Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا قاتل کون ہے؟ اور قتل حسین رضی اللہ عنہ سے حاصل ہونے والی عبرتیں

  حامد محمد خلیفہ عمان

گزشتہ سب واقعات کو پڑھنے کے بعد ریحانۂ رسول، جگر گوشۂ بتول حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے محبت اور آپ پر غیرت کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ سچی حقیقت کو طشت ازبام کرنے، خود ساختہ اور جعلی رسوم و روایات کو گھڑ کر مسلمانوں کے امور دینیہ کے ساتھ تدلیس و تلبیس کرنے والوں کو بے نقاب کرنے کے لیے سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے حقیقی قاتل کو برسر بازار فضیحت و رسوا کیا جائے اور بتلایا جائے کہ اس گناہ کے حقیقی مرتکبین کون لوگ ہیں۔ کیونکہ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی الم ناک شہادت کا المیہ اس وقت اور بھی زیادہ اندوہ ناک صورت اختیار کر جاتا ہے، جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی اخبار و روایات بغیر ملاح کے کشتی کی طرح بس بہے چلی جا رہی ہیں، جن میں تحقیق و تصحیح اور اثبات و اسناد کا نام و نشان تک نہیں ملتا، جن کو گھڑنے کا سلسلہ قتل حسین رضی اللہ عنہ کے معاً بعد ہی سے شروع کر دیا گیا تھا، جو آج تک جاری ہے۔

بے شک سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا خون امت مسلمہ کے نزدیک بے حد قیمتی، عزیز، محبوب اور مہنگا ہے، لیکن افسوس کہ پھر بھی حرمت والا یہ خون بہا دیا گیا۔ کیا یہ سوال اٹھایا جانا ازحد ضروری نہیں کہ آخر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کس نے قتل کیا؟ اس کھلے گناہ پر کون کون راضی تھا؟ امت مسلمہ کے بلند ترین پرچموں میں سے علم ہدایت کے اس پرچم کو کیوں گرا دیا گیا؟ بیت رشد و ہدایت کے اس چراغ کو اور آفتاب نبوت کی اس روشن کرن کو کیونکر بجھا دیا گیا؟ یہ جسارت بالآخر کی کس نے؟ کس کے دل میں عرش و فرش کو لرزا دینے والا یہ خیال آیا؟ اور آپ کو دن دیہاڑے ان ہزاروں لوگوں کو جم غفیر اور انبوہِ کثیر میں دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کے ساتھ بقائمی ہوش و حواس شہید کر دیا گیا، جن کو اللہ، رسول اور آل بیت رسولﷺ سے بے پناہ محبت و عقیدت کا اور کتاب و سنت سے پختہ تمسک کا دعویٰ تھا اور وہ نام نہاد محبین و متبعین آپ کی مدد و نصرت کے مدعی بھی تھے؟

کتاب و سنت اور دین و عقیدہ کو منہدم کر دینے والا یہ منہج آج تک جاری و ساری ہے، جس کے نزدیک آل بیت رسول کی کوئی قدر و قیمت نہیں اور دوسروں کی کوئی قدر و اہمیت تو ہو ہی نہیں سکتی۔ اس منہج کا ایک ہی ہدف ہے، اور وہ ہے رہتی دنیا تک شقاق و نفاق کی روح کو تازہ دم رکھنا اور فتنوں کی ثقافت کو روحانی غذا مہیا کر کے پالنا پوسنا اور اس کی سب سے بڑی دلیل ان کا قبر حسینؓ میں اختلاف کرنا ہے۔ بیمار دل و دماغ کے یہ لوگ اس بات کا شور تو بہت زیادہ ڈالتے ہیں کہ فلاں فلاں جگہ سر حسین رضی اللہ عنہ کا یا لاشۂ حسین رضی اللہ عنہ کا مدفن ہے اور اس کی بابت غم و الم کی دل فگار داستانیں سنا سنا کر لوگوں کے احساسات و جذبات میں زبردست انگیخت پیدا کرتے ہیں، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان خود تراشیدہ افسانوں کی آڑ میں امت کے دلوں کو حزن و ملال کی آگ میں جلا کر خاکستر کر دیا جائے۔

