Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

قاتل حسین شیعی مصادر و مآخذ کی روشنی میں

  حامد محمد خلیفہ عمان

ابن طاؤ وس لکھتا ہے:

’’محمد بن علی بن ابی طالب المعروف بہ ابن حنفیہ نے اپنے بھائی حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کو نصیحت کرتے ہوئے یہ کہا: ’’اے میرے بھائی! اہل کوفہ نے آپ کے والد اور آپ کے بھائی کے ساتھ جو غداری کی وہ تو آپ جانتے ہی ہیں، مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ کا حال بھی پہلوں جیسا نہ ہو۔‘‘ (اللہوف لابن طاؤوس: صفحہ 39 عاشوراء للاحسائی: صفحہ 115 المجالس الفاخرۃ لعبد الحسین: صفحہ 75 منتہی الآمال: جلد، 1 صفحہ 454 علی خطی الحسین: صفحہ 96)

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے جب مشہور شاعر فرزدق سے اپنے ان شیعہ کے بارے میں پوچھا جو آپ کو کوفہ آنے کی دعوت دے رہے تھے، تو فرزدق نے جواب میں یہ کہا:

’’ان کے دل تو آپ کے ساتھ ہیں، مگر ان کی تلواریں آپ کے خلاف ہیں، حکم آسمان سے اترتا ہے اور ہوتا وہی ہے جو اللہ چاہتا ہے۔‘‘

اس پر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’تم نے سچ کہا، سارا امر اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اور اس کی ہر روز ایک شان ہے۔ پس اگر تو قضا ہماری مرضی کے موافق اتری تو الحمد للہ اور رب کی نعمتوں پر اس کا شکر اور شکر کے ادا کرنے میں بھی اسی کی مدد درکار ہے اور اگر قضا ہماری امیدوں کی راہ میں حائل ہو گئی تو جس کی نیت حق ہے اور اس کا باطن پرہیز گار ہے، وہ ضائع نہ ہو گا۔‘‘ (المجالس الفاخرۃ: صفحہ 79 علی خطی الحسین: صفحہ 100 لواعج الاشجان للامین: صفحہ 60 معالم المدرستین: جلد، 3 صفحہ 62)

اپنے ایک خطاب میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہما اہل کوفہ کو ان کا وہ سابقہ رویہ یاد دلاتے ہیں، جو انہوں نے آپ کے والد ماجد اور بڑے بھائی کے ساتھ روا رکھا تھا، چنانچہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’اور اگر تم لوگوں نے ایسا نہ کیا اور میرے ساتھ کیا اپنا عہد توڑ ڈالا اور میری بیعت توڑ دی، تو میری عمر کی قسم! یہ تمہارے لیے کوئی انوکھا کام نہیں۔ ایسا تم میرے والد، میرے بھائی اور چچا زاد مسلم بن عقیلؓ کے ساتھ بھی کر چکے ہو۔ دھوکہ کھانے والا وہی ہے جس نے تم لوگوں پر اعتبار کیا ہے۔‘‘ (معالم المدرستین: جلد، 3 صفحہ 71-72 معالی السبطین: جلد، 1 صفحہ 275 بحر العلوم: صفحہ 194 نفس المہموم: صفحہ 172)

شیعی روایات خود بتلاتی ہیں کہ جناب حسین رضی اللہ عنہ کو ان لوگوں کے خطوط پر شک تھا چنانچہ مقرم لکھتا ہے، سیدنا حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’ان لوگوں (یعنی اہل کوفہ) نے مجھے ڈرایا، یہ رہے ان کوفیوں کے خطوط، یہی میرے قاتل ہیں۔‘‘ (مقتل الحسین للمقرم: صفحہ 175)

ایک اور موقعہ پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے قاتلوں کو واضح کرتے ہوئے، جو کہا، صاحب ’’منتہی الآمال‘‘ عباس قمی لکھتا ہے:

