Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت مولانا مفتی محمود الحسن گنگوہیؒ کا فتاویٰ

  حضرت مولانا مفتی محمود الحسن گنگوہیؒ

حضرت مولانا مفتی محمود الحسن گنگوہیؒ کا فتاویٰ

سوال: کسی کلمہ گو کو کافر کہنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: اسلام کے لیے صرف کلمہ گو ہونا کافی نہیں بلکہ دل سے تصدیق اور عقائدِ حقہ کا اختیار کرنا ضروری ہے۔

کیونکہ کلمہ بہت سے غیر مسلم بھی پڑھ لیتے ہیں اور وہ غیر مسلم ہونے کے بھی مقر ہیں لیکن تصدیقِ کل بھی اور عقائدِ حقہ اور دوسروں کو مطلع ہونا آسان نہیں اس لیے اتنا ضروری ہے کہ تصدیقِ کل بھی اور عقائدِ حقہ کے منافق کوئی چیز صادر نہ ہو۔

مثلاً ایک شخص کلمہ گو بھی ہے اور بت کے سامنے سجدہ کرتا ہے یا ختم نبوت کا منکر ہے یا قرآن کریم کو خدا تعالیٰ کی کتاب نہیں مانتا وغیرہ وغیرہ تو محض کلمہ پڑھنے کی وجہ سے اس کو مسلم و مؤمن نہیں کہا جائے گا۔

(فتاویٰ محمودیہ:جلد:2:صفحہ:468)

سوال: ایک شخص کہتا ہے کہ مسلمانوں میں جتنے بھی فرقے ہیں قادیانی ہو یا شیعہ سب کلمہ گو ہیں اور سب قبلہ والے ہیں سب مسلمان ہیں کیا یہ بات درست ہے؟

جواب: عقائد فقہ و نصوصِ قطعیہ کے خلاف فرقے اسلام سے خارج ہیں محض کلمہ گو ہونے یا نماز پڑھنے سے وہ اہل قبلہ ہو کر مسلمان نہیں ہوں گے۔

(فتاویٰ محمودیه:جلد:2: صفحہ:115)

سوال: گیا ایک مسمہ جس کا نام ظہور خان ہے وہ یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذہب کے اگر کوئی نیکی کرتا ہے تو وہ بھی جنتی ہے اور قرآن پاک کا حوالہ دیتا ہے برائے مہربانی تحریر فرما دیں کہ اس کا جواب کیا ہوگا؟

جواب: جو شخص کفر و شرک کی حالت میں مرا ہو،اس کی نجات نہیں ہو گی وہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔

قال اللہ تعالیٰ ومن یشرک باللہ فقد حرم اللہ علیه الجنۃ وما واہ النار وقال اللہ تعالیٰ ان اللہ لا یغفر ان یشرک به و یغفر ما دون ذلک لمن یشاء

قرآن کریم میں صریح آیا ہے اس کے متعلق موجود ہے۔

(فتاویٰ محمودیه:جلد:1:صفحہ:697)

سوال: مسلمانوں کو سب سے پہلے عقیدہ کی ضرورت ہے یا پہلے نماز کی؟اور بعد میں عقیدے کی؟اور مسلمانوں کے لیے عقیدہ میں کن کن باتوں کی ضرورت ہے؟اگر ہمارا عقیدہ صحیح نہیں ہے اور ہم نماز پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں نماز سے جنت نصیب فرمائے گا تو ایسا ہو سکتا ہے؟مثال کے طور پر شیعہ اہل حدیث روافض جنت کے حقدار ہیں یا نہیں؟اگر نہیں تو کیسے؟

جواب: لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت سب سے مقدم ہے پھر نماز روزہ زکوۃ حج کا نمبر ہے جیسا کہ حدیث شریف میں صاف مذکور ہے: 

عن ابی عمرؓ قال قال رسول اللہﷺ بنی اسلام علی خمس شھادۃ ان لا الہ الا اللہ وان محمد رسول اللہ واقام الصلوٰۃ وایتا الزکوۃ الحج و صوم رمضان:

اور عقائد ۔۔۔۔

امنت باللہ و ملائکته و کتبه و رسله والیوم الاخر والقدر خیرہ شرہ من اللہ تعالیٰ والبعث بعد الموت:کو اہمیت حاصل ہے یہی مدارِ نجات ہے اسی کسوٹی پر سب کو پرکھا جائے گا۔

(فتاویٰ محمودیه:جلد:21:صفحہ:28)

ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

(1) من انکر شینا من شرائع الاسلام فقد ابطل قول: لا الہ الا اللہ:

(السیر الکبیر:جلد:4:صفحہ:365)

(2) *اذا لم يعرف الرجل ان محمداﷺ اخر الانبياء عليهم وعلى نبینا السلام فليس بسلم. كذافي اليتيمتہ قال ابو حفص الكبير كل من اراد بك بقلبه بغض نبي كفر وکذالو. قال :انا رسول الله او قال بالفار

