شیعہ کی گستاخانہ تحریر کا جواب
دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓشیعہ کی گستاخانہ تحریر کا جواب
دُشمنِ آل و اصحابِ رسولﷺ اپنی تحریر کی حقیقت پڑھ
در جواب
مبغض آل رسولﷺ اس تحریر کو غور سے پڑھ
چند دن پہلے ایک تحریر گردش کرتی میرے پاس آئی جس میں انبیاء کرامؑ کی مالی وراثت کو ثابت کرنے کے لیے قرآنی آیت و حدیث مبارکہ کے من پسند ترجمے کیے گئے ہیں۔ آئیے اس کا تحقیقی جائزہ لیتے ہیں۔
شیعہ: (صاحبِ تحریر) نے وراثت انبیاءؑ کا عنوان دے کر قرآن پاک کی آیت لکھی کہ وراثتِ انبیاءؑ ارشاد باری تعالیٰ وَلِكُلٍ جَعَلنَا موالي مما ترك الوالدان والاقربون اور ٹھہرا دئیے ہم نے ہر کسی کے وارث اس مال میں جو چھوڑ گئے ماں باپ اور قرابتی سورۃ النساء
جواب اہلسنّت
اول: اس آیت سے خصوصاً انبیاءؑ کی وراثت نہیں ثابت ہو رہی۔
دوم: سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خطاب امت کو ہے یا پیغمبرﷺ بھی اس خطاب میں داخل ہیں؟ حدیثِ میراث نے بتا دیا کہ خطاب امت کو ہے۔ نبی کریمﷺ اس خطاب میں داخل نہیں ہیں۔ یہ حدیث شریف آیت قرآنی کے خلاف تب ہوتی کہ قرآن حکیم کے اندر کسی آیت میں نبی کریمﷺ یا کسی دوسرے پیغمبر کا نام ذکر کر کے مالی میراث ثابت کی جاتی۔ قرآن میں اس مضمون کی کوئی آیت نہیں ہے۔
شیعہ نکتہ: قرآن مجید کا حکم وراثت ہر کسی کیلئے عام ہے انبیاء کو مستثنٰی نہیں کیا.
شیعہ نکتے کا رد: دلیل؟؟ قرآنی حکم پیش کریں جس میں آپ کا نکتہ ثابت ہو۔
شیعہ دلیل:
ارشاد باری تعالیٰ وَوَرِثَ سلَيْمَان دَاؤدَ اور وارث ہوئے سلیمان داؤد کے پارہ 19 سورہ النمل
حضرت سلیمان اور انکے والد حضرت داؤد دونوں نبی ہیں لہٰذا نبی کا وارث قرآن سےثابت ہوا۔
جواب اول
اس آیت میں نبوت اور بادشاہت کی وراثت مراد ہے، دلائل ملاحظہ ہوں:
پہلی دلیل: آیت مذکورہ بالا کے بعد ہے "اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ" یعنی یہی ہے واضح فضیلت۔
اس جملے میں اسم اشارہ کا مشار الیہ حضرت جعفر صادق رحمہ اللّٰہ نے خود بیان فرمایا ہے۔ جس کو شیعہ کتاب تفسیر صافی جلد 2 صفحہ 73 پر نقل کیا ہے۔
"فی الجوامع عن الصادق علیہ السلام یعنی الملک والنبوۃ،"
یعنی حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ اسم اشارہ سے مراد بادشاہت اور نبوت ہے۔
ناظرین کرام!
