Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

آل بیت اطہار کی شہادت کا صدمہ

  حامد محمد خلیفہ عمان

ان حضرات کی شہادت کا صدمہ ایسا نہ تھا جو دو چار دن تک آنسو بہا کر اور آہیں اور سسکیاں بھر کر فراموش کر دیا جاتا اور اسے طاقِ نسیان پر رکھ کر قصۂ پارینہ بنا دیا جاتا اور نہ گردشِ لیل و نہار اس مصیبت عظمیٰ کے آثار مٹا سکتی ہے۔ حادثۂ کربلا نے امت مسلمہ کے دلوں کو رِستا زخم بنا دیا۔

اس حادثہ عظمیٰ کا دوسرا الم ناک پہلو یہ ہے کہ آل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے خونوں نے قیامت تک کے لیے ہر باغی و طاغی اور سرکش و متمرد کو کتاب و سنت کے سچے پیروکاروں کی جان لے لینے پر جری بنا دیا۔ بھلا جس طبقہ نے آل بیت رسولﷺ کے خون ناحق سے گریز نہ کیا، کیا وہ ان کے بعد کسی اور کو بخشے گا؟!! ایں خیال است و محال است و جنوں ! بلکہ ان کے نزدیک جنابِ حسین بن علی رضی اللہ عنہما اور آل بیت رسولﷺ کا خون بہا دینے کے بعد امت مسلمہ کے اسلاف و اکابر اور ابرار و اخیار کا خون کر دینا زیادہ معمولی اور بے وقعت ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ سبط رسولﷺ، جگر گوشۂ بتول رضی اللہ عنہا اور محبوب صحابہ رضی اللہ عنہم سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا خون کرنے سے ان اعدائے صحابہ کا بنیادی مقصد امت مسلمہ کے دلوں میں گہرا زخم لگانا تھا اور بالخصوص عربوں کی پیٹھ پر زہریلا وار کرنا تھا۔ کیونکہ اس مکروہ ترین سازش کے تانے بانے ایرانی مجوسی سبائیوں کے ہاتھ میں جو تھے، جن کو خلافت فاروقی سے ہی عظیم کسریٰ کے تخت کا تختہ ہو جانے کا بے حد صدمہ تھا اور صدیوں پرانی خسرویت کے پیوند خاک ہو جانے کا رنج ان کے دلوں سے نکل نہیں رہا تھا، جس نے ساری انسانیت سے اس کی آزادی چھین کر انہیں بے دام غلام بنا رکھا تھا۔ جبکہ اسلام نے آ کر ان مجبور و مقہور بندوں کو بندوں کی غلامی سے نجات دلائی اور انہیں نجات و سعادت اور ہلاکت و شقاوت میں سے کسی ایک کو چن لینے کا آزادانہ اور خود مختارانہ اختیار دیا تھا۔

غرض مجوسی رافضیت کے لگائے، اس اتھاہ گہرے زخم کے امت مسلمہ کی وحدت پر آج تک اثرات باقی ہیں اور مصیبت بالائے مصیبت یہ ہے کہ امت مسلمہ کے بے شمار لوگ یہ تک نہیں جانتے کہ ان بزرگوں پر یہ ستم کس طبقہ نے ڈھایا ہے اور مزید ستم یہ ہے کہ وہی قاتل طبقہ اس حادثۂ فاجعہ اور مصیبت عظمیٰ کا ناجائز استعمال بھی کر رہا ہے اور بے شمار مشرکانہ اور مجوسیانہ رسوم کو آل بیت اطہار سے غم کے اظہار کے نام پر امت مسلمہ میں یوں گھسا دیا ہے کہ آج ان رسموں کو کتاب و سنت کی سچی اور کھری تعلیمات سے علیحدہ کرنا نہایت کٹھن کام بن چکا ہے۔

