رسول کریم ﷺ کا جنازہ
غلام مصطفی ظہیر امن پوریرسول کریم ﷺ کا جنازہ
نبی کریم ﷺ کی نماز جنازہ کی کسی نے امامت نہیں کی ، بلکہ فردا فردا اس طرح ادا کی گئی ، کہ لوگ گروہ در گروہ ایک دروازے سے حجرے میں داخل ہو کر تکبیرات کہتے ، درود پڑھتے ، دعا کرتے اور دوسرے دروازے سے نکل جاتے ۔ دلائل ملاحظہ فرمائیں:
دلیل نمبر1:
سیدنا سالم بن عبید ، جو اصحاب صفہ میں سے ہیں ، بیان کرتے ہیں:’ رسول اللہ ﷺ کی بیماری میں آپ ﷺ پرغشی طاری ہوگئی ۔ جب افاقہ ہوا، تو آپ ﷺ نے پوچھا: کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: جی ہاں! تو آپ ﷺ نے فرمایا: بلالؓ کو کہیں کہ وہ اذان دیں اور ابو بکرؓ کو کہیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔
پھر آپ ﷺ پرغشی طاری ہوگئی ۔پھر جب افاقہ ہوا، تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے؟
ازواج مطہرات نے عرض کیا: جی ہاں! آپ ﷺ نے فرمایا : بلالؓ کو کہیں کہ وہ اذان دیں اور ابو بکرؓ کو کہیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سیدہ عائشہ ؓ نے عرض کیا : میرے ابو جی بڑے کمزور دل والے ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم ان عورتوں کی طرح ہو، جو یوسف کو دیکھنے کے لئے جمع ہو گئیں تھیں ۔
آپ ﷺ نے فرمایا : بلالؓ کو کہیں کہ وہ اذان دیں اور ابو بکرؓ کو کہیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔
پھر انہوں نے سیدنا بلالؓ کو اذان کہنے اور سیدنا ابوبکرصدیقؓ کو نماز پڑھانے کا کہا۔ جب جماعت کھڑی ہو گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا جماعت شروع ہوگئی ہے؟
ازواج مطہرات نے عرض کیا : جی ہاں! تو آپ ﷺ نے فرمایا : میرے لئے کوئی ایسا آدمی دیکھو، جس کا میں سہارا لے سکوں ۔
سیدہ بریرہؓ اور ایک دوسرا آدمی آئے ، ان دونوں کا سہارا لیتے ہوئے آپ ﷺ مسجد میں تشریف لائے ۔ سیدنا ابوبکرؓ صحابہ کرام کو نماز پڑھا رہے تھے ۔ آپ ﷺ ان کی ایک جانب آ کر بیٹھ گئے ۔ سیدنا ابوبکرؓ یہ دیکھ کر پیچھے بٹنے لگے، تو آپ ﷺ نے ان کو روک دیا، یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہو گئے ۔
پھر جب رسول اللہ ﷺ فوت ہو گئے تو سیدنا عمر فاروقؓ نے کہا: اگر میں نے کسی کو یہ کہتے ہوئے سن لیا کہ رسول اللہ ﷺ فوت ہو گئے ہیں ، تو میں اسے اپنی تلوار سے مار ڈالوں گا۔اس پر لوگ خاموش ہو گئے ، کیونکہ وہ ان پڑھ تھے، آپ ﷺ سے پہلے ان میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا تھا۔ لوگوں نے مجھے کہا: سالم ! نبی کریم ﷺ کے ساتھی سیدنا ابو بکر صدیقؓ کو بلا لاؤ۔ میں ان کی طرف نکلا۔ میں نے انہیں مسجد میں کھڑے دیکھا۔
انہوں نے دریافت کیا : کیا رسول اللہ ا وفات پا چکے ہیں؟
میں نے کہا: سید نا عمر بن خطابؓ فرماتے ہیں اگر میں نے کسی کو یہ کہتے ہوئے سن لیا کہ رسول اللہ ﷺ فوت ہو گئے ہیں، تو میں اسے اپنی تلوار سے مار ڈالوں گا۔
انہوں نے میری کلائی پکڑی اور چل پڑے، یہاں تک کہ حجرة عائشہ میں داخل ہو گئے ۔ لوگوں نے ان کو راستہ دیا ، یہاں تک کہ آپ ﷺ کے پاس آ کر جھک گئے حتی کہ ان کا چہرہ آپ سلام کے رخ انور کو چھو گیا، یہاں تک کہ انہیں یقین ہو گیا کہ نبی کریم ﷺ واقعی وفات پا چکے ہیں ۔
