Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

یار غار سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر شیعہ اعتراضات کا جواب ۔

  مولانا اللہ یار خاں

یار غار سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ پر شیعہ اعتراضات کا جواب ۔

[ إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا فَأَنْزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللهِ هِيَ العُلْيَا وَاللهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ]

{التوبة:40}

ترجمہ:۔ اگر تم اُن (حضور اکرمﷺ) کی مدد نہ کرو گے تو یقیناً اللہ نے ان کی مدد فرمائی جب کافروں نے اُن کو جلا وطن کردیا تھا جب دو میں ایک آپ (ﷺ) تھے جس وقت کہ دونوں غار میں تھےجب وہ اپنے دوست (ساتھی) سے فرماتے تھے کہ (میرا) غم نہ کرو یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہیں سو اللہ نے آپ پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی اور ان لشکروں سے مدد فرمائی جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافروں کی بات کو نیچا کر دیا (وہ ناکام رہے) اور اللہ ہی کا بول بالا رہااور اللہ زبردست حکمت والے ہیں۔

اس آیت سے اور تاریخ سے ثابت کہ جب کفار نے گھر سے نکالا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ‘ ساتھ تھے۔ فرق اتنا ہے کہ کفًار نے تو حضوراکرم ﷺنکالا مگر حضرت صدیق اکبرؓ نےان صعوبتوں کو اپنے سر خود لیا۔

شیعہ اعتراض نمبر1:۔

صدیق ساتھ نہیں تھے۔ بعد میں جا ملے ۔ حضور ﷺ نے واپس اس لئے نہ کیا کہ جا کے بتا دیں گے!!!

الجواب:

(إِذْ أَخْرَجَهُ )۔

یعنی کس حالت میں نکالا؟

مفعول کی ضمیر ’’ ہ‘ ‘‘ کا مرجع ہے نبی کریم ﷺ کی ذات اور ثانی اثنین حال ہے ۔

یعنی اس حالت میں نکالا کہ حضرت صدیق اکبر ؓ ساتھ تھے۔

اوّل کا لفظ حضور ﷺ کے لئے بولا گیا ہے قرآن نے حضور اکرم ﷺ کو اوّل المسلمین کا لقب فرمایا اور ثانی کا لقب صدیق ؓ کو۔

اور ثانی بھی ایسا کہ غار میں، بدر میں، خلافت میں، قبر میں۔ ترتیب رُتبی میں عدد مساوی کی نسبت مساوی سے کی جاتی ہے۔ یہاں یہی ترتیبِ رُتبی ہے۔

إِذْ هُمَا فِي الغَارِ ،

یہ پہلے اذ کا بدل ہے ۔

إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ ،

صاحب کی ــ’’لا‘‘ اضافت طرف حضور ﷺ کے یا اس ضمیر کے کہ جس کا مرجع نبی ﷺ کی ذات ہو تو صاحب اس کا ہم مذہب ہو گا۔ غیر نہیں ہو سکتا۔

شیعہ اعتراض نمبر.2

کہ’’ یصاحبی السجن‘‘ کی تردید کرتا ہے

الجواب:۔

یہاں صاحب کی اضافت ـ’سِجن‘ کی طرف ہے نبیؑ کی طرف نہیں۔

اس آیت سے صدیق ؓ اکبر کا صحابی ہونا نص صریح ہے ۔حضرت صدیقؓ کی صحابیت کا انکار نص صریح کا انکار ہے جو کُفر ہے۔

لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا

شیعہ اعتراض:۔3

خوف کا تعلق استقبال سے ہوتا ہے ’’حزن‘‘ کا ماضی سے۔ تو ابوبکرؓ نے کوئی منصوبہ بنایا تھا۔ اس کا غم تھا۔

 یہی جس معل پر وارد ہو اسکا ارتکاب حرام ہے۔  گویا صدیق حرام کے مرتکب ہوئے۔

الجواب:۔

اوّل تو حزن کا لفظ سارے قرآن میں انبیاء و صالحین کے لئے بولا گیا ہے۔ کافر کے لئے نہیں بولا گیا۔ پس صدیقؓ اکبر، صالحین کے سردار تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حزن کا لفظ ہمیشہ اس غم کے لئے بولا جاتا ہے ۔ جو دوسروں کے لئے ہو، نہ کہ اپنی ذات کے لئے۔ تو منصوبہ ظاہر ہے کہ غم یہ تھا کہ جس ترکیب سے ہم نے ہجرت کی اس کا علم کسی کو نہیں تھا۔ پھر یہ کافر کیسے پہنچ گئے۔

ایک شیعہ عالم علامہ باذلؔ نے اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے۔

چنیں گفت راوی کہ سالار دیں

چو سالم بحفظ جہاں آفریں

نہ نزدیک آں قوم پروکررفت

بسوئے سرائے ابوبکر رفت

پئے ہجرت اونیز آمادہ بود

کہ سابق رسولش طہ دادہ بود

نبیؐ بر در خانہ اش چوں رسید

بگوشش صدائے سفر درکشید

چوں بو بکر زاں حال آگاہ شد

زخانہ بروں رفت و ہمراہ شد

پھر آگے جا لکھتا ہے۔۔۔

بدیدند غارے درآں تیر و شب

کہ خواندے عرب غار نورش لقب

گرفتند در جوف آں غار جا

ولے پیش بنہاد بو بکر پاء

بہر جا کہ سوراخ یا رفتہ دید

فنارا بدرید و آں رخنہ چید

بدیں گونہ تاشد عمام آں قبا

یکے رخنہ نگذشت مانداز قضا

براں رخنہ گوئند آں یار غار

کف پائے خود را نمود استوار

پس ثابت ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو حضور ﷺ کی ذات کا غم تھا۔ اپنا غم نہیں تھا۔

