Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعوں کی شروع سے قرآن و سنت پر مبنی اسلام اور اسکے پیروکار مسلمانوں سے عداوت اور اسکے اصلی اسباب

  مولانا غلام محمد

شیعوں کی شروع سے قرآن و سُنّت پر مبنی اسلام اور اسکے پیروکار مسلمانوں سے عداوت اور اسکے اصلی اسباب

                    قارئین کرام

اسلامی تاریخ کی یہ انتہائی دردناک حقیقت ہے کہ ابتداء سے لیکر آج تک ہر دور میں مسلمانوں کے مابین انتشار پیدا کرنے، انتہائی گہری اور مخفی سازشوں سے مسلم حکومتوں کو کمزور کرنے اور ان کے خلاف غیر مسلم حکومتوں اور اقوام کو اکسانے، مسلمانوں کی فتوحات کے سلسلہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے، مختلف اقسام کے فتنے پھیلانے، نیز موقعہ ملنے پر خود مسلمانوں کا بےدردی سے خون بہانے کے سلسلہ میں شیعہ حضرات پیش پیش رہے ہیں اور ان کا ہر دور مقصد صرف یہ رہا ہے کہ قرآن و سنت پر مبنی اسلام اور اسکے پیروکار مسلمانوں کو کسطرح نیست و نابود کیا جائے۔چنانچہ موقع ملنے پر ان کا کردار اتنا معاندانہ رہا ہے کہ خود غیر مسلم مؤرخوں کو بھی اس پر تعجب ہے، انکی اسلام دشمنی کی تاریخ اتنی طویل ہے کہ اس لیے لئے ایک ضخیم کتاب لکھنے کی ضرورت ہے اللہ کرے کہ کوئی اہل محقق یہ علمی کام انجام دے مجھے یہاں پر چند واقعات کے ذریعہ کچھ مثالیں پیش کرنی ہیں امید ہے کہ عام مسلمانوں کو یہ آسانی سے یہ اندازہ ہو جائے گا شیعہ مذہب کے بانی عبداللہ بن سبا یہودی سے لیکر دورِ حاضر کے مشہور شیعہ اثنا عشریہ کے امام زمان کے قائم مقام سیاسی اور مذہبی رہنما خمینی تک اسلام اور مسلم دشمنی کا مسلسل اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے جو کہ بغیر کسی وقفہ سے جاری رہا ہے

                      ابتدائی دور

یہ تو ہر ایک کو بخوبی معلوم ہے کہ خلافت راشدہ کے دور میں عرب سے باہر اسلامی فتوحات اور اشاعت اسلام کا سلسلہ تیزی سے جاری تھا۔حضرت عثمانؓ کے دور خلافت کے ابتدائی 6 سال کے عرصہ تک مشرق میں مکران سے لیکر مغرب میں الجزائر تک ایک وسیع اسلامی سلطنت معرض وجود میں آگئی تھی اور عساکرِ اسلام کے کتنے ہی قافلے فتوحات کے اس سلسلہ میں کامیابی سے چاروں طرف بڑھ رہے تھے تو اسی وقت ایک مشہور اسلام دشمن عبداللہ بن سبا یہودی محبت اہل بیت کے حسین نعرہ کی آڑ لےکر شیعیت کی بنیادیں مضبوط کرکے امتِ مسلمہ کو ایسے فتنوں اور داخلی انتشار میں مبتلا کر گیا کہ خلیفہ راشد اور پوری قوم اس فتنہ کی سرکوبی میں لگ گئے اور فتوحات کا یہ عظیم سلسلہ پندرہ برس تک بالکل بند رہا یہاں تک کہ حضرت امیر معاویہؓ کے دور خلافت میں امن بحال ہوا اور پھر یہ فتوحات کا نیا سال سفر شروع ہوا یہ بات تاریخ کا ہر طالب علم جانتا یے کہ اگر یہ سلسلہ پندرہ برس تک بند نہ رہتا یورپ اور افریقہ کے بہت سارے ممالک اسلامی حکومت کے جھنڈے کے نیچے آجاتے،اموی دورِخلافت میں یہ فتوحات کا سلسلہ اگرچہ شروع ہو گیا تھا لیکن شیعوں کی طرف سے ہر قسم کی رکاوٹیں اور داخلی انتشار پیدا کرنے کے لئے برابر مکروفریب کے حربے جاری رہے.

                    عباسیہ دور خلافت

تیسری صدی ہجری کے آخر سے لیکر ساتویں صدی ہجری تک کے دور میں شیعوں میں دو انتہا پسند گروہ قرامطہ اور باطنیہ پیدا ہوئے ان قرامطیوں اور باطنیوں نے مسلم دشمنی کے ایسے علی الاعلان مظاہرے کئے اور مسلمانوں کو ایسا ستایا کہ ان کی تفصیل پڑھتے ہوئے مسلمان تو اپنی جگہ پر غیر مسلم مؤرخین کے سینوں سے بھی آہیں نکل جاتی ہیں یہاں پر یہ بھی یاد رہے کہ انکی اس وحشت اور بربریت کا نشانہ صرف سنی مسلمان تھے باقی ان کے علاقے کے غیر مسلم یہودی اور نصرانی ہر قسم کے سکون اور حفاظت میں رہے، ان کی بربریت کی داستانوں میں سے چند مثالیں یہاں پیش کی جاتی ہیں.

شام کے ممتاز عالم اور مورخ شیخ عبدالرحمن المیدانی نے ان کی مسلم کشی کا تاریخ وار تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے اسکا خالصہ پیش خدمت ہے:

یحییٰ قرامطی نے 290ھ کو دمشق کا محاصرہ کیا اور کتنے ہی مسلمانوں کو قتل کر دیا اور اسکے بھائی حسین شام کے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں قتل عام کیا جس میں اس نے بچوں اور جانوروں کو بھی نہیں بخشا.

ذکرویہ بن مہرویہ نے 294ھ میں خراسان کے حاجیوں کے قافلہ کو قتل کیا اور راستہ کے تمام کنویں بند کر دئیے اور اسی سال تقریباً 20 ہزار حجاج قتل کئے گئے۔حاجیوں کو قتل کرنا قرامطیوں کی خاص عادت تھی. ان میں خاص کر ایران، عراق اور بحرین کے شیعہ مشہور تھے.

 ابو طاہر قرامطی نے 391ھ میں کوفہ میں قتل عام کیا۔498ھ میں ھندوستان اور خراسان کے حاجیوں کے قافلوں ک باطنیوں نے رے میں قتل کیا اور پھر553ھ میں باطنیوں نے خراسانی حاجیوں کا قتل عام کیا۔

تاریخ نویس لکھتے ہیں کہ یہ قتل عام بڑا تھا کہ اسلامی شہروں میں کوئی ایسا شہر نہیں تھا جہاں حاجیوں کے اس قتل عام پر احتجاج نہ ہوا ہو قدیم مؤرخین میں سےعلامہ حافظ شمس الدین ذہبی اپنی مشہور کتابمنہاج السنتہ میں علامہ ابن خلدون اپنی تاریخ ابن خلدون میں علامہ ابن کثیراپنی شہرہ آفاق تصنیفالبدایہ والنہایہ میں اور دور جدید کے مصری مورخ استاذ ابوزہرہ نے اپنی کتاب مذاہب اسلامیہ میں باطنی اور قرامطی

شیعوں کے ایسے لرزا دینے والے واقعات بیان کئے ہیں جن کے مطالعہ سے یہ یقین کرنا مشکل ہو جاتا کہ ایک مسلمان کہلانے والے طبقہ نے دوسرے مسلمانوں پر کیونکر یہ ظلم کیا ہو گا، یا کن اسباب کی وجہ سے ایسا کیا ہو گا؟

لیکن حقیقت وہی ہے جو پیش کرنی پڑتی ہے اب جبکہ ایسے واقعات بیشمار ہیں کہ ذکر کرنے کی اس کتاب میں گنجائش نہیں ہے لہذا ان میں سے 317ھ میں حرم شریف میں نہایت توھین آمیز اور المناک واقعہ پیش آیا تھا اسکو یہاں بطور اختتام پیش کرتا ہوں اس واقعہ کو علامہ ابن خلدون، احمد امینؒ، حافظ ابن کثیرؒ اور علامہ ابن اثیرؒ وغیرہ نے تفصیل کے ساتھ اپنی کتابوں میں تحریر کیا ہے

 ہم حافظ ابن اثیرؒکا تحریر کردہ واقعہ پیش کرتا ہوں چنانچہ یہ لکھتے ہیں......

317ھ منصور دیلمی نے اپنی ساتھیوں کے ساتھ حج کیا یہ بغداد سے مکہ مکرمہ پہنچا راستہ میں امن رہا مگر مکہ مکرمہ پر یوم الترویہ (8ذی الحجہ) کو ابو طاہر قرامطی شیعہ نے حملہ کیا

اسکے ساتھیوں نے حجاج کو لوٹ لیا اور قتل کیا. یہاں تک کہ جو حاجی حرم شریف میں پناہ لینے کے لیے داخل ہوئے انکو بھی نہیں بخشا بلکہ قتل کر دیا گیا ابوطاہر قرامطی شیعہ نے شہید کئے گئے حاجیوں کو مسجدالحرام میں گڑھے کھدوا کر بغیر تجہیزوتکفین کے دفن کروایا اس بےرحم ظالم نے بیت اللہ شریف کا غلاف اتروا کر پھاڑ ڈالا اور اپنے ساتھیوں میں تقسیم کیا اور حجراسود کو کھدواکر اپنے ساتھ لے گیا اور اس نے مکہ مکرمہ کے گھروں کو خوب لوٹا اس شرمناک واقعہ نے شیعوں کو مسلم دنیا میں بہت بدنام کیا آخر میں شیعہ حکمران المہدی ابو محمد عبیداللہ علوی نے اپنا اثرورسوخ استعمال کیا جسکی وجہ سے یہ حجراسود 22برس گزرنے کے بعد یعنی 339ھ میں شیعوں سے واپس ملا اور وہ بیت اللہ شریف میں نصب کیا گیا۔ابو طاہر قرامطی مکہ مکرمہ میں 11دن تک قتل و غارتگری کرتا رہا پھر جب وہ اپنے وطن واپس ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اسکو طویل عرصہ تک عبرت ناک سزا میں مبتلا کر دیا اسکے بدن کے گوشت میں کیڑے رینگتے نظر آتے تھے اور اسکے اعضاء کیڑوں کے کھانے کی وجہ سے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گرتے تھے اسطرح یہ طویل مدت تک اس دنیا میں ذلت کا عذاب چکھتا ہوا دوسروں کے لئے عبرت کا نشان بنا رہا اور اسی ذلت میں مر گیا

خلافت عباسیہ کے خاتمے اور بغداد کی تباہی میں شیعوں کا نمایاں کردار

خلافت عباسیہ کا دور حکومت مسلم تہذیب و ثقافت تابناک دور شمار کیا جاتا ہےاس دور میں مسلم حکومت پوری دنیا میں عظیم حکومت سمجھی جاتی تھی اس دور میں اسلام کے ہر ایک پہلو کو بڑی ترقی حاصل ہوئی دینی علوم کے تمام شعبوں یعنی قرآن، حدیث، تفسیر وفقہ،اصول فقہ، لغت تصوف نے تمام تدریجی مراحل طے کرکے باقاعدہ مرتب مدون شکل میں تکمیل اور عروج حاصل کیا۔اسکے علاوہ دینوی علوم و فنون سائنس وغیرہ نے بھی خلافت عباسیہ میں بڑی ترقی کی۔ہر امیر اور عالم کے گھر میں بڑے بڑے کتب خانے قائم تھے،اور بغداد اس وقت پوری دنیا میں علوم وفنون کا مرکز تھا یہاں پر ایشیاء اور یورپ سے بھی غیر مسلم طلباءسائنسی اور فنی علوم میں تحصیل کے لئے آتے تھے اور یہ مسلم حکومت انکی ہر قسم کی مدد کرتی تھی، لیکن اس عظیم سلطنت کے کمزور ہونے کی وجہ بھی باطنی قرامطی شیعوں کی سازشیں تھیں ان سازشوں کا کچھ ذکر اوپر آچکا ہے آخر میں ان لوگوں نے سن 652ھ میں مشہور وحشی تاتاری حاکم ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد کی مکمل تباہی اور عباسی حکومت کا خاتمہ کیا. یہ حادثہ اسطرح پیش آیا کہ آخری عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کے لیے یہ عظیم غلطی بڑی اذیت ناک ثابت ہوئی کہ اس نے ابن العلقمی شیعہ کو اپنا وزیراعظم بنایا اور اس پر حد سے ذیادہ اعتماد کیا۔

ابن العلقمی نے پہلے مختلف بہانوں سے خلافت کی فوج کو کم کراکے صرف 10ہزار کر دیا اور پھراس نے مشہور شیعہ فلسفی نصیر الدین طوسی کی معرفت مشہور اسلام دشمن تاتاری وحشی ہلاکو خان کو بغداد کے اوپر حملہ کرنے کی دعوت دی اس وحشی نے بغداد پر حملہ کیا اور تاریخ کی بدترین تباہی پھیلائی کافی عرصے تک مسلمان بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور مردوں کا بےدردی سے قتل عام. ہوتا رہا لاکھوں کی تعداد میں لوگ مارے گئے اور ان کے خون سے بہت دن تک دریائے دجلہ کا پانی سرخ ہو کر بہتا رہا۔

