Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

جمہور اہل حل و عقد کی مخالفت کے باوجود سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا اپنے اجتہاد پر اصرار

  حامد محمد خلیفہ عمان

قطعی نصوص سے ثابت ہے کہ حضرت حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما مبشر بالجنۃ تھے۔ یہ ممکن نہیں کہ انہوں نے یہ ساری کاوشیں زر و زمین اور مال غنیمت کے حصول، یا کشور کشائی کے لیے کی ہوں۔ جاہ و منصب کی تمنا کا ان کے پاکیزہ دل و دماغ سے گزر تک بھی ممکن نہ تھا۔ آپ کے سامنے اپنے اہل بیت رضی اللہ عنہم یا کسی خاص جماعت کی نصرت و حمایت نہ تھی۔ بات یہ ہے کہ جگر گوشہ رسول سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما دوسرے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرح سنت کی ازحد غیرت رکھتے تھے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی پاکیزہ فطرت کی اسی خوئے طیبہ کا مارقانِ دین اور حاقدینِ صحابہ نے ناجائز فائدہ اٹھایا اور آپ کو ایسی ایسی باتیں گھڑ گھڑ کر سنائیں، جو آپ کے جذبۂ اصلاح اور ولولۂ دفع شر و ضرر عن الناس کے عین موافق تھیں۔

ان لوگوں نے آپ کے جذبات کو برانگیختہ کیا کہ آپ ہی صولت و شجاعت اور جرأت و شہامت کے تنہا وارث اور سید آل بیت ہیں، اگر آپ ہی اس امر کو قائم نہ کریں گے تو پھر آپ کے بعد اور کون ہے جو اس ذمہ داری کو اپنے کندھوں پر اٹھائے گا؟ پھر ان لوگوں نے کمال مکر و فریب سے کام لیا کہ اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم اور امت کے سربرآوردہ لوگوں کے ناموں پر بے شمار جھوٹے خطوط لکھ لکھ کر آپ پر حجت تمام کر دی۔ جیسا کہ انہی لوگوں نے کل سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے خلاف فتنہ کو ہوا دینے کے لیے، ان کے خلاف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ناموں پر امت تک جھوٹی شکایات پہنچائی تھیں اور بالآخر یہ فتنہ پرور اور فتنہ گر جناب عثمان بن عفان امیر المومنین رضی اللہ عنہ کے خلاف ایک زبردست ہنگامہ کھڑا کرنے میں کامیاب ہو گئے، جو آپ کی شہادت پر جا کر ختم ہوا۔

بالکل اسی طرح ان لوگوں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے خلاف بھی فتنوں کا ایک جال بُنا، جس میں کمال تدلیس و تلبیس اور دجل و فریب سے کام لیتے ہوئے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو اس بات کا یقین دلایا کہ اگر ان مظلوموں کی مدد آپ نے نہ کی تو آپ عند اللہ گناہ گار ہوں گے اور روزِ قیامت آپ کے پاس اپنی عذر خواہی کے لیے کوئی دلیل نہ ہو گی۔

اس لیے عین ممکن ہے کہ ان دجالوں، عیاروں، مکاروں اور رافضیوں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو جو خطوط لکھے ہوں، ان میں والیوں اور گورنروں کے خلاف ان کے خود ساختہ مظالم کی الم ناک داستانیں مذکور ہوں اور ایسی دل پگھلا دینے والی التجائیں اور فریادیں ہوں، جنہوں نے جناب حسین رضی اللہ عنہ کے جذبہ شفقت و رحمت کو ان نام نہاد ضعیفوں اور کمزوروں کی نصرت و حمایت کی طرف پھیر دیا ہو۔ چنانچہ ان پر فریب خطوط کی بنا پر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے یہ اعتقاد کر لیا کہ اب آپ کا خروج فرض ہے جس سے فرار کی سرِ مو گنجائش نہیں۔ اسی اعتقاد کا اظہار جناب سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے فرزدق کو یہ کہہ کر کیا تھا کہ میرے پاس ایک اونٹ کے بوجھ کے بقدر ان لوگوں کے خطوط ہیں۔

اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ آپ کو اس بات کا اطمینان تھا کہ کوفہ میں آپ کے اعوان و انصار ہیں، جو آپ کا ساتھ دیں گے اور وہاں تیار فوجیں ہیں، جو سربکف ہو کر آپ کی اور آپ کے اہل بیت کی حفاظت کریں گی۔ اسی لیے آپ نے اپنے گھر کی عورتوں، چچیری اولادوں اور بھائیوں کو بھی ساتھ چلنے کو کہا تھا۔ کیونکہ ان لوگوں نے کوفہ کے سربرآوردہ لوگوں کے نام پر جو، ابن زیاد کے مشیرانِ خاص اور ندماء و جلساء تھے، آپ کو خطوط لکھے تھے کہ چلے آئیے، ہم سب آپ کی بیعت کرنے کو تیار ہیں۔ چنانچہ جب ان کوفیوں نے کوفی پنے کا کھل کر مظاہر کیا، تو آپ نے انہیں یاد دلاتے ہوئے جو فرمایا اس کو انہی کے ثقہ اور مشہور راوی ابو مخنف کذاب کی زبانی سنتے ہیں۔ آپ نے انہیں فرمایا: ’’کیا تم لوگوں نے ہی مجھے یہ بات لکھ کر نہ بھیجی تھی کہ پھل پک چکے، ہریالی ہو چکی، پیمانے لبریز ہو گئے اپنے ایسے لشکر کی طرف چلے آئیے جو تیار ہے۔‘‘ 

(تاریخ الطبری، اخبار مصرع الحسین رضی اللہ عنہا: جلد، 3 صفحہ 272)

خط و کتابت کے اسی مکر و فریب نے پہلے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی جان لی اور آخر میں سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو مسند شہادت پر بٹھلایا، اور ایسا کیوں نہ ہوتا، کیونکہ ابن سبا کی خفیہ کو فی تنظیم ’’وصیت‘‘ کے گمراہ کن عقیدہ کا پروپیگنڈا کرنے میں سرگرم عمل تھی۔ جس کا بنیادی مقصد امت مسلمہ کی وحدت و مودت کو پارہ پارہ کرنا تھا۔ یہ لوگ بے حقیقت افواہیں اڑاتے، بے اصل غل مچاتے، لوگوں کے ذہنوں کو مشوّش کرتے اس گمراہ جماعت کا مقصد وحید یہی تھا۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کے ساتھ ان کا یہ رویہ آج تک ہے۔

ابومخنف ان گمراہوں کی سیاہ صورت سے پردہ اٹھاتے ہوئے روایت کرتا ہے کہ جب کوفی بے وفائی اور بدعہدی پر اتر آئے تو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے کوفہ کے زعماء اور سربرآوردہ لوگوں سے یہ کہا: کیا تمہی لوگوں نے مجھے خطوط نہ لکھے تھے؟ بولے: ہم نے ایسا کوئی کام نہیں کیا، سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے یہ جواب سن کر ارشاد فرمایا: ’’سبحان اللہ کیوں نہیں! اللہ کی قسم تم لوگوں نے خطوط لکھے تھے۔‘‘ (تاریخ الطبری: جلد، 3 صفحہ 273 اخبار سنۃ (61ھ))

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اپنی قسم میں سچے تھے، ان کے پاس ان کوفیوں کے نام بنام خطوط تھے، لیکن آپ یہ نہ جانتے تھے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر لعن طعن کر کے اور ان مقدس ہستیوں پر بہتان دھر کے مکر و فریب کے جال بننا ان کا پیشہ ہے اور اس پیشہ پر آل بیت کی محبت و تعظیم کا وہ پردہ ڈالتے ہیں، جو سنت نبویہ کے خلاف ہے اور وہ محبت و تعظیم بشریت میں الوہیت کے عنصر کو پیدا کرتی ہے۔