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو بھی مقتل تک لے جانے کے لیے ایسا تیرہ و تاریک جال بچھایا گیا تھا اور ویسا ہی سازشانہ ماحول پیدا کیا گیا، جیسا کہ تیسرے خلیفۂ راشد سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو شہادت کے در تک لے جانے کے لیے پیدا کیا گیا تھا۔ چنانچہ یہ بڑے پیچیدہ حالات، باطل و بے حقیقت اور جعلی اسباب، اوہام و ملمع سازی اور حقائق کی پردہ پوشی کے گہرے پردے تھے، جن کو جھوٹے وعدوں، مصنوعی واقعات و محرکات اور موضوع روایات نے اپنی اوٹ میں لے رکھا تھا، جنہوں نے قدم قدم پر جرم کے نشانات مٹانے اور حقیقت کو مسخ کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا اور اس فتنہ کو وسیع تر پیمانے پر پھیلانے کے جملہ وسائل مہیا کیے۔

چنانچہ فتنوں کی ترویج و اشاعت کا یہ سلسلہ شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے بعد اور زور پکڑ گیا اور ان رافضیوں نے کتاب و سنت کے خلاف جنگ بھڑکانے اور کمزور عقیدہ رکھنے والی ہر اقلیم میں، بدعت اور بغض صحابہ کو عام کرنے کے لیے حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے سر مبارک کی جائے، تدفین کی بابت بے شمار روایات اور افسانے تراش تراش کر ان کو اہل سنت تک کی کتابوں میں داخل کر دیا۔ چنانچہ مصر، شام، عراق اور حجاز کی بابت روایات کی کثرت ہے کہ سر حسین رضی اللہ عنہ وہاں دفن ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ روایات کی اس قدر کثرت کے باوجود ایک محقق کسی حتمی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتا کہ بالآخر سر حسین رضی اللہ عنہ کا مدفن کہاں ہے؟

سبائی رافضیوں کی اس تشویش سازی اور ایہام انگیزی کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے، تاکہ امت مسلمہ کو اصل مجرموں اور قاتلوں کا قرار واقعی علم نہ ہو سکے اور وہ کتاب و سنت کی تعلیمات سے دُور ہوتے ہوتے نام نہاد بدعتوں اور رسموں کو دین سمجھ کر ان میں مکڑی کے جالے میں پھنسنے والی مکھی کی طرح اور پھنستے چلے جائیں۔

چنانچہ جب ابو نعیم نے فضل بن دکین سے قبر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے بے پناہ وسیع علم ہونے اور ایسے حوادث و واقعات کی گہری معلومات رکھنے کے باوجود لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نہیں جانتا۔ (تایخ الاسلام للذہبی: جلد، 2 صفحہ 83 المعجم الکبیر: رقم الحدیث 2803) گویا علوم و معارف کے ان پہاڑوں کے نزدیک ایسے امور کی معلومات رکھنا یا ان کی تعیین و تحقیق کے درپے ہونا کچھ ضروری نہیں تھا، کیونکہ عقیدہ و عمل میں کسی بات کا بھی ان معلومات پر انحصار نہیں۔

سیدنا مصعب بن زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے بھی جب عبدالملک بن مروان کے خلاف خروج کیا، تو ان کوفیوں نے بھرپور ساتھ دینے کا وعدہ کیا، لیکن عین اس وقت جب کوفہ کے قریب مقامِ دیر جا ثلیق پر آپ کا ابن مروان سے سامنا ہوا، تو یہ کوفی حسبِ عادت آپ کا ساتھ چھوڑ کر تتر بتر ہو گئے اور آپ کی ہر بات ماننے سے صاف انکار کر دیا، اس پر آپ نے خود کو موت کے لیے تیار کر لیا اور خود سے ہم کلام ہوتے ہوئے کہنے لگے: ’’میرے لیے حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی ذات میں بہترین نمونہ تھا‘‘ اور خود کو تسلی دیتے ہوئے یہ شعر پڑھا:

و ان الاولی بالطف من آل ہاشم

تأسوا فسنوا للکرام التأسیا

’’مقام طف (طف: وہ جگہ جہاں سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو شہید کیا گیا، یہ فرات کا خشک ساحلی علاقہ ہے۔ (دیکھیں: النہایۃ فی غریب الاثر: جلد، 3 صفحہ 389)) پر آل بنی ہاشم اس سے قبل بعد میں آنے والے شریفوں کے لیے ایک نمونہ چھوڑ گئے ہیں۔‘‘

پھر حضرت مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’اللہ بھلا کرے ابو بحر (یعنی احنف بن قیس) کا، جنہوں نے مجھے عراقیوں کی غدارانہ خوئے بد سے ڈرایا تھا۔ گویا وہ اس وقت بھی اس صورتِ حال کو دیکھ رہے تھی جس میں میں اب ہوں۔‘‘

