سیدنا حسنؓ کی سیدنا معاویہؓ سے صلح
محقق کبیر مولانا نافع رحمہ اللہسیدنا حسنؓ کی سیدنا معاویہؓ سے صلح
یہ واقعہ اسلام میں اپنے پس منظر میں ایک بڑی تاریخی اہمیت کا حامل ہے اور مؤرخین نے یہاں بہت کچھ رطب و یابس چیزیں فراہم کی ہوئی ہیں لیکن مناسب یہ ہے کہ اس واقعہ کو محدثین کی روایات کی روشنی میں پیش کیا جاۓ تاکہ اصل حقیقت حال کے زیادہ قریب ہو۔ بعد ازاں روایات درج کردی جائیں ۔
چنانچہ صحیح بخاری کتاب الصلح میں حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت حسنؓ اور امیر معاویہؓ کے پہاڑوں کے مانند لشکر اور جیوش باہم متقابل ہوۓ ۔ حضرت عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ یہ لشکر اور عساکر ایک دوسرے کو قتل کیے بغیر پسپا ہونے والے نہیں تھے ۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہؓ اللہ کی قسم خیر الرجلین یعنی عمرو بن العاصؓ سے بہتر تھے ۔ انہوں نے حضرت عمرو بن العاصؓ سے کہا کہ اگر ایک فریق دوسرے کو قتل کر ڈالے اور دوسرا فریق پہلے فریق کو قتل کردے تو لوگوں کے معاملات کی دیکھ بھال کون کرے گا؟؟ ان عورتوں اور بال بچوں اور کمزور لوگوں کی نگہداشت کون کرے گا؟ یعنی اس صورت میں یہ لوگ ضائع اور برباد ہو جائیں گے ۔
تو ان حالات کے پیش نظر حضرت امیر معاویہؓ نے بنی عبد الشمس کے دو افراد عبد الرحمن بن سمرہ اور عبداللہ بن عامر کو حضرت حسنؓ کی طرف روانہ کیا اور فرمایا کہ حضرت حسنؓ کے پاس جاکر صلح نامہ پیش کیجیے اور انہیں صلح پر آمادہ کیجیے
یہ دونوں حضرات حضرت حسنؓ کے پاس پہنچے اور اس مسئلے پر گفتگو کر کے صلح کی دعوت دی۔ اس پر سیدنا حسنؓ نے ان دونوں کو فرمایا کہ ہم بنو عبد المطلب ہیں ( اپنے اہل و عیال ، اقرباء اور خدام پر بخشش، توسع اور کرم کرنا ہماری جبلت میں داخل ہے ) اور اس مال سے ہم ان سب کے حقوق ادا کرتے ہیں اور اب اس امت میں بہت انتشار اور فساد واقع ہوگیا ہے ۔
اس پر ان دونوں بزرگوں نے کہا کہ آپکی ضروریات اور تقاضے پورے کیے جائیں گے اور مطالبات تسلیم کیے جائیں گے۔ حضرت سیدنا حسنؓ نے فرمایا کہ ان وعدوں کے ایفا کا ذمہ دار کون ہوگا ؟ ان دونوں نے کہا ہم ذمہ دار ہیں ۔ اس کے بعد مسئلۂ خلافت میں حضرت سیدنا حسنؓ نے حضرت امیر معاویہؓ سے صلح کرلی۔
حسن بصریؒ کہتے ہیں کہ یہ صلح حضور نبی کریمﷺ کی اس پیش گوئی کا مصداق ہے جو ابوبکرہؓ (نفیع بن حارث ثقفی) سے میں نے سنی۔ ابوبکرہؓ کہتے تھے کہ میں نے نبی کریمﷺ کو مدینہ منورہ میں منبر پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا آپﷺ کے پہلو میں منبر پر حضرت حسنؓ ( عالم طفولیت میں ) بیٹھے تھے۔ آنجنابﷺ خطبہ کے دوران کبھی سیدنا حسنؓ کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی ہم لوگوں کی طرف التفات فرماتے۔ اس خطبہ میں نبی اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا: ” یہ میرا بیٹا سردار ہے امید ہے اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں کے درمیان صلح کرا دے گا“