’’اے اللہ ہمارے اور اس قوم کے درمیان فیصلہ فرما، جنہوں نے ہمیں ہماری مدد کرنے کے لیے بلایا، پھر ہمیں قتل کر ڈالا۔‘‘ (منتہی الآمال: جلد، 1 صفحہ 535)

یہی اصل حقیقت ہے کہ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے قاتل خود ان کو بلوانے والے ہیں، جنہوں نے آپ کو اس لیے آنے کی دعوت دی، تاکہ آپ کی مدد کریں لیکن بعد میں آپ کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لیے۔

حسین کورانی لکھتا ہے:

’’اہل کوفہ نے امام حسین (رضی اللہ عنہ) سے صرف متفرق ہونے پر ہی اکتفا نہ کیا تھا، بلکہ اپنے ہر لمحہ بدلتے موقف کے نتیجہ میں ایک تیسرے موقف کی طرف منتقل ہو گئے۔ وہ یہ کہ اہل کوفہ امام حسین (رضی اللہ عنہ) سے قتال کرنے کے لیے میدان کربلا کی طرف تیزی سے لپکے اور اس امر میں عجلت کرنے لگے، جو شیطان کی رضا اور رب رحمن کی ناراضی کا سبب تھا۔ مثلاً عمرو بن حجاج کو ہی دیکھ لیجیے، جو کل تک کوفہ میں اہل بیت کا سب سے بڑا طرف دار اور حمایتی تھا اور وہ ہانی بن عروہ کو چھڑوانے کے لیے ایک عظیم لشکر لے کر کوفہ پہنچا تھا۔ لیکن آج اسی ابن حجاج کا حال یہ تھا کہ وہ امام حسین (رضی اللہ عنہ) پر بے، دین ہونے کی تہمت لگا رہا تھا۔ چنانچہ وہ اپنے لشکر سے خطاب کر کے کہتا ہے: ’’اس شخص سے قتال کرو جو دین سے نکل گیا ہے اور اس نے جماعت کو چھوڑ دیا ہے۔‘‘ (فی رحاب کربلا: صفحہ 60-61)

حسین کورانی یہ بھی لکھتا ہے:

’’ایک اور موقف بھی یہ بتلاتا ہے کہ اہل کوفہ منافق تھے۔ وہ یہ کہ عبداللہ بن حوزہ تمیمی امام حسین علیہ السلام کے سامنے آ کر کھڑا ہوتا ہے اور پکار کر کہتا ہے: ’’کیا تم میں حسین ہیں؟ یہ تمیمی کوفی تھا اور کل تک امام حسین علیہ السلام کے شیعہ میں شمار کیا جاتا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بھی انہی لوگوں میں سے ہو، جنہوں نے امام حسین کو خط لکھے تھے یا شبث کی جماعت میں سے ہو، جس نے پہلے تو خط لکھا، پھر یہ کہا: ’’اے حسین! تمہیں آتش جہنم کی بشارت ہو۔‘‘ (فی رحاب کربلا: صفحہ 61)

مرتضی مطہری پہلے خود یہ سوال اٹھاتا ہے کہ اہل کوفہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے محبت و تعلق اور شفقت و عنایت رکھنے کے باوجود ان سے قتال کرنے کیونکر نکلے؟ پھر خود ہی جواب دیتے ہوئے کہتا ہے:

’’اس کا جواب یہ ہے کہ اہل کوفہ پر زیاد اور معاویہ (رضی اللہ عنہ) کے ادوار سے ایک عمومی خوف اور رعب چھایا ہوا تھا، جو عبیداللہ بن زیاد کے کوفہ آنے کے بعد بے حد زیادہ ہو گیا۔ کیونکہ عبیداللہ نے آتے ہی میثم التمار، رشید، مسلم بن عقیلؓ اور ہانی بن عروہ کو قتل کر ڈالا تھا۔ کوفیوں کے اقدام قتل کی دوسری بنیادی وجہ مال و ثروت اور عہدہ و منصب کی اندھی حرص تھی۔ جیسا کہ یہی حال عمر بن سعد کا تھا۔ کوفہ کے سرداروں اور سربر آوردہ لوگوں کو عبیداللہ نے ڈرا دھمکا کر رام کر لیا ہوا تھا اور پہلے دن سے ہی ان پر مال و دولت کو نچھاور کیے رکھا، جس سے اہل کوفہ کی حرص و طمع کو قرار مل گیا ہوا تھا۔ چنانچہ ابن زیاد نے پہلے دن ہی ان سب کو جمع کر کے ان میں یہ اعلان کر دیا تھا کہ جس کا بھی اہل معارضہ سے تعلق ثابت ہو گیا اس کا وظیفہ بند کر دیا جائے گا۔ اسی بنا پر عامر بن مجمع عبیدی یا مجمع بن عامر عبیدی یہ کہتا ہے: ’’کوفہ کے سرداروں کو اس قدر رشوت ملی کہ ان کا جی بھر گیا۔‘‘ (الملحمۃ الحسینیۃ: جلد، 3 صفحہ 47-48)

مشہور شیعہ مصنف کاظم احسائی نجفی لکھتا ہے:

’’امام حسین علیہ السلام سے قتال کرنے جو لشکر نکلا تھا اس کی تعداد تین لاکھ تھی اور یہ سب کے سب کوفی تھے، ان میں کوئی شامی، حجازی، ہندوستانی، پاکستانی سوڈانی، مصری یا افریقی فرد نہ تھا۔ بلکہ یہ سب کے سب کوفی تھے جو مختلف قبائل سے اکٹھے ہو گئے تھے۔‘‘ (عاشورا: صفحہ 89)

شیعہ مورخ حسین بن احمد البراقی نجفی لکھتا ہے:

’’ قزوینی کہتا ہے: کوفیوں کا بڑا جرم یہ ہے کہ انہوں نے حسن بن علی رحمہم اللہ کو کدال کا وار کر کے زخمی کیا، جبکہ حسین بن علی رحمہم اللہ کو بلانے کے بعد قتل کر ڈالا۔‘‘ (تاریخ الکوفۃ: صفحہ 113)

شیعہ علوم و تواریخ کے مرجع المعروف بہ ’’آیۃ اللہ العظمی‘‘ محسن الامین لکھتا ہے:

’’پھر بیس ہزار ان عراقیوں نے حسین (رضی اللہ عنہ) کی بیعت کی جنہوں نے بعد میں غداری کر کے یہ بیعت توڑ ڈالی اور خود حسین (رضی اللہ عنہ) کے خلاف خروج کیا، حالانکہ حسین کی بیعت ان کی گردنوں میں تھی اور آخر میں انہوں نے حسین (رضی اللہ عنہ) کو قتل کر دیا۔‘‘ (اعیان الشیعۃ: جلد، 1 صفحہ 36)

جواد محدثی لکھتا ہے:

’’یہ جملہ اسباب اس بات کا پتا دیتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے ان عراقیوں سے دو دفعہ سخت تکلیف اٹھائی، امام حسن علیہ السلام نے ان سے غداری کا تجربہ کیا، انہی عراقیوں کے درمیان مسلم بن عقیلؓ مظلوم مارے گئے اور کوفہ کے قریب واقع کربلا کے میدان میں کوفی لشکر کے ہاتھوں امام حسین علیہ السلام کو پیاسا قتل کر دیا گیا۔‘‘ (موسوعۃ عاشوراء: صفحہ 59)

شیعہ مشائخ جیسے ابو منصور طبرسی، ابن طاؤس اور محسن الامین وغیرہ نے امام علی بن حسین بن علی بن ابی طالب المعروف بہ ’’امام زین العابدین‘‘ سے اور وہ اپنے آباء سے نقل کرتے ہیں کہ زین العابدین رحمۃ اللہ اپنے ان شیعہ کو، جنہوں نے ان کے والد ماجد جناب حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا تھا اور بعد میں قتل بھی کر دیا تھا، ڈانٹتے ہوئے کہتے ہیں:

’’اے لوگو! میں تم سے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا واقعہ یہ نہیں کہ تم لوگوں نے پہلے میرے والد کو خطوط لکھے اور بعد میں انہیں دھوکہ دیا، تم لوگوں نے پہلے ان کو عہد و میثاق دیا اور ان کی بیعت کی لیکن بعد میں ان سے قتال کیا اور انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ تمہارے لیے ہلاکت ہو، ان اعمال سے جو تم لوگوں نے اپنے واسطے آخرت میں بھیج دئیے ہیں۔ تمہاری رائے کا برا ہو۔ روزِ قیامت تم لوگ کس طرح نبی کریمﷺ سے آنکھیں ملا سکو گے، جب وہ تم سے یہ فرمائیں گے: ’’تم لوگوں نے میری عترت کو قتل کر ڈالا، میری حرمت کو توڑا، پس تم میرے امتی نہیں ہو۔‘‘ یہ سننا تھا کہ ہر طرف سے عورتوں کے رونے کی آوازیں بلند ہونے لگیں اور وہ ایک دوسرے کو ملامت کرتے ہوئے کہنے لگے: تم لوگ ہلاکت میں جا پڑے اور تمہیں اس کی خبر بھی نہیں۔‘‘ پھر امام زین العابدین رحمۃ اللہ نے فرمایا: ’’اللہ اس شخص پر رحم فرمائے، جس نے میری نصیحت کو قبول کیا اور اللہ، اس کے رسول اور اس کے اہل بیت کے بارے میں میری وصیت کو یاد رکھا۔ بے شک رسول اللہﷺ کی ذات میں ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔‘‘ اس پر وہ سب کے سب کہنے لگے: ’’ہم سب آپ کی بات سنیں گے، مانیں گے، آپ کے ذمہ کی حفاظت کریں گے، آپ سے منہ نہ موڑیں گے اور نہ آپ سے جفا ہی کریں گے، آپ حکم کیجیے ہم مانیں گے، اللہ آپ پر رحم فرمائے۔ جہاں آپ جنگ کریں گے، ہم بھی جنگ کریں گے اور جس سے آپ صلح کریں گے، اس سے ہماری بھی صلح ہے۔ ہم یزید کو پکڑیں گے اور جس نے آپ پر اور ہم پر ظلم کیا ہے، ہم اس سے بری ہیں۔‘‘

جناب زین العابدین رحمۃ اللہ نے کہا: دُور ہو جاؤ، دُور ہو جاؤ، اے غدارو، مکارو! تم لوگوں کو تمہاری شہوتوں نے گھیر رکھا ہے، کیا تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ تم لوگ میرے ساتھ بھی وہی کرو، جو اس سے پہلے تم نے میرے باپ دادا کے ساتھ کیا ہے؟ ہرگز نہیں، ناچنے والیوں کے رب کی قسم! یہ زخم بھرنے والا نہیں۔ یہ کل ہی کی تو بات ہے کہ تم لوگوں نے میرے باپ کو اس کے گھر والوں سمیت قتل کر ڈالا ہے، بھلا میں رسول اللہﷺ اور ان کی آل سے محرومی کا غم، اپنے باپ اور باپ کی اولاد کی جدائی کا صدمہ کیسے بھول سکتا ہوں، ان کا غم میرے حلق سے نیچے نہیں اتر رہا، اس کی تلخی میرے گلے میں اب تک موجود ہے اور اس کی کڑواہٹ میرے سینے میں گردش کر رہی ہے۔‘‘ (یہ خطبہ متعدد معتبر شیعہ مؤلفین، مؤرخین اور مصنّفین نے اپنی مایہ ناز اور معتبر کتب میں نقل کیاہے۔ ذیل میں اس کے صرف دو حوالوں کے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے: (الاحتجاج: جلد، 2 صفحہ 32 للطبرسی۔ منتہی الآمال: جلد، 1 صفحہ 572 لعباس القمی))