حضرت جعفر صادق رحمہ اللّٰہ کی اس تفسیر سے واضح ہو گیا کہ آپ کے نزدیک حضرت سلیمان علیہ السلام نبوت اور بادشاہت کے وارث ہوئے ہیں۔ اگر حضرت جعفر صادق رحمہ اللّٰہ کے تصور میں وہ چیز ہوتی جو شیعہ حضرات کے ذہن میں ہے تو آپ اسم اشارہ کی یوں تفسیر فرماتے۔ یعنی المال والنبوۃ، مال کے لفظ کو ترک کر دینا اور اس کی جگہ پر ملک و نبوت کو رکھ دینا صاف بتا رہا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی مالی میراث آپ رحمہ اللّٰہ کے خیال شریف میں موجود نہیں ہے۔ یہاں سے شیعہ کتاب اصول کافی کی حدیث "ان الانبیاء لم یورثوا درھما ولا دینارا" کی بھی تصدیق ہوگئی۔
اب شیعہ حضرات جو اعتراض علمائے اہل سنت پر کرتے ہیں وہی اعتراض حضرت جعفر صادق رحمہ اللّٰہ پر وارد ہوگیا کیونکہ حضرت جعفر صادق رحمہ اللّٰہ نے بھی میراثِ سلیمان علیہ السلام کے وہی معنی لیے جو اہلِ سنت کے علماء بیان کرتے ہیں۔
جواب دوم:
حضرت داؤد علیہ السلام کے فرزندوں کی تعداد 19 تک کتب تفسیر اور تاریخ میں ملتی ہے۔
جیسا کہ شیعہ کتاب ناسخ التواریخ جلد 1 صفحہ 270 پر بیٹوں کے نام درج ہیں۔
پس آیت مذکورہ میں حضرت داؤد علیہ السلام کی مالی میراث کا ذکر ہوتا تو آپ علیہ السلام کے فرزندوں میں سے صرف حضرت سلیمان علیہ السلام کے ذکر کرنے میں کون سا فائدہ ہے؟ کیا یہ مقصود ہے کہ باقی فرزندوں کو محروم کردیا گیا تھا؟ نہیں ہرگز نہیں۔ نہ حضرت داؤد علیہ السلام اپنی اولاد کو حقوق شرعیہ سے محروم کرنے والے تھے اور نہ حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے بھائیوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے والے تھے۔ کلام اللہ بے فائدہ ہونے سے پاک ہے۔ اس لیے اس آیت میں میراث نبوت اور بادشاہت مراد ہوگی۔ اور متنازعہ فیہ وراثت سے اس آیت کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔
اس کے علاوہ آیت کا باقی حصہ مالی میراث کی تردید کرتا ہے کہ " وَقَالَ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمۡنَا مَنۡطِقَ الطَّيۡرِ (سورۃ النمل:16)
"اور کہا سلیمان نے اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے"
آیت کا یہ حصہ بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے حضرت داؤد علیہ السلام کی وراثت میں علم و نبوت ہی پایا تھا۔ اور صاف ظاہر ہے کہ یہ میراث علم اور منصبِ نبوت کی تھی۔
شیعہ الزام:
لیکن غیر شیعہ حضرات یہ عذر کرتے ہیں کہ یہ وارثت علم ہیں وارثت مال نہیں۔
جواب اہلسنّت۔
جناب یہ عذر غیر شیعہ(اہلسنت) ہی نہیں کرتے بلکہ جن کے آپ نام لیوا ہیں ان کا مؤقف بھی یہی ہے جو اہلسنت کا ہے۔
دنیائے شیعیت سے سوال ہے کہ اصول کافی میں حضرت جعفر رحمہ اللہ کی روایت ہے، آپ نے فرمایا:”وورث سلیمان داؤد، وورث محمد صلی اللہ علیہ وسلم سلیمان“․ (اصول کافی: صفحہ:137)
"کہ حضرت سلیمان حضرت داؤد علیہ السلام کے وارث ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سلیمان علیہ السلام کے وارث ہوئے۔"