اس موقع پر آپﷺ نے ہر جماعت کو فئۂ عظیمہ فرمایا، کسی ایک کو نہیں گرایا۔
((فصالحه قال الحسنؓ البصرى) ولقد سمعت ابا بكرۃؓ يقول رأيت رسول الله على المنبر والحسنؓ بن علىؓ الى جنبه وهو يقبل على الناس مرة وعليه اخرى ويقول إنَّ ابنى هذا سيد ولعل الله ان يصلح به بين فئتين عظيمتين من المسلمين)
فائدہ
اس مقام پر یہ چیز قابلِ التفات ہے کہ نبوت کی عظیم پیش گوئی جس طرح حضرت حسنؓ کے اقدام ہذا کی صورت میں تمام ہوئی جو ان کے حق میں اعلیٰ فضیلت پر مشتمل ہے، اسی طرح اس میں حضرت امیر معاویہؓ کی نہایت خوش بختی ظاہر ہوئی کہ وہ اس بشارت عظیمہ کے پورے ہونے کا ذریعہ بنے اور اس کی تکمیل کا انھیں شرف نصیب ہوا اور اہل اسلام کے دو متحارب گروہوں کی مصالحت کا باعث ہوئے ۔
واقعۂ ہذا گزشتہ سطور میں محدثین کی روایات کی روشنی میں مذکور ہوا اور ایک حوالہ شیعہ کا بھی بطور تائید کے حاشیہ میں ذکر کر دیا ہے۔ اب اس واقعہ کو مؤرخین کی تاریخی روایات کی بنا پر ذکر کیا جاتا ہے تا کہ واقعہ کی مزید تفصیلات بھی سامنے آسکیں۔
چنانچہ ابن کثیرؒ ذکر کرتے ہیں کہ:
((ولما رأى الحسنؓ بن علىؓ تفرق جيشه عليه مقتهم وكتب عند ذالك الى معاويةؓ بن ابي سفيانؓ و كان قد ركب فى اهل الشام فنزل مسكن يراوضه على الصلح بينهما ۔فبعث اليه معاويۃؓ عبدالله بن عامر و عبد الرحمن بن سمرة – فقدما عليه الكوفة فبذلا له ما اراد من الاموال فاشترط ان ياخذ من بيت مال الكوفة خمسة الاف الف درهم، وان يكون خراج دار ابجرد له وان لا يسب علىؓ وهو يسمع، فاذا فعل ذلک فنزل عن الامرة لمعاويۃؓ و يحقن الدماء بين المسلمين فاصطلحوا على ذالك واجتمعت الكلمة على معاويةؓ له )
(وهو عبدالرحمن بن سمرة) ( كان احد السفيرين بين معاويةؓ والحسنؓ )
مطلب یہ ہے کہ مؤرخین کہتے ہیں کہ حضرت حسنؓ بن علیؓ نے اپنے جیش میں افتراق اور انتشار دیکھا تو انھیں سخت ناراضی ہوئی اور کبیدہ خاطر ہوئے۔ (اس روایت کی بنا پر ) اس پر آپؓ نے حضرت امیر معاویہؓ کی طرف خط لکھا۔ ادھر اہل شام آمادہ تھے پس اپنے مسکن پر ٹھہرے اور جانبین کے درمیان صلح کی کوشش کی گئی۔
حضرت امیر معاویہؓ نے عبداللہ بن عامر اور عبد الرحمن بن سمرہ کو اس مقصد کے لیے بھیجا۔ وہ دونوں حضرت حسنؓ کے پاس آئے اور انھوں نے حضرت سیدنا حسنؓ کے تقاضوں کو پورا کرنے کا ذمہ لیا۔ پس حضرت سیدنا حسنؓ نے شرط لگائی کہ کوفہ کے بیت المال سے وہ پچاس لاکھ درہم حاصل کریں گے اور دار ابجرد کا خراج بھی حضرت حسنؓ کے لیے ہو گا اور حضرت علی المرتضیٰؓ کے خلاف ان کی موجودگی میں ہتک آمیز کلام نہیں کیا جائے گا۔
