تعالی نے مجھے بیدار کر کے سیدھے راستہ پر گامزن کیا تو انہوں نے مجھ پر تہمتیں لگانی شروع کر دیں اور دشمنی اور مخالفت کے تیر چلانے شروع کر دیے حتی کہ کئی مرتبہ مجھے قتل کرنے کی کوشش بھی کی۔ جب میری عمر اسی (80) سال ہوئی تو شیعہ مذہب کے علماء اور ایرانی شیعی حکومت کے افسران نے میرے خون کو رائیگان قرار دے دیا۔ اور میرے اپنے وطن میں صرف اسلام کا نام باقی رہ گیا انہوں نے مجھے قتل کرنے کیلئے کئی حکومت کے لوگ بھیجے وہ میرے گھر میں داخل ہوئے میری اجازت کے بغیر دروازے کھول دیے میں عشاء کی نماز کی دوسری رکعت میں مشغول تھا انہوں نے مجھے گولی ماری میں بے ہوش ہو کر گر پڑا میرے چہرے سے خون کے فوارے بہہ پڑے اور مجھے بالکل ہوش نہ رہا باوجود اس کے کہ میں بڑھاپے کو پہنچ چکا تھا ایسی حالت میں انھوں نے مجھے ظلم کا نشانہ بنایا لیکن اللہ تعالی نے میری حفاظت فرمائی اور میں زندہ رہا... الحمد لله رب العالمین

 کتاب الغدیر کے بارے میں علامہ برقعی کا تبصرہ

 جب میں جیل میں تھا تو علامہ عبدالحسین امینی تبریزی کی کتاب الغدیر پر دوسری مرتبہ مطالعہ کیا اس کے بارے میں جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ امینی نے اپنی کتاب میں حدیث غدیر پر چند سندوں کے اضافہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا میں کہتا ہوں کہ انھوں نے سچ کہا ہے اور وہ حق پر ہیں۔

اس کتاب کی کوشش ہے کہ بعض جاہلوں پر حقیقت کو مشتبہ کر کے ان کو دھوکا دیدے اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ طالب علموں اور محققین کے نزدیک اس کتاب کا کوئی وزن اور کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ بعض اہل فن اور متعصب قسم کے لوگ اپنی خواہشات پر سوار ہو گئے اور اس کتاب کی تعریف کر دی تاکہ لوگوں کو اس بارے میں دھوکہ دیں اور لوگوں کی عقلوں پر ہنسا کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے استاذ سید ابوالحسن اصفہانی حق پر تھے جب انھوں نے عشر زکاۃ کے مال سے اس کتاب کو چھاپنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ شاید کہ امام راضی نہ ہو کہ اس کے مال سے ایک شعروں کی کتاب کو چھاپا جائے۔ اس کتاب میں اکثر حصہ میں ایسی کتابوں سے روایت اور دلائل لیے گئے ہیں جو غیر معتبر ہیں اور جن کا اہل علم اور محققین کے نزدیک کوئی وزن اور قدر و قیمت نہیں ہے علماء نے اس کتاب کی اکثر روایات کو رد کر دیا ہے اور بیان کر دیا ہے کہ اس کی اکثر روایتیں صحیح نہیں ہیں لیکن مؤلف اگلے ایڈیشنوں میں اس کے ثابت کرنے پر ہی لگا رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شیعہ سنی اختلافات پر لکھنے والے شیعہ علماء نے کافی عرصہ پہلے یقین کر لیا تھا کہ وہ حدیث غدیر کی جو صحیح احادیث ہیں ان سے اپنے عقائد اور افکار ثابت نہیں کر سکتے ۔ اسی لیے انھوں نے اس کتاب کے مداحین کی لگام کو چھوڑ دیا کہ وہ اس کتاب کی تعریف میں مبالغہ کر لیں چونکہ انہی لوگوں کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور ہے اس لیے وہ کسی حال میں بھی اجازت نہیں دیتے کہ اس موضوع پر جو قیمتی اور علمی کتابیں لکھی گئی ہیں ان کو کوئی آنکھ دیکھ سکے جیسے

(1) کتاب طریق اتحاد یا نصوص امامت جس میں علمی اور معتبر بحث کی گئی ہے

(2) الباقیات الصالحات علماء ہند میں سے مولانا عبد الشکور لکھنوی صاحب نے اردو زبان کی کتاب ” آیاتِ بینات“ کا فارسی میں ترجمہ کیا ہے ، اور آیاتِ بینات ہندوستانی شیعہ کے ایک بڑے عالم نواب محسن الملک سید محمد مہدی علی کی لکھی ہوئی ہے نواب محسن الملک نے بدعات و خرافات کو چھوڑ کر قرآن وسنت کو اپنایا اور چار جلدوں میں یہ کتاب لکھی جس سے ان کا مقصد اپنی قوم کو حق کی اتباع کی دعوت دینا ہے (ان کے حالات ہم نے اسی کتاب میں درج کر دیے ہیں مؤلف )

(3) تحفہ اثنا عشریہ یہ کتاب امام محدث شاہ عبد العزیز دہلوی بن شاہ ولی الله احمد الدہلوی کی ہے

(4) رسالہ راز دلبراں عبد الرحمن سربازی کا ہے اس کے اندر انہوں نے اصول دین اور راہ حق میں جو بنیادی شبہات ہیں ان کا رد کیا ہے

(5) منہاج السنۃ کا جو میں نے فارسی ترجمہ کیا ہے۔ اسی طرح ان کے علاوہ دوسری کتابیں جو ایک فارسی زبان والے قاری کیلئے مفید ہیں حکومتی لوگوں نے ہمیشہ فارسی عوام تک ان کتابوں کے پہنچنے میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں حتی کہ ان کتابوں کے نام تک نہیں پہنچنے دیتے۔ اگر یہ شیعہ لوگ حق پر ہوتے تو ایک لمحہ بھی یہ لوگ نہ رکتے اور لوگوں کیلئے میدان کھلا چھوڑ دیتے تاکہ لوگ علامہ امینی کی کتاب الغدیر اور اس جیسی دوسری کتابوں کو پڑھیں اور اپنی عقلوں سے فیصلہ کریں پھر جس کو ان کی عقلیں درست اور حق سمجھیں اس کو اختیار کر لیں یا اس بارے میں وہ علماء کی طرف رجوع کریں اور حقائق کی وضاحت طلب کریں اور لوگوں کے شبہات کا جواب جان لیں اور بالآخر سیدھے راستے پر گامزن ہو جائیں اور اللہ تعالی کے اس قول پر عمل کر کے کامیابی سے ہمکنار ہو جائیں اللہ تعالی فرماتے ہیں "اليوم تجزى كـل نـفـس بـمـا كسبت لا ظلم اليوم ان الله سريع الحساب (الزمر 17)

