Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

تحقیق لقب صدیق

  مولانا اقبال رنگونی صاحب

تحقیق لقب صدیق


لقب صدیق حضرت ابوبکر صدیقؓ کا تھا 


جمہور علماء اور مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ آپؓ کی کنیت ابوبکرؓ ہے اور لقب آپؓ کا صدیق ہے۔ آپؓ جب تک زندہ رہے سوائے صدق کے کوئ دوسرا کلمہ اپنی زبان سے نہ ادا فرمایا۔ کون نہیں جانتا کہ آنحضرتﷺ کی نبوت آپ کی دعوت اور معراج شریف کی سب سے پہلے آپؓ نے ہی تصدیق فرمائی ہے حضرت ام ہانیؓ سے روایت ہے کہ شب معراج کی صبح کو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ باہر جا کر قریش کو معراج کی خبر دوں۔ تو قریش نے آپ کی تکذیب کی۔ لیکن ابوبکرؓ نے تصدیق کی۔ نہ صرف تصدیق کی بلکہ فرمایا کہ میں تو ان کی تصدیق ایسی بات میں کر رہا ہوں جو اس سے بھی زیادہ بعید ہے میں ان کی تصدیق کرتا ہوں آسمان کی خبروں میں جو ایک صبح ایک شام میں ان کے پاس آجاتی ہیں۔ سو اس دن سے انؓ کا لقب صدیق ہو گیا۔ (فلذلك سمى ابوبكر الصديقؓ -
(مستدرک جلد 3 صفحہ 64)
حضرت عائشہ صدیقہؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرمﷺ نے اس تصدیق پر جب انؓ کو صدیق کا خطاب دیا تو پھر اسی دن سے آپؓ کا نام صدیق ہوگیا ۔ 
 وکنت یا ابابکر الصديقؓ فسماه يومئذ الصديق
(ریاض جلد 1 صفحہ 79) فأخبرت بذلك قومي فكذبونی غیر أبي بكر الصديقؓ (ايضا)* 
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جبرئیل امین علیہ السلام نے آپؓ کے
صدیق ہونے کی بشارت دی تھی۔
 فقال له جبرئيل يصدقك ابوبكرؓ وهو الصديق
 ( طبقات ابن سعد جلد 3 صفحہ 127- ریاض جلد 1 صفحہ 80)
حضرت علی المرتضٰیؓ سے بعض لوگوں نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بارے میں دریافت کیا تو آپؓ نے فرمایا کہ
 ذاك امرء سماه الله تعالى صديقا على لسان جبرئيل محمد صلى الله عليهما وسلم
 ( مستدرك جلد 3 صفحہ 65- ازالة الخفاء جلد 3 صفحہ 126)
وہ ایسے شخص ہیں جن کا نام اللہ نے صدیق رکھا حضرت جبرئیل علیہ السلام اور حضور اکرمﷺ کی زبان مبارک پر۔
حضرت ام ہانیؓ سے مروی روایت میں حضورﷺ کا یہ ارشاد بھی ہے کہ اللہ تعالی نے ابوبکرؓ کا نام صدیق فرمایا ہے:
 يا ابابكرؓ ان الله تعالى  سماك الصديق 
 (در السحابة للامام الشوكاني صفحہ 144)
مشہور شیعہ عالم اور مفسر علامہ قمی نے امام باقر رحمہ اللّٰہ سے نقل کیا ہے کہ جب حضورﷺ ہجرت کی رات غار ثور میں تھے تو آپﷺ نے ابوبکر صدیقؓ سے کہا کہ
میں جعفر طیارؓ اور ان کے ساتھیوں کو ایک کشتی میں بیٹھے دیکھ رہا ہوں جو دریا میں ہے
اور میں انصار کو بھی اپنے گھروں کے صحن میں دیکھ رہا ہوں یہ سن کر ابوبکرؓ نے عرض
کیا کہ کیا آپﷺ واقعی اس کا نظارہ فرمارہے ہیں ارشاد فرمایا کہ ہاں۔ عرض کیا کہ حضورﷺ مجھے بھی یہ نظارہ دکھلا دیجئے تو آپ نے ابوبکرؓ کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا تو ابوبکرؓ نے بھی یہ سب کچھ دیکھ لیا اس پر حضورﷺ نے فرمایا کہ تو صدیق ہے۔
