حدیث 6220 کی وضاحت
دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓحدیث 6220 کی وضاحت
کیا حضرت امیر معاویہؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما کو حضرت علیؓ پر سب وشتم کا حکم دیا؟؟
شیعہ اور مرزا جہلمی کا اعتراض
مسلم بن سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہما) سے روایت ہے کہ حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) حضرت سعدؓ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ ابو تراب (علی) کو بُرا بھلا کہنے سے آپ کو کون سی چیز روکتی ہے؟ آپؓ نے فرمایا کہ جب تک مجھے وہ تین باتیں یاد ہیں جو آنحضرت ﷺ نے ان کے بارے میں فرمائی ہیں میں کبھی ان کی برائی نہیں کر سکتا.
1 - انت منی بمنزلۃ ہارون من موسی الا انہ لا نبی بعدی ( کہ تم میرے لیے ایسے ہی ہو جیسا کہ ہارون علیہ السلام موسی علیہ السلام کے لئے تھے مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا)
2 - خیبر کے دن فرمایا کہ کل میں جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت رکھتا ہوگا اور رسولﷺ اس سے محبت رکھتے ہوں گے.
3 - جب آیت مباہلہ نازل ہوئی تو آپ نے علی، فاطمہ و حسنین رضی اللّٰہ عنہم کو بلایا اور کہا کہ اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں.
قارئین کرام! سوشل میڈیا پر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف یہ اعتراض بہت زیادہ شیعہ اور مرزا علی جہلمی کے پیروکاروں سادہ لوح عوام کو غلط بیانی کرتے ہوئے کرتے ہیں کبھی ممبروں پر گالی گلوچ کا الزام لگاتے ہیں جو کہ بلکل جھوٹ ہے اور کہیں سے ثابت نہیں کبھی مسلم کی اس روایت کے بارے غلط مفہوم بیان کر کے دھوکہ دیتے ہیں آئیے تحقیق کرتے ہیں حقیقت کیا ہے
پہلا جواب:
اس روایت سے صرف اتنی بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت امیر معاویہؓ نے حضرت سعد (رضی اللہ عنہ) سے حضرت علیؓ کو سب نہ کرنے کی وجہ دریافت کی ہے، ان کو حکم نہیں دیا ہے جیسا کہ علامہ محمد طاہر پٹنی فرماتے ہیں “ھذا لا یستلزم امر معاویۃ بالسب بل سؤال عن سبب امتناعہ عنہ انہ تورع او اجلال او غیر ذلک او المعنی مامنعک ان تخطئہ فی اجتہادہ”
(مجمع بحارالانوار: جلد 3 صفحہ 14)
ترجمہ:- اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت امیر معاویہؓ “سب” کا حکم دے رہے ہیں بلکہ وہ تو سوال کر رہے ہیں “سب” سے رُکنے کے سبب کا کہ وہ حضرت علیؓ کی پرہیز گاری ہے یا جلالتِ شان یا اس کے علاوہ کچھ اور، مطلب یہ کہ کس چیز نے روکا تمہیں کہ تم حضرت علیؓ کو مجتہد مخطی کہو.
اسی طرح علامہ نووی رحمہ اللّٰہ نے شرح النووی علیٰ مسلم جلد 15 صفحہ نمبر 175 پر اور قاضی عیاض رحمہ اللہ نے اکمال المعلم جلد7 صفحہ210 پر اس کا یہی مطلب بیان کیا ہے.
دوسرا جواب:
علامہ نووی رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں کہ اس کی تاویل لازم ہے اور وہ یہ کہ “سبّ” سے مراد حضرت امیر معاویہؓ کے نزدیک حضرت علیؓ کے اجتہاد کی غلطی اور اپنی اجتہاد کی درستگی مراد ہے.