 اللہ تعالی قیامت کے دن فرمائیں گئے آج کے دن ہر نفس کو اس کے کیے کا بدلہ دیا جائے گا آج کسی پر ظلم نہ ہوگا بیشک اللہ جلد حساب لینے والے ہیں لیکن افسوس صد افسوس کہ یہ شیعہ حکومتی لوگ یہ واجب اور ضروری کام نہیں کر سکتے اور نہ لوگوں کو اس بارے میں آزاد چھوڑ سکتے ہیں بلکہ جو آدمی بھی حق کی دعوت دیتا ہے اس کو یہ لوگ جیل خانوں کے اندھیروں میں ڈال دیتے ہیں یا اپنی وحشی بندوقوں کا نشانہ بنا دیتے ہیں جیسا کہ انھوں نے میرے ساتھ کیا ہے۔ علامہ عبد الحسین شرف الدین کی کتاب المراجعات پر تبصرہ میرے بعض دوستوں نے میری طرف ایک کتاب بھیجی جس کا نام مراجعات تھا اور مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اس کتاب کو دیکھوں اور اس کے توہمات کو حقائق سے جدا کروں ، یہ کتاب شیعہ امامیہ کی ایک عالم سید عبد الحسین شرف الدین کی ہے اس کتاب کے اندر مصنف نے یہ دعوی کیا ہے کہ شیعہ کا مذہب عترت اور اہلِ بیت والا ہے اس کتاب کے اندر اہلِ السنت کے ایک عالم کی طرف سے سوالات ذکر کر کے جوابات دیے ہیں اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ مسلمانوں کا ہر گروہ دوسرے گروہ کے ساتھ بغض اور عناد رکھتا ہے چنانچہ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں یہ بھائی جن کی بنیاد ایک ہے جن کا عقیدہ ایک ہے جب یہ جمع ہوتے ہیں تو افسوس ہے کہ ان کے درمیان لڑائی جھگڑا ہوتا ہے۔ یہی چیز افسوس غم اور فکر کا باعث ہے اس کی کیا تدبیر ہوسکتی ہے پھر آگے جا کر لکھتے ہیں چنانچہ میں مصر گیا اور میری اچھی قسمت نے مجھے ایک عالم دین کے ساتھ جمع کر دیا میں نے اس سے اپنے غم کا اظہار کیا اور اس نے مجھ سے اسی چیز کی شکایت کی وہ بڑی اچھی گھڑی تھی جس نے ہمیں ایسے طریقے کے متعلق سوچنے پر مجبور کر دیا کہ جس کے ساتھ مسلمانوں کی جماعت متحد ہو جائے اور امت کی پراگندگی ختم ہو جائے پس جس چیز پر ہمارا اتفاق ہوا وہ یہ تھی کہ شیعہ سنی دونوں مسلمان ہیں دونوں کا دین اسلام ہے ان کے درمیان کوئی بنیادی اختلاف نہیں ہے ان کے درمیان اختلاف ایسے ہے جیسا کہ مجتہدین کی درمیان بعض احکام میں اختلاف ہے علامہ برقعی فرماتے ہیں کہ جب میں نے اس کتاب میں غور و فکر کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ جیسے شرف الدین عبد الحسین کہہ رہے ہیں حقیقت اس کے خلاف ہے کیونکہ بہت سارے مذاہب کا وجود میں آنا اور عقائد باطلہ کا پیدا ہونا یہ سب کچھ دشمنان اسلام کی جانب سے تھا کہ جب انہوں نے دیکھا کہ اسلام کی شوکت بڑھتی جارہی ہے اور لوگ اس دین اسلام کے اصول و فروع کو کثرت سے قبول کر رہے ہیں تو انھوں نے فاسد عقائد اور باطل جھوٹی احادیث گھڑ کر اسلام اور ائمہ دین کی طرف منسوب کر دیں خاص طور پر ائمہ اہلِ بیت کی طرف اور انہوں نے اپنے لیے ائمہ اہلِ بیت کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا اور ان کے مبارک ناموں کے نیچے چھپے رہے ائمہ اہلِ بیت کے ناموں کا جھنڈا لے کر اس کے نیچے خرافات اور کفریہ عقیدے پھیلاتے رہے اور جب ائمہ اس سے براءت ظاہر کرتے تو یہ دشمنان اسلام کہتے کہ یہ ائمہ تقیہ کرتے ہیں، اسلام کی عمارت گرانے کیلئے سب سے بڑا ہتھیار جو انھوں نے استعمال کیا وہ یہ تھا مسلمانوں کی درمیان تفرقہ بازی ڈال دو، من گھڑت حدیثیں پھیلا دو اور ائمہ اہلِ بیت کے نام سے مختلف مذاہب پیدا کر دو، شیعہ مذہب کے راوی انہی دشمنان اسلام میں سے ہیں کیونکہ اس مذہب کے اکثر راوی مجہول اور کذاب جھوٹے ہیں یا ضعیف و کمزور ہیں یا ایسے لوگ ہیں جن کا کوئی دین ہی نہیں تھا یا غالی قسم کے گمراہ لوگ تھے جو جھوٹ اور تفرقہ بازی میں مشہور تھے۔ چنانچہ شیخ علامہ حرعاملی لکھتے ہیں الثقات الاجلاء كاصحاب الاجماع ونحوهم يروون عن الضعفاء والكذابين والمجاهيل حيث لا يعلمون حالهم ويروون عنهم ويعلمون بحديثهم يشهدون بصحته (وسائل الشیعہ جلد 30 صفحہ 206) ثقه ترین علماء جیسے اجماع والے اور ان کے علاوہ وہ ضعیف کذاب اور مجہول لوگوں سے روایت کرتے ہیں حالانکہ وہ ان کے حالات نہیں جانتے مگر ان سے روایت کرتے ہیں اور ان کی حدیث کو پڑھتے پڑھاتے ہیں اور اس حدیث کے صحیح ہونے کی گواہی دیتے ہیں شیخ ابو جعفر طوسی لکھتے ہیں ان كثيرا من مصنفى اصحابنا واصحاب الاصول ينتحلون المذاهب الفاسدة وان كانت كتبهم معتمدة (الفہر ست صفحہ 32) بیشک ہمارے شیعہ مذہب کے اکثر مصنف اور اصولی محققین فاسد مذہب رکھتے تھے اگرچہ ان کی کتابیں معتبر ہیں۔ امیر المؤمنین سیدنا علیؓ اور تمام اہلِ بیت کے افراد نے کوئی نیا مذہب نہیں گھڑا اور نہ ہی انہوں نے کبھی دعوی کیا ہے کہ ان کا مذہب امامی ہے یا اسماعیلی، زیدی ہے یا باطنی ، شیخی ہے یا اثنا عشری ، جتنے بھی شیعہ کے مذاہب آج موجود ہیں ان میں سے کسی کو انہوں نے اپنا مذہب قرار نہیں دیا اور نہ ان کی نیک اولاد نے اپنے آپ کو کسی کی طرف منسوب کیا ہے بلکہ سارے کے سارے کتاب وسنت کے تابع تھے ، انھوں نے اپنے نانا کی سنت کے علاوہ کسی نئی سنت کا دعوی نہیں کیا لیکن شیعہ امامیہ کہتے ہیں کہ بارہ سنتیں ہیں ہر امام کی اپنی سنت ہے۔ کتاب مراجعات کے مصنف کو کہا جاتا ہے کہ اگر وہ اپنی اس بات میں سچا ہے کہ ہم نے اپنے اوپر لازم کر لیا کہ ہم اس مسئلہ کو دونوں فریقوں کے دلائل میں غور و فکر کر کے حل کریں گے تو وہ (عبد الحسین شرف الدین) اپنے مذہب کی کتابوں کو غور سے کیوں نہیں دیکھتا خاص طور پر اپنی عظیم ترین اور مضبوط ترین کتاب یعنی کلینی کی اصول کافی کو کیوں غور سے نہیں دیکھتا تاکہ وہ اپنا امامیہ مذہب اچھی طرح جان لے؟ بلکہ اس نے یہ کتاب پڑھی ہے اور جان بوجھ کر جاہل بن رہا ہے ۔ اس کتاب میں مہاجرین اور انصار پر لعنت اور طعن و تشنیع بھری ہوئی ہے اس کے ہر باب میں عقل اور قرآن کے مخالف روایات ہیں نیز اس میں یہ روایات بھی ہیں کہ قرآن محرف ہے اور مصنف نے اپنی اس کتاب میں بے شمار ایسی آیات کا ذکر کیا ہے اور دعوی کیا ہے کہ ان میں تحریف ہوئی ہے اور اس کتاب میں فاسد عقائد اور باطل نظریات کو ذکر کیا ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ شخص اسلام کا دشمن تھا۔ سنی علماء پر لازم ہے کہ وہ کتاب اصول کافی یا اس کے علاوہ شیعہ کی دوسری کتابوں میں سے کسی ایک کتاب کا مطالعہ تو کریں تا کہ ان کو شیعہ مذہب کے کفریہ عقیدے اور شیعہ مذہب کی خرافات نظر آسکیں اور وہ جان لیں کہ شیعہ کی اسلام سے کیسے دشمنی تھی ؟ اسی طرح وہ ان کی کتابوں میں غالی اور بے دینوں کی روایات کو پڑھیں تاکہ ان کو معلوم ہو جائے کہ اختلاف صرف امامت کی وجہ سے نہیں ہے؟ اور نہ

کسی فروعی جزئی مسئلے کی وجہ سے ہے؟ بلکہ اختلاف کئی دوسری وجوہات کی وجہ سے ہے ان میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا اتحاد اور اسلام کی شان و شوکت کا مسلسل بڑھنا دشمنان اسلام کو پسند نہیں تھا۔ سید شرف الدین اپنے مذہب کی کتابوں سے جاہل ہے اسی لیے وہ اپنی دو کتاب مراجعات میں لکھتا ہے " امت کے درمیان جو بڑا اختلاف رونما ہوا وہ امامت کا اختلاف تھا اسلام میں کسی دینی مسئلہ و قاعدے پر تلوار کو نہیں سونتا گیا سوائے امامت کے لہٰذا امامت کا معاملہ ایک بڑا سبب ہے جو اس اختلاف کا سبب بنا علامہ برقعی اس پر تبصرہ کرتے ہیں ۔ حقیقت اس طرح نہیں ہے جیسا کہ شرف الدین بیان کر رہا ہے بلکہ اصل اختلاف دشمنان اسلام نے ڈالا اور امامت کے مسئلہ کو ایک ڈھال کے طور پر استعمال کیا ان کافروں نے مسلمانوں کی سادگی اور جہالت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے احساسات کو فلاں فلاں کی امامت کے نام سے حرکت دی اس طرح ان میں اختلاف پیدا کر کے اتحاد کو ختم کرنے کی بھر پور کوشش کی ورنہ زید یا عمرو کی امامت میں کیا فرق ہے جب دونوں میں سے ہر ایک کی امامت کا مقصد اسلام کو رائج کرنا اور اس کے قوانین کی اشاعت کرنا ہے۔ حق بات یہ ہے کہ پہلی صدی میں کسی کی امامت کا دسویں یا پندرھویں صدی والوں سے کیا تعلق ہے اللہ تعالی فرماتے ہیں