ان شرائط پر سیدنا حسنؓ امر خلافت سے دست بردار ہوئے اور خلافت کا معاملہ امیر معاویہؓ کے سپرد کر دیا۔ اس صلح میں مسلمانوں کا خون ریزی سے بچاؤ کرنا اور مسلمانوں کو کلمۂ واحد پر جمع کرنا مقصود نظر تھا چنانچہ اس طور پر ان دونوں حضرات کے درمیان مصالحت ہوئی اور امیر معاویہؓ پر امر خلافت مجتمع ہو گیا۔
تنبیہ
علمائے کرام نے اس موقع پر تحریر کیا ہے کہ حضرت امیر معاویہؓ نے حضرت سیدنا حسنؓ سے بہت سی شرائط پر مصالحت کی تھی اور جن امور کی انجام دہی کی ذمہ داری قبول کی ان کو ایفا کیا اور پورا کر دیا۔ چنانچہ ابن حجر مکیؒ تحریر کرتے ہیں کہ
(( انه اشترط عليه شروطا كثيرۃ فالتزمها ووفى له بها)
شرائط صلح شیعہ کے بیانات کی روشنی میں:
شیعوں کے قدیم ترین مؤرخ دینوری نے سیدنا حسنؓ اور سیدنا معاویہؓ کے درمیان صلح کے اس واقعہ کو تفصیل سے ذکر کیا ہے اور صلح کی شرائط کو مندرجہ ذیل عبارت میں تحریر کیا ہے:
((ولما راى الحسن من اصحابه الفشل ارسل الى عبدالله بن عامر بشرائط اشترطها على معاوية على ان يسلم له الخلافة وكانت الشرائط الا ياخذ احدا من اهل العراق باحنة وان يومن الاسود والاحمر، ويحتمل ما يكون من هفواتهم، ويجعل له خراج الاهواز مسلما في كل عام ويحمل الى اخيه الحسين بن على فى كل عام الفى الف ويفضل بني هاشم في العطاء والصلاح علی بنی عبد الشمس))
"یعنی قدیم شیعی مؤرخ دینوری تحریر کرتا ہے کہ جب حضرت حسنؓ نے اپنے ساتھیوں کو بزدلی کا شکار پایا تو عبداللہ بن عامر کی طرف صلح کے لیے چند شرائط ارسال کیں کہ ان پر حضرت حسنؓ حضرت معاویہؓ کو خلافت سپرد کر دیں گے۔ وہ شرائط یہ تھیں :
(1) اہل عراق پر دشمنی اور کینہ کی بنا پر گرفت نہیں کی جائے گی۔
(2) ہر اسود و احمر کو امان دی جائے گی (یعنی عام رعایا کو امان ہو گی )۔
(3) لوگوں کی یاوہ گوئی کو برداشت کیا جائے گا۔
(4) علاقہ "اہواز“ کا مکمل خراج ہر سال حضرت حسنؓ کے سپرد کیا جائے گا۔
(5) ان کے بردار حضرت حسینؓ بن علیؓ کو بیس لاکھ درہم سالانہ (وظیفہ ) دیا جائے گا۔
(6) عطایا اور صلہ جات میں بنی ہاشم کو بنی عبد الشمس پر فضیلت دی جائے گی اور ان کا حق فائق رکھا جائے گا
اس مقام پر دینوری شیعی نے مزید لکھا ہے کہ عبداللہ بن عامر نے حضرت حسنؓ کی یہ شرائط حضرت امیر معاویہؓ کی خدمت میں ارسال کر دیں اس طرح صلح ہذا مکمل ہو گئی اور جانبین اس پر راضی ہو گئے۔
