اہل بیت کو چھوڑے بغیر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو پالیا
مولانا محمد اسماعیل میسوِیاہلِ بیت کو چھوڑے بغیر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو پالیا
داستان هدایت ..... ابوخلیفه القضیبی البحرینی
دراصل مذہب شیعی میں جن چیزوں سے مجھے دلی کوفت ہوتی تھی وہ تین چیزیں تھیں۔
(1)۔۔۔۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو گالی گلوچ کرنا اور تبرے بازی کرنا۔
(2)۔۔۔۔ متعہ جیسے قبیح فعل کے جائز ہونے کا عقیدہ رکھنا۔
(3) غیر اللہ سے دعائیں کرنا اور مردہ مخلوق سے حاجت روائی کی امید رکھنا ۔
یہی وہ تین چیزیں تھیں جنھوں نے در حقیقت میری زندگی کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے لہذا میں نے اس باطل عقیدہ کو چھوڑ کر عقیدہ اہلِ السنت والجماعت کو اپنا لیا ہے۔ ابوخلیفہ القضیبی نے اپنی سرگذشت پر ایک کتاب لکھی ربحت الصحابه ولم اخسر آل البیت
میں نے اہل بیت کو چھوڑے بغیر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو پالیا ہم اس کتاب سے چند مختصر سی باتیں قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں
الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه ملا السماوات والأرض وملا ماشاء ربنا من شيء بعد وصلوات الله وسلامه على صفوة خلقه وخاتم رسله محمد وعلى آله واصحابه ومن تبعهم باحسان الى يوم الدين اما بعد
یہ کتاب چند اوراق کا مجموعہ ہے جو درحقیقت میری زندگی کی کہانی ہے اس میں میری زندگی کے گذشتہ لمحات کی داستان رقم ہے گویا میری حیات گم گشتہ کے یہ چند اوراق پارینہ ہیں جس کو میں نے افکار و خیالات کے ضمن میں لکھا تھا میں نہیں سمجھتا تھا کہ یہ حق و باطل کے درمیان رسہ کشی تھی جو موروثی اور حقیقی کشمکش تھی جو انسانی زندگی میں بڑی آزمائش کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ صرف میرا ہی تجربہ نہیں بلکہ بہت سے ان لوگوں کا تجربہ بھی ہے جو عجیب و غریب عقائد کے معاشرے میں پیدا ہوئے اور اپنے سماج کیلئے انھوں نے قربانیاں بھی پیش کیں اور اس کے دفاع میں جان توڑ کوششیں بھی کیں لیکن جب حقائق ان کے سامنے اجاگر ہوئے تو انھیں پتہ چلا کہ حق اس کے خلاف ہے اور وہ جس اعتقاد سے وابستہ ہیں وہ بالکل غلط ہے اور انھیں بخوبی علم ہوگیا کہ خاندان اور سماج کے رسوم و رواج کے نام پر باطل رسومات کا رواج اختیار کرنا گویا بہترین چیز کے بدلے کم تر چیز طلب کرنے کے مترادف ہے حالانکہ جو اللہ تعالی کے پاس ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والی چیز ہے
وما عند الله خير وابقى
ابوخلیفہ القضیبی 26 / 3/ 2005ء
کچھ یادیں کچھ باتیں