اگر شیعہ حضرات کہتے ہیں کہ قرآن میں لفظ ورث مطلق استعمال ہوا ہے تو شیعہ علماء ذرا یہ بتائیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام سے صدیوں بعد حضور اکرمﷺ کو ان کا کونسا مال ورثے میں ملا تھا؟؟
ظاہر ہے کہ اس سے مراد علوم نبوت اور منصب نبوت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی علمی میراث پر متقدمین(پرانے) شیعہ متفق ہیں۔ بعد کے شیعہ نے انبیاء علیہم السلام کی مالی میراث کا نیا عقیدہ ایجاد کیا ہے۔
شیعہ جھوٹ
لیکن ان کا (اہلسنّت) یہ عذر، تفسیر قرآن مجید کی انہی لوگوں کی کتب سے غلط ثابت ہو جاتا ہے. کیونکہ تفسیر کبیر امام فخر الدین رازی مطبوعہ مصر جلد ششم اور تفسیر معالم التنزیل ابو الفراءبغوی مطبوعہ مصر میں تسلیم کیا گیا ہے۔
جواب اہلسنّت
(ا) کیسے غلط ہو جاتا ہے؟ اور کیا تسلیم کیا ہے ان تفاسیر کی عبارات لکھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ میراث کو مال سے مختص کرنا قرآن کے خلاف ہے۔ مثلاً ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
1:-ثُمَّ اَوۡرَثۡنَا الۡكِتٰبَ الَّذِيۡنَ اصۡطَفَيۡنَا مِنۡ عِبَادِنَاۚ
2:-فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ خَلۡفٌ وَّرِثُوا الۡكِتٰبَ
3:- اِنَّ الَّذِيۡنَ اُوۡرِثُوا الۡكِتٰبَ مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ
ان آیات میں یہ لفظ علمی میراث کیلئے بولا گیا ہے۔ اس کے علاوہ قبضہ ملکی پر بھی قرآن حکیم میں میراث کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جیسے
1:- اِنَّ الۡاَرۡضَ لِلّٰهِ ۙ يُوۡرِثُهَا مَنۡ يَّشَاءُ مِنۡ عِبَادِهٖ ؕ
2:- وَلِلّٰهِ مِيۡـرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِؕ
شیعہ کا استدلال یہ ہے کہ میراث کا لفظ مال مکتسب کیلئے بولا جاتا ہے جو وارث کو بلا کسب(محنت کے بغیر) ملتا ہے۔ اور علم کسبی چیز ہے۔ مذکورہ بالا دو آیتیں اس استدلال کو رد کرتی ہیں۔ آیت اول کسب کے قصے کی تردید کرتی ہے لفظ میراث موجود ہے مگر کسب موجود نہیں۔ دوسری آیت پر شیعہ کے استدلال کی روشنی میں غور کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ زمین و آسمان کسی اور ہستی کے مال مکتسب تھے جس کے مرنے کے بعد اللہ تعالٰی کو بلا کسب وراثت میں ملے۔ کیا کوئی ذی ہوش انسان یہ سوچ سکتا ہے۔ معلوم ہوا کہ وراثت کا لفظ اس چیز پر بولا جاتا ہے جو بلا قیمت اور بغیر احسان کے حاصل ہوجائے۔
(ب) صرف تفاسیر کے نام لکھنے سے دعویٰ ثابت نہیں ہوتا اندر کیا لکھا ہے وہ پڑھیں۔
شیعہ کی غلط فہمی:
کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو ورثہ میں ایک ہزار گھوڑے ملے لہٰذا وراثت مال ثابت ہوگئی.
جواب اہلسنّت:
آپ کی جہالت کو داد دینی پڑے گی، آپ نے ہزار گھوڑے کیسے مالی وراثت میں شامل کر دیے؟ آئیے ذرا حضرت سلیمان علیہ السلام کی دولت کا جائزہ لیتے ہیں۔
دولت سلیمان علیہ السلام کا جائزہ