2:مذکورہ واقعہ کو جو باہمی مصالحت کے دوران پیش آیا دیگر قدیم شیعہ مؤرخ یعقوبی نے بھی اپنے انداز کے مطابق مفصل تحریر کیا ہے چنانچہ یعقوبی لکھتا ہے کہ حضرت امیر معاویہؓ نے حضرت حسنؓ کی طرف چند حضرات کو صلح کی غرض سے روانہ کیا۔ وہ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ، عبداللہ بن عامر بن کریز اور عبدالرحمن بن ام الحکمؓ تھے۔ حضرت حسنؓ اس وقت مدائن کے جنگی حالات میں اقامت پذیر تھے ان لوگوں نے سیدنا حسنؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر صلح کے متعلق گفتگو کی۔ اس کے بعد جب یہ حضرات سیدنا حسنؓ کی مجلس سے باہر آئے تو لوگوں کو سنا کر کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول ﷲﷺ کے بیٹے کے ذریعے سے مسلمانوں کو خون ریزی سے بچالیا اور وہ فتنے کے فرو ہونے کا باعث ہوئے اور انھوں نے صلح منظور کرلی۔
جب یہ چیز سیدنا حسنؓ کے جیوش میں پہنچی تو وہاں ایک قسم کا اضطراب پیدا ہوگیا اور انھوں نے ان لوگوں کی صداقت میں کچھ شک نہ کیا اور جوش میں آکر حضرت حسنؓ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کا جنگی سامان لوٹ لیا۔ حضرت سیدنا حسنؓ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اندھیرے میں چل دیے مگر جراح بن سنان اسدی نے چھپ کر نیزہ مارا اور آنجنابؓ کی ران کو زخمی کر دیا اور آپؓ کو نہایت بے آبرو کیا۔ اس کے بعد یعقوبی مزید ذکر کرتا ہے کہ :
(وحمل الحسن الى المدائن وقد نزف نزفا شديدا واشتدت به العلة فافترق عنه الناس وقدم معاويۃ العراق فغلب على الامر والحسنؓ عليل شديد العلة فلما رأى الحسنؓ ان لا قوة به وان اصحابه قد افترقوا عنه فلم يقوموا له. صالح معاوية، وصعد المنبر فحمد الله واثنى عليه وقال: أيها الناس ان الله هداكم باولنا وحقن دماكم باخرنا وقد سالمت معاوية .... الخ)
" (بقول شیعی مؤرخ ) مطلب یہ ہے کہ حضرت سیدنا حسنؓ کو زخمی حالت میں مدائن کی طرف لے جایا گیا۔ آپؓ خون آلود تھے۔ آپؓ کی بیماری شدت اختیار کر گئی ، لوگ آپؓ سے علیحدگی اختیار کرنے لگے۔ حضرت امیر معاویہؓ عراق میں جا پہنچے اور خلافت پر ان کا غلبہ ہونے لگا۔ حضرت سیدنا حسنؓ شدید علیل تھے۔ جب حضرت حسنؓ نے اپنے میں قوت نہ دیکھی اور ان کے ساتھی ان سے جدا ہو گئے اور تعاون سے کنارہ کش ہو گئے تو آپؓ نے حضرت امیر معاویہؓ سے صلح کر لی۔
( جب کچھ حالت بہتر ہوئی) تو منبر پر تشریف لائے اور حمد وثنا کی اور فرمایا: اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے ہمارے اول کے ساتھ تمھیں ہدایت بخشی اور ہمارے آخر کے ساتھ تمھارے خون کی حفاظت کی تمھیں خوں ریزی سے بچالیا) میں نے امیر معاویہؓ سے صلح کر لی ہے یعنی امر خلافت ان کے سپرد کر دیا ہے۔"
یہ شیعہ مؤرخین کے بیانات ہیں جو انھوں نے اپنے نظریات کے مطابق درج کیے ہیں۔