تلك امة قد خلت لها ما كسبت وولكم ما كسبتم ولا تسالون عما كانوا يعملون

 اے موجودہ امت کے لوگو! کیا اس زمانے میں امامیہ شیعوں کی حکومت گذشتہ حکومتوں سے زیادہ سخت ہیں یہ حکومتی لوگ تمھاری اولاد کو قتل کر رہی ہے اور تمھاری عورتوں کو زندہ رکھ رہی ہے تمھارے تمام معاملات حکومت کے اختیار میں ہیں تمہارے اختیار میں نہیں ہیں تم نہ اپنے مالوں کی طرف سے مطمئن ہو اور نہ تم اپنے گھروں اور تجارت کی طرف سے مطمئن ہو، تمھاری حج تمھارے معاملات تمام کے تمام تمہارے اختیار میں نہیں حکومت کے اختیار میں ہیں تمہاری کتابوں پر پابندی ہے تمھارے دین کے حقائق چھاپنے کی اجازت نہیں اگر تمھارے پاس عقل اختیار اور طاقت ہے تو پہلے اپنی موجودہ حکومتوں کو درست کرو ورنہ گذشتہ حکومتوں کو اب درست کرنا تو محال ہے کیا تمہارے پاس اتنی طاقت ہے کہ گذشتہ حکومتوں کے عوض کوئی دوسری حکومتیں بنا سکو؟ کیا ممکن ہے کہ سیدنا علیؓ اور سیدنا ابوبکرؓ کو ہم زندہ کریں اور سیدنا ابوبکرؓ کو معزول کر کے سیدنا علیؓ کو خلیفہ اور امام بنا دیں؟ کیا ہم سے ان کے اعمال کے بارے میں سوال کیا جائے گا پہلے زمانہ میں امامت و خلافت کے متعلق جو بحث کرتا ہے وہ بے وقوف ہے ہاں یہ بحث دشمنانِ اسلام نے جاہلوں کے درمیان ڈالی تھی تا کہ مسلمانوں کا اتحاد زائل ہو جائے اور پھر اس بحث کی آڑ میں ان دشمنان اسلام نے خرافات اور جھوٹ اور خاص مقاصد سے بھری ہوئی روایت اور احادیث گھڑیں اور ان کو ائمہ مسلمین خاص کر ائمہ اہلِ بیت کی طرف منسوب کیں اور دین کو فاسد و خراب کر دیا اور مسلمانوں کی غفلت سے خوب فائدہ اٹھایا اور اہلِ بیت کے نام سے منافقت مخالفت اور عداوت کی آگ بھڑکا دی حالانکہ اہلِ بیت نے کوئی مذہب نہیں گھڑا بلکہ وہ اس سے بری تھے۔ سید شرف الدین نے کتاب المراجعات مذہبی تعصب کی وجہ سے لکھی ہے حالانکہ دین اسلام ایک ہے اس میں کوئی مختلف مذاہب نہیں ہیں اور ائمہ اہلِ بیت کا ایک مذہب تھا یا کئی مذاہب تھے وہ مسلمان تھے یا غیر مسلم؟ کیا ان کا مذہب جعفری تھا یا امامی، شیخی تھا یا باطنی ، فاطمی تھا یا نصیری ؟ حالانکہ یہ سارے اپنے آپ کو اہلِ بیت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ وكل يدعى وصلا بليلي ....... وليلى لا تقر لهم بذلك یہ سارے لیلی سے وصال کا دعوی کرتے ہیں، حالانکہ لیلی ان کے اس دعوی کا انکار کرتی ہے شیعہ امامیہ مغلوں اور ہلاکوخاں وغیرہ کی حکومتوں پر تو راضی ہیں لیکن یہ شیعہ لوگ خلفاء راشدینؓ کی حکومتوں پر راضی نہیں ہیں۔ خواجہ نصیر الدین جو شیعہ کا بڑا عالم تھا اور اس کا شاگرد علامہ حلی اور ان کے پیرو کار مغلی بادشاہوں کے ہمنشین تھے اور انہی حالات میں وہ نبیﷺ کے خلفاء پر سب و شتم کرتے تھے اور ان کا اعتقاد تھا کہ مہاجرین اور انصار مرتد ہو گئے تھے اور اپنے ائمہ سے نقل کرتے تھے کہ رسول اللہﷺ کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مرتد ہو گئے تھے سوائے تین کے حالانکہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں تقریبا سو آیات میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعریف کی ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کتب فی قلوبهم الایمان (المجادلة 22) کیا اہلِ بیت اور عترت رسول قرآن کریم کی ان آیات سے جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعریف میں نازل ہوئی تھیں جاہل تھے؟ کیا یہ ائمہ اہلِ بیت ان مہاجرین اور انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کافر کہتے تھے جن کی کتاب اللہ میں تعریف کی گئی ہے؟ علماء امامیہ کہتے ہیں کہ صفوی بادشاہ جو نصاری کے مددگار تھے وہ خلفاء راشدینؓ سے بہتر ہیں اور شاہ طہماسب صفوی اور شاہ عباس کی مجلس علماء امامیہ سے بھری رہتی تھی حالانکہ یہ بادشاہ عیسائیوں کے دوست اور معاون تھے ۔ یہ صفوی بادشاہ اسلام دشمن عیسائیوں سے اسلحہ خریدتے تھے اور مسلمانوں کے درمیان جنگ کی آگ بھڑکا دیتے تھے اور شیعہ علماء جنگ اور قتل و قتال کی نگرانی کرتے تھے بلکہ اہلِ السنت والجماعت کو کافر قرار دیتے تھے۔ علامہ مجلسی جو صفوی بادشاہوں کے دور میں شیخ الاسلام تھا وہ صفوی حکومت کی تعریف میں لکھتا ہے شيدها الله ووصلها بدولة القائم اللہ اس حکومت کو مضبوط کرے اور اس کو سیدنا مہدی کی حکومت کے ساتھ ملا دے ۔ حالانکہ صفوی حکومت نے لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا تھا اور دین اسلام کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ اگر سید عبد الحسین شرف الدین مسلمانوں کا خیر خواہ اور خادم ہے اور اس کے دل میں کوئی دنیاوی غرض نہیں ہے تو اس کے لائق اور مناسب یہ ہے کہ وہ دونوں گروہوں کو محمدی جماعت کی طرف دعوت دے اور جو عترت وائمہ اہلِ بیت کے نام سے مذاہب منسوب ہیں ان کو چھوڑ دے۔ کیا وہ جانتا نہیں کہ شیعوں کے تقریبا ستر مذہب بنے ہوئے ہیں اور ہر مذہب والا دوسرے کو کافر ٹہراتا ہے۔ اے شیعہ مذہب کی طرف دعوت دینے والے ! ذرا یہ تو بتاکہ شیعہ کے ان ستر مذاہب میں سے کون سا مذہب اتباع کے زیادہ لائق ہے؟ کیا اس نے شیعہ کے ایک بڑے عالم سعد بن عبد اللہ اشعری القمی کی کتاب "المقالات والفرق" نہیں پڑھی ؟ اسی طرح الشيخ المتكلم ابی محمد الحسن بن موسی النوبختی کی کتاب ”فرق الشیعہ“ اور ابو عیسی وراق کی کتاب المقالات وغیرہ نہیں پڑھیں انہوں نے شیعوں کے مختلف مذاہب ذکر کیے ہیں اور ان کی گنتی ذکر کی ہے جو سو تک جا پہنچتی ہے سعد بن عبداللہ نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ امام ابومحمد حسن العسکری کی وفات کے بعد شیعوں کے پندرہ فرقے بن گئے تھے۔ کیا ہم اب بھی یہی کہیں گے کہ یہ سارے فرقے اور مذہب ائمہ اہلِ بیت کے بنائے ہوئے تھے؟ لہٰذا شیعہ مذہب کی طرف دعوت دینا ایسا ہے جیسے تفرقہ بازی کی طرف دعوت دینا ۔ اور سید شرف الدین تو اس تفرقہ بازی کی وجہ سے مغموم اور پریشان ہیں تو شیعہ مذہب کی طرف دعوت کیسے دے رہے ہیں؟

اہلِ بیت نے نیا مذہب نہیں گھڑا

 شیعوں کے مذاہب ستر یا اس سے بھی زائد ہیں اور ہر مذہب والے اپنے مذہب کو عترت یعنی ائمہ اہلِ بیت کی طرف منسوب کرتے ہیں اور وہ ائمہ اہلِ بیت مسلمان تھے ان کی زندگی پہلی اور دوسری صدی میں گذری ہے اور ان دونوں صدیوں میں کوئی ایسا شخص نہیں جو ان میں سے کسی مذہب کی ساتھ اپنا نام منسوب کرتا ہو اور اہلِ بیت نے کوئی نیا مذہب نہیں گھڑا اور نہ اپنے نانا محمدﷺ کی سنت کے علاوہ کوئی نئی سنت بنائی ہے یہ امیر المؤمنینؓ تمام ائمہ کے والد گرامی ہیں (نہج البلاغة خطبہ نمبر 205) میں فرماتے ہیں "نظرت الى كتاب الله وما وضع لنا وامرنا بالحكم به فاتبعته وما استن النبيﷺ فاقتديته

 میں نے کتاب اللہ کو دیکھا اور جو کتاب اللہ نے ہمارے لیے احکام مقرر کیے اور جس کے ساتھ ہمیں فیصلہ کرنے کا حکم دیا چنانچہ میں نے اس کی اتباع کی اور جو نبیﷺ نے سنت جاری فرمائی میں نے اس کی اقتداء کی اور نہج البلاغہ خط نمبر 23 میں فرماتے ہیں ! "میں تمھیں اللہ تعالی کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ تم اس کے ساتھ شریک مت ٹھہرانا اور حضرت محمدﷺکے بارے وصیت کرتا ہوں کہ اس کی سنت کو ضائع مت کرنا سنت نبیﷺ کے قول عمل اور تقریر کا نام ہے لیکن شیعہ لوگوں کا اعتقاد اور مذہب یہ ہے ان کے ائمہ معصوم ہیں اور انہوں نے ہر امام کی دوسرے امام سے علیحدہ ایک سنت بنا رکھی ہے ان کا عقیدہ یہ ہے ان ائمہ میں سے ہر ایک کا قول عمل اور تقریر حجت ہے، یہ لوگ اپنے ائمہ کی سنتوں سے استدلال کرتے ہیں اور ان کے فقہی احکام انہی ائمہ سے منسوب کرتے ہیں اسی لیے اسباق ، بحث مباحثہ اور علمی مجالس میں آپ دیکھیں گے کہ ان کے علماء کہتے ہیں یہ عمل مکروہ ہے، یہ مستحب ہے، یہ واجب ہے، کیوں؟ اس لیے کہ امام نے اسی طرح کیا ہے، امام نے اسی طرح فرمایا ہے، انھوں نے نبیﷺ کی سنت کے علاوہ بارہ سنتیں بنا ڈالی ہیں اور پھر ان کے ائمہ کی سنتوں میں بھی اختلاف اور مغایرت ہے ان کے علماء کی کتابوں میں ائمہ سے مختلف اور متضاد روایات مروی ہیں اور پھر مزید یہ کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے ائمہ کی اکثر روایات تقیہ پر محمول ہیں اور ان کے اقوال کی حقیقت واضح نہیں ہے اور ان کی اکثر احادیث خبر واحد اور ضعیف ہیں۔ حق بات یہ ہے کہ نبیﷺ کی سنت کے علاوہ کسی کی سنت بھی حجت نہیں ہے یہ شیعوں کی بدعات میں سے ہے ، اسلام کے اندر سنت صرف نبیﷺ سنتوں کے اندر منحصر ہے کیونکہ اللہ تعالی اپنی کتاب میں فرماتے ہیں

 لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة

تمھارے لیے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے یہ نہیں فرمایا کہ سیدنا جعفر صادق یا سیدنا باقر کی سنت میں بہترین نمونہ ہے، تو شیعہ کتابوں میں دیکھ یعنی کافی، وسائل الشیعہ ، بحار الانوار، اور دوسری فقہ کی کتابیں ان کی تمام یا اکثر روایات ائمہ سے مروی ہیں اور انھی کے اقوال اور افعال کی طرف منسوب ہیں۔

 علامہ برقعی کی تصانیف

 مرآة الآیات یا راہنمائے مطالب قرآن جو کئی بار چھپ چکی ہے

 گنج سخن کلمات سیدنا حسن

كلمات قصار سيد الشهداء

 خزینہ جواہر کلمات سیدنا باقر

 گنج حقائق کلمات سیدنا صادق

 گنج گوہر یا هزار و پانصد سخن از پیامبر

 رساله حقوق در بیان حق خالق و مخلوق

 عشق و عاشقی از نظر عقل و دین

 شعر و موسیقی و مصالح و مفاسد آں

 حکم محاسن و شارب

 عقائد امامیه اثنا عشریہ

عقائد شیخیه و تضاد آن با اسلام ... یہ ایک مرتبہ چھپی ہے اس کتاب میں شیعوں کے فرقہ شیخیہ کے عقائد کی تردید ہے کہ ان کے عقائد اسلام کے خلاف ہیں۔

 حواشی بر كفاية الاصول حواشی برکتاب صلاة ہمدانی

حواشی بر المكاسب المحرمه

 حواشی برکتب حدیث

 تحفة الرضوى ابو الصلت ہروی کے حالات میں

شیخ صدوق کی کتاب توحید کے ایک حصہ کا ترجمہ

 وسائل الشیعہ کے ایک حصہ کا ترجمہ

 اربعین از احادیث خاتم النبیین

 فقه استدلالی

 مجموعه ای از اخلاق

پند خردمند برائے فرزند دلبند

 رسالہ پیشاہنگی

 ترجمه مختار ثقفی

 جبر و تفویض

 جد اول درارث

 مجالس المؤمنين

 پاسخ به کسروی

 الفیه در صرف و نحو

 منظومه در اسماء الہی

 ترجمہ جامع الدروس

 ترجمه کتاب الشبهات

تراجم النساء ... تین جلدوں میں

 تراجم الرجال .... یہ دس جلدوں پر مشتمل ہے اس میں شیعہ علماء کے حالات ہیں

 جوابی به اجمال به کتاب ہیست و سه سال

 ترجمه کتاب الفقه علی المذاهب الخمسه

فریب جدید یا تثلیث و توحید

 گلشن قدس یا عقائد منظوم

 مثنوی منطقی

دعبل خزاعی و قصیده تائیہ او

اسلام دین کا روکوشش است

عقیدہ اسلامیہ

 تعددزوجات رسول خدا و مصلحت آن

ترجمه مسند امام زید بن علی

 ترجمہ صحیفہ علویه

 عقل و دین .... یہ کتاب اصول دین پر ہے دو جلدوں پر مشتمل ہے پہلی جلد عدل اور توحید کے بارے میں ہےدوسری جلد نبوت امامت اور معاد کے بارے میں ہے۔

 عقائد عرفا و صوفیہ ......انہوں نے قم شہر میں جو غالی صوفی رہتے تھے ان کی خرافات ، بدعات اور غلو کے بارے میں لکھی ہے

ان دونوں کتابوں کو بہت شہرت ملی خاص و عام نے ان دونوں کتابوں کو پسند کیا۔ التفتيش در بطلان مسلک صوفی و درویش

درسی از ولایت .... اس کتاب میں نظریہ ولایت تکوینیہ کا مفصل اور مدلل رد ہے اس کتاب کے آنے کی دیر تھی شیعہ حلقوں میں کھل بلی مچ گئی کچھ موافق تھے اور کچھ مخالف تھے یہ مسئلہ معرکتہ الآراء بن گیا۔ اس کے جواب میں غالی شیعوں کی طرف سے کتابیں لکھی گئیں اور تقریریں کی گئیں خاص طور پر آیت اللہ میلانی نے ایک فتوی دیا کہ یہ کتاب ضلالت اور گمراہی ہے اس کا مصنف گمراہ ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا حتی کہ آیت اللہ کاظم شریعتمداری کی زیر نگرانی قم کے چند مشائخ کا اجلاس ہوا اور انہوں شاہ کی طرف چھ ہزار دستخط کراکر بھیجے ۔ کہ یہ راہ راست سے منحرف ہوگیا ہے اور اور یہ اہلِ بیت کے مذہب کو گرانا چاہتا ہے۔ یہ کتاب علامہ برقعی کے سنی مذہب کی طرف آنے میں پہلی سیڑھی کی حیثیت رکھتی ہے۔

اشکالات به کتاب درسی از ولایت و داوری در آں

 جواب اشکالات بر کتاب درسی از ولایت

 علامہ آیت اللہ برقعی نے شیعہ مذہب چھوڑنے کے بعد بہت زیادہ کتابیں اور رسائل لکھے۔ ان کی تفصیل یہ ہے۔

 (1) تابشی از قرآن .....قرآن کریم کی مکمل تفسیر ہے بارہ جلدوں میں۔

(2) دیوان حافظ شکن یا گفتگوئی با حافظ ... اس کتاب میں حافظ شیرازی کے دیوان کا اشعار کی صورت میں رد ہے

(3) تحریم متعه در اسلام

(4) بت شکن یا عرض اخبار اصول بر قرآن و عقول یا سیری در اصول کافی..... اس کتاب میں اصول کافی کی روایات پر جرح کی گئی ہے دو حیثیت سے (1) ان روایات کے راوی ضعیف یا مجہول یا کذاب یا بد عقیدہ و گمراہ تھے (2) یہ روایات قرآن اور عقل کے خلاف ہیں۔ اس کا عربی میں ترجمہ کسر الصنم کے نام سے ہو چکا ہے۔ (5)..... بررسی خطبه غدیریہ (6) نقد المراجعات . یه کتاب عبد الحسین شرف الدین کی کتاب المراجعات کا مختصر رد ہے۔

(7) ..... اصول دین از نظر قرآن (8) تضاد مفاتیح الجنان با آیات قرآن ... یہ کتاب شیعہ کی مشہور دعاؤں کی کتاب مفاتیح الجنان کا جواب ہے۔

 (9).... دعا ہائی از قرآن ۔

 (10) بررسی علمی در احادیث مهدی ..... اس رسالہ میں سیدنا مہدی کے متعلق شیعی روایات کے بارے میں تحقیق ہے۔ (11).... خرافات وفور در زیارات قبور ..... اس کتاب میں شیعہ مذہب میں جو زیارات کے حوالہ سے خرافات اور بدعات ہیں ان کا رد ہے

(12) علامہ ابن العربی کی کتاب العواصم والقواصم کا ترجمہ

(13) حديث الثقلين يا نصب الشيخين ....

(14) رہنمود سنت دررداہل بدعت ...... علامہ ابن تیمیہ کی کتاب منہاج السنۃ النبویہ کا

 (15) اختصار علامہ ذہبی نے المثقی کے نام سے کیا تھا علامہ برقعی کی یہ کتاب رہنمود سنت اس المثقی کا فارسی ترجمہ ہے۔(16) جامع المنقول في سنن الرسول (عربی)

(17) ترجمہ جامع المنقول في سنن الرسول (فارسی)

(18) ترجمه و شرح یکصد و ہشتادو دوخطبه از نہج البلاغه

 (19) مقدمه و حواشی بر کتاب شاہراہ اتحاد یا بررسی نصوص امامت

(20) ترجمه احکام القرآن شافعی

(21) حکومت جمهوری اسلامی (22) احکام القرآن

(23) سوانح ایام ... اس کتاب کے اندر علامہ برقعی نے اپنی سوانح خود لکھی ہے۔

 اصول دین علامہ برقعی کی نظر میں

 علامہ برقعی فرماتے ہیں

میں قم کے حوزہ علمیہ میں تعلیم کے دوران سے ہی آقائی شریعتمداری کو اچھی طرح جانتا ہوں وہ مجھے بھی اچھی طرح جانتے ہیں اور میرے احوال سے واقف ہیں ان کے ساتھ بہت سی یادیں وابستہ ہیں ایک واقعہ نقل کرتا ہوں جو فائدہ سے خالی نہیں ہے۔ ایک دن میں چند دیگر فضلاء کے ساتھ آقائی شریعتمداری کے گھر میں مہمان تھا کہ میں نے اصول دین کے متعلق بات چھیڑ دی اور میں نے ان سے پوچھا آیت اللہ صاحب اصول دین کتنے ہیں؟ انھوں نے کہا پانچ میں نے پوچھا کہ کیا کوئی آیت یا حدیث بھی ہمارے پاس ہے کہ اصول دین پانچ ہیں۔ اس نے کہا نہیں۔ میں نے کہا پھر کس دلیل سے ہم کہتے ہیں کہ اصول دین پانچ ہیں تین یا چار یا چھ نہیں ہیں۔ وہ میرے سوال سے ڈر گئے اور کہنے لگے کہ ٹھیک ہے کہ ہمارے پاس کوئی صریح آیت یا حدیث نہیں ہے جس میں ہو کہ اصول دین پانچ ہیں لیکن ہمارے علماء تحقیق کے بعد عقلی دلائل اور علمی براہین سے اس نتیجہ تک پہنچے ہیں میں ان کے اس جواب پر ہنس پڑا۔ وہ تعجب کرنے لگے اور پوچھا آقائی برقعی کیوں ہنستے ہو؟ میں نے کہا یہ بات ہے بھی ہنسی کی کہ اللہ تبارک و تعالی نے اپنے پیغمبر کو بھیجا اور اس پر کتاب نازل کی اور لوگوں کو کہا ایمان لے آؤ اور اس کے رسول کے ساتھ مل کر لوگوں سے جہاد کرو تا کہ وہ ایمان لائیں لیکن اپنی کتاب میں یہ بیان نہ کیا کہ لوگ کتنی چیزوں پر ایمان لائیں ۔ بلکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ مزید چند صدیاں صبر کرد حوزہ علمیہ کے علماء تمہیں دلائل عقلیہ اور براہین علمیہ سے تمہیں بتائیں گے کہ اتنی چیزوں پر ایمان لے آؤ۔ کیا ایسے مذہب پر ہنسنا نہیں چاہیئے اس وقت آقائی شریعتمداری خود بھی ہنسنے لگ گئے ۔

