سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا نزول سرزمین کربلا میں شیعی روایات کی روشنی میں
حامد محمد خلیفہ عمانعبدالرزاق موسوی المقرم لکھتا ہے: ’’ حسین بن علی (رضی اللہ عنہما) کا کربلا میں نزول محرم 61 ہجری کو ہوا۔‘‘ (مقتل الحسین للمقرم: صفحہ 193)
عباس قمی لکھتا ہے:
’’جان لو کہ حسین بن علی (رضی اللہ عنہما) کے میدانِ کربلا میں فروکش ہونے کے دن میں اختلاف ہے۔ صحیح تر قول 2 محرم 61 ہجری کا ہے۔ جب آپ میدانِ کربلا پہنچے تو پوچھا: ’’یہ کون سی سرزمین ہے؟ عرض کیا گیا: ’’یہ کربلا ہے۔‘‘ تو آپ نے فرمایا: ’’اے اللہ! میں کرب اور بلا سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔‘‘ (منتہی الآمال: جلد، 1 صفحہ 471)
محمد تقی آل بحر العلوم لکھتا ہے کہ اربابِ سیرو قتال لکھتے ہیں:
’’حسین علیہ السلام جب کربلا اترے، تو آپ نے اپنے اصحاب اور آلِ بیت کو جمع کیا اور ان میں کھڑے ہو کر خطبہ دیا۔ حمد و ثنا کے بعد فرمایا:
’’اما بعد! ہم پر جو مصیبت اتری ہے، وہ تم لوگ دیکھ ہی رہے ہو۔ دنیا بدل گئی، اوپری ہو گئی اور اس کی نیکی نے پیٹھ پھیر لی۔ یہ دنیا جلد ختم ہو گئی اور اس کے چاہنے والوں کو کچھ نہ ملا اور اس میں صرف اتنا باقی رہ گیا جتنا برتن کے پیندے میں اس کے خالی کرنے کے بعد رہ جاتا ہے اور زندگی کسی پراگندہ آب و ہوا والی جگہ کی طرح بے حد بے وقعت ہو گئی ہے۔ کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ حق پر چلا نہیں جا رہا، باطل سے رکا نہیں جا رہا تاکہ ایک مومن کو اپنے رب سے ملاقات کی تمنا ہو، پس اب تو میرے نزدیک موت میں سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی گزارنے میں نری اکتاہٹ ہے۔‘‘ (مقتل الحسین لبحر العلوم: صفحہ 263)
دکتور احمد راسم نفیس سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی اس تقریر کو نقل کرتا ہے، (یہ تقریر علامہ طبرسی شیعی کی ’’الاحتجاج: جلد، 2 صفحہ 24‘‘ سے معمولی اختلاف کے ساتھ نقل کی گئی ہے) جس میں آپ اپنے ان شیعہ کو رب کا واسطہ دیتے ہیں، جنہوں نے آپ کو کوفہ آنے کی دعوت دی تاکہ آپ کی مدد کریں، لیکن بعد میں آپ کا ساتھ چھوڑ گئے۔ چنانچہ احمد راسم نفیس لکھتا ہے:
’’قوم نے آپ کو پریشان کرنا شروع کر دیا تاکہ آپ ان تک حجت نہ پہنچا سکیں اور نہ ان پر حجت قائم کر سکیں جس پر آپ نے انہیں غصہ ہو کر یہ کہا:
’’اگر تم لوگ ذرا دیر کو خاموش ہو کر میری بات سن لو تو اس میں کیا حرج ہے؟ میں تم لوگوں کو راہِ ہدایت کی طرف بلا رہا ہوں۔ پس جس نے میری بات مانی وہ ہدایت پانے والوں میں سے ہو گا اور جس نے میری بات نہ مانی وہ ہلاک ہونے والوں میں سے ہو گا۔ اب تم لوگوں کا حال یہ ہے کہ تم سب کے سب میرے امر کے نافرمان اور میری بات کو سننے سے گریز کرنے والے ہو۔ تمہاری تنخواہیں حرام سے گراں بار اور تمہارے پیٹ حرام سے بھرے ہیں۔ اللہ نے تمہارے دلوں پر مہریں لگا دی ہیں ۔ تم لوگوں کی ہلاکت ہو! تم لوگ خاموش ہو کر میری بات کیوں نہیں سنتے؟‘‘ اس پر لوگ خاموش ہو گئے، تب آپ نے فرمایا:
’’اے (کوفی) جماعت! تمہاری ہلاکت ہو، وہ وقت یاد کرو جب تم لوگوں نے پکار پکار کر اور گڑگڑا کر ہمیں مدد کے لیے پکارا تھا۔ پھر جب ہم تمہاری مدد کو کمربستہ ہوئے تو تم لوگوں نے ہماری گردنوں پر تلواریں سونت لیں۔ تم لوگوں نے ہم پر فتنوں کی اس آگ کا ایندھن اکٹھا کیا جو ہمارے اور تمہارے مشترکہ دشمن نے چنا تھا۔ پس تم اپنے دوستوں کے خلاف ہو گئے اور ان کے خلاف ان کے دشمنوں کے دست و بازو بنے، جبکہ تم لوگوں نے عدل کو چھوڑا اور حرام دنیا کی آرزو رکھی اور خسیس زندگی کی طمع کی۔ تمہارا ناس ہو، بے شک تم اس امت کے طاغوت، حق جماعتوں سے منحرف، کتاب اللہ کو پھینک مارنے والے، شیطان کی پھونک، گناہوں کی پشت پناہ، کتاب اللہ کے مجرم، سنتوں کو مٹانے والے اور پیغمبروں کی اولادوں کے قاتل ہو۔‘‘ (علی خطی الحسین: صفحہ 130-131)
مذکورہ مصنف نے جن الفاظ کو نقل کیا ہے، ان کے اصل خطبہ کو ان کے شیخ علی بن موسی بن طاؤس نے روایت کیا ہے (اللہوف: صفحہ 58) اور آگے اس خطبہ کو عبدالرزاق مقرم، (مقتل الحسین: صفحہ 234) فاضل عباس حیاوی، (مقتل الحسین: صفحہ 16) ہادی نجفی، (یوم الطف: صفحہ 28) حسن صفار، (الحسین و مسؤولیۃ الثورۃ: صفحہ 61) محسن الامین، (لواعج الاشجان: صفحہ 97 یہاں کی عبارت بتلاتی ہے کہ ان کوفیوں نے نہ تو بات کی اور نہ سنی) عباس قمی (منتہی الآمال: جلد، 1 صفحہ 487) اور دوسرے متعدد شیعہ مصنّفین نے نقل کیا ہے۔ (معالم المدرستین: جلد، 3 صفحہ 100 کربلا، الثورۃ و الماسأۃ للمحامی احمد حسین یعقوب: صفحہ 283-284)
قارئین کرام! دیکھ لیجیے کہ جناب سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے اپنے شیعوں کو کن صفاتِ محمودہ و ستودہ کے ساتھ یاد کیا ہے!
