غیر مسلموں کے تیوہاروں میں شرکت کرنے والے کی امامت
سوال: ہمارے محلہ کوکہ کی ٹنی میں ایک تاجر صاحب رہتے ہیں، جو حج بھی کر چکے ہیں، اور وہ بعض ہندؤ تنظیموں کے ممبر بھی ہیں، ہندؤ تیوہاروں مثلا بونال، دسہرا وغیرہ میں جلوس کی قیادت بھی کرتے ہیں اور ہمارے محلّہ کی مسجد میں کبھی کبھی امامت کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔ مہربانی فرما کر یہ بتائیں کہ کیا شرعی اعتبار سے ان کی امامت درست ہے؟ اور کیا ان کے پیچھے ہماری نماز ہو جاتی ہے یا نہیں؟
جواب: برادرانِ وطن کے مذہبی تہواروں میں شرکت کے گناہ کبیرہ ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں اور اندیشہ کفر کا بھی ہے، اس لئے جو صاحب ایسی حرکت کرتے ہیں ان کو فوراً توبہ کرنی چاہئے، جب تک وہ توبہ نہ کرے، ان سے امامت نہیں کرائی جائے اور نہ ان کی اقتداء میں نماز ادا کی جائے، البتہ جو نمازیں پہلے پڑھی جا چکی ہیں، ان کو لوٹانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ فاسق کی اقتداء میں بھی کراہت کے ساتھ نماز ادا ہو جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جس طرح گناہ کو حرام کیا ہے، اسی طرح گناہ میں تعاون کو بھی حرام قرار دیا ہے: قال اللّٰہ تبارك وتعالیٰ وَتَعَاوَنُوۡا عَلَى الۡبِرِّ وَالتَّقۡوٰى ۖ وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَى الۡاِثۡمِ وَالۡعُدۡوَانِ ۖ (سورۃ المائدہ؛ آیت 2)
یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ رواداری کا مطلب اپنے مذہبی تشخص کو کھو دینا اور دوسروں کے مذہبی افعال کو انجام دینا نہیں ہے، بلکہ رواداری یہ ہے کہ دوسروں کے مذہبی افعال میں رخنہ نہ پیدا کیا جائے اور ان کے ساتھ انصاف اور حسنِ سلوک کا معاملہ کیا جائے۔
(کتاب الفتاویٰ ساتواں حصہ، صفحہ 56)