امام ابن تیمیہؒ کی کتاب منہاج السنتہ کی تلخیص المنتقی ہے اور المنتقی کا اُردو ترجمہ

پروفیسر غلام احمد حریری نے کیا ہے، اس کے حاشیہ میں پروفیسر حریری لکھتے ہیں کہ:

بت پرست ہلاکو خانتاتاری فوج کے دو لاکھ سپاہی ساتھ لیکر بغداد پر حملہ آور ہوا ابن العلقمی نے خلیفہ المستعصم باللہ کو دھوکہ دیکر ہلاکو خان کا کام کافی حد تک آسان کر دیا اس نے ہلاکو خان سے خلیفہ کی صلح کرانے کا بہانہ بنایا اور خلیفہ سے اجازت لیکر ہلاکو خان سے ملاقات کی ملاقات میں اس نے ہلاکو خان سے اپنی وفاداری اور خلافت عباسیہ سے خیانت کا یقین دلایا ابن العلقمی نے خلیفہ کے پاس آکر اس کو کہا کہ ہلاکو خان اپنی بیٹی کا رشتہ آپ کے بیٹے ابوبکر کے ساتھ کرنا چاہتا ہے یہ سن کر خلیفہ بہت خوش ہوا اور اپنے علماء و امراء کو ساتھ لیکر اپنے بیٹے کے رشتے کو مضبوط کرنے کے لئے خود ہلاکو خان کے پاس پہنچا۔جب یہ تمام لوگ خلیفہ کی رفاقت میں ہلاکو خان کے پاس پہنچے تو اس نے ان سب کو قتل کرنے کا حکم دیا اور اسطرح ان سب کا کام ادھر ہی تمام کر دیا گیا. پھر تاتاریوں کا لشکر شہر میں داخل ہو گیا جس نے قتل عام کا بازار گرم کر دیا اور یہ انسانی قتل 40،دن تک جاری رہا ہلاکو خان نے جب مقتولین کو شمار کرنے کا حکم دیا تو ان کی تعداد 10 لاکھ 80ہزار ہوئی. اور جو قتل شدہ انسان شمار نہ ہو سکے ان کی تعداد اس سے بھی ذیادہ تھی.

(المنتقی مترجم اردو کے حاشیہ کا خلاصہ 478)

اسکے بعد اس ظالم وحشی نے ہر ایک کتب خانے کو تلاش کرکے جلا دیا اور اسطرح علم و ہنر کے تمام نشانات مٹا دئیے۔یہ واقعہ اتنا وحشتناک تھا کہ اس نے پوری مسلم دنیا کو ہلا دیا لیکن افسوس کہ شیعوں کے علماء نے اپنے فلسفی نصیر الدین طوسی کو اس کارنامہ پر فخریہ خراج تحسین پیش کیا.

 چنانچہ مشہور مورخ حافظ ابوعبدالله محمد بن عثمان الذھبی المتوفی 748ھ اپنی کتاب مختصر منہاج السنتہ میں اپنے وقت کے ایک شیعہ اہل قلم مرزا محمد باقر خونساری طوسی کی کتاب روضات الجنات کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ :

"اس (نصیر الدین طوسی) کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ ایران میں سلطان محتشم ھلاکو خان کا وزیراعظم بنایا گیا وہ سلطان کے ساتھ بغداد آیا تاکہ خلق کی خبرگیری اور ملک کی اصلاح کرے اور سلطنت عباسیہ کا خاتمہ کرے اور اس کے حامیوں کا قتل تمام کرکے فساد کی بیخ کنی کرے اور فساد کی آگ بجھائے چنانچہ ان کے گندے خون کو نہروں کیطرح بےدریخ بہایا گیا. جو دریائے دجلہ سے جا ملا اور وہاں سے جہنم میں پہنچا.

(روضات الجنات 578 المنتقی عربی 326 بحوالہ ماہنامہ الفرقان لکھنؤ صفحہ 30،اپریل 1980)

اس عبادت کے آخری حصہ کو بغور مطالعہ کریں کہ شیعوں نے ان مسلمانوں کے خون کو گندا خون کہا ہے یہ مسلمان ظاہر ہے کہ خالص سنی تھے جن کے مقدس خون کو شیعہ مجتہد گندا خون کہہ رہا ہے اور اسکی جگہ اس کے ہاں جہنم ہے (نعوذ باللہ)

یہ ہے شیعوں کی عباسیہ خلافت کے خلاف سازش اور سفاکیوں کی ایک جھلک،اب ان واقعات کو سامنے رکھنے کے ساتھ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ سلطان غازی صلاح الدین ایوبی کی فوج میں جاسوس ابن جرف،سلطان فتح علی خان ٹیپو، سے غداری کرنے والا میر صادق اور نواب سراج الدولہ کا غدارمیرجعفریہ سب شیعہ تھے ایسی دوسری بہت سی مثالیں اور بھی ہیں۔

تاریخ کے وسیع مطالعہ سے یہ بات حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ سنی حکمران مسلمانوں نے شروع سے لیکر بغیر کسی تحقیق کے کہ یہ سنی ہے یا شیعہ ہے، شیعوں کو محض قابلیت کی بنیادوں پر بہت بڑی کلیدی آسامیوں پر فائز کیا ہے اور اس فراخدلی اور فیاضی کے نتیجہ میں انکو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے، چنانچہ آگے چل کر یہ فیاضی انکی حکومت کے خاتمہ کے ساتھ انکی جان کے خاتمہ کا بھی باعث بنی ہے اسکے برعکس تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی شیعہ حکمران نے کسی سنی کو اہم منصب پر فائز کیا ہو یہ عجیب و غریب صورت حال بھی ضرور غور طلب ہے.

    ایران کی شیعہ حکومتیں اور ان کا کردار

         شیعہ صفوی خاندان کی حکومت

سقوط بغداد کے بعد رافضیوں کی ہمت بڑھ گئی اور انہوں نے بڑی ترقی کی، چنانچہ907ھ میں اسماعیل صفوی شاہ ایران بن کر تخت سلطنت پر متمکن ہوا تخت نشینی کے بعد اسماعیل نے سب سے پہلے اعلان کے ذریعہ امامیہ مذہب کو ریاستی مذہب مقرر کرنے کا اعلان کر دیا.

چنانچہ براؤن لکھتا ہے:-

"دو، ایک سال کے اندر ہی وہ تبریز فتح کرکے تخت ایران پر متکمن ہو گیا اور اپنے مشیروں کے مشورے کے خلاف اس نے اپنی رعایا کے لئے مذہب شیعیت لازمی اور جبری قرار دیا لوگوں نے اسے سمجھایا کہ تبریز کی دو ثلث آبادی سنی ہے اور نماز اور خطبوں کے درمیان ایسے فقروں کا اضافہ جو خصوصیت کے ساتھ شیعوں کا شعار تھا خاص کر پہلے 3خلفاء ابوبکرؓ عمر فاروقؓ عثمان غنیؓ پر تبرا بازی کہیں کوئی فتنہ نہ پیدا کر دے مگر اس نے نہ مانا اور جواب دیا خدائے جہاں آئمہ معصومین کے ساتھ میری مدد میں ہیں، مجھے کسی کا ڈر نہیں اگر رعایا نے مخالفت میں ایک لفظ بھی کہا تو تلوار کھینچ کر ایک شخص کو بھی ذندہ نہیں چھوڑوں گا چنانچہ اس نے جیسا کہا تھا ویسا کر دیکھایا اور رعیت کو حکم دیا گیا کہ اگر تبرا پڑھتے وقت انہوں نے یہ آواز بلند بیش باد کم مبادی نہ کہا تو انہیں سزائے موت دی جائے گی.

(تاریخ ادبیات ایران در عہد جدید 36،35

بحوالہ الفرقان لکھنؤصفحہ 40اپریل 1987)

               سماعیل صفوی کے مظالم

مشہور مورخ ابن عماد حنبلی(متوفی1089ھ) لکھتے ہیں

اسماعیل صفوی ایران کے تمام امراء پر حاوی ہوگیا اس نے حراسان آزر بائیجان،تبریز،بغداد،عراق،عجم فتح کر لیا علاقوں کے فرمان رواؤں کو مغلوب اور افواج کو قتل کر دیا،10لاکھ سے ذائد افراد کو اس نے قتل کیا،اسماعیل صفوی کی افواج اسے سجدہ کرتی تھی اور اسکا ہر حکم مانتی تھی قریب تھا کہ یہ شخص الوہیت کا دعویٰ کر بیٹھے اس نے علماء کو قتل کیا،ان کی کتابیں اور مصاحف جلائے، سنی علماء واعیان کی قبریں کھدوا کر ہڈیاں نکلوائیں اور انھیں جلا کر خاکستر بنا دیا.

( ماہنامہ الفرقان لکھنؤ، صفحہ 39،40 بابت ماہ اپریل 1987)

ان صفوی حکمرانوں نے بھی شروع سے لیکر آخر تک اپنی پالیسی کا رخ مسلمان دنیا کی دشمنی کی طرف رکھا اور اکثر یورپ کے عیسائی حکمرانوں سے انکی ساز باز رہی. مؤرخین کا اتفاق ہے کہ یورپ سے ساز باز کرکے کی وجہ ترکوں کی نئی پرعزم قیادت جو کہ یورپ میں اشاعت اسلام کے لئے بہت کچھ کر سکتی تھی وہ ایران کی،سازشوں کا سدباب کرنے میں ضائع ہوتی رہی اور یورپ اسلام کی روشنی سے محروم ہو گیا اور ترکی کے عظیم عثمانی دور کے تین عزم حکمرانوں سلطان سلیم، سلطان سلیمان اصغر اور سلطان مراد ثالث کی پوری قوت ایران کے صفویوں کی سازش کا سدباب کرنے میں ضائع ہو گئی،اور یہ سب کچھ یورپی عیسائی حکومتوں کو نفع پہنچانے کے لئے کیا گیا.

سرجان مالکم سابق گورنر اپنی تاریخ ایران میں لکھتا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:

 شاہ عباس نے ایک خط یورپ کے عیسائی حکمران کی طرف لکھ کر سرانتھونی شرلی کے حوالہ کیاجس خط میں اس نے عیسائی بادشاہوں سے اپنے تعلقات بڑھانے اور مستحکم کرنے کی خواہش ظاہر کی،اسی کتاب میں مذید لکھا گیا ہے کہ شاہ عباس نے ترکوں سے جن سے یورپی حکمران خوفزدہ رہتے تھے،جنگ کرنے کا عزم دیکھایا چنانچہ شاہ عباس نے اپنے ارادے کے مطابق قسطنطنیہ کے حکمران (ترکوں) پر حملہ کر دیا.

(تاریخ ایران بحوالہ الفرقان لکھنؤ صفحہ 32اپریل 1985)

عثمانی دربار میں مامور آسٹریائی سفیر نے لکھا ہے کہ:

ہمارے اور ہماری تباہی کے درمیان اہل ایران ہی صرف ایک روک ہیں ترک ہمیں ضرور دباتے مگر ایرانی انہیں روکے ہوئے تھے ایرانیوں کے ساتھ ترکوں کی اس جنگ سے ہمیں صرف مہلت مل گئی ہے مخلصی اور نجات نہیں حاصل ہوئی۔

(تاریخ ترکان عثمانی جلد3 صفحہ171بحوالہ الفرقان صفحہ 31لکھنؤ اپریل 1985 )

شیعہ افشاریہ نادر شاہ خاندان کی حکومت

ایران کے ایک دوسرے ظالم حاکم نادر شاہ نے پہلے عراق اور افغانستان بعد میں سندھ اور ہندوستان میں جو قتل و غارت گری کی اور ظلم و بربریت کے مظاہرے کئے ان کے پیچھے بھی درحقیقت یہی مسلم کشی کا جزبہ کارفرما تھا۔اس سنگدل ظالم اور درندہ صفت وحشی شیعہ حکمران نے دہلی میں جو قتلِ عام کرایا اسکی مثال کم ازکم ہندوستان کی پوری تاریخ میں اور کہیں نہیں ملتی اس قتل و غارت گری کا سبب بھی مغل حکمرانوں کی کمزوری تھی جس کی اصل وجہ سید برادران کی سازشیں تھیں

پروفیسر محمد رضا خان اپنی تصنیف تاریخ مسلمانان عالم میں لکھتے ہیں کہ!