٭ تمہاری تنخواہیں حرام سے گراں بار ہیں۔
٭ تمہارے پیٹ حرام سے بھرے ہیں۔
٭ اور اللہ نے تمہارے دلوں پر مہریں لگا دی ہیں۔
یہ بھی ملاحظہ کر لیجیے کہ یہ نواسۂ رسولﷺ کے وہ شیعہ ہیں جنہوں نے بڑے اصرار اور بے قراری کے ساتھ انہیں کوفہ آنے کی دعوت دی اور پھر کمال ڈھٹائی سے ان کا ساتھ بھی چھوڑ دیا اور ان کے گرد فتنوں کے الاؤ جلا دئیے۔
بے شک یہ لوگ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی زبانی:
٭ امت کے طاغوت
٭ حق پرستوں سے منحرف
٭ کتاب اللہ کو ٹھکرانے والے
٭ گناہوں کے پشت پناہ
٭ کتاب اللہ کے مجرم
٭ سنتوں کو مٹانے والے اور
٭ پیغمبروں کی اولادوں کو قتل کرنے والے ہیں۔
اب ہم اپنی گزشتہ بحث کی طرف لوٹتے ہیں۔
تو بات چل رہی تھی، ابن زیاد کے عیار و مکار اور بد باطن حواریوں کی جنہوں نے ابن زیاد کو اکسا اور بھڑکا کر اس بات پر آمادہ کر لیا کہ ابن زیاد سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی تینوں پیش کشوں کو ٹھکرا دے۔ یوں امت مسلمہ کی تاریخ کے اس فیصلہ کن موقعہ پر اشرار فجار کی رائے ابرار اخیار کی تجاویز پر غالب آ گئی۔ بے شک اس موقعہ پر امت مسلمہ کی صلاح و فلاح صلح اور مصالحت میں تھی۔ جس میں باہمی الفت و مودت، صفوں کے اتحاد اور خونِ مسلم کی حفاظت کی ضمانت تھی، جو اخوت، باہمی تعاون و تناصر اور ہمدردی و غم گساری کے ثمرات لاتی اور کتاب و سنت کے دشمنوں پر امت مسلمہ کی صفوں میں داخل ہونے کے سب دروازوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیتی۔ لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض رکھنے والے امت مسلمہ کے اتفاق و اتحاد کو ٹھنڈے پیٹوں کیونکر قبول کر سکتے تھے؟ اور قدم قدم پر امت مسلمہ کے پیروں کو پھسلانے کے لیے مکر و فریب کے کیچڑ پھیلانے سے کیونکر باز آ سکتے تھے؟ بالخصوص جب کہ امت مسلمہ کی اکثریت جاہل اور ان کی دسیسہ کاریوں اور ریشہ دوانیوں سے غافل اور ان کی زیر زمین سازشوں سے لاعلم و بے خبر بھی ہو؟ تاریخ گواہ ہے کہ یہ نامراد طبقہ ان نالائق کاموں میں من چاہے نتائج تک صرف اس لیے پہنچا کیونکہ اس ثقافت کا فقدان تھا، جو ان سے ہوشیار کرتی اور وہ ظاہری منہج غیر موجود تھا جو ان کے جرائم گنواتا بھی اور دکھلاتا اور سمجھاتا بھی۔
ایسی کتابیں شاذ و نادر لکھی گئیں جو امت مسلمہ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ان قاتلوں کے مکر و فریب سے آگاہ کرتیں اور آج بھی ایسے خطیبوں، قلم کاروں اور تبصرہ نگاروں کی شدید قلت بلکہ فقدان ہے جو امت کی صحیح منہج پر تعلیم و تربیت کریں اور بالخصوص اس اسلام دشمن، اولاد انبیاء کے قاتل اور آل بیت رسول کے غداروں کی غداری اور عیاری سے عامۃ الناس کو باخبر کریں۔
تاریخ کا طالب علم اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ سبائیت کا یہی خفیہ ہاتھ ہے، جو یہود و ہنود کے روپ میں چہرے بدل بدل کر سامنے آتا ہے اور امت مسلمہ کے ماضی اور حال سے کھیلتا چلا آیا ہے اور اس کے مستقبل سے بھی کھلواڑ کر رہا ہے۔
ان کوفیوں کے پاس ایک ایسی پہیلی نما ثقافت اور عقیدہ ہے جس کی بنیاد امت کے ابرار و اخیار، سلف صالحین اور ائمہ و اکابر پر لعن طعن اور سب و شتم پر ہے۔ ملت اسلامیہ کے مسلمہ متقی و پرہیزگار قائدین کے خلاف اشتعال انگیزی اس سبائیت کا رکن اعظم ہے۔ دین اسلام کے خلاف شکوک و شبہات کی گرد اڑانا اس کا کارِ منصبی ہے۔