محترم قارئین ! تم جان لو کہ اصول دین اور ان کی تعداد کے بارے میں میں نے بہت سارے شیعہ علماء سے سوال کیا اور وہ تمام کے تمام جن میں آیت اللہ شریعتمداری بھی تھے آیات قرآن کے ساتھ دل کافی اور وافی جواب دینے سے بھاگتے تھے کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اگر انھوں نے اصولِ دین کی وضاحت اور اصولِ دین کی تعیین میں قرآن کریم کی طرف رجوع کیا تو توحید نبوت اور معاد (آخرت) پر تو بہت سی آیات پیش کر دیں گے لیکن بقیہ اصول دین عدل اور امامت کے بارے میں وہ مشکلات سے دوچار ہو جائیں گے اسی وجہ سے وہ یہ بحث کرتے ہوئے ہرگز قرآن کریم کی طرف نہیں جائیں گے تاکہ سردردی میں مبتلا نہ ہوں اس لیے اگر وہ قرآن سے دلائل دیں گے تو پہلے وہ آیات ذکر کرتے ہیں جو توحید نبوت اور معاد پر دلالت کرتی ہیں اس کے بعد اگر چاہیں گے کہ وہ آیات جو اللہ تبارک و تعالی سے ظلم کی نفی کرتی ہیں ان کو اپنے اصل دین عدل کے بارے میں بطور دلیل کے پیش کریں تو لامحالہ ان پر اعتراض ہوگا کہ قرآن کریم میں کتنی آیات ہیں جو اللہ تبارک و تعالی سے جہالت ، غفلت اور کمزوری وغیرہ کی نفی کرتی ہیں تو پھر ان آیات کی وجہ سے علم احاطہ اور قدرت کو اصول دین میں شامل کیوں نہیں کرتے؟ تو وہ لاچار ہو کر کہتے ہیں کہ چونکہ عدل کے معنی میں ہماری اشاعرہ کے ساتھ موافقت نہیں ہے ان سے امتیاز کی خاطر ہم نے عدل کو اصول دین میں داخل کیا ہے نتیجہ یہ ہوا کہ عدل کے بارے مناظرے شروع ہو گئے بہر حال واضح ہو گیا کہ مسلمانوں میں جو علم کلام کے لحاظ سے اختلاف پیدا ہوا اس سے پہلے صدر اسلام صحابہ واہلِ بیت کے زمانہ کے ساتھ اس اصول عدل کا کوئی تعلق نہیں ہے حالانکہ اصول دین وہی ہوتے ہیں جو صدر اسلام سے لے کر اب تک برابر چلے آ رہے ہوں اور خود شارع نے ان کو بیان کیا ہو نہ یہ کہ پہلے زمانہ میں اصول دین اور ہوں اور بعد والے زمانہ میں اور ہو جائیں نیز بہت ساری آیات ہیں جو آسمانی کتابوں اور فرشتوں پر ایمان لانے کو لازم کرتی ہیں حالانکہ یہ ان شیعوں کے اصول دین میں نہیں ہیں۔

 اہم ترین بات یہ ہے کہ شیعہ علماء امامت کے بارے بہت مشکلات سے دو چار ہیں کیونکہ قرآن کریم میں اس اصل دین کا کوئی واضح نشان نہیں ہے اس لیے جب ان سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اس اصل دین کی تمھاری نظر میں بہت اہمیت ہے اور اس کے بغیر دین کامل ہی نہیں ہوتا دوسرے اصول دین کے برخلاف اس اصل دین کے بارے میں ہم آیات نہیں جانتے یا کم از کم کوئی ایک واضح آیت پیش کر دو جو روایات کی محتاج نہ ہو اور نہ وہ پیچ در پیچ علم کلام کی تفصیلات کی محتاج ہو جیسا کہ قرآن کریم توحید معاد نبوت اور آسمانی کتابوں اور فرشتوں پر ایمان لانے کو صراحتاً کھول کھول کر بیان کیا ہے اسی طرح پیغمبروں کے بعد معصومین کی امامت کو واضح بیان کیوں نہیں کیا؟ اس کے جواب میں بے چارے شیعہ علماء پریشان ہو جاتے ہیں۔ اس لیے جب اصول دین پر بات ہوتی ہے تو وہ قرآن کریم کو درمیان میں لاتے ہی نہیں اور ابتداء یہی بات کرتے ہیں ہمارے علماء نے تحقیق سے اور عقلی دلائل اور علمی براہین کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ اصول دین پانچ ہیں، اس مشکل کو دور کرنے کیلئے اور لوگوں کو بتانے کیلئے کہ ان کے اصول دین کتنے ہیں میں نے ایک رسالہ بیس صفحات کا لکھا ہے جس کا نام رکھا ہے اصول دین از نظر قرآن“ جو میں نے محدود تعداد میں چھپوا کر اپنے دوستوں میں تقسیم کروایا ہے میں نے اس میں اصول دین جو تین ہیں توحید نبوت اور معادان کو قرآن کریم کی آیات کے ساتھ مدلل کر کے بیان کیا ہے۔

 آیت الله بروجردی

 مجھے یاد ہے کہ ایک دن میں چند دیگر لوگوں کے ساتھ آیت اللہ بروجردی کی مجلس میں تھا انہوں نے مجھے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تمہیں مجھ پر کوئی اعتراضات ہیں میں نے کہا ہاں بالکل سینکڑوں اعتراضات ہیں آیت الله بروجردی نے تعجب کیا اور کہا کہ کچھ اعتراض ہمیں بھی بتاؤ میں نے کہا کہ ایک اعتراض یہ ہے کہ آپ نے اپنے رسالہ میں تصویر کو مکروہ لکھا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ آپ کے ایک علمی رسالہ کی بیک سیڈ پر آپ کی تصویر چھپی ہوئی ہے۔

 دوسرا اعتراض یہ ہے کہ آپ مساجد کی زیب وزینت کو ناجائز جانتے ہیں جیسا کہ آپ نے اپنے رسالہ میں لکھا ہے حالانکہ آپ نے قم کی بڑی مسجد کی زیب وزینت پر لاکھوں روپے خرچ کر دیے ہیں لہٰذا الامحالہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ کیا مجتہد کا ظلم ہے جو اپنے فتوی پر خود ہی عمل نہیں کرتا۔ جب میں نے یہ بات کی تو ہاہو اور قیل و قال بحث مباحثہ شور شرابا شروع ہوگیا اور لوگوں نے میری بات کاٹ دی کہ یہ آپ کیا بات کر رہے ہیں؟ آیت الله بروجردی نے بھی انہیں خاموش نہ کرایا تو میں نے کہا کہ آقا ! آپ خود جو چاہیں کہیں اگر آپ مجھے دوست نہیں سمجھتے تو میں بھی کچھ نہیں کہتا۔

 آیت الله میلانی

 آیت اللہ سید ہادی میلانی ایک عالم تھے جنھوں نے نجف اشرف میں اپنی ساری عمر فلسفہ میں گزار دی جب وہ مشہد میں آئے تو ان کے پاس سوائے ایک پرانے جبہ کے کچھ نہ تھا مشہد میں جو ان کے پاس طالب علم رہتے تھے انہوں نے آیت اللہ میلانی کو کہا آپ مشہد میں رہیں ہم آپ کے واسطے تبلیغ کرتے ہیں چنانچہ آیت اللہ میلانی مشہد میں رہتے وہاں سے باہر نہ جاتے اور طالب علم چپہ چپہ قریہ قریہ بستی بستی جا جا کر وعظ و نصیحت کرتے اور لوگوں کو کہتے کہ یہ شیعہ عوام کیلئے مرجع تقلید ہیں اور لوگوں کو گروہ در گروه کر کے لاتے تا کہ یہ آیت اللہ ان کے مال کو حلال کر دے جب دس سال بعد ان کی وفات ہوئی تو یہی شیخ جن کے پاس سوائے پرانے جبہ کے کچھ نہ تھا جب فوت ہوئے تو انہوں نے اپنی اولاد کیلئے کروڑوں کا مال چھوڑا۔

 آقائی فلسفی

علامہ برقعی لکھتے ہیں

 ایک مرتبہ میں روڈ پر گاڑی کی انتظار میں کھڑا تھا اچانک ایک گاڑی میرے سامنے آکر رکی اور میرے نام سے آواز دی آقائی برقعی ! تشریف لائیں ۔ جب میں نے دیکھا تو وہ مشہور واعظ و وذاکر آقائی فلسفی تھے میں سوار ہوگیا سلام اور حال احوال پوچھنے کے بعد