نادر شاہ مغل سرداروں کے ہمراہ دہلی پہنچ کر دیوان خاص کے قریب ایک محل کے قریب مقیم ہوا۔رات کے وقت شہر میں ایرانی سپاہیوں اور دہلی کے باشندوں کے درمیان غلہ کی خریدوفروخت پر جھگڑا ہو گیا اور دہلی کے شہریوں نے زیادتی کرکے چند ایرانی سپاہیوں کو تہہ تیغ کر ڈالا۔

نادر شاہ نے اس بات پر خفا ہو کر دہلی میں قتل عام کا حکم دے دیا چند لمحوں میں ہزار دہندگان خدا مارے گئے اور سارا شہر لٹ گیا آخر نظام الملک کی سفارش پر نادر شاہ نے قتلِ عام بند کر دیا مگر لوٹ کھسوٹ دو ماہ تک جاری رہی اسکے بعد نادر شاہ 70 کروڑ روپے کے تاوان کے عوض تخت طاؤس، کوہ نور ہیرا اور بیشمار جواہرات و قیمتی کپڑے دہلی سے لیکر ایران واپس چلا گیا اور جانے سے پہلے محمد شاہ کو دوبارہ تخت پر متمکن کرتا گیا،مگر سلطنتِ مغلیہ کی ساری ساکھ اس حملہ کی بدولت برباد ہو گئی(تاریخ مسلمانانِ عالم 462)

          شیعہ پہلوی خاندان کی حکومت

قریبی دور کو دیکھیں رضا شاہ پہلوی سابق حکمران ایران خمینی کی طرح شیعہ مجتہد اور مذہبی حکومت کا مدعی نہیں تھا لیکن چونکہ یہ شیعہ تھا لہذا مشرقِ وسطیٰ کی مسلم عرب دنیا کے لئے بڑا نقصان دہ ثابت ہوا مغربی قوتوں نے اسکو مسلم دنیا اور خلیجی ملکوں کے خلاف پوری طر مسلح کیا اور اسکو اس علاقے کے لئے پولیس مین (police man) بنانے کی کوشش کی اسطرح مغربی قوتوں نے اس کو عرب دنیا کے لئے استعمال کیا اور یہ بھی خوب اچھی طرح استعمال ہوا،مسلم دنیا کے لئے یہ بات کتنی حیرت انگیز اور شرمناک اور رنج دہ ہے کہ پوری مسلم دنیا میں پہلوی ایران وہ واحد ملک تھا جس نے یہودیوں کی حکومت اسرائیل کو سرکاری طور پر تسلیم کیا اور شروع ہی سے اسکے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے اور تیل جیسی اہم چیز کی تجارت کی اور اسرائیل کو قوت حرب میں آضافے کے مواقع فراہم کئے. یہاں یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہیے کہ

(1)صفوی خاندان (2) اشاریہ خاندان (3) ذیدیہ خاندان (4)قاچار خاندان (5)پہلوی خاندان

ان میں سے 3 اور4 کا یہاں ذکر نہیں کیا گیا، ہر ایک شیعہ حکمران نے پوری طرح یہ کوشش جاری رکھی کہ کسی طرح سنیوں کو شیعت میں تبدیل کرکے سنیوں کو اقلیت میں بدل دیا جائے یہ کوشش آج تک جاری ہے اس عمل میں سنیوں کے اوپر وہ مظالم ڈھائے گئے ہیں، اور اب بھی ڈھائے جارہے ہیں کہ جن کے تاریخی نقوش کبھی مٹ نہیں سکتے.

حالیہ ایرانی انقلاب اور خمینی کے ناپاک منصوبے

یہ واضح حقیقت ہے کہ جن مغربی طاقتوں نے رضا شاہ پہلوی جیسے وفادار مہرے کو ہٹا کر اسکی جگہ پر جس مذہبی انقلاب کو آنے کی اجازت دی ہے یعنی خمینی اور اسکا نام نہاد اسلامی انقلاب کو تو ان کے اغراض و مقاصد بھی ذیادہ اہم اور ان مغربی عیسائی اور یہودی قوتوں کے لئے ذیادہ فائدہ مند ہوں گے.

دھیان رہے کہ موجودہ دور کی مغربی سیاست اس قدر شاطر ہے کہ اسکی سیاست کے اوپر بیشمار پردے پڑے ہوئے ہیں اور وہ پردے اور حجاب تب ہٹائے جاتے ہیں جب مقاصد حاصل ہو جاتے ہیں موجودہ سیاست کی یہ بھی عام شیطانی چال ہے کہ جن سے مقاصد پورے کرانے ہوتے ہیں تو اس قوم کو عام دنیا کو اس سے اور بےخبر رکھنے کے لئے ظاہر میں کچھ مفادات کو ٹھکرا دینے اور بظاہرعداوت برتنے،انکو سخت سست کہنے اور اپنے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کی بھی ان مہروں کو اجازت تو دور کی بات ہے بلکہ ہدایت ہوتی ہے تاکہ اصلی مقاصد پر پردے پڑے رہیں اور ظاہری مکارانہ چالوں پر لوگوں کا اعتماد قائم ہو جائے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خمینی کے اصلی مقاصد کتمان اور تقیہ سے حجابات اٹھ چکے ہیں اور مزید اٹھنا شروع ہو گئے ہیں چنانچہ 10 نومبر 1986 سے آج 27 دسمبر 1986 تک تقریباً ڈیڑھ ماہ کی مدت میں شاید ہی کوئی ایسا دن آیا ہو کہ اس میں اسرائیلی یہودی حکومت،ایران اور امریکہ کے جنگی اسلحہ کی خفیہ خریدوفروخت کی تفصیلات کے بارے میں غالباً دنیا کے بیشتر اخبارات اور جرائد میں روزانہ نئے نئے انکشافات ظاہر نہ ہوتے ہوں اور اب تو پوری دنیا میں ان باتوں کی تصدیق بھی ہو چکی ہے کہ کافی عرصے سے ایران کو، ایران عراق جنگ میں براہ راست یہودیوں سے نیز یہود کی معرفت امریکہ سے امداد اور اسلحہ مل رہا تھا دیکھئے بطور مثال اخبارات کے اقتباسات(روزنامہ جنگ کراچی 6 اتوارب29دسمبر 1991)وٹو 595،594،593

یہ حقیقت میں جنوری 1982 کی ہے کہ یہودی ریاست اسرائیل کا ایک جہاز اسلحہ سے بھرا ہوا روس کے علاقے میں گرکر تباہ ہو گیا تھا جس سے ایسے دستاویزی ثبوت فراہم ہوئے تھے کہ یہ اسلحہ اسرائیل سے ایران کے لیے جارہا تھا اسوقت اس نام نہاد اسلامی جمہوری ایران نے ان دستاویزی ثبوت کے باوجود اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور یہ انکار الزام کا سلسلہ کافی عرصہ تک ریڈیو اور اخبارات کی زینت بنتا رہا اور یہ حقیقت اس وقت ایسی نہیں لگ رہی تھی کہ اس پر ہر آدمی یقین کر سکے لیکن اب یہ بات ظاہر ہو گئی کہ ایران کو اسرائیل اور امریکہ سے اسلحہ کی امداد اسی وقت یعنی 1982ء یا اس سے پہلے جاری ہو چکی تھی جسکا اب پردہ فاش ہو رہا ہے اور صحیح حقیقت دنیا کے سامنے آگئی ہے.

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ مسلم ممالک کے سربراہوں کی بار بار کوشش اور تہران (ایران) کے چکر لگانے کے باوجود ایران اپنی ضد پر قائم تھا اور عراق سے صلح کے لئے آمادہ نہ تھا اس سے یہ حقیقت منکشف ہو چکی تھی کہ عراق ایران جنگ کو مغربی طاقتیں اور اسرائیل اپنے مفاد کے لئے طول دلا رہی تھی اس میں ایران جو استعمال ہورہا تھا جسکی وجہ سے اسرائیل اور مغربی طاقتوں کو چاروں طرف سے اسطرح فائدہ پہنچ رہا تھا.

(1)عرب ملکوں کی افرادی قوت، اقتصادی حالتاور دولت تباہ ہورہی تھی۔

(2)عرب ملک مغربی ممالک کی مزید گرفت میں آگئے۔

(3)یہودیوں کی جنگی صلاحیتوں میں اضافہ ہو گیا اور ان کی اقتصادی حالت کو مذید تقویت مل گئی اس لئے کہ یہودیوں کو اسلحہ کی فراہمی کے عوض ایران سے سرمایہ مل رہا تھا۔

(4) براہِ راست عرب اسرائیل جنگ سے اسرائیل کی انفرادی قوت، اقتصادی حالات اور جنگی قوت میں نقصان ہو سکتا تھا جس سے اب اسرائیل محفوظ ہے،اس طرح اسرائیل مغربی طاقتیں اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گئیں۔

قارئین کرام!

 اس جنگ سے تو سراسر مغربی ممالک اور یہودی ریاست اسرائیل کو فائدہ ہوا لیکن دنیا کے مسلم ممالک کو زرہ برابر کوئی فائدہ نہ ہوا جیسا کہ:

(1)اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والوں کی آپس میں دنیا کے سامنے تاریخ کی طویل ترین اور سب سے گران جنگ تھی اسکے نتیجے میں پوری دنیا کے مسلمانوں کی تحقیروتوہین ہوئی اور مسلمانوں کے وقار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔

(2)اس جنگ پر کھربوں کی تعداد میں ڈالر خرچ ہوئے اور خلیج کے تمام تیل پیدا کرنے والے ملکوں کے کھربوں ڈالر کے اثاثے اسلحہ کی خرید پر صرف ہوئے.

(3)عرب ملکوں کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ انھوں نے سب ترقیاتی کام روک دئیے اور تیل کی سب آمدنی عراق کی مدد کے لئے اسلحہ خریدنے پر خرچ کر دی تھی اسطرح ان کی پوری دولت امریکہ کے حوالے ہو گئی۔

(4)اس جنگ میں ایران اور عراق کا اتنا نقصان ہوا کہ ایران نے بارہ تیرہ برس کے لڑکے محاذ جنگ پر بھیجنے شروع کر دئیے تھے اور دونوں فریق ایک دوسرے کے شہروں پر بمباری کررہے تھے جس سے بےگناہ معصوم شہری مرد، عورتیں، بچے لقمہ اجل بن گئے. اور یہ سب کچھ دنیاوی جنگ کے لئے بدنما داغ تھا لیکن ایرانی شیعی حکومت جوکہ اتحاد بین المسلمین کا نعرہ لگانے سے نہیں تھکتی اس سے کوئی پوچھے کہ قرآن پر شیعوں کا ایمان ہے تو قرآن کی اس آیت میں تمہارے لئے کیا حکم ہے؟

وَ اِنْ طَآىٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَاۚ-فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰى تَفِیْٓءَ اِلٰۤى اَمْرِاللّٰهِۚ-

یعنی اور اگر مسلمانوں میں ان کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو (اے مسلمانوں) ان کے درمیان صلح کرواؤ پھر اگر ان میں سے کوئی اس مصالحت کے خلاف سرکشی ک ارتکاب کرے تو تم (سب) اس سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم پر واپس آجائے.

اب سوال یہ ہے کہ اسلامی دنیا کے منتخب نمائندے تہران کے چکر کاٹ رہے تھے کہ عراق جنگ بند کرنے کے لئے تیار تھا لیکن ایران جنگ بند نہیں کررہا تھا اور کھلے عام قرآنی حکم کی خلاف ورزی کررہا تھا ایران یہ جنگ کیوں بند نہیں کررہا تھا اور اسکا جواب یہ ہے کہ ایران کے اس وقت کےخمینی کے عزائم کچھ اور تھے وہ اپنے آپ کو (فرضی اور خیالی) مہدی غائب زمان کا خلیفہ سمجھتے تھے لہذا اسکی مرضی تھی کی ایرانی شیعہ مملکت کی توسیع ہو اور پوری مسلم دنیا پر شیعیت کو تسلط حاصل ہو اسطرح مقامات مقدسہ القدس، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ وغیرہ پر بھی ایرانیوں کی حکمرانی ہو اس مقصد کے لئے ایران علی الاعلان اظہار بھی کرتا رہتا تھا چنانچہ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی مدظلہ اپنی تصنیف انقلاب ایران اور اسکی اسلامیت میں لکھتے ہیں کہ.....!