ایک روایت میں آتا ہے کہ جب غدار عراقیوں نے حضرت مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ کو دھوکہ سے چھوڑ دیا تو ان کے بیٹے عیسیٰ نے کہا: ’’آپ کسی مضبوط قلعہ کی پناہ لے کر اپنے پیچھے مہلب بن ابی صفرہ وغیرہ سے خط و کتابت کیوں نہیں کرتے؟ تاکہ وہ فوج لے کر آپ کی مدد کو پہنچیں کہ ابھی آپ کی صورتِ حال بے حد کمزور ہے۔ سیدنا مصعب رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو اس بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ پھر انہوں نے سیدنا حسین، ان کے بھائی سیدنا حسن اور ان کے والد ماجد امیر المومنین سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم کے ساتھ ہونے والے واقعات اور ان کے ساتھ کوفیوں کے غدارانہ رویوں کی پوری داستان اپنے بیٹے کو سنائی کہ کیسے حضرت حسین رضی اللہ عنہ بے یار و مددگار قتل کر دئیے گئے اور کسی نے ان کا ساتھ نہ دیا، پھر فرمایا: ’’ان کوفیوں نے ہمارے ساتھ بھی وفا نہیں کی۔‘‘

اس کے بعد کوفی سیدنا مصعب بن زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کا ساتھ چھوڑ گئے اور غدر و خیانت کرتے ہوئے عبدالملک بن مروان سے جا ملے، (البدایۃ و النہایۃ: جلد، 8 صفحہ 315) جبکہ ان کے ساتھ معدودے چند وفادار رہ گئے اور بالآخر حضرت مصعب بن زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ شہید کر دئیے گئے۔ اس دن ان غارت گر عراقیوں کے زیادہ معاون غیر مسلم تھے۔ یہ امر اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ آج جو لوگ بھی ان کوفیوں، سبائیوں اور رافضیوں کے دفاع میں لگے ہیں، شبہ ہے کہ یہ لوگ دراصل امت مسلمہ کی تفریق و تمزیق کے فریضہ کو سرانجام دینے میں لگے ہیں۔

سیدنا مصعب بن زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی شہادت پر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا مرثیہ کہتے ہوئے سلیمان بن قتّہ کہتا ہے:

و ان قتیل الطف من آل ہاشم

ذل رقابا من قریش فذلت

فان یتبعوہ عائذ البیت یصبحوا

کعاد نعمت عن ہداہا فضلت

(تاریخ الاسلام للذہبی: جلد، 2 صفحہ 83 المعجم الکبیر للطبرانی: رقم الحدیث 2803

’’ان کوفیوں نے طف کے دن آل ہاشم کے اس نوجوان کو مار ڈالا جس کے آگے قریش کی گردنیں جھکی رہتی تھیں اور اگر اب ان لوگوں نے ’’عائذ البیت‘‘ کو بھی قتیل طف کے پیچھے بھیج دیا تو یہ قومِ عاد کی طرح بن جائیں گے جو ہدایت سے اندھے اور بے راہ تھے۔‘‘

قتیل طف سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما ہیں۔ طف یہ کربلا کی وہ سرزمین ہے جہاں حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو شہید کیا گیا تھا۔

عائذ البیت سے مراد حضرت عبداللہ بن زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما ہیں، جنہوں نے بیت اللہ کی پناہ پکڑی تھی جس سے ان کا لقب عائذ البیت پڑ گیا (یعنی بیت اللہ کی پناہ لینے والا)۔ مقصد یہ ہے کہ جب انہوں نے سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو قتل کر دینے کے بعد سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما کو بھی شہید کر ڈالا، حالانکہ وہ اس وقت بیت اللہ کے حرم میں مقیم تھے، تو آئندہ کی صورت حال اس سے بھی بدتر اور سنگین تر ہو گی۔ کیونکہ ایسے افعال نہایت گمراہانہ اور راہ ہدایت سے بے حد دور ہیں، جن کا ہدف امت مسلمہ کے مسلمہ قائدین کی جانوں سے کھیلنا ہے۔