 فمسح الله على عينه فراهم فقال له رسول اللهﷺ انت الصديق 
(تفسیر قمی صفحہ 266)
ابو یحییٰ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی المرتضٰیؓ کی زبانی منبر پر یہ بات بارہا سنی ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبیﷺ کی زبان مبارک پر حضرت ابوبکرؓ کا نام صدیق رکھا ہے۔
 ( ریاض صفحہ 81)
 اور آپ یہ بات قسم اٹھا کر کہتے تھے
 ان الله عزوجل سمى ابابكرؓ على لسان نبيه صديقا. عن على انه كان يحلف بالله ان الله تعالى انزل اسم أبي بكر من السماء الصديق ..
 ( رياض جلد 1- معرفۃ الصحابہؓ جلد 1 صفحہ 50)
ایک مرتبہ امام باقر رحمہ اللّٰہ نے سب کے سامنے حضرت ابوبکرؓ کو صدیق کے لقب سے یاد فرمایا تو ایک شخص نے کہا کہ کیا آپ بھی انہیں صدیق کے نام سے پکارتے ہیں تو آپ رحمہ اللّٰہ اٹھ بیٹھے اور پورے جوش
میں آکر کہا کہ 
 نعم الصديق نعم الصديق نعم الصديق فمن لم يقل له الصديق فلا صدق الله له قولا في الدنيا والآخرة 
(كشف الغمه في معرفة الأئمة جلد 2 صفحہ 147)
ہاں وہ صدیق ہیں ہاں وہ صدیق ہیں ہاں وہ صدیق ہیں جو آدمی حضرت ابوبکرؓ کو صدیق نہیں کہتا اللہ دنیا اور آخرت میں اس کی کسی بات کو سچا نہ کرے حضرت ابو محجن الثقفی آپ کی شان میں یوں نذرانۂ عقیدت پیش کرتے ہیں۔
وسميت صديقا وكل مهاجر 
 سواك يسمى باسمه غير منكر
اور تمہارا نام صدیق رکھا گیا جبکہ تمہارے سوا جتنے بھی مہاجر ہیں اپنے اپنے نام سے بلائے جاتے تھے اس بات کا کوئی بھی منکر نہیں ہے ( شزرات الذهب جلد 1 صفحہ 24) ( نوٹ ) ان شاء الله ائمۂ اہلبیت کے بیانات درباره حضرت ابوبکر صدیقؓ آپ آئندہ صفحات میں ملاحظہ کریں گے۔
حضرت علامہ حافظ ابن حجر مکی رحمہ اللّٰہ (973ھ) نے اس پر اجماع بتایا ہے آپ لکھتے ہیں کہ امت نے بالاجماع آپؓ کا نام صدیق رکھا ہے کیونکہ آپؓ نے حضورﷺ کی تصدیق میں سبقت فرمائی اور صدق کو اختیار کئے رہے اور کسی حالت میں آپ سے اس معاملہ میں کوتاہی نہیں ہوئی۔
 (صواعق محرقہ صفحہ 304)
مفکر اسلام استاذنا المحترم حضرت العلامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب مد ظلہ العالی نے آپؓ کے صدیق ہونے پر نہایت نفیس و لطیف انداز میں گفتگو فرمائی ہے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے اس جگہ نقل کیا جائے۔ آپؓ لکھتے ہیں۔
حضور اکرم ﷺ جو سب سے ارفع و اعلی اور افضل واکمل رسول تھے آپ کا کوئی مصدق کیوں نہ ہوا ؟ جواب یہ ہے کہ ختم نبوت کی وجہ سے حالات بدل چکے تھے اب مصدق کی بجائے صدیق کا منصب تجویز ہوا حضور ﷺ کی تصدیق اب مصدق نہیں صدیق کرے گا صدیق نبی نہ ہوگا لیکن نبوت کے ساتھ اس طرح چلے گا جس طرح سایہ اصل کے ساتھ چلتا ہے نبی ہجرت کرے گا تو سایہ ساتھ ساتھ رہے گا نبیﷺ گنبد خضریٰ میں ٹھہرے تو یہ پرتو کمالات نبوت ساتھ ہوگا یہ صدیق ہونے کا منصب کیسے ملا سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ کو؟
 اس پہلے مسلمان کو جس نے حضورﷺ کی سب سے پہلے تصدیق کی۔