میری پرورش اور پرداخت ایک ایسے مذہبی شیعی گھرانے میں ہوئی جس نے مذہب کی خدمت کو اپنا شیوا بنایا ہوا تھا اور جو علمی و فکری ہر دو میدان میں شیعہ مذہب کی خدمت انجام دے کر قرب الہی کا خواہاں تھا، صغر سنی ہی میں میرے والد محترم کا سایہ اٹھ گیا چنانچہ میری اور میری بہنوں کی کفالت میرے ماموں نے اپنے ذمہ لےلی تھی میرے ماموں مذہبی طور پر صاحب جبہ و دستار تھے انھوں نے بحرین میں شیعوں کے ایک مذہبی ادارہ ” جد حفص “ میں تعلیم حاصل کی بعد میں ایران کے مشہور شہر قم میں اعلی تعلیم کی تکمیل کی تھی۔ ماموں ہماری دیکھ بھال میں بڑے چاق و چوبند رہا کرتے تھے ان کی ایک خواہش تھی کہ کہیں ہم بری سوسائٹی میں پڑ کر بے راہ روی کا شکار نہ ہو جائیں اور اس راہ پر نہ چل پڑیں جو ہماری خاندانی نیک نامی پر دھبہ ہو۔ ہمارے دین و اخلاق کو غارت کر ڈالے اور ہمارے رب کریم کی ناراضگی کا سبب بن جائے جس کی وجہ سے آپ بڑی سختی سے ہم لوگوں پر نگاہیں رکھتے تھے، ہمارے ماموں کی ہم لوگوں کے بارے میں سختی کا یہ عالم تھا کہ جب ان کو پتہ چلا کہ میں موسیقی کالج میں داخلہ لینا چاہتا ہوں اور میری خواہش بھی تھی کہ میں موسیقی ماسٹر بنوں گا تو اس موقع پر میرے ماموں نے اس کا سختی سے نوٹس لیا انھوں نے شدت کے ساتھ منع کیا اور اس بات کو ذہن سے کھرچ کر نکال دینے کیلئے بھرپور کوشش کی اور کہنے لگے کہ بچپن میں ہمارا کوئی ایسا سرپرست نہ تھا جو ہماری راہنمائی کرتا اور برے کاموں سے ہمیں روکتا یہی وجہ ہے کہ ہم نے بڑی تنگ دستی اور زبوں حالی کی زندگی گزاری ہے لہذا میرے بچو برا نہ مانو اور میری نصیحت قبول کرو میں کہہ سکتا ہوں کہ موسیقی کے جنون کو ذہن سے نکالنے میں میرے ماموں کا سب سے بڑا ہاتھ ہے اگر ان کی عنایت و شفقت نہ ہوتی تو خدا جانے میں کس حال میں ہوتا اس کے علاوہ اور بھی دوسرے اسباب ہیں جو میرے اس جنون کی راہ میں رکاوٹ بن گئے اور میں اس شیطانی دام میں پھنسے سے محفوظ رہا۔
ماتم میں حاضری محبوب تھی
جہاں تک میری والدہ کا تعلق ہے وہ دینی محافل میں شرکت کی عادی تھیں اور اس کا بڑا اہتمام کرتی تھیں وہ ان مجالس میں اجر وثواب کی نیت سے شرکت کرتی تھیں ان کا واحد نقطہ نظریہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے امام سیدنا حسینؓ کی خوشنودی حاصل کر کے اپنے اعتقاد کی خدمت کر رہی ہیں یہاں تک کہ آپ کو مرض تک کی پرواہ نہیں ہوتی تھی۔ امراض واستقام بھی ان مجالس میں شرکت سے نہیں روک سکتے تھے آپ کا پکا عقیدہ تھا کہ مجالس عزا میں شرکت نہ کرنا معصیت اور گناہ ہے اور اس میں شرکت کرنا بیماریوں کیلئے باعث شفاء ہے اس کی وجہ سے مصائب و آلام دور ہوتے ہیں اور غم واندوہ ختم ہو جاتے ہیں۔ میرے نانا مرحوم کا اپنی زندگی میں ڈھول تاشے بنانے کا پیشہ تھا وہ ڈھولوں کی مرمت کیا کرتے تھے جو ڈھول جلوس سیدنا حسینؓ میں خراب ہو جایا کرتے تھے وہ ان کی اصلاح و مرمت کیا کرتے تھے اور جو ڈھول رمضان کے آخری عشرے کی راتوں میں استعمال ہوتے تھے آپ کے ہاں ان کی مرمت کی جاتی جس میں بڑھ چڑھ کر ہمارے نانا حصہ لیا کرتے تھے چونکہ میں مذکورہ معاشرے کا پروردہ تھا لہذا مجھے بچپن ہی سے بحرین میں عباس کے نام سے موسوم ماتم میں حاضری محبوب تھی میں اپنی صغر سنی سے ہی تمام مجالس ماتم میں شریک ہونے میں آگے آگے رہا کرتا تھا تا کہ مجھے اپنے ہاتھوں سے اٹھانے کیلئے وہ عَلم مل جائے جو سیدنا حسینؓ کے نام سے جھانکی کی شکل میں نکالا جاتا ہے۔ جب میں تھوڑا اور بڑا ہوا تو ان ماتمی جلوسوں میں شرکت شروع کر دی جن میں اثنائے ماتم پیٹھ پر لوہے کی زنجیریں چلائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے بدن خون آلود ہو جایا کرتے ہیں اسکول میں میں اور میرے ساتھیوں کو دینی پروگراموں میں شرکت کا شوق بڑا تھا کوئی شیعی پروگرام یا مجلس ایسی نہ ہوتی جس میں ہم بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لیتے گویا پروگرام تعلیمی مشاغل سے آزادی کا بہانہ تھے ہمیں اس دن آزاد رہنے کا موقع مل جاتا تھا یہی وجہ ہے کہ مجالس اور محافل والے دن اسکول میں بکثرت غیر حاضری ہوا کرتی تھی اور ایک معقول عذر ہمارے ہاتھ آجاتا تھا اس دن ہماری غیر حاضری پر حوصلہ شکنی کی بجائے دلجوئی کی جاتی تھی اور ہم حوصلہ افزائی کے مستحق قرار دیے جاتے تھے اور بڑے افسوس کے ساتھ ہمیں اس حقیقت کا انکشاف کرنا پڑ رہا ہے کہ ہم میں سے اکثر نوجوان اس لیے مجالس عزا و ماتم کا شدت کے ساتھ انتظار کیا کرتے تھے کہ ان جیسی مجلسوں اور محفلوں میں لڑکیوں سے چھیڑ خانی کا خوب موقع مل جاتا تھا اور محفلوں میں مردوزن کے اختلاط کا راستہ ہموار ہو جایا کرتا تھا ...
لاحول ولا قوة الا باللہ
عقیل عقلمند نکلا
جہاں تک میرے خاندان کا تعلق ہے تو ان کو نذر و نیاز پر بڑا بھروسہ تھا وہ نذر و نیاز زیادہ کیا کرتے تھے میری سگی پھوپھی کو ہمیشہ بچہ گرنے کی شکایت رہا کرتی تھی یا تو بچہ ولادت سے قبل ہی ساقط ہو جایا کرتا تھا یا ولادت کے فوراً بعد فوت ہو جاتا تھا کئی مرتبہ ان کو یہ عارضہ لاحق ہوا حتیٰ کہ ان کے یہاں لوگوں اور ہمارے اہل و عیال کو یقین ہو گیا کہ اب ان کی اولاد بچنا مشکل ہے چنانچہ ان پر اولاد کی طرف سے مایوسی چھا گئی اور ان لوگوں نے سیدنا علیؓ کی نذر مانی کہ اگر ان کے ہاں ہر طرح کے عیوب سے منزہ اولاد پیدا ہوئی اور ان کو زندگی بھی ملی تو وہ اپنے مولود کو ہر سال عاشورا کی صبح ماتمی جلوس میں لے جا کر شامل کریں گے اور اس کو کفن پوش کر کے اس میں شریک کیا جائے گا اور چھری کا ماتم کرنے والوں کا خون اس کے کفن پر گرایا جائے گا۔ چنانچہ جب میری پھوپھی کے ہاں لڑکا پیدا ہوا ان کے والد نے اس کا نام عقیل رکھا اور ان کے گھر والوں نے بیٹے کے بارے میں جو نذر مانی تھی وہ اس کو چند سال اسی انداز میں پورا کرتے رہے مگر ابھی اس نذر کو مناتے ہوئے چند ہی سال کا عرصہ گذرا تھا کہ اللہ تعالی نے عقیل کی بصیرت کو کھول دیا اور اس کے دماغ نے یہ بات محسوس کی کہ اللہ وحدہ لاشریک لہ کے علاوہ کسی اور کی نذر نہیں مانی جانی چاہیئے اور سیدنا علیؓ جن کی نذرمانی جارہی ہے وہ انسان ہی تھے اور کسی انسان کی ذات سے عبادت کو منسوب نہیں کیا جا سکتا اور نہ اس کی بارگاہ میں دعا کی جاسکتی ہے اور نہ اس سے استغاثہ کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کی نذر مانی جا سکتی ہے لہذا عقیل نے سب سے پہلے عقلمندی کا کام یہ کیا کہ اپنی والدہ کو اس نذر کی حرمت کے بارے میں قائل کیا بالآخر یہ رسم انھوں نے چھوڑ دی۔