ایک دن اچھی طرح نمایاں نئے بینر کا اضافہ ہم نے دیکھا اسکی عبارت عربی میں تھی۔

سنتحدوسنتلاحم حتی نستردمن ایدی المغتصبین اراضینا المقدسة القدس والکعبۃ والجولان

یعنی ہم متحد ہوں گے اور جنگ آزما ہوں گے یہاں تک کہ غاصبوں کے قبضہ سے اپنی، مقدس زمینیں بیت المقدس اور کعبہ اور گولان واپس لے لیں گے

(انقلاب ایران اور اسکی اسلامیت صفحہ44)

یہ تو تھی خمینی کی عظیم توسیعی شیعی حکومت کے قیام کی اسکیم لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا چنانچہ یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا اورخمینی ان تمام آرزوؤں کو دل میں لیکر پروردگار عالم کے پاس جوابدہی کے لئے چلا گیا اور پھر ایرانی قیادت نے جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کر دی جنگ بندی کے لئے عراقی صدر جناب صدام حسین اور ایرانی رہنماؤں کے درمیان خط و کتابت کا ایک دور چلا، اس کی ابتداء عراقی صدر نے کی، ایران برابر

لیت ولعل سے کام لیتا رہا، یہ خط و کتابت 21اپریل 1990ءسے 4 اگست 1990ء تک ہوتی رہی آخر

صدام حسين کے مکتوب کے جواب میں ایرانی صدر ہاشمی رفنجانی نے یہ لکھا کہ:

جیسا کہ جنیوا میں مقیم اپنے نمائندہ کے ذریعہ ہم نے آپ تک اطلاع پہنچائی ہے اب ہم تہران میں آپ کے نمائندوں کے استقبال کے لئے تیار ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ موجودہ خوشگوار ماحول اور نیک نیتی کو جاری رکھ کر دو اسلامی ملک و قوم کے تمام جائز حقوق و حدود کی حفاظت کرتے ہوئے ایک جامع اور پائدار صلح تک رسائی حاصل کر لیں گے۔(دو ماہی توحید تہران، ایران جلد 8 شمارہ 1دسمبر 1990ء جنوری 1991ء صفحہ 168)

اسطرح یہ جنگ بند ہو گئی لیکن ایران آگے چل کر اپنے وعدہ یعنی تمام جائز حقوق و حدود کی حفاظت کرنے میں قائم نہ ہو سکا چنانچہ اس نے وعدے کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے جنوری 1991ء سے عراق کے ساتھ 28 اتحادی ملکوں کو ہولناک جنگ میں پس پردہ عراق کے خلاف کام کیا پھر جیسے ہی یہ خون ریز جنگ 28فروری 1991ء کو ختم ہوئی تو ایران نے نجف اور کربلا کی شیعہ آبادی کو صدر صدام حسین

 کے خلاف بغاوت پر اکسایا ان کی مدد کی اور باغی لیڈروں کو ایران مین پناہ دی اسطرح بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے اور بہت قتل و غارت گری ہوئی چنانچہ بھی ایران کے روحانی پیشوا علی خامنہ ای کرد باغیوں اور شمالی عراق ے شیعوں کو یہ ہدایات دے رہے ہیں وہ صدر صدام حسین کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں یہاں تک کہ

صدام حسین سے علیحدہ ہو جائے یہ سب کچھ ہورہا ہے تو اسکا جواب پہلے ذکر کیا جا چکا ہے یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ ایران عراق جنگ میں جو کچھ ہوا اس نے خلیجی عرب ممالک کو بھی دولت میں کمزور کر دیا تھا تو دوسری طرف تنہا ایران جسکی تیل کی دولت بھی کافی حد تک تباہ اور محدود ہوتی جارہی تھی لیکن پھر بھی ایران باغیوں کی مدد کررہا تھا اور ایرانی شیعہ انقلاب کو اسلامی انقلاب تسلیم،کروانے کے لئے اور تمام ممالک اسلامیہ میں شیعیت کو پھیلانے کے لئے کھربوں کی تعداد میں ڈالر خرچ کررہا ہے اور یہ حقیقت کسی بھی باشعور آدمی سے مخفی نہیں ہے کہ تنہا ایک ملک ایران یہ سب خرچہ کیسے پورا کر سکتا ہے اور اس میں ایران کی مدد کونسا مسلم دشمن ملک کررہا ہے یہ غور طلب مسلہ کیوں نہیں۔

دوستو!!! اب آپ غور کریں یہ فیصلہ آپ کو ہی کرنا ہے کہ خمینی کی یہ سوچی سمجھی پالیسی عین اسلام جا یہ نعرہ اتحاد بین المسلمین اور شیعہ سنی

 بھائی بھائی کتمان اور تقیہ نہیں تو کیا ہے.

یہ بات بھی آپکی اطلاع کے لئے ضروری ہے کہ خمینی مسلم ممالک کے حکمرانوں کے لئے انتہاٸی غلیظ الفاظ استعمال کرتا ہے اور شروع سے ہی پاکستان، سعودیہ عربیہ، مراکش، اردن اور مصر وغیرہ میں انقلاب لانے کا نعرہ لگاتا اور لگواتا رہا اسکے لئے آپ روزنامہ امن کی خبریں بطور نمونہ پڑھ سکتے ہیں (فوٹو دیکھیں 595پر)

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی انقلاب ایران اوراسکی اسلامیت میں لکھتے ہیں کہ....

1401ھ مطابق 1981 کے حج کے موقع پر یہ خبریں آئیں کہ اس دفعہ ایرانی حجاج نے حرمین کے اندر اور باہر وہ خاص نعرے اجتماعی شکل میں لگائے جو انقلاب کے بعد ان کے خاص نعرے اور انقلابی شعار بن گئے ہیں

اللّٰه اکبر، خمینی رھبر، اللہ واحد، خمینی قائد، مرگ بر امریکہ، مرگ بر صدام، مرگ بر اسرائیل الموت لاامریکہ، الموت إسرائيل، الموت لصدام، اور یہ چونکہ یہ ایک بالکل عجیب اور نئی چیز تھی اس لئے سعودی حکام نے اس سے منع کیا(انقلاب ایران اور اسکی اسلامیت صفحہ35)

اور آگے چل کر لکھتے ہیں :

اور ہم خیال دوستوں کی ایک مجلس میں اس وقت کا نیا تاثر ان الفاظ میں نکلا کہ یہ تو:- دوسرا اسرائیل پیدا ہو رہا ہے غیر فرقہ وارانہ اسلام ور اخوت و اتحاد اسلامی،صرف لبادہ ہے ورنہ اصل میں مکمل شیعیت ہے اور عزائم کا آخری نشانہ مدینہ منورہ ( بوجہ روضۂ اقدس و جنت البقیع) ہے جو اسرائیل عزائم کا بھی اصل نشانہ ہے،انقلاب ایران اور اسکی اسلامیت صفحہ 36،35)

دسمبر 1981ء میں مولانا موصوف کو ایک رسالہ ملا جس میں حج کے موقعہ پر حاجیوں کے اس واقعہ کے متعلق شاہ خالد مرحوم کا ایک خط بنام خمینی اور خمینی کی طرف سے اسکا جواب شاہ خالد مرحوم کے نام چھپا ہے اس خط میں خمینی نے اپنے حاجیوں کی اس حرکت اور کردار کی بہت زور دار طریقہ سے وکالت کی ہے اور اس نعرہ بازی اور مظاہرہ کو قرن اول یعنی حضورﷺکے دور کے اسلام کا طریقہ کہا ہے اور شاہ خالد کے نہایت مہذب الفاظ کے مزین خط کا جواب ایک نہایت متکبر سیاست باز ہے طرز پر دیا ہے یہ دونوں مکتوب آگے ملاحظہ فرمائیں:

خمینی کی موجودہ شیعی ایرانی حکومت کا بنیادی مقصد درحقیقت تمام سنی حکومتوں کو کمزور اور بےاثر بنا کر وہاں کے شیعوں کی پشت پناہی کرکے وہاں شیعہ انقلاب لانا ہے اور پوری دنیا کے مسلمانوں میں شیعیت کی پر ور تبلیغ و اشاعت مقصود ہے اسی لئے ہر سطح پر کتمان اور تقیہ سے کام لیکر اسلامی وحدت شیعہ سنی بھائی بھائی اتحاد بین المسلمین وغیرہ جیسے خوبصورت نعروں سے پروپیگنڈے کا ایک وسیع سلسلہ جاری ہے جس پر خرچ کرنے کے لئے ملکی خزانے کے دروازے ایسی فراخ دلی سے کھول دئیے گئے ہیں جیسا کہ جنگ کے زمانے میں حکومتیں اسلحہ اور دوسرے جنگی و سائل پر بےدریغ خرچہ کرتی رہتی ہیں چنانچہ ایرانی حکومت مختلف ملکوں میں مختلف زبانوں میں کتابیں جرائد، اخبارات، اشتہارات،اور کرایہ پر مقالہ نگاروں سے اخبارات میں مختلف موضوعات پر مضامین اور مقالات لکھوا کر مسلسل شائع کررہی ہے اور یہ فتنہ سیلاب عظیم کی طرح جاری ہے اس میں بہت فنکاری کے ساتھ یہ پروپیگنڈہ ہورہا ہے اور تقریباً پوری دنیا کے مسلمانوں میں خاص کر تعلیم یافتہ طبقہ میں لٹریچر تقسیم کیا جارہا یے اور بغیر کسی معاوضے اور قیمت کے اور بغیر بتائے ہوئے پتہ کے یہ لٹریچر خودبخود ان کے گھر پہنچ رہا ہے اور سنی علماء کا کرایہ پر خرید کر جلسے کرائے جارہے ہیں اور ان کی صدارت میں جلسے کرائے جارہے ہیں، پاکستان کے مسلمانوں سے بھی موجودہ ایرانی شیعی حکومت کے تعلقات شیعہ سنی بھائی بھائی اور اسلامی وحدت کے نام سے حقیقت میں کتمان اور تقیہ کا حربہ ہے یہ بہتر تعلقات اسلامی وحدت کی بنیاد پر نہیں بلکہ شیعیت کی وحدت کی بنیاد پر پاکستان میں شیعوں کو مضبوط بنا کر شیعوں کی آبادی میں اضافہ کرکے مذہبی تصادم کراکر پاکستان کو کمزور بنانا اور پاکستان کو شیعہ ریاست میں تبدیل کرنے کے ناپاک عزائم کا حصہ ہے مسلمانوں کو خبردار رہنا چاہیے.

موجودہ دور میں ایرانی شیعہ علماء اور ایران کے اعلیٰ سطح کے سرکاری اور نیم سرکاری عہدہ داروں کا پاکستان میں بار بار آنا جیسا کہ ہمارے ریڈیو،ٹیلیویژن اور اخبارات سے ظاہر ہورہا ہے میرے خیال میں اتنی آمدورفت پاکستان کے گذشتہ 40 برسوں میں ان آخری چند سالوں کے سوا کبھی نظر نہیں آئی.

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی مدظلہ انقلاب ایران اور اس کی اسلامیت کے صفحہ 42،41پر لکھتے ہیں:

جن دیواری کتبات کا اوپر کہیں ذکر آیا ہے ان میں بھی جابجا ایسے کتنے دیکھنے میں آئے جو موجودہ انقلاب کو امام مھدی(غائب امام) کی آمد سے جوڑنے اور اسے انقلاب مھدی کا پیش خیمہ اور اس کے شروع ہونے کا تصور دیتے تھے اور سلسلہ کی سب سے زیادہ واضح اور مکمل چیز قم کے سفر میں آیت اللہ منتظری کے دولت کدہ سامنے آئی یہ ایک منقش کتبہ تھا جو وزارت تعلیم کی طرف شائع کیا گیا تھا، اس کتبہ کی عبارت یہ تھی (ایک انقلاب تا انقلابِ مہدی ادامہ دارد) تولدِ امام زمان (عج) برمستضعفانِ جہان مبارک باد.

ترجمہ:-یہ انقلاب انقلابِ مہدی تک باقی رہنے والا ہے

امام زمان (غائب امام)کی ولادت دنیا کے تمام کمزور (پسے ہوئے)طبقوں کو قوموں کو مبارک ہو۔

مولانا صاحب آگے چل کر لکھتے ہیں۔

 سفر کے تین ماہ بعد 3 مئی 1982 کے انگریزی روزنامہ تہران ٹائمز مین پڑھا کہ ایرانی کیبنٹ نے آیت اللہ منتظری کی تجویز پر 5شعبان مطابق 8 جون 1982 کو جو کہ بقول شیعہ امام مھدی عائب کی یوم ولادت ہے مستضعف ڈے کے طور سے منائے جانے کا فیصلہ کرکے ایک بین الاقوامی کانفرنس اس موقع پر منعقد کرنا طے کیا ہے چنانچہ اس اخبار کی 8 جون کی اشاعت کے مطابق 101 ملکوں کے 250 نمائندہ وفود پر مشتمل یہ مستضعف ڈے کانفرنس 8 جون کے بجائے 7جون 1982 مطابق 15شعبان کو تہران میں ہوئی امام زماں کے یوم ولادت کو یوم مستضعفین کے طور سے ہٹائے جانے کی مناسبت یا معنویت کیا ہے؟اسی اخبار تہران ٹائمز نے اپنے 7 جون کے اداریہ میں خوب وضاحت سے اس پر روشنی ڈالی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ امام زماں مھدی جو کہ اسوقت پردہ غیبوبیت میں ہیں جب ظاہر ہوں گے تو ان کا ظہور چونکہ عالمِ اسلامی کے نجات دھندہ کی حیثیت سے ہو گا اور ایک انقلاب عظیم وجود میں آئے گا جو ظلم و ستم کی ماری ہوئی دنیا کو عدل وانصاف کی نعمت سے مالا مال کرے گا اس لئے ایسے مسیحا کا یومِ ولادت بہت ہی بجا طور پر اسکا مستحق ہے کہ اسے کل عالم آج کے ستم پرور ماحول میں عدل وانصاف سے محروم انسانوں کو خوشخبری کے لئے مستضعف ڈے کے طور پر منایا کرے۔(انقلاب ایران اور اسکی اسلامیت صفحہ 43)

ایرانیوں نے تو دنیا کو یوں باور کرایا ہے کہ خمینی امامت کا جھنڈہ امام مھدی کے حوالے کرکے اپنے منصب سے دستبردار ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور منظور تھا کہ خمینی کی یہ آرزو پوری نہیں ہوئی اور وہ یہ جھنڈہ آیت اللہ خامنہ ای اسی کے حوالے کرکے چل بسے۔

اسی کتاب انقلاب ایران اور اسکی اسلامیت میں یہ بھی ہے کہ:

ایک دن تہران کے مہمان خانہ بزرگ استقلال ہوٹل میں ایک اچھی طرح نمایاں نئے بینز کا اضافہ ہم نے دیکھا اور آپ. ے انداز کا بالکل منفرد اور یکتا تھا، اس کی عبارت عربی یہ تھی.