سيۃ من پیغام برم یرید من پیغام می برم :یکفر ولوانہ حين قال هذا المقالة طلب غيره منه المعجزہ. قيل يكفر الطالب والمتائخرون من المشائخ قالوا ان كان غرض الطالب تعجيزه. والفتضاحتہ لا یکفر:

(فتاویٰ عالمگیری:جلد2:صفحہ:263)

(3) وفی البزاریة یحب الايمان بالانبياء بعد معرفة معنی النبی وهو المخبر عن الله تعالى باوا مرو انواهيه تصديقه بکل ما اخبر عن اللہ تعالیٰ. وأما الا ایمان بسیدنا محمدﷺ فیجب بکل ما رسولنا فی الحال و خاتم الانبیاء والرسول فاذا امن بانه رسول ولم یؤمن بانه خاتم الانبیاء لایکون مؤمنا وفی فصول العمادی من لم یقر ببعض الانبیاء بشیء أولم یرض بسنۃ من آنم المرسلین علیھم السلام فقد کفر:

(مجمع النھر:جلد1:صفحہ:699)

(4)ولو عاب نبيا كفر:

(أوجز:جلد:3:صفحہ:327)

(5)دعوی النبوۃ بعد نبیناﷺ کفر بالا جماع:

(شرح فقہ اکبر:صفحہ:202)

ثم لا نزاع في أن من المعاصي ما جعله الشارع امارة التکذيب وعلم كونه كزلك بالا دلۃ الشرعية كالسجود للصنم والقاء المصحف فی القاذورات والتلفظ بكلمة الكفر ونحو ذلك مما ثبت بمالادلة انه كفر وبهذا يندفع ما يقال:ان الايمان اذا كان عبارة عن المصدیق والا قرار فیبیعی ان لا یصلیر المفر باللسان المصدق  

بالجنان کافر بشی من افعال الکفر والفاظه مالم یحتق منہ التکذیب اوالشک 1ھ:

(شرح فقہ اکبر:صفحہ:93)

دیکھئے اس میں کتنی صورتیں ہیں کہ باوجود ایمان مفصل کی تمام باتوں پر ظاہرا اعتقاد رکھتے ہوئے فقہاء کرامؒ نے اجماعا تکفیر فرمائی ہے اگر محض: امنت بااللہ الخ: کا اعتراف زبان سے کافی ہوتا ہے اور یہ کفر کے منافی ہو تو فقہاء قاطبتہ کیوں تکفیر فرماتے۔

اگر دعویٰ نبوت منافی ایمان نہیں تو مسیلمہ کذاب کی تکفیر بھی بے محل ہو گی اور پھر اس کا قتل جو اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ارشاد سے قرون اولیٰ میں ہوا ہے محتاج تائل ہو گا حالانکہ وہ اجماعی ہے۔

(فتاویٰ محمودیہ:جلد:2:صفحہ:119)

ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

منافقین ایمان کا دعویٰ کرتے اور کفر سے بالکل برأت ظاہر کرتے تھے:

اذا جاءك المنافقون قالوا نشهد انك لرسول الله:

رسالت یوم آخر سب ہی چیزوں پر ایمان کا اظہار کرتے تھے۔

ومن الناس من يقول امنا بالله وباليوم الاخر:

مگر ان کا یہ صرف زبانی دعویٰ تھا دل میں ایمان نہیں تھا دھوکہ دینے کیلئے دعوی کرتے تھے۔

وماهم بمؤمنين يخادعون الله والذين: امنوا يقولون بافواههم ما ليس في قلوبهم:

ان کا حکم قرآن شریف میں مذکور ہے:

ان المنافقين في الدرك الاسفل من النار:

روافض کے متعدد فرقے ہیں بعض کہتے ہیں کہ نبی آخرالزمان سیدنا علیؓ ہیں حضرت جبرائیلؑ نے غلطی سے وہی حضور اکرمﷺ کے پاس پہنچا دی تھی بعض قرآن کریم میں تحریف کا عقیدہ رکھتے ہیں بعض سیدہ عائشہ صدیقہؓ پر بہتان لگاتے ہیں بعض اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تکفیر کرتے ہیں بعض ان کی تفسیق کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ان میں سے جو فرقے نصوصِ قطعیہ کے منکر ہیں ان کا حکم فتاویٰ عالمگیر میں لکھا ہے۔

احکامھم احکام المرتدین:

 ایسے لوگ اسلام سے خارج ہیں۔

والعبارة باسرهما: ولو قذف عائشةؓ كفر بالله۔۔۔۔۔ ويجب اکفار ھم باکفار عثمانؓ و علیؓ و طلحہؓ و زبیرؓ و عائشهؓ۔۔۔۔۔ ویجب الفار الروافض ۔۔۔۔۔ بقولهم: ان جبريلؑ غلط فی الوحی الی محمدﷺ دون علی وھؤ لاء القوم خارجون عن ملۃ الاسلام و احکامھم احکام المرتدین کافی الظھیرۃ:

(فتاویٰ محمودية:جلد:2صفحہ:320)