نیز شیعہ کے مشاہیر علماء نے صلح ہذا کی شرائط میں مزید یہ چیز بھی ذکر کی ہے کہ حضرت سیدنا حسنؓ نے حضرت امیر معاویہؓ کے ساتھ صلح کرنے میں دیگر شرائط کے علاوہ یہ شرط بھی لگائی تھی کہ " کتاب اللہ، سنت رسول اللہﷺ اور سیرت خلفائے راشدین صالحینؓ پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔“
شیعہ کا فاضل اربلی لکھتا ہے کہ:
((بسم الله الرحمن الرحيم هذا ما صالح عليه الحسن بن علی بن ابی طالب معاوية بن ابي سفيان صالحه على ان يسلم اليه ولاية امر المسلمين على ان يعمل فيهم بكتاب الله تعالى و سنة رسوله وسيرة الخلفاء الراشدين الصالحين ...... الخ))
قبل ازیں یہ چیز شیعہ کی تصریحات کے مطابق درج کی جا چکی ہے کہ حضرت امیر معاویہؓ نے صلح کی تمام شرائط کو منظور کر لیا تھا اور ان کو پورا کیا تھا۔
فائدہ
مندرجہ بالا صلح کی شرط سے یہ چیز ثابت ہوتی ہے کہ حضرت سیدنا حسنؓ کے نزدیک خلفائے ثلاثہؓ کی خلافت برحق اور صحیح تھی اور ان کی دینی وثاقت مسلم تھی اور ان حضرات کا عہد خلافت قابل تقلید تھا اسی بنا پر حضرت حسنؓ نے بھی ان سے صلح کرتے وقت خلفائے راشدینؓ کی سیرت پر عمل درآمد کی شرط لگائی۔
یہاں مزید اس چیز کو ذکر کر دینا ناظرین کرام کے لیے فائدہ بخش ہے کہ جس طرح سیدنا حسنؓ نے حضرت امیر معاویہؓ کے ساتھ شرائط صلح و مصالحت کر کے بیعت کر لی تھی اور وہ اس پر رضا مند اور مطمئن تھے اور کسی طرح بھی پشیمان اور پریشان نہیں تھے ، اسی طرح آں موصوف کے برادر گرامی سیدنا حسینؓ بھی بیعت ہذا میں شامل تھے اور اس معاہدہ کی تمام کارگزاری میں شریک کار تھے اور اس کو صحیح قرار دیتے تھے۔
لیکن اس دور میں بقول شیعہ مؤرخین سیدنا حسنؓ کی وفات کے بعد بعض لوگوں نے سیدنا حسینؓ کو اس صلح و مصالحت کے خلاف برانگیختہ کرنے کی کوشش کی اور ان کو حضرت امیر معاویہؓ کی بیعت توڑ کر ان کے خلاف جنگ و پیکار پر آمادہ کرنا چاہا، تو سیدنا حسین ابن علیؓ نے ان کی اس پیش کش کے جواب میں ارشاد فرمایا:
((فقال الحسينؓ انا قد بايعنا وعاهدنا ولا سبيل الى نقض بيعتنا ))
"یعنی حضرت سیدنا حسینؓ نے فرمایا کہ ہم نے امیر معاویہؓ سے بیعت کر لی ہے اور ان سے ہمارا معاہدہ ہو چکا ہے۔ اب بیعت ہذا کو توڑ ڈالنے کے لیے کوئی راستہ نہیں ۔
اسی مسئلہ کو شیعہ کے مجتہدین نے مزید وضاحت سے بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک بار عراق کے شیعان علیؓ نے حضرت حسینؓ کی خدمت میں مکتوبات ارسال کیے جن میں حضرت امیر معاویہؓ کے ساتھ مصالحت اور باہمی معاہدہ کے نقض پر زور دیا اور اس عقد کو ختم کر دینے کا تقاضا کیا۔
شیخ مفید شیعی نے اس سلسلے میں حضرت سیدنا حسینؓ کے جواب کو بالفاظ ذیل تحریر کیا ہے: ((ان بينه وبين معاوية عهدا وعقدا لا يجوز له نقضه حتى تمضى المدة .... الخ))