چونکہ ان لوگوں کو امت مسلمہ کے فکر و عقیدہ سے برسر پیکار ہونے والے ہر انسان کے ساتھ ایک ازلی اور طبعی مناسبت ہے، اس لیے یہ ہر جگہ اپنے مطلب کے لوگ ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ ایسا ہی سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ بھی ہوا کہ جب ان عیاروں نے جھوٹے خطوط لکھ کر جناب حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو کوفہ میں بلوا لیا، تو آگے ان بے یار و مددگار مسافرانِ حق کو کسی فتنہ پرداز کے ہاتھوں میں دے دینے میں بھی انہیں خاطر خواہ کامیابی مل گئی اور ابن زیاد کی صورت میں زمانے بھر کا ایک احمق ان کے ہاتھ لگ گیا۔ چنانچہ انہی کوفیوں نے کوفہ کے امیر مرجانہ فارسیہ کے سپوت ابن زیاد کو خوب بھڑکایا اور اسے ایسا شیشے میں اتارا کہ بالآخر اس نے سبطِ رسول کے خون سے ہاتھ رنگنے کی ناپاک جسارت کر ڈالی۔
ابن زیاد کی حماقت، اس کے مشیروں کی عاقبت نا اندیشی اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بے جا جرأت نے کوفیوں کے اس مذموم مقصد کی راہ ہموار کی۔
یاد رہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر کسی قسم کی جرأت صرف وہی کر سکتا ہے جو پرلے درجے کا کوڑھ مغز، بے بصیرت، ادب و اخلاص سے بے بہرہ، عقیدہ و نیت کا کھوٹا اور علم و عمل میں شدید کج روی کا شکار ہو۔ بظاہر چاہے وہ صوم و صلوٰۃ اور شعائر دینیہ کا کتنا ہی پابند اور ان پر عامل کیوں نہ ہو۔ کیونکہ ایسا شخص خیالی سینگوں کے ساتھ پہاڑ کو ٹکریں مار کر پاش پاش کرنا چاہتا ہے۔ بلاشبہ ایسا شخص حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جرأت کا مرکز اور ابن زیاد کی ثقافت کا پیرو ہے۔
یہ کہنا کسی طور پر بھی بے جا اور بے محل نہ ہو گا کہ خونِ حسین بن علی رضی اللہ عنہما میں انہی دشمنانِ صحابہ کا ہاتھ ہی تھا، جنہوں نے کل اسی شیخی و عداوت کے جذبہ کے تحت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو ان کی اہلیہ نائلہ بنت الفرافصہ کے سامنے شہید کر دیا تھا۔
یہی وہ کینہ پرور جذبہ تھا، جو قتل حسین پر بھی ٹھنڈا نہ ہوا تھا۔ اسی لیے قتل کے بعد نوجوانانِ جنت کے اس سردار کا سر بھی تن سے جدا کر دیا گیا۔ ایسی گھٹیا حرکت صرف وہی کینہ پرور کمینہ ہی کر سکتا ہے، جو اس سے قبل حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے خونوں سے بھی اپنے ہاتھ رنگ چکا ہو اور یہ نمائندہ کردار رافضیت و سبائیت کا ہے جس نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی جان لینے سے اپنے جذبۂ انتقام کا آغاز کیا اور انتہا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی جان لے کر کی۔
ابن زیاد اس نمائندہ رافضیت و سبائیت کا آلۂ کار تھا، جس نے قتل حسین پر ہی اس وقت اصرار کیا جب اس مسئلہ کا حل صرف یہی نہیں تھا۔ بلکہ اس کے سامنے تین صورتیں اور بھی تھیں اور صلح کے جملہ وسائل بھی میسر تھے اور رب تعالیٰ کا بھی یہی ارشاد ہے:
وَ الصُّلْحُ خَیْرٌ (النساء: آیت 128) ’’اور صلح بہتر ہے۔‘‘
یہ بدترین دشمنی اور جارحیت ان نادیدہ ہاتھوں کا پتا دیتی ہے جو گناہ لے کر لوٹے اور سازشوں کے ان تانوں بانوں کو واضح کرتی ہے، جن کو امیر المومنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور نبی کریمﷺ کے پھول سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے خون بہانے میں استعمال کیا گیا۔ بالخصوص جبکہ ان دونوں جرائم کا ارتکاب کرنے سے صلح اور باہمی افہام و تفہیم کے جملہ وسائل میسر تھے۔