اگر شیعہ اسے مالی میراث ہی قرار دیں تو حضرت داؤد علیہ السلام کی دولت کا جائزہ لینا پڑے گا وہ دیکھنا یہ ہے کہ جو شخص زرہیں بنا کر اپنا گزر اوقات کرے وہ کتنا ترکہ چھوڑ سکتا ہے جس کے لیے قرآن حکیم میں خاص اہتمام سے ذکر کیا گیا ہے۔ پھر یہ دیکھنا ہوگا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاتھ جب وہ مال آیا تو انہوں نے اسے کہاں کھپایا۔ کیونکہ وہ ٹوپیاں بنا کر اپنا گزارہ کرتے تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مفسرین لکھتے ہیں کہ میراث میں گھوڑے ملے تھے تو ظاہر ہے کہ وہ گھوڑے حکومت کے تھے۔ جن پر حضرت سلیمان علیہ السلام کا تصرف مالکانہ نہیں تھا بلکہ متولیانہ تھا۔ یعنی مالک نہیں تھے بلکہ متولی تھے۔ جیسے کسی ملک کا صدر ہو۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی معاش کے متعلق ایک شیعہ مترجم قرآن علامہ حسین نے وورث سلیمان داؤد کی تفسیر میں لکھا ہے:
"باوجود آں ملک و سلطنت زنبیل بافتے بجہت او معاش خود وبہ حصیر خواب کردے ولحظہ از یاد خدا غافل نہ بودے۔"
ترجمہ: اس وسیع حکومت کے باوجود اپنی معاش کیلئے زنبیل بنتے اور چٹائی پر سوتے تھے اور ایک لحظہ بھی یاد خدا سے غافل نہ ہوتے تھے۔
اگر بقول شیعہ قرآن نے مالی میراث کا ذکر کیا ہے۔ تو وہ کتنی تھی اور کہاں گئی جسے میراث ملی اس کا حال یہ ہے کہ ٹوکریاں بنا کر پیٹ پالتا ہے اور رات چٹائی پر بسر کرتا ہے؟
شیعہ
رسولﷺ خود وارث ہوئے
فتح الباری شرح صحیح بخاری حضرت رسول خداﷺ کو حضرت ہاشم ع کا مکان ورثہ میں ملا اور ماثور نامی تلوار، بکریاں اور پانچ اونٹ بھی رسولﷺ کو ورثہ میں ملے حوالہ بخاری جلد 3 سیرت حلبیہ جلد اول
جواب اہلسنت:
اس بات سے کس نے انکار کیا؟ رسولﷺ کو جو ورثے میں ملا وہ سب کیوں نہ سیدہ فاطمہؓ کو دیا؟ ورثے میں ملنا الگ بات ہے جب کہ انبیاءؑ کی مالی وراثت کا ہونا الگ بات ہے جو شیعہ ثابت نہیں کر سکے۔
دوسری بات یہ کہ شرعاً اگر دادا کی زندگی میں والد فوت ہو جائے تو اولاد ورثے کی حقدار نہیں ہوتی لہٰذا اگر کوئی چیز نبی پاکﷺ کو ملی بھی تو وہ وراثت نہیں بلکہ ہبہ تھی
شیعہ
ایک عُذر کا جواب اگر یہ کہا جائے کہ جب رسولﷺ کو ورثہ ملا اس وقت (معاذ اللہ) حضورﷺ نبی نہ تھے تو یہ غلط بات ہے
جواب اہلسنت:
نبی تو پیدائشی نبی ہوتا ہے نبی کریمﷺ اعلان نبوت 40 برس کی عمر میں فرمایا. اس سے آپ کا دعویٰ کیسے ثابت ہوا؟
شیعہ
کیونکہ حدیث مبارکہ ہے کہ میں اس وقت بھی نبی تھا جب حضرت آدم علیہ سلام پیدا نہ ہوئے تھے.
اور نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب میں اشرف علی تھانوی نے حدیث نقل کی ہے کہ حدیث مبارکہ ہے کہ
آدم علیہ سلام کی خلقت سے چودہ ہزار سال پہلے میرا نور پیدا ہوا.
جواب اہلسنت:
یہاں بات نور نبوت کی ہے آپ یہاں بھی اپنا دعویٰ ثابت نہیں کر سکے۔
شیعہ وہم:
فدک رسولﷺ کا ذاتی مال تھا
جواب اہلسنّت
کیسے ذاتی مال تھا؟؟ اگر فدک رسولﷺ کا ذاتی مال تھا اس مال کی اکیلی وارث سیدہ فاطمہؓ کیسے ہو سکتی تھیں؟
شیعہ دلیل:
ارشاد باری تعالیٰ اور جو کچھ اللہ نے اپنے رسولﷺ کو ان سے دلوایا.