اس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت سیدنا حسینؓ نے فرمایا کہ میرے اور معاویہؓ کے درمیان عہد اور عقد ( بیعت) ہو چکا ہے اس کو توڑنا جائز نہیں تا وقتیکہ معاہدہ کی مدت ( خلافت معاویہؓ ) ختم ہو جائے ۔“
مندرجات گزشتہ سے ثابت ہوا کہ حضرت امیر معاویہؓ کے ساتھ دونوں برادر حضراتؓ کی بیعت درست تھی اور ان کے نزدیک عقد مصالحت بالکل صحیح تھا اور اس پر دونوں حضرات حسنین شریفینؓ مدت العمر قائم رہے۔
یہ چیز حضرت معاویہؓ کی صحت خلافت کے لیے وزنی شہادت ہے اور ان کی حکومت عادلہ کی خاطر واضح دلیل ہے۔
بعض لوگوں نے مقام شرائط میں ایک شرط یہ بھی ذکر کی ہے کہ حضرت حسنؓ نے حضرت امیر معاویہؓ پر یہ شرط عائد کی تھی کہ " جناب معاویہؓ کے بعد حضرت حسنؓ خلیفہ ہوں گے ۔“ اس بنا پر حضرت امیر معاویہؓ نے حضرت حسنؓ کو زہر دلوا دیا تھا تاکہ وہ امر خلافت پر بعد میں ہمیشہ مسلط رہیں۔ اس شرط کے متعلق درج ذیل چیزیں قابل غور ہیں ان پر توجہ کر لینے سے اس شرط کا سقم واضح ہو جائے گا:
1: قدیم مؤرخین طبری وغیرہ اور خصوصاً شیعہ کے قدیم تر مؤرخین دینوری، مسعودی اور یعقوبی وغیرہ نے جہاں شرائط صلح ذکر کی ہیں ہماری معلومات کی حد تک ان میں شرط مذکورہ بالا کا ذکر نہیں پایا جاتا۔ حالانکہ حضرت معاویہؓ پر طعن قائم کرنے کے لیے یہ عمدہ موقع تھا۔ نیز معلوم ہوتا ہے کہ ان مؤرخین کے دور تک شرائط میں یہ چیز شامل نہ تھی ایک مدت دراز کے بعد لوگوں نے اس شرط کا اضافہ کر لیا اور زہر خورانی کے طعن کے لیے اس کو زینہ بنایا۔ یہ چیز نقلی طور پر پیش کی گئی ہے۔
2: اب عقلی طور پر توجہ کریں کہ جب حضرت امیر معاویہؓ نے استخلاف یزید کا مسئلہ اس دور کے اکابر کے سامنے پیش کیا تو بعض اکابر نے اس چیز سے اختلاف کرتے ہوئے کلام کیا (جیسا کہ تواریخ میں منقول ہے ) تو اس موقع پر ان لوگوں نے یہ چیز نہیں ذکر کی کہ حضرت حسنؓ کی زندگی میں آپؓ کی خلافت تھی اب ان کی وفات کے بعد آپؓ کو خلافت کا حق نہیں اور صلح کی شرائط میں یہ مسئلہ داخل تھا۔ فلہذا اس بات کو اختلاف کرنے والے بزرگوں کا پیش نہ کرنا بھی اس بات کا قرینہ ہے کہ صلح کی شرائط میں یہ شرط داخل نہ تھی ورنہ وہ حضرات اس موقع پر اس شرط کو ضرور پیش کرتے۔
مذکورہ بالا سطور میں صلح کے متعلق شیعہ کے متقدمین و متأخرین علماء کی چند توضیحات ذکر کی ہیں۔ اس کے قریب قریب " تحفہ اثنا عشریہ" میں شاہ عبد العزیزؒ نے حضرت حسنؓ کی صلح کے متعلق شیعہ علماء کے بیانات درج کیے ہیں اور بیشتر بطور الزام نقل کیے ہیں۔ اس میں بھی اس بات کی وضاحت آ گئی ہے کہ یہ صلح اصلاح امت کے لیے تھی اور فتنہ کو ختم کرنے کی خاطر کی گئی۔ عبارت نقل کرنے میں تطویل ہوتی ہے۔ ناظرین کرام تسلی کے لیے درج ذیل مقام کی طرف رجوع کر سکتے ہیں: تحفہ اثنا عشریہ صفحہ 181 باب ہفتم در امامت تحت عقیدۂ ششم، طبع لاہور