دین دشمن اس طبقہ نے صدیوں تک امت سنت و جماعت کے ساتھ عقیدت و محبت کے نام پر کھلواڑ جاری رکھا۔ حتیٰ کہ ان کی صفوں میں افتراق پیدا کر دیا اور آج امت مسلمہ مختلف طبقوں، حکومتوں اور ضابطوں میں ڈھل چکی ہے جن کا اس سے قبل وجود تک نہ تھا اور ان سب سانچوں، فرقوں، طبقوں اور قالبوں کی بنیاد سنت نبویہ کے انہدام پر رکھی گئی ہے۔

ان حالات کے تناظر میں آج امت سنت و جماعت ایک ایسی ہمہ گیر اور ہمہ جہت تہذیب و ثقافت کی ضرورت ہے جو ان سب دیکھے اَن دیکھے خطرات کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہو سکے اور اپنے ماضی اور حال میں ایک مضبوط ربط پیدا کر کے مستقل کا ایک ٹھوس لائحۂ عمل تیار کر سکے۔ جو نامراد طبقہ کل امت مسلمہ کے دو شہیدوں (سیدنا عثمان اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہما) کے خونوں کے گناہوں کو اپنی گردن پر لاد کر لوٹا تھا، اگر آج کچھ لوگ ان کے ساتھ حسن ظن رکھتے ہیں، انہیں بنظر تحسین دیکھتے ہیں، ان کے عقیدۂ مظلومیت پر اشک بار ہو جاتے ہیں اور ان مکار قاتلوں کے ہم نوالہ و ہم پیالہ بن کر ان کے ساتھ نشست و برخاست رکھتے ہیں، وہ جان لیں اور گوشِ ہوش نیوش سے سن لیں کہ وہ بھی ان اشرار و فجار کے جریمۂ قتل اور اِفسادِ عقیدہ میں برابر کے شریک ہیں۔

جناب سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے سامنے اپنے خروج کے جواز اور اس جواز کے اجتہاد کے یہی دلائل تھے، جن کو ہم نے سطورِ بالا میں نقل کیا ہے۔ و اللہ اعلم۔ وگرنہ جناب حسین بن علی رضی اللہ عنہما جیسا ایک ذہین، لبیب، اریب، فطین اور دانا و بینا اور نبی کریم ﷺ کی سنت کو مضبوطی سے تھامنے والا کریم النفس انسان حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مخالفت کی جرأت بھی نہ کر سکتا تھا۔ آپ کا اعتقاد تھا کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور دوسرے تمام اکابر، جنہوں نے آپ کو خروج سے روکا تھا کہ ان کے پاس وہ شرعی جوازات نہ تھے، جو آپ کے پاس تھے اور جیسا کہ آپ سمجھتے تھے، اپنے انصار و اعوان کے اسرار کو طشت از بام کرنے میں کوئی مصلحت بھی نہ تھی، لیکن جب آپ کو غدار و کذاب کوفیوں کے موقف کا علم ہوا اور آپ نے ان کی جفاکاری اور بے وفائی بھی آنکھوں سے دیکھ لی اور مطالبہ کے باوجود انہوں نے مدد و نصرت کرنے سے آپ کو ٹکا سا جواب دے دیا اور آپ نے دیکھ لیا کہ اب ان پر وعظ و نصیحت بے کار اور ان کا دین و دیانت پر آنا دُور ازکار ہے تو آپؓ نے ان کے سامنے تین باتوں کو پیش کیا، تاکہ ان پر حجت تمام ہو۔ لیکن افسوس کہ اہل کوفہ کی یہودیت کے خیمر میں گندھی رفض و سبائیت کی خُو نے انہیں ان تینوں باتوں کو ٹھکرا دینے پر مجبور کر دیا اور بالآخر پیغمبروں کے خونوں سے ہاتھ رنگنے والی یہودیت کے ان پیرو کاروں نے آل پیغمبرﷺ کے اُس خون سے ہاتھ رنگ لیے جو ان پر حرام تھا اور اپنے حقیقی آباء کی طرح یہ بھی اللہ اور اس کے رسولﷺ کے اور رب کے نیکو کار بندوں کے غضب کو لے کر لوٹے!!