 اس نے کہا .....آقائی برقعی آپ کہاں رہتے ہو؟ کیا کرتے ہو؟ تمھاری کوئی خبر ہی نہیں سنی؟

میں نے کہا.....اپنے عقائد کی وجہ سے میں تقریبا خانہ نشین ہوگیا ہوں اگر تم جان لیتے کہ میرے عقائد کیا ہیں تو تم مجھے سوار نہ کرتے۔

اس نے کہا ..... آپ کیا کہتے ہو؟

 میں نے ..... کہا میں کہتا ہوں مجلس پڑھنا حرام ہے۔ مجلس پڑھنے کی مدد کرنا حرام ہے مجلس کیلئے مال خرچ کرنا حرام ہے۔

 اس نے کہا ..... وہ کیوں؟

 میں نے کہا .....جو ذاکر مجلسیں پڑھتے ہیں اور مجلس کے اندر جو کچھ وہ بیان کرتے ہیں وہ اکثر قرآن کے مخالف ہوتی ہیں اور وہ حقیقت میں پیغمبروں اور ائمہ اہلِ بیت کے دشمن ہیں۔

آقائی فلسفی نے کہا ..... کیا منبر پر تقریر کرنا بھی حرام ہے؟۔

میں نے کہا ..... ہاں جی حرام ہے۔

 اس نے کہا .... کیوں؟

 میں نے اس کو سمجھانے کیلئے کہا ..... آقائے فلسفی آپ کو یاد ہے کہ دس محرم کو آپ نے بازار میں منبر پر بیٹھ کر تقریر کی تھی ؟

 اس نے کہا ..... جی ہاں ۔

 میں نے کہا ... میں بھی اس روز بازار سے واپس لوٹ رہا تھا جب تمھاری آواز میں نے سنی تو میں رک گیا تاکہ آپ کی بات سن سکوں میں نے سنا آپ کہہ رہے تھے امام اپنی ماں کے پیٹ میں ہی سب کچھ جان لیتے ہیں۔

 اس نے کہا ... بالکل یہ بات ہماری کتابوں میں مذکور ہے۔

 میں نے کہا ..... کہ یہ اولا ..... تو قرآن کے خلاف ہے اللہ تعالی فرماتے ہیں والله اخرجكم من بطون امهاتكم لا تعلمون شيئا اللہ تعالی نے تمھیں تمھاری ماؤں کے پیٹوں سے اس حال میں نکالا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے۔ اور ثانیا ..... تم نے اسی تقریر کے آخر میں کہا تھا کہ جب سیدنا حسینؓ کوفہ کی طرف آئے تو گرمی کی شدت ان کے سامنے آگئی اور کوفہ کی طرف جانے سے مانع بن گئی سیدنا حسینؓ نے بالآخر دوسرا راستہ اختیار کیا یہاں تک کہ سیدنا حسینؓ ایک ایسی جگہ جا پہنچے جہاں جا کر سیدنا حسینؓ کا گھوڑا رک گیا اور قدم نہیں اٹھاتا تھا سیدنا حسینؓ نے خوب کوشش کی اس کو ایڑی مارتے ، باگیں کھینچتے لکڑی مارتے اور ششکارتے لیکن گھوڑے نے حرکت نہ کی سیدنا حسینؓ حیران ہو گئے کہ گھوڑے کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ حرکت ہی نہیں کرتا وہاں ایک عربی آدمی نظر سے گذرا آپ نے اس کو آواز دے کر بلایا اور اس سے پوچھا کہ اس زمین کا نام کیا ہے؟

 اس عربی نے جواب دیا ..... غاضریہ۔

 سیدنا حسینؓ نے سوال کیا ..... اس کا دوسرا نام کیا ہے؟

 اس عربی نے کہا... شاطی فرات

 سیدنا حسینؓ نے پھر پوچھا .. کہ اس کا اور نام کیا ہے؟

اس عربی نے کہا .... نینوا

سیدنا حسینؓ نے پھر پوچھا ... کہ اور کیا نام ہے؟ اس نے کہا ... کربلا۔

 سیدنا حسینؓ نے فرمایا ہاں میں نے اپنے نانا سے سنا تھا وہ فرماتے تھے تمھاری آرامگاہ کر بلا ہے۔

اس کے بعد میں نے فلسفی کو کہا آقائی فلسفی ! یہ سیدنا حسینؓ جس کے بارے میں تو نے تقریر کے شروع میں کہا تھا کہ یہ اپنی ماں کے پیٹ میں سب چیزیں جان لیتے ہیں اور قرآن پڑھ لیتے ہیں جب وہ اس جگہ پہنچتے ہیں تو پہلے ان کا گھوڑا وہ جگہ پہچانتا ہے اس کے بعد سیدنا حسینؓ کو پتہ چلتا ہے اور وہ بھی ایک دیہاتی سے پوچھنے کے بعد فلسفی صاحب ! یہ کیسا سیدنا حسینؓ ہے کہ تم اس کے بارے میں یہ کہتے ہو کہ اس سے پہلے اس کا گھوڑا جان لیتا ہے کیا ائمہ کی محبت یہی ہے؟ کیا اسلام کے معارف یہی ہیں؟ آپ نے ان روایات میں غور و فکر کیوں نہیں کیا ؟

آیت اللہ برقعی کے زندگی کے تین مراحل

 علامہ برقعی کی زندگی کے تین مرحلے ہیں

 پہلا مرحلہ علامہ برقعی پیدائش سے لے کر 1949 م تک جو علامہ برقعی کی جوانی کا زمانہ ہے اس زمانہ میں علامہ برقعی متعصب شیعہ امامی تھے کیونکہ شیعہ کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے اور شیعوں سے ہی تعلیم حاصل کی حتٰی کہ کئی شیعہ مجتہدین سے اجتہاد کی ڈگری حاصل کر لی اس زمانہ میں جو بھی شیعہ مذہب پر تنقید کرتا تو علامہ برقعی اس کا جواب دیتے اور شیعہ مذہب کا دفاع کرتے تھے چنانچہ احمد کسروی کی کئی تنقیدات کا جواب لکھا ہے۔

 دوسرا مرحلہ ....1949 ء سے 1953 ء تک علامہ برقعی نے اپنی زندگی کے ان ایام میں شیعہ مذہب کی رو سے عوام اور سیاسی لوگوں میں انحراف پایا جا رہا تھا اس کی اصلاح کا قدم اٹھایا ۔ اس وقت حالات یہ تھے کہ برطانیا اور امریکا کی کوشش یہ تھی کہ ایران میں اقتصادی نظام آجائے اور روس اپنی کوششوں میں لگا ہوا تھا ایران میں کئی سیاسی جماعتیں متحرک تھیں ۔ 1948 ء میں جب اسرائیل کی حکومت کا اعلان ہوا تو ایران کی شاہ حکومت نے اسرائیل کی حکومت کو تسلیم کرلیا برطانیا کو خوش کرنے کیلئے اور یہ بتانے کیلئے کہ ایران میں مذہبی حکومت نہیں ہے بلکہ روشن خیال حکومت ہے۔ اس وقت ایک قومی دنیاوی و سیاسی آدمی ڈاکٹر مصدق اور دینی اصلاحی آدمی آیت اللہ کاشانی انتخابات میں کھڑے ہوئے جو ایرانی قوم کے خیر خواہ کے طور پر سامنے آئے چنانچہ انہوں نے بڑی محنت سے سیاسی نوجوانوں کی جماعت بنائی۔ جس کی وجہ سے آیت اللہ کاشانی کو گرفتار کر کے جلا وطن کر دیا گیا جب ووٹ ہوئے تو آیت اللہ کاشانی کے ساتھیوں نے دن رات ایک کر کے محنت کی ووٹوں کے دنوں میں پوری پوری رات ووٹوں کے صندوقوں کے پاس جاگتے رہتے تاکہ دھاندلی نہ ہو جائے۔

   چنانچہ آیت اللہ کاشانی اور ڈاکٹر مصدق دونوں جیت گئے جس کی وجہ سے حکومت آیت اللہ کاشانی کو واپس بلوانے پر مجبور ہوگئی دو سال تین مہینہ طہران میں ڈاکٹر مصدق وزارت کے عہدے پر رہے وہ برطانیہ کے خلاف کئی فیصلے کیۓ جس کی وجہ سے شاہ محمد پہلوی نے ان کو پیغام بھیجا کہ وہ وزارت سے استعفاء دے دیں ڈاکٹر مصدق اور آیت اللہ کاشانی نے اس کو چھوڑ دیا اور شاہ کے خلاف انقلابی تحریک شروع کر دی لوگ بھی ان کے ساتھ ہو گئے شاہ روم کی طرف بھاگ گیا جس سے امریکہ کو خطرہ ہوا حکومت پر دینی لوگ آجائیں گے اس نے اس تحریک کو دبانے کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کر دیے چنانچہ واپس آگیا اور ڈاکٹر مصدق کو گرفتار کر لیا گیا اس وقت شاہ نے کئی احکام نافذ کیے جس کا مقصد ان تحریکوں کو دبانا اور علماء کو محصور کر دینا تھا۔

