Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

آیت غار (سورت توبہ 40) اور شیعہ کا انکار

  سید عبداللہ علی

آیتِ غار (سورۃ التوبہ: آیت، 40) اور شیعہ کا انکار

اِلَّا تَـنۡصُرُوۡهُ فَقَدۡ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذۡ اَخۡرَجَهُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ اِذۡ هُمَا فِى الۡغَارِ اِذۡ يَقُوۡلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا‌ فَاَنۡزَلَ اللّٰهُ سَكِيۡنَـتَهٗ عَلَيۡهِ وَاَ يَّدَهٗ بِجُنُوۡدٍ لَّمۡ تَرَوۡهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوا السُّفۡلٰى‌ وَكَلِمَةُ اللّٰهِ هِىَ الۡعُلۡيَا وَاللّٰهُ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ ۞

(سورۃ التوبہ: آیت، 40)

ترجمہ: اگر تم ان نبیﷺ کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جب کہ انہیں کافروں نے دیس سے نکال دیا تھا دو میں سے دوسرا جب کہ وہ دونوں غار میں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے پس جنابِ باری نے اپنی طرف سے تسکین اس پر نازل فرما کر ان لشکروں سے اس کی مدد کی جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں اس نے کافروں کی بات پست کردی اور بلند و عزیز تو اللہ کا کلمہ ہی ہے اللہ غالب ہے حکمت والا ہے 

آیتِ غار اور شیعہ کا انکار:

سورة التوبہ جو کہ مدنی سورتوں میں سے ہے، اللہ تعالیٰ نے اس سورة میں رسول نبی کریمﷺ کی سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے ساتھ ہجرت کا ذکر بھی کیا ہے اور سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی صحابیت کا اعلان کر کے ان پر سکینت بھی نازل کی۔

ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ اِذۡ هُمَا فِى الۡغَارِ اِذۡ يَقُوۡلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا‌ فَاَنۡزَلَ اللّٰهُ سَكِيۡنَـتَهٗ عَلَيۡهِ الخ۔

(سورۃ التوبہ: آیت، 40)

ترجمہ: جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے اُس وقت اللہ نے ان پر اپنی طرف سے سکونِ قلب نازل کیا۔

شیعہ حضرات جن کا قرآن ایک نامعلوم شخص کے پاس ایک نامعلوم غار میں پوشیدہ ہے،سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے بغض میں اس آیت کی تفسیر میں سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی صحابیت کے انکار اور ان پر سکینت اترنے کے انکار میں جو کچھ لکھا ہے عقل وہ بیان کرنے کے قابل نہیں ہے اور ہمیں امید بھی یہی ہے کہ اگر شیعہ حضرات خود اس آیت کی تفسیر نکال کر اپنی کتب سے پڑھنا شروع کر دیں تو یا تو ہنس ہنس کے پاگل ہو جائیں یا پھر دماغی توازن کھو بیٹھیں۔

زیادہ نہیں ہم چند ایک قول نقل کر دیتے ہیں تاکہ وہ حضرات جنہوں نے نہیں پڑھا وہ پڑھ لیں اور جان لیں۔

جب سیدنا صدیقِ اکبرؓ کو حضور نبی کریمﷺ کی جان کا خوف واقع ہوا کہ کفار کہیں آپﷺ کو نہ دیکھ لیں تو سیدنا صدیقِ اکبرؓ اندوہ گیں ہوئے تب حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا:

لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا الخ۔

(سورۃ التوبہ: آیت، 40)

شیعہ حضرات نے اس آیت کی تفسیر میں کیا کچھ لکھا ہے ان میں سے کچھ یہ ہے۔

سیدنا ابوبکرؓ اس لیے چلائے کہ کفار آپ کی آواز سن لیں اور نبی کریمﷺ کو گرفتار کے لیں بعض دانش مندوں نے اس قدر اور بڑھا دیا ہے کہ جب سیدنا ابوبکرؓ کا رونے سے کام نہ نکلا اور کافروں نے ان کی آواز نہ سنی تب انہوں نے اپنا پاؤں غار سے باہر کر دیا کہ کفار دیکھ لیں اور آ جائیں اور اسی وقت خدا کے حکم سے سانپ نے ان کے پاؤں پر کاٹا اور بہ مجبوری انہوں نے اپنا پاؤں اندر کھینچا۔

کچھ اور دانشمندوں نے علم کے چراغ جلاتے ہوئے لکھا ہے کہ جب سیدنا ابوبکرؓ کے پاؤں کے باہر کرنے سے بھی کچھ حاصل نہ ہوا یعنی کافر حضور نبی کریمﷺ کو نہ پکڑ سکے تو سیدنا علیؓ کو یاد کر کے اور ان کی تنہائی پر اپنا رنج ظاہر کرنے لگے کہ نبی کریمﷺ کو تکلیف دے سکیں،تب رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ"لَا تَحْزَنْ" کہ اے سیدنا ابوبکرؓ اپنا رنج سیدنا علیؓ کی تنہائ پر ظاہر نہ کرو،

اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا الخ۔

خدا ہمارے اور سیدنا علیؓ کے ساتھ ہے

بعض دانشمند جن میں عقل کی کچھ زیادہ زیادتی تھی وہ لکھتے ہیں کہ "اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا" سے دو معنیٰ مراد ہیں ایک یہ کہ خدا ہمارے اور سیدنا علیؓ کے ساتھ ہے دوسرے یہ کہ سیدنا ابوبکرؓ سے پیغمبر خدا نے کہا کہ خدا ہمارے ساتھ ہے یعنی ہماری نیکی پر اور تمہاری بدی پر مطلع ہے

ہم کو ہماری نیکی کا صلہ اور تم کو بدی کا بدلہ ملے گا۔

یقیناً ہر شخص شیعہ حضرات کے ان دلائل کو دیکھ کر حیران ہو گا اور اپنی آنکھیں بار بار مل رہا ہوگا اور زانوے تحیر سر نہ اٹھائے گا۔

اور تعجب کرے گا کہ یہ اعتراض ہے یا مجنوں کی بڑ، جواب ہے یا دیوانوں کی جھک ہے بلکہ جو لوگ عقل و دانش رکھتے ہیں،

انکو تو یقین ہی اس پر نہ ہوگا کہ یہ تقریریں کسی عالم یا مجتہد کی زبان سے نکلی ہوں گی، مگر جس کو شک ہو وہ "احقاق الحق" اور "مجالس المؤمنین" وغیرہ کو کھول کر دیکھ لے کہ انہیں شیعہ حضرات کے شہیدِ ثالث نے کس آب و تاب سے لکھا ہے اور شیعہ حضرات نے کس قدر ان تقریروں پر ناز کیا ہے۔

الغرض شیعہ حضرات نے اس آیت کی تفاسیر میں ایسی ایسی بیہودہ باتیں اور اعتراضات لگائے ہیں کہ بیان سے باہر ہیں اور خود شیعہ بھی اسکو نقل کرنے سے شرماتے ہیں۔

شیعہ مفسر ابو علی طبرسی تفسیر مجمع البیان میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتا ہے کہ: شیعوں نے اس آیت میں تسلی کو پیغمبر کے ساتھ مخصوص ہونے پر ایسی باتیں لکھی ہیں کہ ہم ان کا نہ لکھنا ہی مناسب سمجھتے ہیں تاکہ کوئی کہنے والا ہم کو بھی کچھ نہ کہنے لگے۔