امام زین العابدین رحمۃ اللہ چند کوفیوں کے پاس سے گزرے جو قتل حسین پر رو رہے اور نوحہ کر رہے تھے، تو آپ نے انہیں ڈانٹتے ہوئے فرمایا: تم لوگ ہم پر رو رہے اور نوحہ کر رہے ہو، ذرا یہ تو بتلاؤ ہمارا قاتل ہے کون؟ (مقتل الحسین: صفحہ 83 لمرتضی عیاد، ط 4، 61996)

ایک روایت میں ہے کہ حضرت زین العابدین رحمۃ اللہ جب روتے اور نوحہ کرتے کوفیوں کے پاس سے گزرے، تو کمزور آواز میں کہنے لگے (کیونکہ بیماری نے انہیں بے حد کمزور کر دیا تھا):

’’تم لوگ ہماری وجہ سے رو رہے ہو اور نوحہ کر رہے ہو، تو پھر ہمیں قتل کس نے کیا ہے؟‘‘ (منتہی الآمال: جلد، 1 صفحہ 570)

ایک اور روایت میں مذکور ہے کہ شدید کمزوری کی بنا پر جناب زین العابدین رحمۃ اللہ نے کمزور سی آواز میں یہ کہا:

’’یہ لوگ ہم پر رو رہے ہیں، تو پھر ان کے سوا ہمارے قاتل اور کون ہیں؟‘‘ (الاحتجاج: جلد، 2 صفحہ 29)

ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں:

’’اے کوفیو! تمہارا برا ہو، تم لوگوں نے حسین (رضی اللہ عنہ) کو کیوں بے یار و مددگار چھوڑا اور اسے قتل کر دیا، پھر ان کا مال بھی چھین لیا اور اس کے وارث بن بیٹھے، ان کی عورتوں کو قیدی بنایا اور ان سے پرے ہٹ گئے۔ تم تباہ و برباد ہو جاؤ! تم جانتے بھی ہو کہ تم لوگوں نے کون سا خون بہایا ہے، کس نیک اور معزز انسان کو قتل کیا ہے، کس بچی کو پکڑا ہے، کس مال کو چھینا ہے؟ تم لوگوں نے نبی کریمﷺ کے بعد سب سے بہتر لوگوں کے خون سے ہاتھ رنگے ہیں، تم لوگوں نے اپنے دلوں سے رحم کو نکال کر پھینک دیا ہوا ہے۔‘‘ (مقتل الحسین للمقرم: صفحہ 316)

طبرسی، قمی، مقرم، کورانی اور احمد راسم سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے اس خطبہ کو نقل کرتے ہیں، جس میں سیدہ رضی اللہ عنہا ان غدار، خائن اور جفا کار کوفیوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ فرماتی ہیں:

’’اما بعد! اے اہل کوفہ! اے مکر و فریب، دھوکہ، مکاری اور عیاری کے پیکرو! اے جفا کارو! آنسو رکتے نہیں، سسکیاں اور آہیں تھمتی نہیں۔ تمہاری مثال اس عورت کی سی ہے جو سوت کی اٹی بنا کر اسے توڑ دیتی ہے، تم لوگوں نے اپنی قسموں کو اپنے بچاؤ کا ذریعہ بنا لیا۔ تم لوگوں میں سوائے شیخی، خود پسندی، متکبرانہ بے رخی، دروغ گوئی، غلامانہ چاپلوسی اور دشمنانہ کینہ و نفرت کے سوا اور ہے ہی کیا۔ تم لوگوں کی مثال کوڑی خانہ پر چراگاہ اور قبر پر رکھی چاندی کی سی ہے، تم لوگوں نے جو اپنے آگے بھیجا ہے، وہ بے حد برا ہے، تم پر رب کی ناراضی ہے۔ تم لوگ آخرت کے عذاب میں ہمیشہ رہو گے۔ کیا تم لوگ میرے بھائی (حسین رضی اللہ عنہ کے قتل) پر روتے ہو؟ ہاں ! اللہ کی قسم! تم لوگ بہت زیادہ رؤ وگے اور بہت کم ہنسو گے۔ تم لوگ قتل حسین کے عیب و رسوائی میں ہمیشہ کے لیے گرفتار ہو چکے ہو اور تم لوگ اس عیب سے کبھی نہ چھوٹ پاؤ گے اور بھلا تم لوگ چھوٹ بھی کیسے سکتے ہو کہ تم لوگوں نے اس شخص کو قتل کیا ہے جو خاتم النّبیینﷺ کی اولاد، معدنِ رسالت، نوجوانانِ جنت کا سردار، تمہاری جنگ کی جائے پناہ، تمہاری جماعت کا ٹھکانا، تمہاری سلامتی کی جگہ، مصیبت میں سہارا، بات کی حجت اور دلیل تھا، تم لوگوں نے اپنے واسطے بے حد برے عمل کو آگے بھیجا ہے اور روزِ قیامت جو تم اپنے سامنے دیکھو گے وہ بے حد برا ہے۔ پس تم لوگوں کے لیے بے حد ہلاکت و شقاوت، بدبختی و بدنصیبی اور ذلت و رسوائی ہے۔ تمہاری کوششیں نامراد ہوئیں، تمہارے ہاتھ ہلاک ہوئے، تمہارا سودا خسارے میں رہا، تم لوگ اللہ کے غضب کو لے کر لوٹے اور ذلت و مسکنت کو تم لوگوں پر مسلط کر دیا گیا۔ تمہاری ہلاکت ہو، کیا تم لوگ جانتے ہو کہ تم نے محمدﷺ کے جگر کے کس گوشے کے ساتھ دھوکہ کیا ہے؟ تم لوگوں نے کس عہد کو توڑا ہے؟ تم لوگوں نے کس حرمت کو پامال کیا ہے؟ کون سا خون بہایا ہے؟ تم لوگ نے ایسا سنگین جرم کیا ہے، قریب ہے کہ اس کی سنگینی کی وجہ سے آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گر کر ریزہ ریزہ ہو جائیں۔ تم لوگوں نے بے حد بھونڈا اور بھدا کام کیا ہے، جس کی برائی نے روئے زمین کا چپہ چپہ اور آسمانوں کا گوشہ گوشہ بھر دیا ہے۔‘‘

 (الاحتجاج: جلد، 2 صفحہ 29 منتہی الآمال: جلد، 1 صفحہ 570)

مشہور شیعہ قلم کار اسد حیدر سیدہ زینب بنت علی رضی اللہ عنہما کا وہ خطبہ نقل کرتا ہے، جو انہوں نے کوفیوں سے ارشاد فرمایا تھا۔ چنانچہ اسد حیدر لکھتا ہے:

’’سیدہ زینب رضی اللہ عنہا جب روتے چلاتے اور نوحہ کرتے کوفیوں کے پاس سے گزریں، تو انہیں سرزنش کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’کیا تم لوگ پھوٹ پھوٹ کر اور آہیں بھر بھر کے روتے ہو؟ ہاں! اللہ کی قسم! اب تم لوگ بے حد روؤ گے اور بہت کم ہنسو گے۔ تم لوگوں نے اپنے چہروں پر وہ عیب اور رسوائی ملی ہے، جس کو اب تم قیامت تک بھی دھو نہ سکو گے اور بھلا تم رسوائی کا یہ داغ دھو بھی کیسے سکتے ہو کہ تم لوگوں نے خاتم الانبیاء و المرسلینﷺ کے لخت جگر کو مار ڈالا ہے‘‘ (مع الحسین فی نہضتہ: صفحہ 295 و ما بعدہا)

ایک روایت میں ہے کہ سیدہ رضی اللہ عنہا نے کجاوے کی پالکی سے جھانک کر دیکھا، تو ارشاد فرمایا:

’’اے اہل کوفہ! ذرا ٹھہرو! تمہارے مرد لوگ تو ہمیں قتل کرتے ہیں، جبکہ تمہاری عورتیں ہم پر روتی ہیں، پس تمہارے اور ہمارے درمیان فیصلہ کرنے والا اللہ ہے، جو روزِ قیامت فیصلہ کر دے گا۔‘‘ (نفس المہموم لعباس القمی: صفحہ 365)