مزار پر بلڈوزر چلا دیا گیا
میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ایک یاد گار قصہ پیش آچکا ہے جس کی حیثیت کسی لطیفہ سے کم نہیں یہ داستان بھی عقیل بھائی جیسی ہی ہے قصہ یہ ہے کہ بچپن میں میری گردن کا آپریشن ہوا تھا مگر زخم مندمل ہونے کی بجائے پک گیا جس کی وجہ سے دوبارہ آپریشن کرنا پڑا میری والدہ کا کہنا ہے کہ آپریشن کی وجہ سے میری صحت بہت خراب ہوگئی تھی اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ میں موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہو گیا۔ میری والدہ کو فکر دامن گیر ہوئی چنانچہ کسی شیعہ ملانے میری والدہ کو نصیحت کی کہ تم ” منامہ" کے علاقہ میں واقع مزارات میں سے کسی ایک مزار پر جاؤ اور خصوصی طور پر علی کی دہائی لگا کر نذر مانو کہ وہ مرض سے مجھے نجات دلادیں اور میں تندرست ہو جاؤں اور آپ کا عقیدہ بھی ہونا چاہیئے کہ یہ اولیاء نفع رسانی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ غیر ارادی حالات کی بناء پر دن گزرتے گئے مگر میری والدہ اس مدت مدیدہ میں اس نذر کو عملی جامہ پہنا نہ سکیں یہاں تک کہ میں بڑا ہو گیا ۔ چنانچہ محض اللہ کی ہدایت اور توفیق کی وجہ سے جب میں عقیدہ اہلِ السنت والجماعت کے دائرے میں داخل ہو گیا تو میرے گھر والوں نے چاہا کہ مجھے یہ بات باور کرائیں کہ میرے اہلِ السنت والجماعت کا مذہب قبول کرنے میں اہلِ بیت کے حق میں ظلم اور بے ادبی کا ارتکاب پنہاں ہے انھوں نے میری والدہ کی مانی ہوئی نذر کا بھی تذکرہ کیا اور بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بات کہی کہ اگر آلِ بیت کی نظر عنایت اور ان کا کرم خاص شامل حال نہ ہوتا تو تم کبھی شفایاب نہ ہوتے بلکہ تمھارا نام و نشان اور وجود تک نہ ہوتا یہ تو انھی کی دین ہے کہ تم صحت وعافیت سے بہرہ ور ہو کر زندہ ہو گئے ساتھ ہی انھوں نے نذر پر مجھے ڈرایا دھمکایا اور مجھے ترغیب دینا شروع کر دی کہ میں ان کے ساتھ نذر ادا کرنے کی غرض سے مزار پر حاضری دوں تا کہ میں کسی اندوہناک واقعہ سے دوچار نہ ہوں۔انھوں نے وقفے وقفے سے اپنے ساتھ مزار پر حاضری کیلئے مجھے قائل کرنے کی کوشش کی اور سنی مذہب سے مرتد ہو کر شیعی مذہب قبول کرنے کی تگ ودو کی لیکن ان کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں اور وہ کسی صورت میں اپنی اس سازش میں کامیاب نہ ہو سکے تاہم اس جدو جہد نے میرے اندر ایمان کی جڑیں مضبوط کر کےاس کو بال و پر عطا کر دیے۔مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اس مزار میں دفن صاحب قبر سے استفادہ اور اس نذر ونیاز کرتے ہوئے ابھی چند ہی سال کا وقفہ ہوا تھا کہ یہ حقیقت سامنے آگئی کہ اس کے بارے میں جو باتیں پھیلائی گئی تھیں ان کی حیثیت اوہام و خرافات سے زیادہ کچھ بھی نہیں حقیقت واضح ہو جانے کے بعد مزار پر بلڈوزر چلا دیا گیا پوری زمین کو ہموار کر کے استعمال کے قابل بنا دیا گیا ۔ محض اللہ تعالی کا فضل و کرم اور اس کا لطف و احسان ہے۔
