آیت غار (سورت توبہ 40) اور شیعہ کا انکار
سید عبداللہ علیسورة توبہ: آیت :40♦️
اِلَّا تَنۡصُرُوۡہُ فَقَدۡ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذۡ اَخۡرَجَہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ثَانِیَ اثۡنَیۡنِ اِذۡ ہُمَا فِی الۡغَارِ اِذۡ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ۚ فَاَنۡزَلَ اللّٰہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلَیۡہِ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوۡدٍ لَّمۡ تَرَوۡہَا وَ جَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا السُّفۡلٰی ؕ وَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الۡعُلۡیَا ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ﴿۴۰﴾
♦️ترجمہ:
اگر تم ان ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے ( دیس سے ) نکال دیا تھا دو میں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے پس جناب باری نے اپنی طرف سے تسکین اس پر نازل فرما کر ان لشکروں سے اس کی مدد کی جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں اس نے کافروں کی بات پست کردی اور بلند و عزیز تو اللہ کا کلمہ ہی ہے اللہ غالب ہے حکمت والا ہے
آیتِ غار اور شیعہ کا انکار
♦️سورة توبہ جو کہ مدنی سورتوں میں سے ہے،اللہ تعالیٰ نے اس سورة میں رسولؐ نبی کریم کی سیدنا صدیق اکبرؓ کے ساتھ ہجرت کا ذکر بھی کیا ہے اور سیدنا صدیق اکبرؓ کی صحابیت کا اعلان کر کے ان پر سکینت بھی نازل کی۔
"ثَانِيَ اثْنَيْنِ اِذْ هُمَا فِي الْغَارِ اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا ۚ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلَيْهِ"
جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ ’’ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے ‘‘ اُس وقت اللہ نے ان پر اپنی طرف سے سکونِ قلب نازل کیا۔
شیعہ حضرات جن کا قرآن ایک نامعلوم شخص کے پاس ایک نامعلوم غار میں پوشیدہ ہے،سیدنا صدیق اکبرؓ کے بغض میں اس آیت کی تفسیر میں سیدنا صدیق اکبرؓ کی صحابیت کے انکار اور ان پر سکینت اترنے کے انکار میں جو کچھ لکھا ہے،عقل وہ بیان کرنے کے قابل نہیں ہے اور ہمیں امید بھی یہی ہے کہ اگر شیعہ حضرات خود اس آیت کی تفسیر نکال کر اپنی کتب سے پڑھنا شروع کر دیں تو یا تو ہنس ہنس کے پاگل ہو جاویں یا پھر دماغی توازن کھو بیٹھیں۔
زیادہ نہیں ہم چند ایک قول نقل کر دیتے ہیں تاکہ وہ حضرات جنہوں نے نہیں پڑھا وہ پڑھ لیں اور جان لیں۔
جب سیدنا صدیق اکبرؓ کو حضورؐ نبی کریم کی جان کا خوف واقع ہوا کہ کفار کہیں آپ کو نہ دیکھ لیں تو صدیق اکبرؓ اندوہ گیں ہوئے تب حضورؐ نبی کریم نے فرمایا
"لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا ۚ"،
♦️شیعہ حضرات نے اس آیت کی تفسیر میں کیا کچھ لکھا ہے،ان میں سے کچھ یہ ہے۔
حضرت ابوبکرؓ اس لیے چلائے کہ کفار آپ کی آواز سن لیں اور نبیؐ کو گرفتار کے لیں،بعض دانشمندوں نے اس قدر اور بڑھا دیا ہے کہ
جب حضرت ابوبکرؓ کا رونے سے کام نہ نکلا اور کافروں نے انکی آواز نہ سنی تب انہوں نے اپنا پاؤں غار سے باہر کر دیا کہ
کفار دیکھ لیں اور آجائیں اور اسی وقت خدا کے حکم سے سانپ نے انکے پاؤں پر کاٹا اور بہ مجبوری انہوں نے اپنا پاؤں اندر کھینچا۔
کچھ اور دانشمندوں نے علم کے چراغ جلاتے ہوئے لکھا ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ کے پاؤں کے باہر کرنے سے بھی کچھ حاصل نہ ہوا،
یعنی کافر حضور نبیؐ کریم کو نہ پکڑ سکے تو حضرت ابوبکرؓ'حضرت علیؓ کو یاد کر کے اور انکی تنہائ پر اپنا رنج ظاہر کرنے لگے کہ
نبیؐ کو تکلیف دے سکیں،تب رسولؐ خدا نے فرمایا کہ"لَا تَحْزَنْ" کہ اے ابوبکرؓ اپنا رنج حضرت علیؓ کی تنہائ پر ظاہر نہ کرو،
"اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا"
خدا ہمارے اور علیؓ کے ساتھ ہے۔
♦️بعض دانشمند جن میں عقل کی کچھ زیادہ زیادتی تھی،وہ لکھتے ہیں کہ "اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا" سے دو معنی مراد ہیں ایک یہ کہ خدا ہمارے اور
علیؓ کے ساتھ ہے...دوسرے یہ کہ ابوبکرؓ سے پیغمبر خدا نے کہا کہ خدا ہمارے ساتھ ہے یعنی ہماری نیکی پر اور تمہاری بدی پر مطلع ہے،
ہم کو ہماری نیکی کا صلہ اور تم کو بدی کا بدلہ ملے گا۔
♦️یقیناً ہر شخص شیعہ حضرات کے ان دلائل کو دیکھ کر حیران ہوگا اور اپنی آنکھیں بار بار مل رہا ہوگا اور زانوے تحیر سر نہ اٹھائے گا،
اور تعجب کرے گا کہ یہ اعتراض ہے یا مجنوں کی بڑ،جواب ہے یا دیوانوں کی جھک ہے بلکہ جو لوگ عقل و دانش رکھتے ہیں،
انکو تو یقین ہی اس پر نہ ہوگا کہ یہ تقریریں کسی عالم یا مجتہد کی زبان سے نکلی ہونگی،مگر جس کو شک ہو وہ "احقاق الحق" اور "مجالس المومنین" وغیرہ کو کھول کر دیکھ لے کہ انہیں شیعہ حضرات کے شہید ثالث نے کس آب و تاب سے لکھا ہے اور شیعہ حضرات نے کس قدر ان تقریروں پر ناز کیا ہے۔
♦️الغرض شیعہ حضرات نے اس آیت کی تفاسیر میں ایسی ایسی بیہودہ باتیں اور اعتراضات لگائے ہیں کہ بیان سے باہر ہیں اور خود شیعہ بھی اسکو نقل کرنے سے شرماتے ہیں۔
شیعہ مفسر ابو علی طبرسی تفسیر مجمع البیان میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتا ہے کہ
"شیعوں نے اس آیت میں تسلی کو پیغمبر کے ساتھ مخصوص ہونے پر ایسی باتیں لکھی ہیں کہ ہم ان کا نہ لکھنا ہی مناسب سمجھتے ہیں،
تاکہ کوئی کہنے والا ہم کو بھی کچھ نہ کہنے لگے۔"