ہائے افسوس کہ آج کی رات گزشتہ رات کے کس قدر مشابہ تھی!!!

ان کوفیوں نے اس گناہ کا ارتکاب کیا تھا، جس کا کوئی جواز ان کے دامن دلائل میں موجود نہ تھا۔ امت مسلمہ کو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے اس غم کو سہنا پڑا جو دنوں کو رات بنا دے، جوانوں کو بوڑھا کر دے اور کوہساروں کو ریگ زار بنا دے۔ جبکہ دوسری طرف ان اعدائے صحابہ کو فتنوں کو ہوا دینے اور ان کی جڑوں کو کذب و مکر سے سینچنے کا نیا سامان ہاتھ لگ گیا، جس میں ابن زیاد جیسے عقل و دیانت سے کورے احمق نے مرکزی پُل کا کردار ادا کیا اور رافضی کوفیوں کا شر شر مستطیر بن کر اُمت کے افق پر چھاتا چلا گیا۔ افسوس کہ احمق ابن زیاد نے رفض و سبائیت کا دست و بازو بنتے وقت یہ بھی نہ سوچا کہ جن کو آل رسولﷺ کا پاس لحاظ نہیں ان کے سامنے ابن زیاد کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے؟ پھر بالآخر ابن زیاد بھی ان کے مکر و فریب کے جال میں بری طرح جکڑا گیا اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

ان کوفیوں نے ابن زیاد کے سامنے جناب حسین رضی اللہ عنہ کی صورت نہایت ہیبت ناک بنا کر پیش کی اور اسے آرام سے اپنے شیشے میں اتار لیا اور اسے اس بات پر تیار کیا کہ اگر تم نے جناب حسین رضی اللہ عنہ کی کسی بھی بات کو مان لیا تو اس کا منطقی انجام تمہارے ہی سامنے آ کر رہے گا۔ اس لیے خبردار! ابن رسولﷺ کو اللہ اور رسول کے حکم پر مت اتارنا بلکہ اسے اپنے حکم پر اتارنا اور قوت و شدت کے ساتھ ان کا نام و نشان مٹا دینا۔

بھلا اس سے بھی بڑھ کر حیرت و تعجب کی بات اور کیا ہو گی کہ ابن زیاد نے کوفیوں کی تاریخ سے ذرا سبق نہ سیکھا اور ان کا تیر بن کر رفض کی کمان سے چل گیا اور سیدھا ابن رسولﷺ کو جا نشانہ بنایا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

لیکن ذرا ٹھہریے! آج ہم امت کے ساتھ ہونے والی ان غداریوں اور امت کو ملنے والے ان زخموں کو تو شمار کرتے اور خوب یاد کرتے ہیں، لیکن ان وسائل و ذرائع کو یکسر بھول جاتے ہیں اورانہیں ڈھونڈ نکالنے کی کوشش بھی نہیں کرتے، جن کی بدولت ان مغضوبین نے ان جرائم کا ارتکاب کیا اور افسوس کہ ان سے قرار واقعی قصاص بھی تو نہ لیا جا سکا، جو انہیں مٹا کر ختم کر دیتا۔ اس پر مستزاد یہ کہ امت سنت و جماعت ایک ایسی مشترکہ ثقافت تشکیل دینے میں بھی پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکی، جو اس روز افزوں شر کی راہ روکے اور کتاب و سنت کے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر اس شر کو پیوند خاک کر دے۔ ان شاء اللہ وہ دن ضرور آئے گا۔