تیسرا جواب:
حضرت امیر معاویہؓ نے کچھ لوگوں کو سنا کہ حضرت علیؓ کی بدگوئی کرتے ہیں، اس لئے انہوں نے چاہا کہ حضرت سعدؓ کی زبان سے حضرت علیؓ کی فضیلت کا اظہار کروا کر انہیں اس فعل سے باز رکھیں۔ اہلِ علم کے نزدیک سرے سے یہ حدیث قابل اعتراض ہی نہیں بلکہ اس میں امیر معاویہؓ حضرت علیؓ کی مدح اور مناقب سننا چاہتے ہیں کیونکہ آپ کو معلوم تھا کہ حضرت سعدؓ حضرت علیؓ کے خیرخواہ ہیں اور وہ جو بھی جواب دیں گے وہ مدح ہی ہوگی۔
چوتھا جواب:
حضرت امیر معاویہؓ حضرت سعدؓ سے حضرت علیؓ کے بعض فضائل سننا اور حضرت علیؓ کے بارے میں ان کی رائے معلوم کرنا چاہتے تھے یعنی انہوں نے بطورِ امتحان پوچھا کہ حضرت سعدؓ کیا جواب دیں گے؟ کیونکہ حضرت سعدؓ ان لوگوں میں سے تھے جو فتنوں سے دور رہے اور حضرت امیر معاویہؓ ایک ذہین و فطین انسان تھے جو لوگوں کی رائے معلوم کرنا پسند کرتے تھے اور یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ آپؓ نے ایک مرتبہ حضرت ابن عباسؓ سے بطور مذاق فرمایا انت علی ملۃ علیؓ؟( تم علیؓ کے دین پر ہو) تو حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا(و لا علی ملۃ عثمانؓ انا علی ملۃ رسول اللّٰہﷺ) کہ میں عثمان کے دین پر بھی نہیں ہوں میں تو رسولﷺ کے دین پر ہوں. (شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ للالکائی: رقم 133)
پانچواں جواب:
حضرت امیر معاویہؓ نے حضرت علیؓ کو ابو ترابؓ کے نام سے یاد کیا ہے اور حضرت علیؓ کو ابو ترابؓ کی کنیت سے یاد کرنا کوئی طعن نہیں ہے کیونکہ یہ تو حضرت علیؓ کی محبوب ترین کنیت تھی اور اسی کنیت سے حضورﷺ نے حضرت علیؓ اور فاطمہؓ کی صلح کا آغاز کیا تھا۔
چھٹا جواب:
خلافتِ معاویہؓ میں حضرت علیؓ کے مخالفین کا کافی زور ہو گیا تھا اور وہ ان کو برائی کے ساتھ یاد کرتے تھے اس لیے حضرت امیر معاویہؓ نے حضرت سعدؓ کو سب و شتم پر اکسایا نہیں بلکہ ان سے دریافت کیا ہے جیسا کہ حدیث کے الفاظ ما منعک اس پر دلالت کرتے ہیں کہ ان کا حضرت علیؓ کے بارے میں کیا خیال ہے اور وہ کس وجہ سے مخالفینِ علیؓ کا ساتھ نہیں دیتے اگر وہ حضرت علیؓ کی جلالت مرتبیت کا لحاظ رکھتے ہیں پھر تو ٹھیک ہے ورنہ وہ غلطی پر ہیں اور ان کو اس کلمے سے اجتناب کرنا چاہیے.
ساتواں جواب:
شیعہ اور مرزا جہلمی عوام کو یہ دھوکہ دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ “سب” کے معنی صرف گالی گلوچ اور بدگوئی کے ہیں لیکن اگر ہم قرآن و حدیث کے محاورات کو عوام کے خیال کے مطابق سمجھنے کی کوشش کریں تو پھر دین و ایمان کی خیر نہیں۔ جیسے اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا (ان ھی الا فتنتک) فتنہ ہمارے عرف میں ایک برا کلمہ ہے لیکن اللہ نے اپنے لیے استعمال فرمایا اور یہاں فتنہ بمعنی آزمائش ہے، ایسے ہی (و مکروا و مکر اللہ ) ہمارے عرف میں مکر ایک قبیح فعل ہے یہاں مکر بمعنی خفیہ تدبیر ہے ایسے ہی محاورۂ سَب قرآنی آیات و احادیث میں مختلف استعمالات رکھتا ہے.
1.کسی کی برائی کرنا: قرآن میں ہے (ولا تسبوا الذین یدعون من دون اللہ فیسبوا اللہ عدوا بغیر علم) یہاں سب بمعنی گالی نہیں ہے کیونکہ صحابہؓ فحش گالیاں نہیں دیتے تھے وہ تو بہت مہذب تھے یہاں سبّ برائی کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے .
2 برا بھلا کہنا: حضورﷺ نے دعا کی کہ (فأی مسلم لعنتہ او سببتہ فجعل لہ زکوۃ و رحمۃ) جس مسلمان کو میں برا بھلا کہوں تو اس کے لیے اسے باعث رحمت و پاکیزگی بنا دے. آقاﷺ کی زبان پر کبھی گالی نہیں آسکتی اس لیے یہاں سب سے برا بھلا کہنا مراد ہے.
3.عار دلانا: ایک مرتبہ حضرت ابوذرؓ نے ایک صحابیؓ کو عار دلانے کے لیے (یا ابن السوداء) کہا اور اسے انہوں نے سب سے تعبیر کیا۔ حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں (انی ساببت رجلا فعیرتہ بأمہ) کہ میں نے ایک آدمی پر سب کیا چنانچہ میں نے اسے اس کی ماں کے ذریعے سے عار دلائی.
(بخاری: رقم 30)
نیز صحابہؓ کے درمیان سب (گالی گلوچ) کا پایا جانا ان کی شان صحابیت کے منافی ہے اور اہل بیت کے بارے میں حضرت معاویہؓ کے حسنِ اخلاق اور حسنِ معاملہ کی تعریف خود شیعہ مؤرخین نے بھی کی ہے۔چنانچہ قدیم شیعہ مؤرخ ابو حنیفہ دینوری نے لکھا ہے.
ولم یر الحسن و لالحسین طول حیاۃ معاویۃ منہ سوء فی انفسھما و لا مکروھا و لا قطع عنھما شیئا مما کان شرط لھما ولا تغیر لھما عن بر (اخبار الطوال: ص 226)
یعنی حضرات حسنین کریمینؓ نے اپنی ذات کے متعلق حضرت معاویہؓ کی مدتِ خلافت میں کوئی بری بات اور ناگوار چیز نہیں دیکھی، جو شرائط حضرت معاویہؓ نے ان سے کی تھیں ان کو پورا کیا اور جو احسان و بہتر سلوک ان کے حق میں جاری کیا تھا اس کو بدلا تک نہیں۔
حضرت معاویہؓ حضرت علیؓ کو گالی دینے کے لیے کیسے کہہ سکتے ہیں جب کہ وہ حضرت علیؓ کو اپنے سے افضل سمجھتے تھے
( شیعہ کتاب الاخبار الطوال صفحہ 225)
چنانچہ آپؓ نے ابو مسلم خولانیؓ سے حضرت علیؓ کے بارے میں فرمایا(انی لأعلم انہ افضل منی وأحق بالامر)
ترجمہ:- میں جانتا ہوں کہ حضرت علیؓ مجھ سے افضل ہیں اور خلافت کے زیادہ لائق ہیں.
(فتح الباری: جلد13 صفحہ86/ سیر اعلام النبلاء: جلد3 صفحہ140)
حضرت معاویہؓ کو جب حضرت علیؓ کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپؓ رونے لگے اور اہلیہ سے فرمایا: انک لا تدرین ما فقد الناس من الفضل والفقہ والعلم
ترجمہ:- تم نہیں جانتی کہ کیا فضل، فقہ اور علم آج لوگوں سے رخصت ہو گیا۔
(البدایہ والنہایہ: جلد8 صفحہ130)
جب حضرت معاویہؓ نے واقعۂ صفین میں حضرت علیؓ کو برا بھلا نہیں کہا اور نہ ہی ان کی وفات پر نہیں ایسا کوئی کلمہ کہا وفات کے بعد کیوں برا بھلا کہتے؟
لیجئیے یہ تھی حقیقت اس روایت کی جو آپ نے پڑھی امید ہے اصحابِ رسولﷺ جن کی تربیت خود رسولﷺ نے فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے تمام صحابہ کرامؓ سے اپنی رضا اور جنت کا سرٹیفکیٹ دیا اس مقدس جماعت جن سے سارا دین ہمیں ملا ان کے بارے بدگمانی نہیں ہوگی۔