پھر یہ صلح صرف امت مسلمہ کے حق میں ہی مصلحت نہ تھی بلکہ خود ابن زیاد احمق کے حق میں بھی نہایت
مفید تھی۔ ابن زیاد چاہتا تو اوّل صلح کی شقوں میں سے کسی ایک شق کو اختیار کر لیتا، یا پھر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو خلافت کی عدالت میں پیش کر دیتا اور ان کے خلاف شریعت کے حکم کے مطابق فیصلہ کرتا، لیکن اس احمق نے خیر و عافیت اور صلح و سلامتی کی کسی راہ کو اختیار نہ کیا، بلکہ دشوار ترین، تنگ ترین، نہایت تباہ کن، ازحد مہلک اور بے حد فاجرانہ راستہ اختیار کیا جو اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ ابن زیاد کا اندازِ فکر اعدائے صحابہ کے فکر و عقیدہ کے کس قدر قریب تھا، جس کے بعد ابن زیاد نے اپنے لیے عذر کی کوئی راہ باقی نہیں چھوڑی اور اپنے سر پر گناہ کے اس طوق کو ڈال لیا۔ کیونکہ ابن زیاد نے شر کا قصد کیا۔ ایذاء و اضرار کو اختیار کیا اور دین و شرع، صلح و خیر اور التماس و اعتذار کے سب دروازے بند کر دئیے اور اپنی ہی قوم کے ایک ایسے شخص کی بات پر کان نہ دھرے جو سب سے زیادہ معزز و موقر تھا، جس کو لوگوں نے دھوکا اور فریب کے ساتھ دور دیار میں بے یار و مددگار چھوڑ دیا تھا۔ یا پھر ایک ایسے شخص کی بات کو لائق التفات نہ جانا جو قابو یافتہ اسیر بے زنجیر کے حکم میں تھا اور رجولیت، مکارم شیم و فضائل اور قدرت کے وقت معاف کر دینے کے بلند اخلاق کا دامن چھوڑ کر نواسۂ رسولﷺ کی موجودہ حالت کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور اپنے ماتھے پر قیامت تک کے لیے حماقت و سفاہت، بے مروتی، رذالت، بے حیائی، شوخ چشمی، بداعتقادی اور جنابِ رسول اللہﷺ کی جناب میں بے ادبی کے ارتکاب کا ٹیکہ لگا لیا اور خود کو اعدائے صحابہ کی اس اخلاقیات کے پلڑے میں جا بٹھایا جہاں بڑوں کی توقیر، چھوٹوں پر شفقت، صالحین کا ادب اور عقائد کے احترام کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔
ابن زیاد کا یہ رسوائے زمانہ فعل بتلاتا ہے کہ اس کا سینہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کینہ سے کس قدر آلودہ تھا اور اس کا دل و دماغ رفض سے کس قدر متاثر تھا۔ مثل مشہور ہے کہ آدمی اپنے ہم جنسوں کے ساتھ ہی نشست و برخاست رکھتا ہے۔ جیسا کہ محاورہ ہے:
کندہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر باز با باز
بھلا جس ماحول میں حضرات صحابہ کرام کی عزت و آبرو پر بٹے مارے جاتے ہوں، وہاں سبطِ رسولﷺ، جگر گوشۂ بتول سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی تعظیم و توقیر کا سوال بھی پیدا ہو سکتا ہے؟ کیا وہاں کسی کو نوجوانانِ جنت کے اس سردار کی قدر و منزلت کا اندازہ ہو سکتا ہے؟ اور بھلا یہ لوگ جناب حسین رضی اللہ عنہ کی تعظیم و تکریم کر بھی کیونکر سکتے تھے جو سید الانبیاء و المرسلین، احمد مصطفی، محمد مجتبیٰﷺ کے دو وزیروں اور مشیروں جناب ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی شان میں ہر وقت گستاخیاں اور دریدہ دہنیاں کرتے ہوں؟