یہاں ایک بات اور سمجھ لیجئے کہ حضور اکرم ﷺ جب اپنی خواہش سے گفتگو بھی نہیں کرتے تھے تو ظاہر ہے کہ آپﷺ کے اعمال میں بھی خواہش کا دخل نہیں تھا۔ بلکہ ہر کام اللہ کے حکم سے کرتے تو ظاہر ہے کہ ہجرت کے سفر میں صدیق اکبرؓ کے گھر جا کر انہیں ساتھ لے جانا اللہ کے حکم کے تحت تھا۔ اور اللہ کریم کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کو یہ بتا نا منظور تھا کہ دورانِ سفر اگر وحی آئے تو آپ کے نائب کو اس کا علم ہو۔ دوسرے لوگ تو اس سے سیکھ لیں گے۔

نادان یہاں حضرت صدیق اکبر ؓ اور حضرت علی ؓ کے درمیان مقابلہ شروع کر دیتے ہیں۔

حالانکہ ہر ایک کی اپنی شان ہے اپنا مقام ہے اور اپنا کام ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی ذات وہ ذات ہے جسکی قربانی کا ذکر اللہ کریم نے اپنی کتاب میں کیا۔

قریش مکہ بھی حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی اہمیت سے واقف تھے جبھی تو جہاں حضور اکرم ﷺ کے قتل کے لئے ایک سو ایک اونٹ انعام مقرر کیا وہاں حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے قتل کا بھی اتنا ہی انعام مقرر کیا۔

پھر حضرت سیدنا مولی علی ؓ تو بچّے تھے کسی سے دشمنی نہیں تھی اور قریش من حیث الجماعت صدیق ؓ کے دشمن تھے  اور ہجرت کا منظر یہ ہے کہ حضرت علی ؓ تو حضور اکرم ﷺ کی چارپائی پر ہیں اور حضور اکرم ﷺ صدیق ؓ کی گود میں آرام فرما رہے ہیں۔

یہ نصیب اللہ اکبر لُوٹنے کی جائے ہے

ان اللہ معنا:۔

جو معیت حضور اکرم ﷺ سے ہے ، وہی معیت حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ساتھ ہے اور یہ معیت ذاتی ہے کسی خاص وصف کی بناء پر نہیں۔

یعنی ابوبکرؓ جب تک ابو بکرؓ ہے اُسے اللہ کی وہی معیت حاصل ہے جو محمد الرسول اللہ ﷺ کی ذات کو حاصل ہے یہاں معیت کے لئے جمع متکلم کا صیغہ استعمال ہوا ہے حالانکہ حضرت موسیٰ ؑ کے قصے میں معیت باری کا ذکر ہوا مگر وہاں صیغہ واحد متکلم استعمال ہوا ہے۔

قال أصحاب موسى إنا لمدركون* قال كلا إن معي ربي سيهدين

چونکہ حضرت موسیٰ ؑ اور اصحاب موسیٰؑ ایک پایہ کے نہیں تھے اس لئے واحد متکلم کا صیغہ لایا گیا۔

اور یہاں جمع متکلم کیوں ہے اس لئےکہ اللہ کریم خالق ہے اس کی شان وراءالورا ہے  اور مخلوق میں سب سے اونچی شان محمد الرسول اللہ ﷺ کی ہے اور غیر انبیاء میں سب سے اونچی شان حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ہے۔

فَأَنْزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ:۔

علیہ ضمیر کا مرجع حضرت ابوبکر ؓ ہیں۔ راندش کلام یہی ہے کیونکہ غم صدیق ؓ کو تھا ۔ اور جسے غم تھا ۔ سُکَینہ کی ضرورت بھی اسی کو تھی۔

شیعہ اعتراض: 4

اس صورت میں انتشار ما بین الضمائر لازم آتا ہے۔

جواب:۔

قرینہ موجود ہو تو لازم نہیں آتا۔ اور یہاں قرینہ موجود ہے۔

اگر سُکَینہ حضور اکرم ﷺ پر اُتری تو یہ تحصیل حاصل ہے کیونکہ حضور اکرم ﷺ کو تو پہلے سکون حاصل تھا۔

وَأَيَّدَهُ :۔

اس تائید کا تعلق اس واقعہ سے بھی ہے اور بدر سے بھی ہے۔

ایک اصول یاد رکھئے

صحابہؓ کا زمانہ نزولِ قرآن کا زمانہ ہے ۔ اس لئے اہل تشیع کو بالفرض صحابہ ؓ پر طعن کرنا ہی ہے تو تاریخ سے نہیں قرآن سے پیش کریں۔

مؤرخین میں سب سے پہلا ابو مخنفؔ ہے جو پرلے درجے کا تقیہ باز اور زہریلا رافضی ہے۔

بھربھکیؔ، واقدیؔ، مسعودیؔ تینوں رافضی۔ اور ان بیچاروں کی مجبوری یہ ہے کہ جھوٹ ان کے نزدیک ۱۰؍ ۹ دین ہے  اور ان کے امام سے منسوب روایت کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ محبوب شے تقیہ یعنی جھوٹ ہے۔

اس لئے جہاں مسلمان تاریخ بناتے رہے یہ لوگ مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کرتے رہے۔

دُور کیوں جائیں اپنی تاریخ پر نگاہ کیجئے۔ اور تصوّر کیجئے کہ تاریخ اگر ایڈیٹر ’’اردُو ڈائجسٹ‘‘ لکھے اور ایڈیٹر ’’مساوات‘‘ لکھے تو کیا وہ ایک جیسی ہو گی؟۔