لیکن نہایت افسوس کی بات ہے کہ غم و اندوہ کی ان داستانوں سے مقصود جناب حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے محبت و عقیدت کا اظہار نہیں ہوتا، بلکہ ان آبرو باختہ اور مکارم اخلاق سے گرے فرضی واقعات کو سنا کر جناب حسین رضی اللہ عنہ کی پاکیزہ اور ایمان و اخلاق سے تعبیر بے مثل حیاتِ مبارکہ کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا اور آں جناب رضی اللہ عنہ کی حرمت و کرامت کو مرنے کے بعد اسی طرح پامال کرنے کی ناپاک کوشش کرنا ہوتی ہے، جس طرح آپ کو آپ کی زندگی میں جور و جفا کا نشانہ بنا کر قتل کر کے بے آبرو کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ پھر ان لوگوں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہی کو امت مسلمہ اور بالخصوص عربوں کو اور اس سے بھی بڑھ کر صحابہ کو سب و شتم کرنے کا قوی ذریعہ بنا لیا۔ غرض ان لوگوں کے سامنے بنیادی مقصد اجڈ، گنوار، جاہل اور احمق لوگوں کے دل و دماغ میں اپنے باطل عقائد کو جاگزیں کرنا اور ان کے جذبات کو برانگیختہ کر کے دو مقاصد حاصل کرنا تھا:

1۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی تعظیم و تکریم کی آڑ میں زیادہ سے زیادہ مال بٹورنا۔

2۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے روضہ کی مجاوری اور خدمت کی آڑ میں لوگوں کی جذباتی ہمدردیاں حاصل کرنا۔ وگرنہ ان لوگوں کو اس بات کی سرے سے کوئی پروا نہیں کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ عراق میں دفن ہوں یا مصر میں یا مغرب میں۔

اس موقعہ پر کوئی یہ کہنے میں عجلت سے کام نہ لے کہ قاتلانِ حسین رضی اللہ عنہ ظاہر اور جانے پہچانے ہیں، تحقیق و تدقیق سے کام لینے والا ہر آدمی دیکھے گا کہ یہ بات واقعات کے ظاہر پر مبنی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا تعلق بلا واسطہ طور پر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے واقعہ سے ہے۔ جن ندیدہ ہاتھوں نے سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کی سازش تیار کی تھی، انہی ہاتھوں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو رفتہ رفتہ میدان کربلا میں لا کھڑا کیا تھا۔ پھر انتہائی تیرہ و تاریک حالات میں جناب حسین رضی اللہ عنہ کو مقتل پر پیش کر دیا گیا اور یہ سب کچھ مدد کے نام پر کیا گیا۔

تو پھر بالآخر اس ساری سازش کے تانے بانے کس نے بنے؟

وہ ندیدہ ہاتھ کس کا تھا؟

زبانِ زد خلائق چرچے کرتے وہ خطوط کس نے لکھے؟

کس نے قتل حسین رضی اللہ عنہ کو سہل و مزین کر کے پیش کیا؟

اس جرم کو عملی جامہ کس نے پہنایا؟

ان سب سوالات کے ایسے شافی جوابات ناگزیر ہیں، جو واقعات کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیں اور ان سے ایسے قیمتی سبق حاصل کیے جائیں، جوامت مسلمہ کو از سر نو وحدت و اخوت اور محبت و مودت کی طرف موڑ دیں۔ اس سے قبل کہ ہم بات کو آگے بڑھائیں قاتلانِ حسین رضی اللہ عنہ کی بابت چند شیعی روایات بھی پڑھ لیتے ہیں، جن کی روشنی میں ہمیں آئندہ کے مباحث کو زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کرنا ممکن ہو جائے گا۔