ابن زیاد اور کوفیوں میں کس قدر روحانی تعلق تھا، کوفیوں کو ابن زیاد سے کس قدر قرب تھا، ابن زیاد کے ہاشمی و قریشی نوجوان سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کے حکم دینے میں کوفیوں کا کس قدر ہاتھ تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جرأت کرنے میں ابن زیاد ان کوفیوں کے کس قدر مشابہ تھا، اس کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ ابن زیاد مرجانہ نامی ایک ایرانی مجوسی عورت کا بیٹا تھا جو یزد گرد یا کسی اور ایرانی بادشاہ کی بیٹی تھی۔ (البدایۃ و النہایۃ: جلد، 8 صفحہ 268)
یہیں سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ بالآخر یہ اعدائے صحابہ ابن زیاد کے مادری نسب کے ذکر سے اپنے لب کیوں سیے بیٹھے ہیں اور بس اتنا کہہ لینے پر اکتفار کر لیتے ہیں: ’’ابن زیاد ابن مرجانہ۔‘‘ جو اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ انہیں کوفیوں سے کسی قدر قرب و محبت ہے۔ آج کے کچھ لوگ بھی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے مجوسی قاتل کا نام صرف اسی قدر لیتے ہیں: ’’ابو لؤلؤہ مجوسی‘‘ بلکہ بعض تو ابو لؤلؤہ کو اپنے مقدس اولیاء میں شمار کرتے ہیں۔ جبکہ عین اسی وقت یہ لوگ نبی کریمﷺ کے سسر ابو سفیان رضی اللہ عنہ پر بے حرمتیوں اور بے ادبیوں کے شدید حملے کر کے ان کے پاکیزہ کردار کو بدشکل بنانے اور بگاڑنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ حالانکہ سیدنا ابو سفیان بن حرب بن امیہ رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے قبل بھی قریش کے سردار اور نہایت سربرآوردہ شخص تھے۔ لیکن اس سب کے باوجود انہیں بدترین گالیاں دیتے ہیں جیسے سیدنا ابی سفیان رضی اللہ عنہ قریشی سردار نہ ہوں بلکہ کوئی گئے گزرے عجمی کوفی ہوں؟!!
حالانکہ یہ کوفی اچھی طرح جانتے ہیں کہ جنابِ ابو سفیان رضی اللہ عنہ اس بے داغ کردار کے مالک ہیں، جن کے دامن عفت و امانت پر دورِ جاہلیت میں بھی غدر و خیانت کا ایک چھینٹا تک لگایا نہیں جا سکا اور اسلام تاریخ ہی نہیں بلکہ غیر اسلامی تاریخ کے کسی بھی ماخذ سے ایک شہادت بھی ایسی نہیں ملتی، جو جنابِ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی بلند کرداری پر دھوکا، فریب، مکر اور عیاری کا ایک داغ بھی ثابت کر سکے۔
یہ ہے قاتلانِ حسینؓ شعوبی اہل کوفہ کی تصویر کا ایک رخ جو قتلِ حسین رضی اللہ عنہ کے واقعہ کو شکوک و شبہات اور کذب و زُور کی گرد سے اَٹ دینے کے لیے اپنی ساری طاقتیں خرچ کر رہے ہیں، تاکہ خود کو اور اپنے امیر ابن مرجانہ کو خونِ حسین رضی اللہ عنہ کے جرم کے الزام سے بچا سکیں۔
اگر ابن مرجانہ کی پرورش و تربیت، اس کے کوفی مکاتب فکر سے استفادہ، اس کے مجوسی و ایرانی ماموؤں اور بعض عربی الفاظ کو ایرانی تلفظ میں ادا کرنے کی خو کی (جیسا کہ ابن مرجانہ ’’حروری‘‘ (حروری: حروراء کی طرف نسبت ہے۔ کوفہ کے قریب ایک بستی کا نام جہاں خوارج نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف سب سے پہلا اجتماع کیا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ کرنے پر اتفاق و اتحاد کیا تھا) کو ’’ہروری‘‘ اور ’’حسین‘‘ کو ’’ھسین‘‘ پڑھتا تھا) قرار واقعی معلومات حاصل کی جائیں، تو یہ حقیقت آشکارا ہو گی