سنتحدوسنتلاحم حتی نسترد من ایدی المغتصبین اراضینا المقدسة القدس والکعبة والجولان

جسکا ترجمہ ہوتا ہے ہم متحد ہوں گے اور جنگ آزما ہوں گے یہاں کہ غاصبوں کے قبضے سے اپنی مقدس زمینیں بیت المقدس کعبہ اور گولا واپس لے لیں.

اس کافی عرصہ لگنے کی وجہ کیا تھی جو کچھ بھی واقع میں ہو لیکن ایک گمان تو بہرحال یہ کیا جاسکتا تھا کہ چند دن گزر جانے پر مہمانوں کے مجمع کی فضا کا اندازہ یہ کیا گیا کہ نظر قبول و پسند سے دیکھا جائے گا اور جو مجمع تھا واقعی اس میں کوئی ہلچل تو کیا سرسراہٹ بھی دیکھنے میں نہیں آئی ویسے اپنے اندازے میں جو بہت وسیع مطالعہ اور جائزے پر مبنی نہ تھا پچاسوں آدمی تھے جو اس پر ہل جاتے مگر ان میں اکثریت عربی نہ ماننے والوں کی تھی اور جو ایسے عربی دان میری نظر میں تھے وہ اتفاق سے جیسا کہ بعض طبیعتیں ہوتی ہیں کچھ مغفل قسم کے

(انقلاب ایران اور اسکی اسلامیت صفحہ45)۔

آگے چل کر مولانا صاحب لکھتے ہیں

بہرحال اس بینر کے آویزاں ہونے کے بعد جوں ہی میری نظر اس پڑی حجاج ایران کی نعرہ بازی حرمین یاد آگئی اور خمینی کا شاہ خالد کو جواب اور اب اوپر کے بیان کے پورے پس منظر کو اس بینر کے ساتھ رکھتے ہوئے کسی ہلکے شبہے کی بھی گنجائش اس میں نہیں رہی کہ حرمین بشمول کل عالم اسلام پر شیعی تسلط اس انقلاب کا ایک قطعی ہدف ہے ۔(انقلاب ایران اور اسکی اسلامیت صفحہ45)

مندرجہ ذیل بالا حقائق کی روشنی میں دیکھیں اور خمینی کے عزائم کو دیکھیں اب بھی ایرانی قائدین کی یہی کوشش ہے کہ وہ خمینی کی اسکیم کو عملی جامہ پہنائیں چنانچہ موجودہ صدر ہاشمی رفسنجانی اور آیتہ اللہ علی خامنہ ای عراق کے خلاف شیعوں اور کردوں کو اکسا رہے ہیں کہ وہ صدر صدام حسین کی حکومت کا تخت الٹ دیں تاکہ آگے چل کر ایران عراق میں اپنی پسند کی،حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے کیونکہ باغیوں کے سرکردہ لیڈر ایران میں سرکاری مہمان بنے ہوئے ہیں اور ایران انکی پوری مدد کررہا ہے۔

مولانا عتیق الرحمن صاحب :-خمینی کی تصویر پرستی پر یوں روشنی ڈالتے ہیں:

خمینی کی تصویر پرستی کی بات جہاں تک پہنچی ہوئی ہے کہ 5فروری کو پہلا جمعہ پڑھنے کے لئے جب ہم تہران یونیورسٹی کے میدان میں گئے جہاں شہر کا جمعہ ہوتا ہے اور موجودہ صدر جمہوریہ(اب خمینی کے جانشین) علی خامنہ ای یہیں کے امام جمعہ تھے تو یہ دیکھ کر آنکھیں پھٹی رہ گئیں کہ میدان جمعہ کے روسٹرم (منقئہ خطاب)کی پچھلی دیوار پر خمینی کی بہت بری تصویر آویزاں ہے اور پھر اسی پس منظر میں اس دن کے خطیب جمعہ(جن کا نام مجھے یاد نہیں رہا) خطبہ دینے کے لئے آکر کھڑے ہوئے اور ہم کان خطبہ پر لگا کر اپنی پھٹی ہوئی نگاہوں سے خطیب کے ساتھ ساتھ کی تصویر ان کے پس منظر میں دیکھتے رہے.

خمینی کی تصویر پرستی اس حد کو پہنچی ہوئی ہے کہ ان میں خود شیعی نظریہ سے بھی ایک جو بڑی حیرت ناک بات پیدا ہو چکی ہے وہ بھی لوگوں کو چونکانے سے قاصر ہے اور وہ یہ کہ حضرت علیؓ کی خیالی تصویریں کہیں کہیں ملتی ہیں خاص کر بسوں میں ہم نے آگے پیچھے لگی دیکھیں جیسے ہندوستان میں کرشن جی اورگرونانک جی وغیرہ کی تصویریں بعض ہندوؤں اور سکھوں کی بسوں میں ملا کرتی ہیں تو یہ حضرت علیؓ کی تصویریں بھی خمینی کی تصویروں کے آگے بالکل دب کر اور قطعاً بےوقعت ہو کر رہ گئی ہیں خمینی کی تصویروں کے ساتھ دلی تنظیم اور لگاؤ کا معاملہ ہے جبکہ حضرت علیؓ کی تصویروں کا مصرف صرف برائے زینت معلوم ہوتا ہے یہ چیز ہماری دوگنا تکلیف کا باعث بنی،ایک طرف خمینی کی تصویر کی پرستش میں شرک پروری کا سامان،دوسری طرف حضرت علیؓ کی تصویر اگرچہ وہ فرضی ہواس کی بےوقعتی۔(انقلاب ایران اور اس کی اسلامیت صفحہ 20،19)

خمینی کے بارے میں ان کے ایک ساتھی کی رائے

ڈاکٹر موسیٰ موسوی اصفہانی ایک شیعہ مجتھد ہیں اسی کے ساتھ ساتھ وہ علوم جدیدہ کے بھی حامل ہیں موصوف نے تہران یونیورسٹی سے قانون اسلامی میں ڈاکٹریٹ پی ایچ ڈی کیا اور پیرس یونیورسٹی سے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ پی ایچ ڈی کیا اور پیرس یونیورسٹی سے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ پی ایچ ڈی کیا اور پیرس یونیورسٹی سے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ پی ایچ ڈی کیا اور تہران یونیورسٹی میں اسلامی اقتصادیات قائدین کی تحریک میں شامل تھے اور دو مرتبہ اسمبلی کے ممبر بھی منتخب ہوئے یہ شاہ کے خلاف انقلابی قائدین کی تحریک میں شامل تھے انہوں نے حال ہی میں عربی زبان میں (الثورۃ البائستہ) کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے اس کتاب میں ایک عنوان ہے انا والخمینی اسی فصل کا اردو ترجمہ ماہنامہ الفرقان لکھنؤ مارچ اپریل 1986 میں شائع ہوا ہے جس میں خمینی کے بارے میں حیران کن انکشافات ہیں، ان میں یہ بھی ہے کہ انقلاب ایران سے پہلے میں نے

خمینی سے تفصیلی گفتگو کی جس میں اس نے کہا تھا کہ خود قتل کرنے والے سے قصاص کیا جاتا ہے قتل کا حکم دینے والے سے نہیں اسپر ڈاکٹر موسی موسوی تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

سخت تعجب ہے کہ یہ بات کہنے والا اپنی حکومت کے چار سالوں میں چالیس ہزار انسانوں کو قتل کرتا ہے جس میں بوڑھے جوان، مرد اور عورتیں سب ہوتی ہیں اور ان کا جرم یہ کہنا ہوتا ہے کہ حریت ذندہ باد واستبداد مردہ باد.

مذکورہ رائے رکھنے والے نے خود لاکھوں کردوں اور عربوں، بلوچوں اور ترکماموں کو یہ کہنے پر قتل کرایا کہ ہم شاہ کے زمانے کے منصوبہ حقوق کی بحالی چاہتے ہیں۔(الثورة البائستہ بحوالہ الفرقان لکھنؤ صفحہ 55بابت ماہ مارچ اپریل 1986)

                 سنی مسلمانوں پر مظالم

خمینی کے برپا کردہ عظیم ایرانی اسلامی انقلاب سے اہل سنت کو کیا ملا بلوچستان (ایران) کے طلباء اھل سنت اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن کی طرف سے شائع کردہ کتابچہ بنام خطرہ کی گھنٹی کے 41 صفحہ پر مرتب لکھتے ہیں کہ :

ایران کے اندر بلوچستان اور کردستان میں جو سنی آباد ہیں انکے ساتھ خمینی ازم کا رویہ انتہائی وحشیانہ ہے،ان پرتقریر و تحریر کی مکمل پابندی عائد ہے، ان کی دل آزاری کے لئے ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے ابھی تک بیسیوں سنی مساجد و مدارس کو بلڈروزروں کے ذریعہ منہدم کیا گیا ہے ہزاروں مسلمانوں کو فائرنگ سکواڈ کے ذریعہ موت کی وادیوں میں دھکیلا گیا ہے ہزاروں ابھی تک قید وبند کی صعوبتوں میں مبتلا ہیں، سینکڑوں پر جیلوں میں بےپناہ تشدد کرکے ان کے ہاتھ پیر توڑ کر ان کو ہمیشہ کے لئے معذور بنایا گیا ہے درجنوں ایسے افراد بھی ہیں جن کو دماغی کرنٹ لگا کر اور مخبوط الحواس بنا کر چھوڑ دیا گیا ہے۔

ان اقتباسات سے آپ کو ایران میں رائج جمہوریت اور اسلام کا خوب اندازہ ہو گیا ہوگا اب آپ ایران کی مجودہ حکومت کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں،یہ فیصلہ آپ خود کریں!

خمینی کے شیعہ انقلاب کے بعد جو سنی مسلمان ایران چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں مہاجر بن کر رہ رہے ہیں ان کے لئےخمینی کے طے شدہ پروگرام کی ایک جھلک آپ دیکھنا چاہیں تو دیکھ سکتے ہیں۔

1):-کراچی میں خمینی کے مخالفوں پر حملہ کرنے والے سمندری راستہ سے فرار ہو گئے(روزنامہ امن جنگ کراچی 11جولائی1987ء فوٹو دیکھیں صفحہ593پر)

2):-مجھے حکومت نے کسی دوسرے ملک میں خفیہ مشن کے لئے منتخب کیا تھا. کوئٹہ میں ایرانی دھشت گردوں کا اقبالی بیان۔ (روزنامہ جنگ 21 جولائی 1987ء فوٹو دیکھیں صفحہ 594پر)

دوستو ! یہ ہے اتحاد بین المسلمین اور شیعہ سنی بھائی بھائی کی اصل شکل وصورت،جو خود ایران کی موجودہ حکومت پاکستان میں ایرانی سنی مہاجرین مسلمانوں سے کر رہی ہے ، پھر ایران کے اندر خود سنی مسلمانوں کا کیا حال ہوگا؟ذرا اندازہ لگائیں۔

خمینی کے عقیدے خود ان کی کتابوں کے آئینہ میں

اب یہاں خمینی کے عقیدوں کے بارے میں کچھ خاص نکات پیش کررہا ہوں

چنانچہ یہ صاحب جناب رسول اللہﷺ کے رفقاء، قرآن کریم کے اولین مخاطبین،قرآن و سنت کے حاملین اور جنت الفردوس کے باسیوں حضرات صحابہ کرامؓ کے بارے میں اپنی رسوائے زمانہ کتاب کشف الاسرار فارسی میں لکھتا ہے کہ

(1) وہ لوگ (صحابہؓ) جو سوائے دنیا اور حصول حکومت کے اسلام اور قرآن سے سروکار نہیں رکھتے تھے جنہوں نے قرآن کو اپنی نیاتِ فاسدہ کی تکمیل کا محض وسیلہ بنایا تھا ان کے لئے ان آیات کا(جو حضرت علیؓ کی خلافت بلافصل اور آئمہ کی امامت پر دلالت کرتی تھی) قرآن مجید سے نکال دینا کتاب آسمانی کا تحریف کرنا اور ہمیشہ کے لئے قرآن کو دنیا والوں کی نگاہ سے اس طرح مستور بنا دینا کہ قیامت کے دن یہ ننگ و عار مسلمانوں اور قرآن کے حق میں باقی رہے، آسان تھا تحریف کا وہ عیب جو مسلمان یہود و نصارٰی پر لگاتے ہیں ان صحابہؓ پر ثابت ہے (معاذ اللہ ثم معاذ اللہ)کشف الاسرار صفحہ 114فوٹو دیکھیں 525صفحہ پر)

اور اپنی کتاب حکومتہ الاسلامیہ میں لکھتا ہے :

(2) امام کو مقام محمود (درجہ عالی) اور ایسی خلافت تکوینی حاصل ہوتی ہے جس کی عظمت اور غلبہ کے سامنے کائنات کے تمام ذرے سرنگوں ہوتے ہیں ہمارے دین کی قطعی الثبوت مسائل میں سے یہ ہے کہ ہمارے اماموں کو وہ مقام حاصل ہے جس کو نہ کوئی مقرب فرشتہ پہنچ سکتا ہے نہ نبی جس کی بعثت ہوئی (الحکومتہ الاسلامیہ صفحہ 113عکس صفحہ 532 پر)

امام اسی کتاب کے صفحہ 113 پر لکھتے ہیں.