علامہ برقعی کہتے ہیں اس وقت اکثر علماء سیاست سے دور تھے اس تحریک میں علامہ برقعی بھی پیش پیش تھے چنانچہ 1949 ء میں علامہ برقعی طہران آئے اور آیت اللہ کاشانی سے مل گئے اس وقت دوسرے علماء یا تو خاموش تھے یا دن بدن روٹیاں کھا رہے تھے اور شاہ کے ظلم کے موافق تھے علامہ برقعی نے لوگوں میں خوب محنت کی کہ وہ کاشانی اور ڈاکٹر مصدق اور خمینی کی اس جماعت و تحریک کا ساتھ دیں ان دنوں میں آیت اللہ کاشانی نے علامہ برقعی کو ایک خط لکھا جس میں وہ لکھتے ہیں"اے برقعی تو مسجد کو دوسرے مشائخ کی طرح تجارت کا اڈا نہ بنانا لوگوں کو بیدار کرو اس بات کی بالکل پرواہ نہ کرنا جو لوگوں میں مشہور ہے کہ شیخ صالح وہ ہے جو لوگوں کے معاملات سے کٹ کر بیٹھ جائے اور اس کو عوام کی پرواہ نہ ہو تم نے خوب محنت اور کوشش کرنی ہے کہ ڈاکٹر مصدق ووٹوں میں جیت جائے۔

 تیسرا مرحلہ ۔۔۔۔۔1953ء سے لیکر 1992ء تک اس مرحلے میں علامہ برقعی دینی خرافات اور بدعات و غلو کے خلاف کھڑے ہوگئے خالص مذہبی نقطہ نظر سے جس میں سیاست کا کوئی حصہ نہ تھا۔

اس دور میں علامہ برقعی نے وقت فارغ پاکر خوب تحقیق اور مطالعہ کیا جس کی وجہ سے وہ بہت سارے حقائق پر واقف ہوئے۔

اس مرحلے میں علامہ برقعی نے کوشش کی کہ لوگوں کی اصلاح تصنیف تالیف کے ذریعے کریں وہ فرماتے ہیں پھر میں نے لوگوں کی عقلوں اور ان کی نظریات کی اصلاح کے لیے کتابیں لکھنے کے لیے کھڑا ہو گیا ان کتابوں کی تالیف سے میرا مقصد یہ تھا کہ میں لوگوں کو کتاب اللہ اور عقائد اسلامیہ قرآنیہ کا تعارف کراؤں اور اپنی عوام کو بدعتیوں اور غالیوں و گمراہ لوگوں سے ہٹا کر سیدھے راستے پر لے آؤں جب علامہ برقعی کے سامنے شیعہ مذہب کو جو خلل اور نقصان لاحق ہوگیا تھا واضح ہوگیا تو وہ واضح طریقے سے لوگوں کو غور و فکر کرنے کی اور اپنی عقلوں کو استعمال کرنے کی اور غلط اعتقادات و خرافات کے چھوڑنے کی دعوت دینے لگے۔

ابو الفضل علامہ برقعی نے اپنی اس دعوت کی ابتداء مسجد وزیر دفتر سے شروع کی علامہ برقعی اس مسجد میں درس دیا کرتے تھے اور آپ کے درس میں شریک ہونے والوں کی تعداد تقریباً 200 ہوا کرتی تھی علامہ برقعی تصنیف و تالیف اور درس قرآن کے علاوہ دوسرے شہروں میں جا کر بھی اسلامی حقائق کی تبلیغ اور ان کی نشر و اشاعت کرتے تھے۔جب شاہ ایران کے خلاف تحریک چلی تو علامہ برقعی کے تحریک چلانے والوں کے ساتھ اگرچہ بہت سے مسائل میں اختلاف تھا اور ان کی عمر 70 سال کے قریب تھی لیکن اس کے باوجود انہوں نے شاہ کی حکومت ختم کرنے کے لیے اس انقلابی تحریک کا ساتھ دیا جب انہوں نے اسلامی تحریک میں کئی خلاف شرع باتیں دیکھیں تو انہوں نے ایک کتاب لکھی جس کا مقصد اسلامی احکام بتانا تھا اس امید پر لکھی کہ شاید جب خمینی حکومت حاصل کر لیں گے تو ان شرعی احکام کو نافذ کر دیں گے۔

جب ان کی اصلاحی کوششیں تیز ہوئیں تو شیعہ علماء کی طرف سے ان پر فتوے لگنا شروع ہوگئے بعض نے ان کو منحرف اور گمراہ کہا اور بعض نے ان کو کافر تک کہہ دیا علامہ برقعی کو کئی مرتبہ قتل کی دھمکی دی گئی اور ان کی کتابوں کے چھاپنے پر پابندی لگا دی گئی علامہ برقعی کو کئی مرتبہ جیل بھیجا گیا آخری عمر میں ایوین کی جیل میں ایک سال کے لیے قید رکھا گیا پھر رہا کر کے آپ کو یزد شہر کی طرف جلا وطن کر دیا گیا اور پانچ دن بعد دوبارہ جیل بھیج دیا گیا بلا آخر جیل میں ہی آپ کی 1992ء کو وفات ہوئی۔

  علامہ برقعی کی آراء

۔۔۔۔۔علامہ برقعی اور علم غیب۔۔۔۔۔شیعہ کہتے ہیں کہ ائمہ اہل بیت کو ما کان و ما یکون کا علم کامل اور علم محیط اور علم غیب حاصل ہے اس کے بارے میں علامہ برقعی فرماتے ہیں ما کان اور مایکون کا علم کامل اور علم محیط اللہ تعالی کا خاصہ ہے جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں وان اللہ بکل شیء علیم اور اللہ تعالی علم غیب کے ساتھ منفرد ہیں چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے عالم الغیب والشھادۃ الکبیر المتعال دوسری جگہ فرمایا قل لا یعلم من فی السموات و الارض الغیب الا اللہ وما یشعرون ایان یبعثون چونکہ شیعہ کتابوں میں بہت سی روایات ہیں جن میں صراحت ہے کہ ائمہ اہلِ بیت عالم الغیب تھے چنانچہ وہ روایات ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔

   جو احادیث قرآن کریم کے متعارض اور خلاف ہے ان کو ایک اسلامی کتاب میں کیسے روایت کر دیا گیا؟کیا ان احادیث کے راوی اتنے جاہل تھے یا ان کا مقصد کوئی اور تھا (کسر الصنم صفحہ 109)

۔۔۔۔۔علامہ برقعی اور امور تکوینیہ میں تصرف ۔۔۔۔۔شیعہ کہتے ہیں کہ ائمہ اہلِ بیت کو امور تکوینیہ میں تصرف کرنے کا اختیار حاصل ہے علامہ برقعی نے کتاب درسی از ولایت لکھی جس میں ثابت کیا امور تکوینیہ میں تصرف کرنا اللہ تعالی کا خاصہ ہے اس میں اس کا کوئی شریک نہیں اور جن روایات میں ہے کہ ائمہ اہلِ بیت بھی امور تکوینیہ میں تصرف کرتے ہیں یہ من گھڑت ہیں اٸمہ اہل بیت کا یہ مذہب نہیں ہو سکتا۔

۔۔۔۔۔علامہ برقعی اور امام کا منصوص ہونا ۔۔۔۔۔۔ شیعہ کا عقیدہ ہے کہ امام منصوص من اللہ ہوتا ہے اور امامت نص سے ثابت ہوتی ہے اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ امامت اور قیادت عقلا اور اہل حل و عقد کے انتخاب سے ہوتی ہے (کسر الصنم صفحہ 234)

 یعنی امام کے لیے نص کا ہونا ضروری نہیں بلکہ شوری جس کا انتخاب کرلے وہی امام اور قائد ہے شروع زمانے میں ایسے ہی طریقہ تھا لیکن دو تین صدیوں بعد جب ائمہ اہلِ بیت کے نام پر روایات گھڑی گئیں تو اس وقت ایسی روایات بھی گھڑی گئیں کہ امام کے لیے نص کا ہونا ضروری ہے(کسر الصنم 346)

۔۔۔۔۔علامہ برقعی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ۔۔۔۔شیعہ کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بلکہ تین چار کے سوا سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نعوذ باللہ مرتد ہو گئے تھے اور رسول اللہﷺ کی زندگی میں منافق تھے اس کے بارے میں علامہ برقعی فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں بہت سی آیات ہیں جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعریف پر دلالت کرتی ہیں ان کے بعد شیعہ امامیہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں جو طعن و تشنیع کرتے ہیں ان کا قبول کرنا ممکن نہیں ہے مثلاً اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔

 والسبقون الاولون من المہاجرین و الانصار والذین اتبعوھم باحسان رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ واعدلھم جنت تجری تحتھا الانھار خٰلدین فیھا ابدا ذلک الفوز العظیم (التوبہ100)

 الذین آمنوا وھاجروا و جاھدوا فی سبیل اللہ باموالھم وانفسھم اعظم درجۃ عند اللہ واولئک ھم الفائزون (التوبۃ200)

 والذین آمنوا و ھاجروا و جاھدوا فی سبیل اللہ والذین آووا ونصروا اولئک ھم المؤمنون حقا لھم مغفرۃ ورزق کریم (انفال 74)

 لقد تاب الله علی النبی والمہاجرین والانصار الذین اتبعوہ فی ساعۃ العسرۃ من بعد ما کاد یزیغ قلوب فریق منھم ثم تاب علیھم انه به‍م رؤف رحيم (التوبه 117)

 لقد رضي الله عن المؤمنين اذ يبايعونك تحت الشجرة فعلم ما فى قلوبهم فانزل السكينة عليه‍م واثابه‍م فتحا قريبا (الفتح 18)

 محمد الرسول الله والذين معه أشداء علي الكفار رحماء بينهم تراه‍م ركعا سجدا يبتغون فضلا من الله ورضوانا سيماه‍م فى وجوه‍ه‍م من اثر السجود ذلك مثلهم فى التورة و مثلهم فى الانجيل كزرع اخرج شطاہ فازرہ فاستغلظ فاستوی علی سوقه یعجب الزراع لیغیظ بھم الکفار وعد الله الذین آمنوا و عملوا الصالحات منھم مغفرۃ واجرا عظیما (الفتح 29)