کہ جس شخص کا یہ حال ہو وہ کبھی لفظ ’’حسین‘‘ کو ’’حسین‘‘ نہ پڑھے گا بلکہ ہسین ہی پڑھے گا۔ بھلا کہاں نوجوانانِ جنت کا سردار عربی ہاشمی مطلبی قرشی حسین رضی اللہ عنہ، جو نبی کریمﷺ کا نورِ نظر، سیدنا علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما کا لخت جگر، کتاب و سنت کا سچا پیرو، محبوبِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور شہ ابرار و اخیار اور کہاں وہ عجمی ہسین جس کی خدا کو چھوڑ کر قسمیں کھائی جاتی ہیں اور لوگوں کو کتاب و سنت کے عقیدہ اور نبی کریمﷺ کی لائی ہوئی، توحید سے پھیرنے کے لیے جگہ جگہ اس کے نام پر اونچے اونچے مشاہد و مزارات اور قبے اور تعزیے بنائے جاتے ہیں۔
عبیداللہ ابن مرجانہ فارسیہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بدگوئی اور یاوہ گوئی کرتا تھا جب کہ ان کوفیوں کو قریب کرتا اور خود بھی ان کے قریب ہوتا تھا، جو ہر شریف کو بے یار و مددگار چھوڑ دیتے، ہر نیک کے ساتھ جور و جفا کرتے، ہر کریم کو ذلیل کرتے اور ہر امین کو کاذب و خائن قرار دیتے تھے۔ کیا اسلام کے سچے پیروکاروں میں سے کوئی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی آبرؤ وں پر بھی ہاتھ ڈالا کرتا ہے؟!!
ہاں ایسا ابن زیاد جیسا اجڈ اور احمق ہی کر سکتا تھا جس کی حماقت اور اجڈ پن کوفیوں کے اجڈ پنے سے کسی طرح بھی کم نہ تھا۔ بلکہ ان سے بھی دو ہاتھ آگے تھا۔ قتل حسین رضی اللہ عنہ کے ارتکاب کا فعل بتلاتا ہے کہ ابن زیاد کوفہ کے بدبودار اور متعفن معاشرے کا پروردہ تھا، جس کی رگ رگ میں آل بیت رسولﷺ کی بے ادبی و بے لحاظی رچی بسی تھی۔ جس کی شہادت مندرجہ ذیل حوالہ جات دیتے ہیں:
٭ حبیب بن یسار کہتے ہیں: سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو جب شہید کر دیا گیا، تو حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ مسجد کے دروازے کی طرف اٹھے اور فرمایا: کیا تم لوگوں نے یہ کر ڈالا، میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے نبی کریمﷺ کو یہ ارشاد فرماتے سنا ہے: ’’اے اللہ! میں ان دونوں کو (یعنی حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو) اور نیکوں کار مومنوں کو تیری پناہ (اور حفاظت) میں دیتا ہوں۔‘‘ جب ابن زیاد کو بتلایا گیا کہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ تو یہ یہ کہہ رہے ہیں، تو اس (بے ادب و گستاخ نے یاوہ گوئی کرتے ہوئے) یہ کہا: اس بوڑھے کی عقل ماری گئی ہے۔ (المعجم الکبیر، رقم الحدیث: 5307) کیا کتاب و سنت پر ایمان رکھنے والا کوئی مومن کسی بھی صحابیٔ رسولﷺ کے بارے میں ایسی دریدہ دہنی کی جسارت کا سوچ بھی سکتا ہے؟ لیکن امیر کوفہ ابن مرجانہ فارسیہ نے یہ کیا اور ذرا پروا نہ کی۔ ابن زیاد شاتمین صحابہ کی اسی لڑی کا ایک دانہ ہے، جو آج تک یہ فعل بد حب آل بیت رسولﷺ کی آڑ میں کرتے چلے آ رہے ہیں۔
٭ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ابن مرجانہ فارسیہ کے سامنے سبط رسول سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا سرمبارک لایا گیا تو وہ ناہنجار اپنے ہاتھ میں پکڑی چھڑی کو سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے چہرۂ مبارک پر مارنے لگا۔ چنانچہ کبھی آنکھ پر تو کبھی ناک پر چھڑی مارتا۔ یہ منظر دیکھ کر سیّدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’چھڑی ہٹا لو کہ میں نے نبی کریمﷺ کے منہ مبارک کو اسی جگہ پر دیکھا ہے۔‘‘ (المعجم الکبیر، رقم الحدیث:5107) (یعنی آپﷺ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی آنکھوں اور لبوں پر پیار کیا کرتے تھے)۔