(3) ہمارے آئمہ کی تعلیم قرآن کی وحی کی تعلیم جیسی ہے، یہ کسی خاص طبقہ یا خاص دور کے لوگوں کیساتھ مخصوص نہیں لیکن ہر زمانے اور ہر علاقے کے تمام کے تمام انسانوں کے لئے ہے اور قیامت تک اس کا نفاذ اور اس کی اتباع قرآن کی طرح واجب ہے.الحکومتہ الاسلامیہ صفحہ 113)

امام غائب زماں(امام مھدی) اور حضور ﷺ کا تقابل خمینی کے الفاظ میں

کل نیشن ٹیلیویژن کے دوسرے حصے کے افتتاح کے موقع پر خمینی کا ایک پیغام نشر ہوا جس میں اس نے بارھویں امام حضرت مھدی امام زمان کے یوم ولادت کی نشان دہی کرکے اپنے نظریہ کو ان الفاظ میں ظاہر کیا ہے

امام زمان معاشرتی انصاف کے پیغام کے حامل ہونگے اور پوری دنیا کو عدل ل مہیا کریں گے،یہ ایسا فریضہ ہے جس میں پیغمبرِ اسلام حضرت محمدﷺ بھی پوری طرح کامیاب نہی ہوئے (معاذ اللہ) اگر حضورﷺ کا جشن ولادت پوری دنیائے اسلام کے لئے پرعظمت ہے توامام زمان کا جشن منانا تمام دنیا کے انسانوں کے لئے ذیادہ پر عظمت ہے میں اس کو لیڈر نہیں کہہ سکتا کیونکہ اس کی حیثیت اس سے ذیادہ ارفع ہے، میں اس کو اول بھی نہیں کہہ سکتا کیونکہ اسکے بعد دوسرا کوئی بھی نہیں ہے۔اشتہار منجانب حزب المصطفی پاکستان فوٹو دیکھیں صفحہ 576پر)

دوستو! اب آپ خود سوچیں کہ ایسے عقائد اور نظریات کے حامل انسان کا لایا ہوا انقلاب کیا ہوگا یہ اسلامی انقلاب ہو گا یا شیعی انقلاب،اور ایسے شخص کے نعرےاتحاد بین المسلمین شیعہ سنی بھائی بھائی وحدت اسلامی وغیرہ سچے نعرے ہوں گے یا یہ صرف کتمان اور تقیہ یعنی جھوٹ دھوکہ اور فریب ہوں گے؟

   شیعوں کی ابدی سنی دشمنی کے اسباب

اب آخری بات عور کرنے کی یہ ہے کہ شیعوں کی دائمی سنی دشمنی کے اصلی اسباب کیا ہیں؟کیونکہ تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ابتداء سے لیکر آج تک شیعوں نے ہر قسم کا نقصان صرف اسلام اور سنی مسلمانوں کو پہنچایا ہے تاریخ میں ایسی کسی جنگ کا نام نہیں ملتا جو شیعوں نے کسی غیر مسلم حکومت سے کی ہو یا انہوں نے کسی غیرمسلم حکمراں کو قتل کیا ہو یا انہوں نے کسی غیر مسلم حکمران کے خلاف ملک میں انتشار پیدا کیا ہو، اسکا جواب بھی خود ان ہی تاریخ اور آج کے درجہ اول کی معتبر ترین کتابوں سے یہ معلوم ہوتا کہ ان شیعوں کے عقیدہ کے مطابق حضورﷺ کے وصال کے فورا بعد 3 صحابہؓ کے علاوہ آپ ﷺ کے باقی تمام صحابہ کرامؓ (نعوذ باللہ) مرتد اور کافر ہو گئے تھے اور انہوں نے غاصبانہ طور پر حضرت علیؓ کی خلافت پر قبضہ کیا، قرآن میں تحریف کی اور ان لوگوں کے قائد اور امام زمان غائب کے نائب خمینی کے بقول کہ ان صحابہؓ کو دنیا اور حکومت حاصل کرنے کے سوا اسلام جسکی اصل بنیاد قرآن و سنت ہے وہ شیعوں کے ہاں غیر معتبر ہے بلکہ وہ اسلام نہیں ہے شیعہ مذہب میں ہے کہ جب امام غائب مھدی ظاہر ہوں گے تو وہ یہودیوں اور عیسائیوں اور دوسرے غیر مسلموں کو نہیں بلکہ پہلے غاصبوں پیغمبرﷺ کے جانشین اور خلفاء اور دوسرے صحابہ کرامؓ اور سنی مسلمانوں کو اس دنیا میں ذندہ کرکے سزا دیں گےاب جب کہ شیعوں کے بنیادی عقائد میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ جب ان کا امام العصر امان زماں،غائب(مھدی)ظاہر ہوگا تو سنیوں کو زندہ کرکے اس دنیا ہی میں سزا دیگا تو پھر شیعہ اپنی ذندگی میں سنیوں کو ہر وقت سزا دینے کے نقصان پہنچانےیہاں تک کہ موقع ملنے پر سنیوں کو قتل کرنے اور کرانے کے لئے کیوں کوشاں ہوں گے یہ نہایت آسان اور فطری جواب ہے جسمیں کوئی شبہ نہیں ہے پھر تاریخ بھی ہمیں یہی حقیقت بتاتی ہے کہ ان لوگوں نے شروع سے لیکر آج تک بغیر کسی وقفہ کے ہر جگہ اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچایا ہے اور انہوں نے کبھی بھی اور کہیں بھی قرآن و سنت پر مبنی اسلام اور مسلمانوں کو برداشت نہیں کیا ہے اور یہ حقیقت ہے جسکا انکار کرنا ناممکن ہے ایسی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے کیا آپ نہیں دیکھتے کہ پاکستان میں جب بھی قرآن و سنت پر مبنی قانون کے نفاذ کی کوشش ہوئی تو شیعہ کہتے ہیں کہ ہمیں یہ قانون منظور نہیں ہے اور یہ فقہ جعفریہ کے قانون کے لئے پڑتے ہیں جسکو زرارہ بن اعین نے بنا کرامام جعفر صادق کی طرف منسوب کیا ہے.(مذاہب عالم تقابلی مطالعہ صفحہ 683)

زرارہ وہ شخصیت ہے جس پر شیعوں کی معتبر کتابوں کے مطابق حضرت جعفر صادقؒ نے خود بار بار لعنت کی ہے پھر یہاں شیعوں کا پر فریب نعرہ اتحاد بین المسلمین کی اصلی حقیقت بھی معلوم ہو گئی کہ یہ شیعہ مذہب کے کتمان اور تقیہ کی ایک چال ہے جس میں شیعوں کے اپنے مذہبی اور سیاسی اغراض پوشیدہ ہیں اور اس میں اسلام اور سنی مسلمانوں کے اتحاد اخوت کی کوئی بات نہیں ہے کیوں کہ خود خمینی کی تقریروں پر مشتمل ایک رسالہ خطاب بہ نوجوان کے عنوان سے اس کی خود ساختہ فرانس والی جلاوطنی کے دوران فرانس میں ہی فارسی زبان میں چھپا اس تاریخی خطاب میں اس نے کہا کہ:-

دنیا اسلامی اور غیر اسلامی طاقتوں میں ہماری قوت اس وقت تک تسلیم نہیں ہو سکتی جب تک کہ مکہ اور مدینہ پر ہمارا قبضہ نہیں ہو جاتا چونکہ یہ علاقہ مہبطِ وحی اور مرکز اسلام ہے اس لئے اس پر ہمارا غلبہ و تسلط ضروری ہے میں جب فاتح بن کر مکہ اور مدینہ میں داخل ہوں گا تو سب سے پہلے میرا کام یہ ہو گا کہ حضور ﷺ کے روضہ میں پڑے ہوئے دو بتوں (ابوبکرؓ و عمرؓ) (معاذ اللہ) کو نکال باہر کر دوں گا.

اب یہ کہتا ہوں کہ ایسے ناپاک ارادہ رکھنے والے کسی مذہب کے پیروکار سے یہ گمان رکھنا کہ وہ کسی مسلم حکومت کا خیرخواہ ہو سکتا ہے یا ان کا قران و سنت پر مبنی اسلام کے پیروکاروں سے نیک نیتی سے اتحاد ہو سکتا ہے یہ ایسی خوش فہمی ہے کہ جس کو فریب و دھوکہ کے سوا کچھ بھی نہی کہا جائے گا دعاء ہے کہ پروردگار اسلام اور ہم مسلمانوں کی خود حفاظت فرمائے آمین ثم آمین

حج کے موقعہ پر ایرانی حاجیوں کی حرم شریف کے اندر نعرہ بازی اور مظاہرہ کے بارے میں شاہ خالدین عبدالعزیزؒ کا انتہائی مہذب الفاظ سے مزین شکایتی خط۔

      خمینی کے نام شاہ خالد کا خط

              بسم اللہ الرحمن الرحیم

جناب عالی! آیتہ اللہ الخمینی

جدہ کے ایرانی سفارت خانے یہ اعلان کیا تھا کہ جناب والا نے ایرانی زائرین بیت اللہ کو چند ہدایات دی تھیں اور اس پر زور دیا تھا کہ وہ مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور جہاں تک ہو سکے اختلاف و انتشار پیدا کرنے والے اعمال سے دور رہیں عام نمازوں اور جمعہ میں ائمہ مساجد کے پیچھے نماز ادا کریں ذی الحجہ کے چاند کے سلسلہ میں سعودی عرب میں ثابت رویت ھلال کی تاریخ کو تسلیم کریں چاہے ان کے ملک ایران میں چاند نظر نہ آئے یہ اعلان سن کر ہمیں بڑی خوشی و مسرت ہوئی تھی آپ کے ان اقدامات واحساسات نے ہمیں ممنوع کیا تھا لیکن افسوس کہ ایرانی حجاج نے اپنے عمائدین کے اشاروں پر عمل کرتے ہوئے آپ کی ہدایات کو ملحوظ نہیں رکھا اور آپ کے نام پر وہ حرکتیں کیں جو نہ صرف یہ کہ آپ ک مقصد سے میل نہیں کھاتیں بلکہ حج کے مقاصد اور دیارِ مقدسہ کی حرمت سے بھی ان کا کوئی میل نہیں ایسے چند واقعات بطور مثال ہم یہاں درج کرتے ہیں.

(1) کچھ ایرانی حجاج حجر اسماعیل کے پیچھے جمع ہو گئے اور ان میں سے ایک ذمہ دارنے کعبہ کا طواف کرنے والوں کے درمیان بہ آواز بلند نعرے لگائے.