شیعیت سے نفرت کا سبب
سب سے پہلے میں اس بات کی وضاحت کردوں کہ مجھے یہ خیال نہیں کہ میں اخلاق کی بلندی ، عادات کی اس پاکیزگی اور روح کی اس بالیدگی میں پہنچ گیا ہوں جس پر انسان کو پہنچنا چاہئے لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ انسان خواہ اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنے دین و مذہب پر قائم ہو، تاہم ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے جس سے تجاوز کرنے والا ، فطرت سلیمہ اور اخلاق کریمہ کی ساری حدود تجاوز کر کے انسانیت کا خون کر ڈالتا ہے جس کو کوئی بھی معاف نہیں کر سکتا۔ سب سے پہلے میرے درمیان اور اس مذہب کے درمیان جس پر میں گامزن تھا جو ٹکراؤ ہوا وہ مذہب شیعہ کا اخلاقی پہلو تھا دراصل اس مذہب کا اخلاقی پہلو بڑا گھناؤنا اور اتنا گھٹیا ہے کہ عقل انسانی جس کے بارے میں تصور نہیں کر سکتی۔ ابتداء میں میں خود کو یہ کہہ کر مطمئن کر لیتا تھا کہ شیعوں کی غیر اخلاقی حرکات دراصل یہ ان کے ذاتی افعال ہیں اور جن چیزوں کا گاہے بگاہے میں ملاحظہ کرتا رہتا تھا اس کا مذہب سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے حتی کہ وہ دن آگیا جب اللہ تعالی نے میری بصیرت کو کھول دیا اور میں حقیقت سے آشنا ہو گیا۔ دراصل مذہب شیعی میں جن چیزوں سے مجھے دلی کوفت ہوتی ہے وہ تین چیزیں ہیں۔
(1) صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو گالی گلوچ کرنا اور تبرے بازی کرنا۔
(2) متعہ جیسے قبیح فعل کے جائز ہونے کا عقیدہ رکھنا۔
(3) غیر اللہ سے دعائیں کرنا اور مخلوق سے حاجت روائی کی امید رکھنا۔
یہی وہ تین چیزیں ہیں جنھوں نے در حقیقت میری زندگی کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے میں نے اس باطل عقیدہ کو چھوڑ کر عقیدہ اہلِ السنت والجماعت کو اپنایا ہے دراصل یہی وہ عقیدہ ہے جس کی عداوت و دشمنی میں میری زندگی کے سنہری ایام گذرے تھے اور زمانہ جاہلیت میں جس کی طرف بغض کی نظر سے دیکھا کرتا تھا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو گالی دینا اور ان پر تبرا بازی کرنا
میرا حال یہ تھا کہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے بغض رکھتا تھا ان کے بارے میں میرا یہ خیال تھا کہ انھوں نے اہل بیت پر ظلم کیا ہے لیکن اس کے باوجود میں نے کبھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو گالی دینے اور ان پر لعن و ملامت کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی اس خیال نے مجھے اس عمل بد پر اکسایا تھا اس وقت میرے نزدیک اس مسئلہ کی حیثیت محض اخلاقی تھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے بارے میں اس وقت میری رائے کیا تھی ؟