سو تم نے اس پر نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ لیکن اللہ تعالیٰ (کی عادت ہے کہ) اپنے رسولوں کو جس پر چاہے (خاص طور پر) مسلط فرما دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر پوری قدرت ہے پارہ 28 سورۂ حشر
قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیت مبارکہ کی رو سے فدک اور دیگر اموال فئے اللہ نے اپنی قدرت سے اپنے رسول ص کو دلوائے تھے. اور مسلمانوں کو فرما دیا کہ
تم نے اس پر نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ
تاکہ فدک اور دیگر اموالِ فئے کو عوام کا مال نہ سمجھا جائے. اور مسلمان عوام فدک وغیرہ پر اپنا حق جتلانے سے باز رہیں۔
جواب اہلسنّت:
شاید اتنا جھوٹ آپ نے تقیہ کا ثواب لوٹنے کے لیے بولا جب کہ قرآن کریم میں مال فئی کی آمدنی کے حقدار بھی بتا دئیے کہ وہ کن حقداروں میں خرچ کی جائے گی۔
یہ آٹھ مصارف (حقدار) ہیں جن کا ذکر سورۂ حشر کی آیت نمبر 7۔8۔ 9 میں موجود ہے اور وہ یہ ہیں:
1 اللہ کے نام پر۔
2 رسول اللہﷺ کے لیے۔
3 رسولﷺ کے قرابت داروں کے لیے۔
4 یتیموں۔
5 مسکینوں۔
6 مسافروں۔
7 مہاجرین۔
8 انصار کیلئے۔
شیعہ عالم محمد بن مرتضٰی المعروف فیض کاشانی نے حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کے حوالے سے اموال فئی کے متعلق نقل کیا ہے کہ۔۔۔۔۔۔
ھی للّہ وللرسول علیہ السلام ولمن قام مقامہ بعدہ
(تفسیر صافی: صفحہ 210)
یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کا حق ہے اور جو رسولﷺ کے بعد ان کا قائم اور جانشین بنے اس کا حق ہے۔
نوٹ: جب شیعہ لوگ رسول اللہﷺ کی وراثت ثابت کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فدک ہبہ(گفٹ) کیا تھا۔
آئیے شیعہ کی اس بارے میں علمی قابلیت دیکھتے ہیں۔
شیعہ جھوٹ:
لہٰذا ثابت ہوا کہ "فدک رسول خدا کا ذاتی مملوک تھا"
ہبہ نامہ فدک اگر باغ فدک رسول کا ذاتی مال نہ ہوتا اور عوام کا مال ہوتا تو حضرت رسول خدا، فدک حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو ہرگز ہبہ نہ فرماتے لیکن معصوم رسول نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو فدک ہبہ فرما دیا تھا.
جواب اہلسنت:
رسولﷺ نے سیدہ فاطمہؓ کو کیا دیا شیعہ حضرات خود پڑھیں۔ اہل تشیع کی معتبر کتاب خصال بن بابویہ میں ہے:
أتت فاطمۃؓ بنت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فی شکواہ الذی توفي فیہ فقالت : یا رسول اللہ! ھذان ابنان ورثھما شیئاً قال:أما الحسنؓ فإن لہ ھیبتی، وأما الحسینؓ فإن لہ جرأتي.(خصال بن بابویہ،صفحہ:39)
حضرت سیدہ فاطمہؓ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ آپﷺ مرض الموت میں تھے، آپؓ نے عرض کیا یہ دونوں بچے ہیں انہیں کچھ میراث دیجیے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا: حسنؓ کے لیے میری ہیبت ہے اور حسینؓ کے لیے میری جرأت ہے۔
اس روایت سے واضح ہوا کہ آپﷺ نے ان کو مالی وراثت دینے کے بجائے اخلاق عطا فرمائے، یہ روایت اہل تشیع کی دیگر معتبر کتابوں میں بھی موجود ہے۔(دیکھئے: مناقب فاخرہ للعترہ الطاھرة، صفحہ:189، شرح نہج البلاغة جدیدی، جلد دوم، جز شانزدہم صفحہ:261)
شیعہ کا رسولﷺ پر بہتان:
اور وثیقہ ہبہ سیدہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کو دے دیا تھا.
جواب اہلسنّت:
اس کو ثابت کرنے کے لیے مستند حوالہ معتبر کتب سے پیش کریں۔
شیعہ بہتان دوم:
لہٰذا ثابت ہوا کہ فدک رسولﷺ کا مملوکۂ ذاتی تھا.
جواب اہلسنت:
کیسے ثابت ہوا؟ خواب میں تو نہیں جناب؟ یہ گپ کس کتاب میں لکھی ہے؟
شیعہ نوٹ
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے فدک پر اپنا حق ثابت کرنے کے لیے رسولﷺ کا دیا ہوا وثیقہ دکھایا تھا.