علامہ برقعی ان آیات کے بعد سوال کرتے ہیں کہ کیا مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے جن سے اللہ راضی اور خوش ہوگیا تھا اور ان سے ہمیشہ کی جنت اور عظیم کامیابی کا وعدہ کر لیا تھا انہوں نے سیدنا علیؓ کا حق غضب کر لیا تھا؟ کیا نعوذ باللہ اللہ تعالی کو علم نہیں تھا کہ یہ لوگ عنقریب ایسا کریں گے اس کے باوجود ان کو چھوڑیے رکھا انہوں نے مضبوط حکومتیں کی؟ جب وہ کفار و مرتدین تھے تو یہ آیات مہاجرین و انصار کی تعریف کرتی ہیں ان کا تعلق کن کے ساتھ ہے؟ کیا یہ مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جن کی اللہ تعالی نے تعریف کی ہے کیا یہ سارے کے سارے نبی کریمﷺ کے زمانے میں فوت ہو گئے تھے یا یہ لوگ سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ سے ڈر گئے تھے؟

علامہ برقعی سوال کرتے ہیں کہ ہمیں بتاؤ کہ سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کا لشکر ان مہاجرین و انصار کے علاوہ کیا تھا؟ کیا سیدنا ابوبکرؓ کی فوج میں یہی ایرانی صفاک تھے یا انہوں نے باہر سے کوئی فوج منگوائی تھی یا نعوذ باللہ مہاجرین اور انصار کو بھاری رشوتیں دے کر خرید لیا تھا ؟ یا سیدنا ابوبکرؓ کا مدینہ میں کوئی بڑا قبیلہ تھا؟ اس لیے یہ بہت بعید ہے کہ اللہ تعالی مہاجرین اور انصار کی اس حد تک تعریف کرے اور ان سے جنت و مغفرتوں اور کامیابیوں کے وعدے کرے اور اللہ تعالی کو معلوم ہی نہ ہو کہ یہ لوگ بعد میں مرتد ہو جائیں گے اور سیدنا علیؒ کا حق چھین لیں گے (کسر الصنم صفحہ 216, 217)

علامہ برقعی کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہر موقع پر رسول اللہﷺ کے ساتھ رہے اور انہوں نے اپنا رشتہ دار وطن گھر بار چھوڑ کر نبی کریمﷺ کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کی۔۔۔۔

رسول اللہﷺ کے ساتھ اپنی جانوں اپنے مالوں سے جہاد کیا حتی کہ سخت گرمی میں بھی نکل کھڑے ہوئے جیسا کہ قرآن میں ہے۔۔۔۔۔۔،حج میں بھی آپ کے ساتھ سفر کیا۔۔۔۔۔۔،رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد دین کی نشر و اشاعت کے لیے لشکروں کی صورت میں دنیا میں پھیل گئے۔۔۔۔۔رسول اللہﷺ کے بعد سیدنا علیؓ خلفاء کے مشیر اور معاون رہے۔۔۔۔۔یہ سب تاریخی حقائق ہیں جن کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا ان تاریخی حقائق کے ہوتے ہوئے کیا ہم کہہ سکتے ہیں اس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نعوذ باللہ رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد مرتد ہو گئے تھے (کسر الصنم صفحہ 221)

۔۔۔۔۔علامہ برقعی اور خرافات۔۔۔۔۔دین اسلام عقل و فطرت کے موافق ہے اور خرافات سے دور ہے شیعہ مذہب میں خرافات داخل کرنے والے وہ کذاب اور غالی راوی ہیں جن پر ائمہ اہلِ بیت نے لعنت کی ہے اور ان کو گمراہ اور کافر و فاسق قرار دیا ہے علامہ برقعی فرماتے ہیں دین اسلام میں خرافات نہیں ہیں لیکن شیعہ مذہب خرافات سے بھرا ہوا ہے اور یہ خرافات اسلام میں ائمہ اہلِ بیت کے نام سے داخل کی گئی ہیں ہم جانتے ہیں ان خرافات کو عقلمند اور علماء قبول نہیں کرتے بلکہ یہ ان کی نفرت کا سبب ہے اور یہ اکثر خرافات ان جھوٹے راویوں کی طرف سے آئی ہیں جنہوں نے ائمہ اہلِ بیت کے نام پر حدیثیں گھڑی ہیں اس لیے اسلام ان کو خرافات سے پاک کرنا ضروری ہے (کسر الصنم صفحہ 39)

چند ایک خرافات کی علامہ برقعی نے نشان دہی بھی کی ہے مثلا سیدنا علیؓ بسم اللہ کی باء نقطے سے نکلے ہیں ۔

امام کا کبھی جنبی نہیں ہوتا اور نہ اس کو جمائی آتی ہے اور وہ پیچھے سے ایسے دیکھتا ہے جیسے آگے سے دیکھتا ہے

نبی کریمﷺ نے ابو طالب کے پستانوں سے دودھ پیا تھا (الکافی جلد1 صفحہ 448)

انبیاءؑ کی بیٹیوں کو حیض نہیں آتا وغیرہ

اس قسم کی خرافات شیعہ لوگوں کی عقلوں پر جم چکی ہیں اور ان کے دلوں میں گھر کر چکی ہیں اس پر علامہ برقعی نے کئی واقعات لکھے ہیں کہ ہوتا کچھ ہے اور یہ اپنی ان خرافات اور غلط عقائد و نظریات اور کمزور اعتقادی اور غلو کی وجہ سے کیا سے کیا کچھ سمجھ لیتے ہیں

 علامہ برقعی یا امام صاحب الزمان

علامہ برقعی فرماتے ہیں کہ میری عمر تقریبا 35 سال تھی سردیوں کا موسم تھا میں نے شیراز کی طرف سفر کیا اور غروب آفتاب کے وقت ہم شیراز اور اصفہان کے درمیان ایک شہر "آبادہ" ہے وہاں پہنچے سخت سردی کی وجہ سے لوگ چائے پینے کے لیے ہوٹل چلے گئے میں نے نماز پڑھنے کے لیے مسجد کا پوچھا تو لوگوں نے میری رہنمائی کی چنانچہ میں مسجد گیا وہاں جا کر نماز پڑھی اس مسجد میں لوگوں کی کافی تعداد تھی وہ چائے پی چکے تھے اور خطیب کا انتظار کر رہے تھے خطیب ابھی نہیں پہنچا تھا چنانچہ میں نے موقع کو غنیمت جانا اور ممبر پر چڑھ کر کچھ اسلامی حقائق بیان کیے تو وہ میری کلام پر بہت خوش ہوئے چونکہ مجھے ڈر تھا گاڑی کہیں چل نہ پڑے اس لیے میں نے کلام کو مختصر کیا اور جب میں مسجد سے باہر نکل کر روڈ پر اپنی گاڑی کے قریب گیا تو سارے مسافر گاڑی میں موجود تھے اور میرا انتظار کر رہے تھے وہ کہنے لگے سید صاحب آپ نے کافی دیر کر دی بس جیسے ہی میں گاڑی پر سوار ہوا گاڑی چل پڑی۔

  اور مسجد میں یہ صورتحال تھی کہ لوگ چونکہ میرے اس بیان پر کافی خوش تھے اس لیے وہ آپس میں کہنے لگے کہ اس خطیب کا اِکرام اور مہمان نوازی کرنا چاہیے تاکہ ان کے ارشادات سے مزید مستفید ہو سکیں چنانچہ وہ سڑک پر اور مسجد کے ارد گرد مجھے تلاش کرنے لگے جب میں ان کو نہ ملا تو ان میں سے بعض کہنے لگے ہائے ہماری ہلاکت یہ تو یقینا امام زمان تھے ہم ان سے جاہل رہے اور ان کی قدر نہ کر سکے وہ ہم سے چلے گئے کاش کہ ہم ان کو روک لیتے اور اس سے مدد اور برکت طلب کرتے چنانچہ وہ رونے لگ گئے اور ماتم شروع کر دیا سینہ اور رخساروں کو پیٹنے لگے اور آہستہ آہستہ یہ خبر شیراز بھی پہنچ گئی اور لوگ مجلسوں میں آپس میں باتیں کرنے لگے کہ امام زمان آبادہ شہر میں آئے تھے اور کچھ وعظ نصیحت کر کے چلے گئے لیکن میں خاموش رہا اور حق ظاہر کرنے پر جرات نہ کر سکا (کسر الصنم صفحہ 250 319 320)

   یہ اونٹنی شیعہ تھی

علامہ برقعی ایک دوسرا واقعہ نقل کرتے ہیں یہ سمجھانے کے لیے کہ شیعہ لوگوں کی عقلوں پر خرافات کے کتنے اثرات پڑچکے ہیں وہ نقل کرتے ہیں ایک مرتبہ خراسان میں روڈ کے اوپر کسی نے اونٹنی چھوڑ دی چنانچہ وہ چلتے چلتے سیدنا رضا کے مزار کے صحن میں آگئی تو لوگ اس کے ارد گرد جمع ہو گئے اور شور شروع کر دیا کہ یہ اونٹنی سیدنا رضا کی زیارت کرنے آئی ہے چنانچہ بطور تبرک کے اس کے بال کاٹنے لگے اور اس کو اس قدر تکلیف دی یہاں تک کہ وہ مر گئی اس کے بعد شیعہ مذہب کا ایک مجتہد میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ اس معجزے کے بارے میں کیا کہتے ہیں ایک اونٹنی زیارت کرنی آگئی ہے کیا اب بھی تو اس کا انکار کرے گا؟میں نے اس سے پوچھا کہ یہ اونٹنی تو بذات خود آگئی ہے دوسری اونٹنیاں کیوں نہیں آتی مجتہد کہنے لگا کہ یہ اونٹنی شیعہ تھی باقی اونٹنیاں سنی ہیں (کسر الصنم جلد 1 صفحہ 309)