اس تفصیل میں اس سوال کا جواب بھی مل گیا کہ حضرت ابوبکرؓ کو تصدیق رسالت  کے لئے کسی معجزہ کی ضرورت کیوں نہ پڑی وجہ یہ ہے کہ وہ تو پیدا ہی اس لئے ہوئے تھے کہ آپﷺ کے لئے مصدق کا کام کریں ان کا تو مقصد وجود ہی حضورﷺ کی تصدیق کرنا تھا جس طرح کوئی چیز اپنے جوہر ذات سے جدا نہیں ہو سکتی اسی طرح حضرت ابوبکر صدیقؓ تصدیق رسالت کی ذمہ داری سے ایک لمحہ کے لئے بھی دور نہ رہ سکتے تھے۔ ادھر شمع رسالت چمکی ادھر سینہ صدیق میں اتری۔ نبوت اور صدیقیت اس طرح ساتھ ساتھ چلیں جیسے فاعل اور قابل ساتھ ساتھ چلتے ہیں سورج روشنی دینے میں فاعلی قوت رکھتا ہے تو چاند اس سے منور ہونے میں قابل کے درجہ میں ہے حضورﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ فاعل اور قابل کے اس درجہ میں تھے دوسرے صحابۂ کرامؓ نے حضورﷺ کی تصدیق کی تو بہ تقاضائے علم کی اور حضرت ابوبکرؓ نے آپﷺ کی تصدیق کی بہ تقاضائے فطرت۔ کیونکہ آپؓ کی تخلیق ہی اس کام کے لئے ہوئی تھی۔ سورج پردے کے پیچھے چلا جائے تو دنیا چاند سے مستنیر ہوتی ہے اور وہ بھی حقیقت میں آفتاب کا ہی فیض ہوتا ہے۔ حضور ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد صحابہؓ اس چاند کے گرد جمع ہوئے اور ایسے جمع ہوئے جیسے چاند کے گرد ستاروں کا ہالہ ہوتا ہے۔ چاند کبھی دن کو بھی نظر آتا ہے لیکن سورج کے اکرام میں وہ روشن نہیں ہوتا کیونکہ یہ دور آفتاب ہے اس میں چاندنی کیسے ہو جونہی سورج پردے کے پیچھے ہوا وہیں چاند اب دمک اٹھتا ہے حضرت ابوبکر صدیقؓ اس دور خلافت میں ایسے چمکے کہ علم و عزیمت میں دنیا نے ان کا مثل نہ دیکھا۔ جس طرح چاند سورج کے پیچھے چلتا ہے صدیق کا ہر قدم نبوت کے ساتھ ساتھ اٹھتا رہا یہ خلافت على منهاج النبوة کا مظاہرہ تھا صدیقؓ اتنا بھی گوارا نہیں کرتا کہ لشکر اسامہ کے سامان کی جو گرہیں حضورﷺ اپنے ہاتھ سے باندھیں انہیں وہ مدینہ منورہ میں ہی کھول دے۔ نہیں۔ وہ کھلیں گی تو اسی میدان جہاد میں جہاں ان کے کھلنے کا ارادہ نبوت نے کیا تھا۔ صدیقؓ کا تو کام بس یہ ہے کہ اس کا ہر قدم نبوت کے ساتھ اٹھے اور وہ ہر بات میں نبیﷺ کی تصدیق کرتا چلا جائے (خلفائے راشدین جلد 1 صفحہ 87)
سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ کی صداقت اور سچائی کی گواہی لسان نبوت نے دی ہے آپؓ نے جو کچھ کہا سچ کہا ہے حضرت علی المرتضٰیؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ کی کوئی بات مجھے کوئی بتاتا تو میں اس سے قسم لے لیتا تھا مگر جب حضرت ابوبکرؓ کوئی بات حضورﷺ کی بتاتے تو مجھے اس کی ضرورت نہ پڑتی تھی کیونکہ آپؓ خود سچے تھے حضرت علی المرتضٰیؓ نے ایک مرتبہ ایک حدیث بیان کرنے سے پہلے یہ بات فرمائی تھی۔
 كنت اذا سمعت من رسول اللهﷺ حديثا نفعني الله بما شاء منه واذا حدثني عنه غيرى استحلفته فاذا حلف لي صدقته وان ابابكرؓ حدثني وصدق ابوبكرؓ ۔
 ( مسند احمد جلد 1 صفحہ 5 سنن ابو داؤد جلد 1 صفحہ 497)
سو حضرت ابوبکرؓ کے صدیق ہونے میں کسی نے کبھی کوئی اختلاف نہیں کیا ہے۔ آپؓ صدیق ہیں اور اس پر قرآن وحدیث اور صحابہؓ واہل بیتؓ شاہد عدل ہیں۔