جواب اہلسنت:
کہاں لکھا دکھایا؟ کسی مستند کتاب سے حوالہ دکھانے کی ہمت ہے؟ اس کہانی وثیقہ پر سیدنا علیؓ حسنؓ و حسینؓ نے کیوں عمل نہ کیا ؟؟؟ یا احتجاج کیوں نہ کیا؟
شیعہ گپ:
اور حضرت علی علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام، حضرت کلثوم علیہا السلام اور حضرت ام ایمن علیہا السلام نے یہ شہادت دی کہ واقعی ہبہ کا یہ وثیقہ رسول نے دیا تھا. اور باغ فدک ہبہ کیا تھا
جواب اہلسنت:
حوالہ ؟ دلیل ثبوت کوئی ہے تو پیش کریں فرضی کہانیوں سے بات نہیں بننی۔
شیعہ بہتان سوم:
لیکن ان ہستیوں کی شہادت اور وثیقہ رسولﷺ کو رد کر دیا گیا (افسوس)
جواب اہلسنّت:
تو سیدنا علیؓ نے کیوں نہ اپنے دورِ حکومت میں عمل کیا؟؟؟
ناظرین کرام: شیعہ لکھاری دلائل دیتے ہوئے چند اہلسنت کتب کے نام لکھتا ہے:
حوالہ جات اہلسنت کی مستند کتب سے جو نیچے درج ذیل ہیں
1:صحیح بخاری کتاب المغازی باب الخمس اور باب المیراث
2:سیرت ابن ہشام
3:تاریخ کامل ابن اثیر
4:تفسیر درمنثور
5:صواعق محرقہ
6:فتاویٰ عزیزی
7:وفاء الوفا سمہودی شافعی مطبوعہ الجزء الثانی
8:صحیح مسلم جلد 5 کتاب الجہاد والسیر
9: روضۃ الاحباب جلد اول
10:ازالۃ الخفاء شاہ ولی اللہ محدث دہلوی
نوٹ
مندرجہ بالا کتب دیکھنے سے معلوم ہو جائے گا کہ
حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا تا وفات غضب ناک ہی رہیں۔
جواب اہلسنّت:
ان مذکورہ کتب میں نہ تو سیدہ فاطمہؓ کو ہبہ دینے کا ذکر ہے نہ کوئی وثیقہ دینے کا لکھا نہ ہی کسی ایک کتاب میں کسی جگہ یہ لکھا کہ سیدہ فاطمہؓ نے فرمایا ہو کہ میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے غضب ناک ہوں۔
ہمارا سوال ہے سیدہ فاطمہؓ کس بات سے غضب ناک ہوئیں کیا فرمان رسولﷺ سن کر ؟ تو یہ سیدہ فاطمہؓ کی بدترین توہین ہے کوئی عام مسلمان بھی رسولﷺ کا فرمان مبارک سن کر غضب ناک نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ سیدہ فاطمہؓ پر یہ بہتان لگایا جائے۔ اور پھر بھی دعویٰ محبت کا کرتے ہو شرم آنی چاہیے۔
شیعہ جھوٹ:
یہاں تک کہ وصیت فرماگئیں کہ ناراض کرنے والے میرے جنازہ پر نہ آنے پائے.