پھر سیدنا ابو بکر صدیق ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : بلاشبہ آپ بھی فوت ہونے والے ہیں ، یقینا یہ (کفار ) بھی مر جائیں گے۔
صحابہ کرام نے پوچھا: اے رسول اللہ ﷺ کے ساتھی ! کیا رسول اللہ فوت ہو گئے ہیں؟
انہوں نے فرمایا: جی ہاں ! تو لوگوں نے جان لیا کہ صحیح بات ایسے ہی ہے ۔
پھر صحابہ کرام نے پوچھا: اے رسول اللہ ﷺ کے صحابی! کیا رسول اللہ ﷺ کی نماز جنازہ بھی ادا کی جائے گی ؟
انہوں نے فرمایا: جی ہاں! صحابہ کرام نے پوچھا: ہم آپ ﷺ کی نماز جنازہ کیسے ادا کریں گے؟
انہوں نے فرمایا: کچھ لوگ اندر ( حجرہ میں) داخل ہوں گے تکبیر پڑھیں گے اور دعا کریں گے پھر وہ باہر آ جائیں گے اور دوسرے لوگ جائیں گے۔
صحابہ کرام نے پوچھا : اے رسول اللہ ﷺ کے صحابی! کیا رسول اللہ ﷺ کی تدفین بھی ہو گی؟
انہوں نے فرمایا : جی ہاں ۔ صحابہ کرام نے پوچھا: رسول اللہ ﷺ کی تدفین کہاں ہوگی؟
انہوں نے فرمایا: جس جگہ پر رسول اللہ ﷺ کی روح کو اللہ تعالی نے قبض کیا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی روح کو اللہ تعالی نے پاکیزہ جگہ ہی میں قبض کیا ہے؟
تو لوگوں نے جان لیا کہ صحیح بات یہی ہے۔
پھر سیدنا ابو بکر صدیق رض نے فرمایا: (ابھی) تمہارے نبی ﷺ تمہارے پاس ہیں ۔ پھر سیدنا ابو بکر صدیقؓ چلے گئے اور مہاجرین جمع ہوکر خلافت کے بارے میں باہم مشورہ کرنے لگے ۔ انہوں نے کہا: انصاری بھائیوں کے پاس چلو کہ ان کا بھی اس (خلافت) میں حق ہے ۔ وہ انصار کے پاس آئے ، تو انصار نے کہا: ایک امیر ہم میں سے ایک تم میں سے ہوگا۔ اس پر سیدنا عمر فاروقؓ نے فرمایا: دو تلواریں ایک میان میں ! دونوں ہی درست نہیں رہیں گی ۔
پھر انہوں نے سیدنا ابو بکر صدیقؓ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: یہ تینوں باتیں کس کے بارے میں ہیں؟
إذ يقول لصاحبه
جب نبی ﷺ اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے۔
وہ ساتھی کون تھا؟
إذ هما في الغارة
جب وہ دونوں غار میں تھے۔
وہ دونوں کون تھے؟
لا تحزن إن الله معنا
اے ابو بکر ! آپ غم نہ کھایئے ، بلاشبہ اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔
(توبہ : ۴۰ )
کس کے ساتھ؟
پھر انہوں نے سیدنا ابو بکر صدیق رض کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور لوگوں سے فرمایا: آپ بھی بیعت کریں ، تو سب لوگوں نے بڑے خوبصورت اور احسن انداز میں بیعت کر لی ۔
(سنن ابن ماجه : 1234، شمائل الترمذي : 396، مسند عبد بن حميد : 365، المعجم الكبير للطبراني : 65/7، دلائل النبوة للبيهقي : 299/7 ، وسنده حسن)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (1514 ،1624 ) نے صحیح کہا ہے۔
حافظ بوصیری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
هذا إسناد صحيح، رجاله ثقات .
یہ سند صحیح ہے اور اس کے سارے راوی ثقہ ہیں ۔
(مصباح الزجاجة : 146/1 ، ح : 1234)
حافظ بیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
رجاله ثقات .
’’اس کے سارے راوی ثقہ ہیں ۔‘‘
حافظ ابن حجر ہم اللہ فرماتے ہیں:
إسناده صحيح، لكنه موقوف
’’اس روایت کی سند صحیح ہے، البتہ یہ قول صحابی ہے ۔‘‘
(مجمع الزوائد : 183/5)
(فتح الباري :523/1)