(2) دوران طواف ایرانیوں ہی کی ایک بری جماعت جلوس کی. شکل میں نعرے لگاتی ہوئی حجر اسود کے قریب پہنچی اور وہاں یہ نعرے لگائے اللہ اکبر،خمینی اکبر،اللہ واحد خمینی واحد، اس طرز عمل سے حجاج بیت اللہ میں سخت برہمی اور ناراضگی کی لہر دوڑ گئی یقیناً یہ حرکت ایسی تھی جس سے ایرانیوں کا مقام اور اس کی حیثیت مجروح ہوئی سعودی حکومت ایرانی حجاج کے سلسلہ میں نرمی واحتیاط سے کام لے رہی ہے تاکہ وہ اپنی طرف سے نیک نیتی نیز حج کے تقدس کا ثبوت فراہم کرے اسی مقصد سے اس نے ان ایرانی زائرین کو گرفتار کرنے کے بعد رہا کر دیا جن میں وہ بھی تھے جن کے پاس نشہ آور اشیاء بھی پائی گئیں آخر میں گزارش ہے کہ ہم نے اس خیال کے تحت کہ ہماری حکومت کو زائرین کے خلاف ناگزیر اقدامات نہ کرنے پڑیں مناسب سمجھا کہ جو کچھ ہوا ہے اس سے آپ کو مطلع کر دیں ہمیں امید ہے کہ آپ ایرانی زائرین کو اس قسم کی حرکتوں سے دور رہنے کی یکسوئی کے ساتھ مناسک حج کی ادائیگی کی طرف متوجہ رہنے کی جس کے لئے وہ یہاں آئے ہیں ہدایات جاری فرمائیں گے ہمیں یقین ہے کہ ایرانی زائرین آئندہ جناب کی ہدایات کا لحاظ اور پابندی کریں گے ہم اللہ سے سب کے لئے ہر اس کام کی توفیق کے سائل ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے لئے بہتر ہو اللہ آپ کو سلامت رکھے

( خالد بن عبدالعزيز)

(فرمان روا مملکتہ عربیہ سعودیہ)

(1041-12-7)

مطابق

(1981-10-13)

اس خط کا خمینی نے نہ صرف،نہایت ناشائستہ الفاظ میں جواب دیا بلکہ اپنے حاجیوں کی تمام نازیبا حرکتوں کو سراہا اور ان کی تائید کی اس سے خمینی کی اسلام دوستی اور سیاست کا خوب اندازہ ہوتا ہے خمینی کا یہ خط ذیل میں درج کیا جاتا ہے:

شاہ خالدکے نام خمینی کا خط

عالی مرتبت جناب شاہ خالد بن عبدالعزيز فرمان روائے مملکت سعودی عرب آپ کا خط موصول ہوا جدہ میں واقع جمہوریہ اسلامیہ ایرانیہ کے سفارت خانے نے جو بات کہی تھی وہ بالکل بجا تھی میرا یقین ہے کہ، مسلمان جن مشکلات سے دو چار ہوئے اور اسلامی حکومتیں جن مشکلات سے دو چار ہوئیں اس کا واحد سبب خود ان کا آپس کے اختلافات اور ان کا منافقانہ طرزِ عمل ہے جو ہر طرف چھایا ہوا ہے خدا تعالیٰ نے ان اسلامی سلطنتوں کو کروڑوں باشندوں اور لامحدود اسباب و اموال ساتھ جن میں سرِفہرست تیل کے وہ چشمے ہیں جن سے بڑا طاقتوں کی رگوں میں آب حیات سپلائی ہورہا ہے قرآن کی دولت سے اور نبیﷺ کی تعلیمات سے سرفراز کیا جو عبادت اور سیاست دونوں شعبوں سے تعلق رکھتی ہیں اور جو مسلمانوں کو ہمیشہ اس طرف توجہ دلاتی رہتی ہیں کہ خدا کی رسی کو تھامے رہیں اور اختلاف و افتراق سے دور رہیں،حرمین شریفین کو جائے پناہ کی حیثیت دی گئی چنانچہ یہی حرمین شریفین عبادت اور اسلامی سیاست کا مرکز ہے عہدِ رسالت میں یہیں سے فتح و نصرت کے لئے منصوبہ بندی کی جاتی تھی اور سیاسی طرز عمل(پالیسی)کے فیصلے ہوتے تھےآپ کےاس دنیا فانی سے رحلت فرمانے کے بعد بھی ایک طویل زمانہ تک حرمین میں یہی صورت باقی رہی لیکن کیا کہا جائے غلط فہمیاں بڑی طاقتوں کے اغراض اور ان کے زبردست پروپیگنڈوں نے سیاسی اور اجتماعی معاملات میں شرکت کو جو حرمین کے اندر مسلمانوں کے اہم فرائض میں سے ہے ایک ایسا جرم بنا دیا ہے جسکی وجہ سے سعودی پولیس مسجد حرام کی بےحرمتی پر اترنے لگی جس میں ہر شخص کو پناہ ملنی چاہیے حتیٰ کہ قرآن کی رو سے قانوں شکنوں کو بھی اس کے حدود میں چھیڑا نہیں جا سکتا غرص اس جرم میں سعودی پولیس نے مسلمانوں کو جوتوں اور ہتھیاروں سے زدوکوب کیا اور جیل میں ڈال دیا کیا دشمنانِ خدا اور رسول اسرائیل اور امریکہ کے خلاف ان لوگوں کا آواز لگانا کوئی جرم تھا؟ میں نہیں جانتا کہ آیا آپ کے ملک اور بالخصوص حرمین شریفین میں پیش آنے والے واقعات کی صحیح صحیح رپورٹ آپ تک پہنچی ہے یا ہر جگہ لگائے جانے والے ایرانی نعروں کے سلسلہ جو غلط غلط رپورٹیں آپ تک پہنچی ہیں اور آپ نے انھیں پر اعتماد کیا ہے؟میں نہیں سمجھ سکا کہ علماء حرمین شریفیں نے اسلام اور حج جیسی عبادت کو کیا سمجھ رکھا ہے جس کے روئیں روئیں میں سیاست رچی بسی ہے حالانکہ اسلام آیا ہی اس لئے تھا کہ عدل و انصاف قائم کرے ظلم و ذیادتی کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکے تمام انبیاء اکرامؑ اور بالخصوص نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیﷺ کا یہی مشن تھا علماء حرمین اس بارے میں کیا سمجھ رہے ہیں جو حجاج پر سیاست میں حصہ لینے سے متعلق پابندی اسلام کا نام لیکر عائد کررہے ہیں یہاں تک اسرائیل اور امریکہ کے خلاف آواز لگانا ممنوع قرار دے رہے ہیں؟ یہ رویہ منہج نبوت و صدر اول کے مسلمانوں کے طرزِ عمل دونوں سے متعارض ہے اور یہ طرزِ عمل شعوری غیرشعوری طور پر غیروں کے لئے اسلامی سلطنتوں پرجن میں حرمین داخل ہیں جو وحی و ملائکہ کے نزول کا مرکز ہیں تسلط کی راہ ہموار کررہا ہے حکومتِ حجاز اگر حج کی حقیقت کو سمجھ لے اور اس کے سیاسی اور عبادتیں دونوں مقاصد سے آشنا ہو جائے اور اس میں شرکت کرنے والے لاکھوں افراد کی طاقت اور وزن کا اندازہ کر لے تو پھر امریکہ کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہ رہے نہ اور اواکس طیاروں کی حاجت اور نہ بڑی طاقتوں کا سہارا تلاش کرنے کی فکر رہے بلکہ مسلمانوں کے سارے مسائل کا حل ممکن ہے ہوجائے ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ امریکہ نے اپنے اور اسرائیل کے مفاد کے پیش نظر ہی اپنے کچھ جہاز سعودی حکومت کے استعمال میں دے رکھے ہیں یہ بات ہم نے اس وقت محسوس کر لی تھی جب اواکس طیاروں نے ایران اور اسکے عرب دوستوں کے درمیان تفرقہ اندازی کی غرص سے جھوٹا دعویٰ کیا تھا کہ اس کے راڈار نے کویت کے تیل کے چشموں پر ایرانی بمباری ریکارڈ کی تھی افسوس اس پر ہوتا ہے کہ اسلامی سلطنتیں تجاھل اور بےخبری کا اس درجہ شکار ہیں کہ دیگر بڑی اسلام دشمن طاقتوں کو مسلمانوں کو سیاسی اسٹیج سے اور خود اپنے معاملات کی فکر سے دور رکھنے کے لئے سب کچھ کرنے کا موقع ملا ہوا نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ درباری علماء خود سیاست کے مرکز اسلامی سیاست کے مرکز کے اندر مسلمانوں کو اس بنا پر مجرم ٹھہرا رہے کہ انہوں نے دشمنانِ اسلام کے خلاف مردہ باد کا نعرہ لگایا تھا اسی بات پر انھیں جیل کی سزا دی گئی اور ستایا بھی گیا حرمین شریفین(بیت اللہ الامین اور مقامِ رسول کریمﷺ) میں واقع ہونے والے یہ المناک واقعات آپ کے علم میں آئے بھی؟ یا ابھی غلط سلط باتیں آپ تک پہنچتی رہی ہیں جیسا کہ نعروں سے صاف ظاہر ہے محض قادر مطلق پر اعتماد کرتے ہوئے ہم نے انقلاب برپا کیا ہے مقصد صرف یہ ہے کہ ہم پھر سے ایک مرتبہ علم توحید کے نیچے اکٹھا ہو جائیں اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں تاکہ مسلم ممالک پر سے بڑی طاقتوں کا تسلط ہم ختم کرسکیں اور مسلمان عوام پر ظالم کافروں کےظلم وستم کا سلسلہ بند ہو اور امت کی اس عظمتِ رفتہ کو پھر سے واپس دلایا جائے جو صدر اسلام میں اسے حاصل تھی ہمیں امید ہے کہ اسلامی حکومتیں ہمارے ساتھ پورا تعاون کریں گی بالخصوص حکومت حجاز جو اسلامی سیاست کے مرکز میں واقع ہے تاکہ ہر حکومت کو اس کے عوام کی پھرپور تائید حاصل ہو سکے اور وہ بھی ایران کو جمہوری حکومت کی طرح آسمانی برکات سے بہرہ ور ہوں اور سب باہم اتحاد تعاون کے رشتہ میں مربوط ہوں اور کافروں اور بین الاقوامی بدنیتوں کے مقابلہ میں سخت رویہ اختیار کریں آخر میں ایک مرتبہ پھر اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ آپ کے مکتوب سے ظاہر ہوتا ہے آپ تک جو رپورٹ پہنچی وہ نہایت غلط اور بے بنیاد ہے چنانچہ آپ کے اس بیان میں جس میں آپ نے ایرانی حجاج کو مجرم ٹھہرایا ہے یہ ذکر ہے کہ ان کے نعروں سے دنیائے اسلام کے تمام حجاج کو سخت ناگواری ہوئی اگر آپ کے پاس رپورٹنگ کرنے والے کچھ امانت دار اشخاص موجود ہوتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ حجاج میں ناگواری پیدا کرنے کا سبب وہ نعرے نہیں تھے اسرائیل و امریکہ کے خلاف بلند کئے گئے تھے. لکہ ان کی برانگیختگی کا سبب اللہ کے مہمانوں اور روضہ اطہر کی زیارت کرنے والوں پر سعودی ذمہ داروں کی ظلم و زیادتی اور اسرائیل و امریکہ کی مرگ کا نعرہ لگانے پر ان کی گرفتاری تھی خدائے قدیر وبرتر سے دعاگو ہوں کہ وہ مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدارکرے،اسلام کی عظمت وحرمت میں روز افزوں اضافہ فرمائے اور تمام مسلمانوں کو اور بالخصوص سربراہان حکومت کو وہ راہ دکھائے جو اسلام اور مسلمانوں کے حق میں باعث خیر ہو۔

والسلام علیکم وعلی اجمیع المسلمین

روح اللہ الموسوی الخمینی

13 ذی الحجہ 1401

1981-10-11

آخر میں ماہنامہ الفرقان لکھنؤ بابت مارچ اپریل 1987ء اور اقراء ڈائجسٹ کراچی میں سے چند نکات پیش کرتا ہوں:

1):- ایرانی انقلاب کے بعد ایران کے نئے دستور اہلِ سنت مسلمانوں کو غیر مسلم اقلیت میں رکھا گیا ہے اور سنی مسلمانوں کو مسجد تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہے(ڈائجسٹ 47)

2):- ایران اور اسرائیل کا خفیہ رابطہ اسرائیل کے فوجی ماہرین ایران میں ذمین سے مار کرنے والے میزائیلوں کی تیاری میں ایرانی حکام کی رہنمائی کررہے ہیں۔(روزنامہ جنگ کراچی 4 ستمبر 1987ء اقراء ڈائجسٹ 7)

3):-بیروت میں ہزاروں کی تعداد میں سنی فلسطینیوں کو تڑپا تڑپاکر قتل کرنے اور کتوں اور بلیوں کا گوشت کھا کر جان بچانے پر مجبور کرنے والے دہشت گردوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کو خمینی کی پشت پناہی حاصل ہے ہندوستان میں بابری مسجد کے نام پر سنی مسلمانوں کے خون بہانے اور مساجد بند کرانے ان پر سیاہ جھنڈے لہرانے جیسا کہ امام بازوں کیلئے کیا جاتا یے تو اس شرارت میں وثوق ذرائع کے مطابق ایرانی خمینی حکومت کا ہاتھ ہے امریکہ میں مسلمانوں کے بچوں کے لئے نصاب تعلیم (M, S, A) کی طرف سے چلایا جارہا ہے اب اس میں سے خلفاء ثلاثہ کا تذکرہ حذف کیا گیا ہے اس میں ایرانی حکومت کا ہاتھ ہے( ماہنامہ الفرقان لکھنؤ بابت ماہ ستمبر 1987ء 11صفحہ)

4):-ایرانی انقلاب سے پہلے ایرانی حاجیوں کی تعداد معمولی تھی لیکن انتقلا کے بعد حاجیوں کی تعداد میں اچانک اضافہ ہو گیا۔ اردو میں یہ تعداد ایک لاکھ پچاس ہزار تک پہنچ گئی۔(اقرا ڈائجسٹ صفحہ 149)

5):- حاجیوں کے نام خمینی کے بھیجے ہوئے تخریب کار تقریباًچھ سات برس سے مکہ مکرمہ اور حرم پاک کے اندر اور باہر خمینی کی تقاریر بینرز اور لاؤڈ اسپیکرز کا استعمال کرکے جلسہ جلوس نکالتے رہے اور سعودی حکومت خاموشی سے ہر سال یہ ڈرامہ برداشت کرتی آئی.