جواب اہلسنت:
ناراض کس بات پر ہوئیں؟؟؟ کس نے ناراض کیا؟ کیا آپ شیعہ سیدہ فاطمہؓ کو دنیا دار ثابت کرنا چاہتے ہو؟ اسلام میں تین دن سے زیادہ ناراض رہنا جائز نہیں تو سیدہ فاطمہؓ زمین کے ٹکڑے کی خاطر اتنی ناراض ہوگئیں کہ وفات تک راضی نہ ہوئیں؟ یہ سیدہ فاطمہؓ کی وکالت نہیں توہین ہے۔ شیعہ کی جہالت قابل داد ہے۔
حضرت فاطمہؓ کی نماز جنازہ اور شیخینؓ کی شمولیت
غسل اور تجہیز وتکفین کے مراحل کے بعد حضرت فاطمہؓ کے جنازہ کا مرحلہ پیش آیا
سیدہ فاطمہؓ کے جنازہ پر خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ اور ديگر صحابۂ کرامؓ جو اس موقعہ پر موجود تھے تشریف لائے۔ حضرت علیؓ کو صدیق اکبرؓ نے فرمایا کہ آگے تشریف لا کر جنازہ پڑھائیں۔ جواب میں حضرت علیؓ نے ذکر کیا کہ آنجنابؓ خلیفۂ رسولﷺ ہیں آپؓ کی موجودگی میں میں جنازہ پڑھانے کے لئے پیش قدمی نہیں کرسکتا۔ نماز جنازہ پڑھانا آپؓ ہی کا حق ہے آپؓ تشریف لائيں اور جنازہ پڑھائیں اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ آگے تشریف لائے اور حضرت فاطمہؓ کا چار تکبیر کے ساتھ جنازہ پڑھایا۔ باقی تمام حضرات نے ان کی اقتداء میں صلوٰة جنازہ ادا کی۔
یہ تفصیل متعدد مصنفین نے اپنی اپنی تصانیف میں باحوالہ ذکر کی ہے چنانچہ چند ايک عبارتیں اہل علم کی تسلی خاطر کے لئے بعینہ یہاں نقل کرتے ہیں۔
1۔ترجمہ: ابراہیم (النخعی) فرماتے ہیں کہ ابوبکرؓ نے فاطمہؓ بنت رسولﷺ کا جنازہ پڑھایا اور اس پر چار تکبیریں کہیں۔
(طبقات ابن سعد جلد 8 صفحہ 19 تحت تذکرہ فاطمہؓ طبع لیڈن)
2۔ ترجمہ: حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ اپنے والد محمد باقر رحمہ اللہ سے روایت فرماتے ہیں کہ محمد باقر رحمہ اللّٰہ نے فرمایا کہ نبیﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ فوت ہوئیں ابوبکرؓ اور عمرؓ دونوں تشریف لائے تاکہ جنازہ کی نماز پڑھیں۔ تو ابوبکر صدیقؓ نے حضرت علیؓ کو فرمایا کہ آپؓ آگے ہو کر نماز پڑھائيے تو حضرت علیؓ نے کہا کہ آپؓ خلیفۂ رسولﷺ ہیں آپؓ کے ہوتے ہوئے میں آگے نہیں ہوتا۔ پس ابوبکرؓ آگے تشریف لائے اور حضرت فاطمة الزہراءؓ کا جنازہ پڑھایا۔
(کنزالعمال جلد6 صفحہ318 حظ فی رواة مالک ۔طبع اول حیدر آباد ۔دکن تحت فضل الصدیقؓ۔ مسندات علیؓ ۔باب فضائل الصحابةؓ)
3۔ترجمہ: حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ اپنے والد محمد باقر رحمہ اللہ اور وہ اپنے والد حضرت زین العابدین رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ مغرب اور عشاء کے درمیان فاطمة الزہراءؓ کی وفات ہوئی ( ان کی وفات پر) حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓ اور عثمانؓ اور زبیرؓ اور عبدالرحمن بن عوفؓ تشریف لائے۔ جب نماز جنازہ پڑھنے کے ليے جنازہ سامنے رکھا گیا تو علی المرتضٰیؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو کہا کہ نماز پڑھانے کے لئے آگے تشریف لائيے تو صدیقؓ نے جواب دیا کہ اے ابوالحسن کیا آپؓ کی موجودگی میں؟ حضرت علیؓ نے کہا کہ آپؓ آگے تشریف لائيے، ﷲ کی قسم آپؓ کے بغیر کوئی دوسرا شخص فاطمہؓ پر جنازہ نہیں پڑھائے گا۔ پس ابوبکرؓ نے فاطمہؓ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اور رات کو ہی حضرت فاطمہؓ کو دفن کر دیا گیا۔
(ریاض النضرة للمحب الطبری جلد1صفحہ 156۔ تحت باب وفات الفاطمةؓ)
4۔طبقات ابن سعد میں ہے:۔
ترجمہ: شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہؓ پر حضرت ابوبکرؓ نے نماز جنازہ پڑھی۔
(طبقات ابن سعد۔ جلد 8 صفحہ 19 تحت تذکرہ فاطمہؓ۔)