دراصل میں سمجھتا تھا کہ کوئی دین یا مذہب اپنے پیروکاروں کو اس طرح کا رویہ اختیار کرنے کی ترغیب نہیں دے سکتا میں نے کبھی بھی ایسا نہیں سنا کہ کوئی مذہب اپنے پیروکاروں کو مردہ لوگوں کو گالی دینے کی ترغیب دے اور ان پر لعن طعن کو باعث لذت کام سمجھے یہاں تک کہ قضائے حاجت کے دوران وقت گزارنے کا اس کو ذریعہ قرار دے العیاذ بااللہ شیعوں کے عالم محمد التوسیر کانی اپنی کتاب لالٓی الاخبار کے صفحہ نمبر 92 پر رقم طراز ہیں تم کو اس بات کا بخوبی علم ہونا چاہیئے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین پر لعن و ملامت اور گالی و گفتار کیلئے سب سے بہتر وقت اور موزوں مقام قضائے حاجت کا وقت اور مقام ہے چنانچہ استنجاء اور قتضائے حاجت کے وقت ہر مرتبہ خوب ٹھنڈے دماغ کے ساتھ یہ کلمات ورد زبان رکھا کرو ( نعوذ باللہ ) اللهم العن عمرؓ ثم ابابكرؓ وعمرؓ ثم عثمانؓ ثم معاويةؓ و عمرؓ ...... اللهم العن عائشةؓ وحفصةؓ وهنداؓ ام الحكمؓ والعن من رضى بافعالهم الى يوم القيامة
اے اللہ عمرؓ وابوبکرؓ اس کے بعد عثمانؓ اور پھر امیر معاویہؓ و عمرؓ پر لعنت فرما اے اللہ ! عائشہؓ حفصہؓ ہندہؓ ام حکمؓ پر اور جو ان کے کارناموں سے رضا مندی کا اظہار کرے ان پر قیامت تک لعنت نازل فرما۔
نعوذ باللہ چند صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے علاوہ باقی تمام صحابہؓ مرتد ہو گئے تھے
میں انگشت بدنداں تھا اور جس وقت مجھے اس بات کا یقین ہو گیا کہ ہمارے مذہب شیعی میں جو من گھڑت روایات ہیں اور جو قصے کہانیاں ہیں یہ اسی کی کرشمہ سازیاں ہیں جس نے ہمیں بلاوجہ برانگیختہ کرنے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اور جو ان سے ہمدردی اور تعلق رکھے ان کو گالی دینے اور لعن طعن پر ابھارنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان روایات میں سب سے پہلے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی تکفیر اور ارتداد کی تہمت لگا کر مذہب شیعی کے مشن کی ابتداء کی جاتی ہے اس کے بعد مذکورہ روایات کے روبرو اصحاب رسولﷺ پر لعن طعن کرنے کا مرحلہ آتا ہے آخر میں ان سے براءت کا اظہار کیا جاتا ہے یہ تمام کی تمام چیزیں قدیم اور جدید کتابوں میں ترتیب کے ساتھ لکھی ہوئی ہیں اور تمام شیعہ حضرات اس کو چاہتے ہیں ان میں سے ایک روایت یہ ہے جس کو رجال الکشی نے نقل کیا ہے حنان بن سدیر اپنے والد سدیر سے رویات کرتے ہیں کہ سیدنا جعفر صادقؒ نے فرمایا نبی کریم کی وفات کے بعد تین اشخاص کے علاوہ سارے کے سارے لوگ مرتد ہو گئے تھے میں نے کہا کہ وہ تین اشخاص کون ہیں؟ انھوں نے جواب دیا سیدنا مقداد بن الاسودؓ،سیدنا ابوذر غفاریؓ ، سیدناسلمان فارسیؓ بعد ازاں چند اور لوگوں کے ایمان کے بارے میں انکشاف ہو سکا اور فرمایا کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کی بیعت پر لوگوں کی نگاہیں جمی ہوئی تھیں ان لوگوں نے سیدناابوبکر صدیقؓ کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا تھا اور بہ دل نخواستہ اور امیر المؤمنینؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے بیعت کی۔