6):- 1987 میں حاجیوں کی آڑ میں خمینی کے بھیجے ہوئے ایک لاکھ پچاس ہزار ایرانی جن میں کافی تعداد تربیت یافتہ دہشت گردوں کی تھی اور باقی دوسرے ان کے مقصد سے متفق اور مددگار تھے ان کا یہ پروگرام تھا کہ وہ جلوس کی شکل میں حرم پاک میں داخل ہو کر حرم کے دروازے بند کرکے اسوقت میں موجودہ حاجیوں کو یرغمال بنا کر اپنی من پسند کاروائی کریں گے اور سعودی حکومت کو مجبور کریں گے وہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے اپنی حکومت ختم کرنے کا اعلان کرے اس مقصد کے لئے ان لوگوں نے حج سے پہلے بہت سے ملکوں میں حج سیمنار منعقد کئے تھے ان میں یہ مطالبہ کیا جارہا تھا کہ حرمین شریفین کو بین الاقوامی شہر قرار دیا جائے اور اس کا نظم و نسق دنیا بھر کے مسلمان نمائندوں کو سونپ دیا جائے(الفرقان لکھنؤ اگست 1987)

سعودی حکومت کو بھی ان کے یہ عزائم معلوم ہو چکے تھے.

7):- ایرانیوں نے اپنے منصوبہ کے مطابق مکہ مکرمہ کے مشہور قبرستان جنت المعلات کے پاس جمع ہوکر جلوس کی شکل میں حرم شریف کی طرف مارچ شروع کیا ان کی زبانوں پر اللھم لبیک کی جگہ لبیک خمینی کے الفاظ تھے،ان کے پاس خنجر اور چھرے چھپے ہوئے تھے اور بہت سے ایرانیوں کے ہاتھ میں پیٹرول کی بوتلیں تھیں مکمل ٹریفک جام ہو گیا،ایک مخصوص مقام پر پہنچنے پر سعودیہ پولیس نے ان کو حرم شریف میں داخل ہونے سے روکا جلوس کے شرکاء نے رکنے سے نکار کیا اور پولیس پر آزادانہ طور پر خنجروں اور چھریوں کو استعمال کیا اور پیٹرول سے آگ لگانے کی کوشش کی اسطرح حالات قابو سے باہر ہو گئے اس لئے سعودی حکومت نے مجبور ہو کر سختی سے کام لیا ایرانی لشکر ڈیڑھ لاکھ سے قریب تھا اس کاروائی پر ان میں بھگدڑ مچ گئی جس کے نتیجہ میں کئی لوگ ہلاک ہو گئے ان میں اکثریت عورتوں کی تھی ہلاک ہونے والوں کی تعداد چار سو تک ہو گئی تھی(اقراء ڈائجسٹ 152)

ایرانی دہشت گردی کے اس جلوس کی سعودی عرب کے اخبارات میں جو تصویریں اس وقت چھپی تھیں ایک عالم دین وہ اخبارات خرید کر اور وہ تصویریں کاٹ کر اپنے ساتھ لائے ان میں سے کچھ تصویروں کے فوٹو اسٹیٹ دے رہا ہوں تاکہ اس جلوس کے بارے میں آپ خود غور کر سکیں کہ یہ جلوس کتنی بڑی دہشت گردی کے لئے تھا (دیکھیں فوٹو 599 تا602)

ناچیز مترجم کی ایرانی حاجیوں سے ملاقاتیں اور ان کے جلوسوں میں شرکت اور آنکھوں دیکھا حال

1):-میں 1985ء میں پہلی مرتبہ حرمین شریفیں کی زیارت سے مشرف ہوا اس سال ایرانی بہت بڑی تعداد میں حج کے لئے آئے تھے محض اتفاقی طور پر کچھ ایرانیوں سے ملاقاتیں ہوئی ان سے اندازہ ہوا کہ یہ تمام لوگ حج یا زیارت کے لئے نہیں آئے تھے بلکہ یہ اپنے نام نہاد اسلامی انقلاب کے بارے میں دیگر ممالک کے لوگوں سے رائے لینے اور اپنے ملک کی سفارت اور وکالت کرنے آئے ہیں چنانچہ گرلز کالج شیشہ مکہ مکرمہ ہے قریب جامع مسجد میں ایک مرتبہ امام صاحب جو کہ ایہ بہت بڑے عالم شخص ہیں کی عدم موجودگی میں مغرب کی نماز امامت جماعت کے اصرار پر میں نے کرائی جوں ہی سلام پھیر کر نماز سے فارغ ہوا تو پہلی صف سے ایک آدمی نے وضع قطع سے عالم معلوم ہوتے تھے نے باادب بیٹھ کر مصافحہ کیا اور عربی میں پوچھا کہ آپ سعودی ہیں؟میں نے جواب میں کہا کہ نہیں میں پاکستانی ہوں تو اس کے خوش ہو کر کہا کہ اچھا آپ پاکستانی ہیں ہمارا انقلاب آپ کی نظر میں کیسا ہے؟ میں نے جب اس سے پوچھا کہ آپ کون ہیں اور یہاں کیا کرتے ہیں تو اس نے کہا میں قم کا رہنے والا ہوں اور مسلسل چند سالوں سے یہاں ایرانی حاجیوں کے ایک گروہ کی قیادت کرتا ہوں

بعد میں کچھ بات چیت ہوئی اس سے یہی معلوم ہوا کہ ایرانی علماء اگلی صفوں میں بیٹھ کر سعودی اماموں کو تنگ کرنے اوراپنی اہمیت جتلانے کے لیے خوامخواہ مزہبی مسائل پوچھتے ہیں اور پھر اماموں سے سوالات کرتے ہیں اور یہ باقاعدہ تربیت یافتہ ہوتے ہیں اس لئے ہر سال ایک ہی آدمی گروپ لیڈر بنا کر بھیجا جاتا ہے۔

2):-واقعہ یہ ہوا کہ ذوالحج کی پانچ یا چھ تاریخ تھی،میں اپنے میزبان کے ساتھ حرم شریف جارہا تھا جب ہم جنت المعلات قبرستان کے پاس پہنچے تو ٹریفک جام ہو گیا چنانچہ میں گاڑی سے اتر کر حرم شریف کی طرف پیدل چلنے لگا تو راستہ میں پہلی مرتبہ ایرانیوں کو جمع ہوتا دیکھا،ان کے ہاتھوں میں بینر جھنڈیاں اور کارڈ تھے جن پر الموت لاسرائل وغيرہ لکھے ہوئے تھے جگہ جگہ کھلی ہوئی گاڑیوں میں لاؤڈ اسپیکرز کے ذریعے ایرانی علماء فصیح عربی میں اشتعال انگیز تقریریں کررہے تھے اس دوران اپنے نعرے لگائے جارہے تھے جو سمجھ سے بالاتر تھے چاروں طرف دنیا کے مسلم ممالک کے سفارت خانوں کی گاڑیاں کھڑی تھی ان میں عرب امارات، تیونس، مصر اور کچھ دوسرے ممالک کی گاڑیوں کی نشاندہی ہوتی تھی جلوس کے ساتھ دونوں طرف سعودیہ کی نوجوان پولیس اپنے آگے حفاظت کے لئے دبیز شیشے ہاتھوں مین تھامے مستعد کھڑے تھے اور ایرانی بار بار اپنے کارڈ اور جھنڈیاں پولیس والوں کے بالکل قریب کرکے فارسی اور عربی میں نعرہ لگا کر گزر رہے تھے۔

3):- راقم مترجم کو دوسری بار 1986ء میں محض توفیق خداوندی سے حرمین کی حاضری نصیب ہوئی تو 10 ذی الحج تقریباً ساڑھے دس بجے جمرہ عقبہ پر ایک ایرانی نوجوان سے ملاقات ہوئی اس نے سلام کرکے ہاتھ ملایا اور حال احوال پوچھنے کے بعد اس نے اپنے رومال میں چھپے ہوئے تخریبی لٹریچر سے دو پمفلٹ نکال کر چھپا کے مجھے دیتے ہوئے کہا کہ آپ پاکستانی ہیں، آپ ہمارے بھائی ہیں یہ خمینی کی ہدایات ہیں،یہ ہم سعودیوں کو نہیں دیتے اسطرح ایرانی حاجی طواف کرنے والوں کے لئے بھی خاص رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں اسطرح کہ وہ مقام ابراہیم پر اپنی کسی عورت کو نماز کے لئے کھڑا کر دیتے ہیں اور اس کے چاروں طرف ایک دائرہ کی شکل میں ایرانی کھڑے ہو جاتے ہیں پھر طواف کرنے والوں کو زرہ برابر کوئی احساس نہیں ہوتا کیونکہ ان کا مقصد ہی نمائش ہوتی ہے تو پھر دوسرے کسی کا خیال کیوں کریں ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی طرح سعودی پولیس ان سے الجھ پڑے اور یہ ہنگامہ کرتے ہوئے دنیائے اسلام کو اپنی طرف متوجہ کریں اور سعودیہ عربیہ کے حکمرانوں کو بدنام کریں۔

ایران کی مداخلت جاری رہی تو افغانستان کے ٹکڑے ہو جائیں گے

ہفت روزہ اردو رسالہ تکبیر کراچی 19 دسمبر 1991ء اس وقت میرے سامنے ہے، اس میں افغان عبوری حکومت کے وزیر داخلہ اور حزب اسلامی (یونس خالص گروپ)

کے ستر سالہ مولوی یونس خالص کا انٹرویو چھپا ہے جو سوال و جواب کی صورت میں شائع ہوا ہے موصوف نے انکشاف کیا ہے کہ:

دراصل (شیعہ تنظیمیں) ایران نے پیسہ اور اسلحہ دے کر پیدا کی ہیں تاکہ وہ افغانستان میں اپنی خواہش کے مطابق جگہ پیدا کر سکے.

آگے فرماتے ہیں:

حکومت ایران ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کررہی ہے وہ ان تنظیموں کے ذریعے ہمارے شیعہ بھائیوں کو ابھارنے میں مشغول ہے اگر ہم آج محض شیعہ ہونے کی بنیاد پر انہیں نمائندہ مطالبہ کریں گے اور ہمیں انھیں نمائندہ حیثیت سے تسلیم کر لیں تو پھر کل کو تاجک، کوچی، ترکمان، اور دوسرے لسنای نسلی اور مذہبی گروہ بھی مطالبہ کریں گے انھیں نمائندہ حیثیت سے تسلیم کرنا پڑے گا.

آگے فرماتے ہیں:

ہمارے مجاہدین افغانستان میں رہنے والی ہر قومیت اور قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن شیعوں میں یہ بات موجود نہیں ہے ان کا ایک مخصوص گروہ ہوتا ہے جس میں شیعہ کے علاوہ کوئی دوسرا شخص داخل ہو ہی نہیں سکتا اگر مذہبی حوالے سے جیسا کہ ایران چاہتا ہے ان کی بات تسلیم کر لی جائے، تو اس کے نتیجہ میں افغانستان کے ٹکڑے ہو جائیں گے(خلاصہ انٹرویو 19)(روزنامہ جنگ کراچی (6) اتوار 29دسمبر 1991)

مسجد شریف میں شیعوں کا تازہ بم کا دھماکہ

مسجد میں بم کا دھماکہ

جمعہ کے روز جھنگ کی ایک مسجد میں عین اس وقت بم پھینکا گیا جہاں نماز فجر ادا کی جارہی تھی دھماکے کے نتیجہ 3 نمازی شہید اور 20 زخمی ہوگئے کچھ نمازیوں نے تعاقب کرنے والوں پر فائرنگ شروع کر دی اور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے اگرچہ جھنگ ایک طویل عرصے سے فرقہ وارانہ کشیدگی اور محاذ آرائی کا مرکز بنا ہوا ہے اور اب تک مخلف فسادات میں درجنوں افراد جاں بحق اور بیشمار زخمی ہو چکے ہیں لاکھوں روپے کی قیمتی املاک جل کر تباہ ہو چکی ہے اور کاروبار ذندگی متعدد مرتبہ تعطل کا شکار ہوچکا ہے لیکن مسجد میں بم پھینکنے کا واقعہ اپنی سنگینی کے اعتبار سے بےحد خطرناک ہے جھنگ جو کسی زمانہ میں امن وآشتی کا گہوارہ تھا اب فساد بدامنی کی علامت بن چکا ہے اور صورتحال اس حد تک سنگین ہو چکی ہے کہ خانہ خدا بھی اس سے محفوظ نہیں رہا.

اس باب میں آپ کے سامنے قرآن و سنت کے پیروسنی مسلمانوں اور سنی مسلمان حکومتوں کے ساتھ شیعوں کی دائمی دشمنی اور عداوت کے داستان مختصر کی صحیح تیسری صدی ہجری سے لیکر آج پندرھویں صدی ہجری کی اوائل تک بلاوقفہ مسلسل پیش کئے گئے ہیں تاکہ آپ ان کی اسلام دشمنی کے اصلی خدوخال اور ان کے اتحاد بین المسلمین،

شیعہ سنی بھائی بھائی کے پر فریب مکارانہ اور منافقانہ نعروں کی اصلی حقیقت کو آسانی کے ساتھ ساتھ سمجھ سکیں.

اللہ اسلام اور مسلمانوں کو شیعیت کے فتنہ سے محفوظ فرمائے

صرف ان چند باتوں پر اکتفا کرتے ہیں بس اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کی ایمان کی حفاظت فرمائے آمین

قدتمت الباب الحادی عشر وبلیہ الباب الثانی عشر10