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب ابن زیاد کے سامنے سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا سر لایا گیا، تو وہ ہاتھ میں پکڑی چھڑی کو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے چہرے پر مارنے لگا اور یہ کہتا جا رہا تھا: ان کے دانت بے حد خوبصورت ہیں۔ اس پر میں نے کہا: ’’اللہ کی قسم! تیری اس حرکت سے مجھے بے حد تکلیف پہنچی ہے، میں نے نبی کریمﷺ کو اپنے منہ سے اسی جگہ بوسہ دیتے دیکھا ہے، جہاں تم اپنی چھڑی مار رہے ہو۔‘‘ (المعجم الکبیر، رقم الحدیث: 2878)
یہ دونوں روایات اس بات کی تائید کرتی ہیں کہ ’’قاتلانِ حسین رضی اللہ عنہ ‘‘ کوفہ کے بدباطن شاتم صحابہ سبائی رافضی اور ان کے ہم نوا لوگ تھے، جن کی پرورش ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور آل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کینہ پر ہوئی تھی۔
جعفر بن محمد بن علی اپنے والد سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو جب شہید کیا گیا، تو عمر مبارک اٹھاون برس تھی۔ (المعجم الکبیر، رقم الحدیث: 2810، 2804، 2783 ایک روایت چھپن برس کی بھی ہے۔ (دیکھیں: المعجم الکبیر، رقم الحدیث: 2842))
ابن ابی شیبہ کہتے ہیں: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما اٹھاون برس کی عمر میں دس محرم 61 ہجری کو شہید ہوئے۔ اس وقت آپؓ نے کتم (کتم: ایک پودا جس کے بیج سے قدیم زمانہ میں روشنائی بنائی جاتی تھی اور بالوں کو خضاب کیا جاتا تھا۔ (القاموس الوحید: 1387)۔ (نسیم)) اور مہندی سے خضاب کیا ہوا تھا۔ (المعجم الکبیر، رقم الحدیث: 2783، 2803، 2804، 2810 مصنف ابن ابی شیبۃ: 33829)
اور ایک روایت میں ہے: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما نبی کریمﷺ کے سب سے زیادہ مشابہ تھے اور آپؓ نے وسمہ سے بالوں (اور داڑھی) کو خضاب لگایا ہوا تھا۔ (صحیح البخاری: 3465 اَلْوَسْمَۃُ: یہ ایک قسم کا پودا ہے، جس سے بالوں کو خضاب لگایا جاتا ہے۔ اس کے خضاب کا رنگ سیاہی مائل ہوتا ہے۔ اَلْوَسْمَۃُ: نیل کا پودا جس کے پتوں سے بالوں کو خضاب کیا جاتا ہے۔ (القاموس الوحید صفحہ 1851))
یعنی سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد آپ نبی کریمﷺ کے سب سے زیادہ مشابہ تھے۔
٭ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ لکھتے ہیں: شہید سعید جناب حسین رضی اللہ عنہ میدانِ کربلا میں سرخروئے شہادت ہوئے۔ آپ نے اپنے ناناﷺ سے احادیث کو یاد کیا اور آپﷺ سے اور اپنے والدین رضی اللہ عنہما اور ماموں حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا۔ 5 شعبان 4 ہجری کو پیدا ہوئے۔ اس حساب سے بوقت شہادت عمر مبارک چھپن سال، پانچ ماہ اور پانچ دن تھی۔ یومِ شہادت یوم عاشوراء تھا اور بعض نے ہفتہ کا دن بھی کہا ہے (تاریخ الاسلام للذہبی: جلد، 8 صفحہ 83) (یعنی دس محرم 61 ہجری بروز ہفتہ چھپن سال، پانچ ماہ پانچ دن کی عمر پا کر شہید ہو گئے)۔
٭ لیث بن سعد کہتے ہیں: سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے 4 رجب کو وفات پائی۔ یزید 60 ہجری میں خلیفہ بنا اور 61 ہجری 10 محرم الحرام عاشورا کے دن سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو شہید کر دیا گیا۔