( الکافی جلد 8 صحفہ 245 کتاب الدرجات صحفہ 613 ) بعض روایات میں ہے ان تین صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے ساتھ چار صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین اور بھی آکرمل گئے تھے تاکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے زمانہ میں شیعوں کے اعتقاد کے مطابق مؤمنین کی تعداد سات تک ہو سکے لیکن سات کے عدد سے زیادہ اس وقت مؤمنین کے تعداد نہیں تھی مراد یہ کہ سات صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین ہی ایمان کے دائرے میں محفوظ رہ سکے تھے اور باقی نعوذ باللہ مرتد ہو گئے تھے
(سبحانك هذا بهتان عظيم)
اس بارے میں شیعوں کی جو روایات شاہد عدل ہیں ان میں سے سیدنا حارث بن مغیرہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے عبد الملک بن اعین کو ابو عبد اللہ سے سوال کرتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہﷺ ہی اسلام کی وفات کے بعد لوگ ہلاکت و بر بادی کا شکار ہو گئے تو ابو عبد اللہ نے جواب دیا کہ خدا کی قسم ایسا ہی ہے اے ابن اعین تمام کے تمام لوگ ہلاکت و بربادی کی وادی میں پڑے تھے ابن اعین کہتے ہیں میں نے کہا کہ اس کے بعد اب مشرق و مغرب میں کون صحیح ایمان پر ثابت قدم بچا تھا ؟ تو راوی کا کہنا ہے ابو عبد اللہ نے جواب دیا کہ گمراہی و بے راہ روی کے دہانے کھل گئے تھے خدا کی قسم ! تین افراد کے علاوہ تمام کے تمام ہلاک ہو گئے تھے۔
اللہ تعالی مہاجرین وانصار سے راضی ہو گئے
اس پر میں نے شیعی مذہب سے رجوع کا ارادہ کیا اور تفسیر کے مطالعہ کی غرض سے میں نے اللہ کا یہ قول نہایت تدبر و تفکر سے پڑھا۔
والسابقون الاولون من المهاجرين والانصار والذين اتبعوهم باحسان رضی الله عنهم ورضوا عنه واعد لهم جنت تجرى تحتها الانهار خالدين فيها ابدا ذلك الفوز العظيم
(التوبة 110)
اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہو گیا اور وہ سب اس سے راضی ہو گئے اور اللہ نے ان کیلئے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالی مہاجرین اور انصار میں ںسے سابقین اولین سے راضی ہو گیا ہے سیدنا ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ علیؓ طلحہؓ، زبیرؓ، سعد بن ابی وقاصؓ ، عبد اللہ بن مسعودؓ ، سعد بن معاذؓ رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے حق میں یہ بالکل صریح ہے۔حالانکہ شیعہ ان کو ہدف مطاعن بناتے ہیں۔چنانچہ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ کیا ایسا ممکن ہے اور کیا یہ بات قرین قیاس ہے اور کیا کوئی عقل مند یہ باور کر سکتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے سیدنا علیؓ پر ظلم روا ر کھتے ہوئے غاصبانہ طور پر ان سے زبردستی خلافت چھین لی ہو حالانکہ وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین ہیں جن کے بارے میں قرآن کہہ رہا ہے کہ وہ ان سے راضی ہو گیا اور ان کیلئے جنت نعیم بطور مہمانی تیار ہے اگر نعوذ باللہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے سیدنا علیؓ پر ظلم کرنا ہوتا یا ان سے زبر دستی خلافت غصب کرنی ہوتی تو اللہ تعالی ان سے رضا مندی کا کیوں اعلان کرتا؟ چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین میں سے سیدنا ابوبکرؓ و عمرؓ وعثمانؓ وہ حضرات ہیں کہ نبی کریمﷺ دنیا سے اس حال میں رخصت ہوئے ہیں کہ وہ ان سے راضی تھے اور ان کی مدح و ثنا میں آیات قرآنیہ کا نزول ہوا ہے پھر کیسے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہی لوگ جن کی مدح سرائی قرآن نے کی ہے رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد کفر کی گندگی میں جاگریں حتی کہ شیعہ نے ان پر بہتان باندھا ہے کہ انھوں نے قرآن کریم میں تحریف کی ہے اور معاملات دین کو تبدیل کر ڈالا ہے احکامِ شرعیہ میں ترمیم کی ہے۔
شیعہ سے سوال
اس اقدام کی وجہ سے شیعوں نے اپنے آپ کو مجرمین کے کٹہرے میں لے جا کر کھڑا کر لیا ہے ہمارا شیعہ حضرات سے سوال ہے کہ کیا اللہ تعالی کے علم میں یہ بات تھی کہ اس کے رسولﷺ کی موت کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین مرتد ہو جائیں گے یا نہیں ؟ اگر جواب ہاں میں ہے اور یقینا ہاں میں ہو گا تو ہم کہیں گے کہ یہی اعتقاد تمام مسلمانوں کا ہے کہ اللہ تعالی کا علم ماضی حال مستقبل پر محیط ہے اس صورت میں ان آیات کے بارے میں کیا رائے قائم کی جائے گی جن میں اللہ تعالی نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی تعریف کی ہے کیونکہ شیعوں کے نزدیک رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد سارے کے سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین یا تو منافق ہو گئے ہیں یا مرتد ہو گئے ہیں؟ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں اپنے رسول کی مدح و ثنا کر کے اور اصحاب رسولﷺ سے رضا مندی کا اظہار کر کے (نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ ) اپنے رسولﷺ کو دھوکہ دینا چاہتا ہے اور کیا ان اصحابِ ثلاثہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کی رسول اللہﷺ سے رشتہ داری محض تماشہ تھی اور رسول اللہﷺ کا ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین پر اعتماد محض دکھلاوا تھا کہ آپﷺ کی وفات کے بعد یہ لوگ مرتد ہو گئے (سبحانک ہذا بہتان عظیم ) اس قسم کی بیہودہ سوچ دین کے ساتھ مذاق ہے اللہ تعالی کے بارے میں ہر گز زیب نہیں دیتی بلکہ یہ سوچ صریح اور کھلا کفر ہے۔فرض کریں اگر حقیقت یہی ہے جو شیعوں کا عقیدہ ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے ان کی حقیقی صفات کا قرآن کریم میں تذکرہ کر کے اپنے نبیﷺ کو اس بارے میں آگاہ کیوں نہ کیا ؟ رسول اللہﷺ کی موت کے بعد عنقریب وہ اپنی دینی حالت سے منہ موڑ کر ارتداد کی راہ اختیار کر لیں گے اس چیز سے اللہ تعالی نے اپنے نبی کو زندگی ہی میں آگاہ کیوں نہیں کیا ہم کہتے ہیں کہ یہ بالکل دروغ گوئی اور اتہام بازی ہے یہ حضرات اپنے اس موقف کی وجہ سے ملت اسلامیہ کا جنازہ نکالنے پر تلے ہوئے ہیں اور دین و مذہب کے نام پر اسلام کا قلع وقمع کر دینا چاہتے ہیں۔