صلح و مصالحت کی تاریخ:
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی مشہور تصنیف البدایہ والنہایہ میں ذکر کرتے ہیں کہ :
((وقال ابو الحسن علی بن المدينى كان تسليم الحسن الأمر الى معاویۃ في الخامس من ربیع الأول سنة احدى واربعين وقال غيره في ربيع الاخر . يقال في غرة جمادی الاولى فالله اعلم))
اور اسی مسئلہ کو دیگر محدثین و مؤرخین نے بھی بالوضاحت اپنی اپنی تصانیف میں ذکر کیا ہے مثلاً :
خلیفہ ابن خیاط نے اپنی تاریخ میں یہ الفاظ ذکر کیے ہیں کہ:
(( وفيها سنة الجماعة اجتمع الحسنؓ بن علىؓ بن ابی طالب و معاويةؓ (بن ابي سفيانؓ)فاجتمعا بمسكن من ارض السواد ومن ناحية الانبار فاصطلحا وسلم الحسنؓ بن علىؓ الى معاويةؓ وذالك في شهر ربيع الآخر او في جمادى الأولى سنة احدى واربعين))
"مندرجات بالا کا مطلب یہ ہے کہ عام الجماعت 41 ھ میں حضرت حسنؓ اور حضرت معاویہؓ "انبار" کے نزدیک ارض سواد کے مسکن میں جمع ہوئے اور دونوں نے (خلافت کے معاملہ میں) باہم صلح کر لی اور حضرت حسنؓ نے حضرت امیر معاویہؓ کو امر خلافت سپرد کر دیا اور کنارہ کش ہو گئے یہ واقعہ ربیع الاخری یا جمادی الاولی 41 ھ میں پیش آیا" ۔
حاشیہ میں مزید چند ایک حوالہ جات اس مسئلہ پر درج کر دیے ہیں تا کہ اہل تحقیق حضرات رجوع کر کے تسلی کر سکیں۔
چنانچہ یہ چیز اہل سنت والجماعت کی روایات کے اعتبار سے تو مسلم ہے لیکن شیعہ کے نزدیک بھی یہ مسئلہ مسلمات میں سے ہے اور بے شمار شیعہ علماء نے اپنی تصانیف میں بالوضاحت درج کیا ہے۔ ہم یہاں سیدنا جعفر صادقؒ کے فرمان کی روشنی میں بعض حوالہ جات ذیل میں ذکر کرتے ہیں:
((قال سمعت ابا عبدالله يقول ان معاوية كتب الى الحسن بن على صلوت الله عليهما ان اقدم انت والحسين وأصحاب على فخرج معهم قيس بن سعد بن عبادة الانصارى فقدموا الشام فاذن لهم معاوية واعد لهم الخطباء فقال يا حسن قم فبايع فقام فبايع ثم قال للحسین قم فبايع فقام فبايع ثم قال يا قيس قم فبايع فالتفت الى الحسين ينظر ما يأمره فقال يا قيس انه امامی یعنی الحسن))
"مطلب یہ ہے کہ جناب جعفر صادقؒ فرماتے ہیں کہ امیر معاویہؓ نے حضرت سیدنا حسنؓ کی طرف مکتوب ارسال کیا کہ آپؓ اور آپؓ کے برادر حسینؓ اور حضرت علی المرتضیؓ کے دیگر احباب ہمارے ہاں تشریف لائیں۔ جب یہ حضرات حضرت امیر معاویہؓ کے ہاں جانے کے لیے روانہ ہوئے تو ان کے ہمراہ قیس بن سعد بن عبادہ انصاری بھی روانہ ہوئے۔ یہ حضرات ملک شام میں حضرت امیر معاویہؓ کے پاس تشریف لے گئے تو امیر معاویہؓ نے انھیں اندر آنے کی اجازت دے دی وہاں اس مجلس میں کئی خطباء جمع کیے گئے تھے پھر حضرت امیر معاویہؓ نے حضرت حسنؓ سے کہا کہ آپؓ اٹھیے اور بیعت کیجیے۔ پس حضرت حسنؓ اٹھے اور انھوں نے معاویہؓ کی بیعت کی۔ اس کے بعد انھوں نے (امیر معاویہؓ نے ) حضرت حسینؓ سے کہا کہ آپؓ بھی اٹھیں اور بیعت کریں پس حضرت حسینؓ اٹھے اور امیر معاویہؓ سے بیعت کی۔ اس کے بعد امیر معاویہؓ نے قیس بن سعد سے کہا تم بھی اٹھو اور بیعت کرو۔ قیسؓ نے حضرت حسینؓ کی طرف التفات کیا کہ حضرت حسینؓ اس مسئلہ میں کیا حکم دیتے ہیں؟ تو حضرت حسینؓ نے فرمایا اے قیس! وہ میرے امام ہیں ( آپ بھی بیعت کر لیں). "
2: اور اس مسئلہ کو شیخ ابو جعفر طوسی شیعی نے اپنی تصنیف "مالی شیخ طوسی" مجلس یاز دہم ماہ صفر 457 کے تحت بالفاظ ذیل درج کیا ہے۔
(( الا وانى قد بايعت هذا و أشار بيده الى معاوية))
"(یعنی حضرت حسنؓ نے) اپنے ہاتھ سے امیر معاویہؓ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
خبردار ! میں نے ان سے بیعت کرلی ہے۔"
شیعہ کے مندرجہ بالا حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ حضرات حسنین شریفینؓ نے حضرت امیر معاویہؓ کے ساتھ جب امر خلافت میں صلح کی تھی تو اس وقت ان کے ہاتھ پر بیعت خلافت بھی کر دی تھی۔ یہ چیز شیعہ کی معتبر روایات کی روشنی میں ثابت ہے کوئی مختلف فیہ امر نہیں۔
تنبیہ:
شیعہ کے ہاں اس مقام پر مختلف روایات پائی جاتی ہیں مندرجہ بالا رجال کشی والی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں حضرات (حضرت حسنؓ و حضرت معاویہؓ) میں صلح و مصالحت تو پہلے ہو چکی تھی لیکن مزید توفیق و تصدیق کے طور پر ان حضرات حسنینؓ سے بیعت خلافت لی گئی اور انھوں نے بیعت کر دی تا کہ اس معاملہ میں شک وشبہ کی گنجائش نہ رہے۔
عام الجماعۃ:
حضرت حسنؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کے مابین صلح کی اہل اسلام کے نزدیک بڑی اہمیت ہے اور اس کے ذریعے سے ایک بہت بڑے انتشار بین المسلمین کا خاتمہ ہوا اور افتراق کا فتنہ فرو ہو گیا۔ ایک مدت سے اعدائے اسلام پر غلبہ پانے اور انھیں فتح کرنے کے اقدامات رکے ہوئے تھے اور اہل اسلام کے مابین افتراق عظیم واقع ہو گیا تھا اور پھر اسی دوران میں باہمی جدال و قتال کے مواقع بھی پیش آچکے تھے لیکن آخر کار اللہ کریم جل مجدہ نے پھر اہل اسلام کو ایک کلمہ پر مجتمع ہونے کی توفیق بخشی اور اس دور کے تمام اہل اسلام فرقت کے بعد ایک مرکز پر متفق ہو گئے اور حضرت امیر معاویہؓ بن ابی سفیانؓ کو اپنا متفقہ امیر اور خلیفہ تسلیم کر لیا اور جو حضرات حضرت علی المرتضیٰؓ کے دور سے بیعت خلافت سے اجتناب اور علیحدگی اختیار کیے ہوئے تھے ان حضرات نے بھی حضرت امیر معاویہؓ ہی کو بالاتفاق خلیفہ تسلیم کر لیا اور ان پر رضا مند ہو گئے۔ اس بنا پر اس برس کو "عام الجماعۃ" کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