غیر مسلم جج کے ذریعے تنسیخ نکاح
غیر مسلم جج کے ذریعے تنسیخ نکاح
اسلامی نقطہ نظر سے مسلمانوں پر غیر مسلم قاضی نہیں ہو سکتا، فقہائے کرامؒ کے یہاں اس سلسلہ میں صراحتیں موجود ہیں۔ اس لئے غیر مسلم جج کی طرف سے نکاح فسخ کر دیا جائے تو شرعاً اس کا اعتبار نہیں۔
اصل یہ ہے کہ ایک بار نکاح کے وجود میں آجانے کے بعد پھر شوہر ہی اس بات کا اختیار رکھتا ہے کہ اس رشتہ کو ختم کرے لیکن چونکہ قاضی کو مسلمانوں پر عمومی ولایت حاصل ہے، اس لئے وہ بہ حیثیت ولی عورت سے ظلم کو دفع کرنے کے لئے نکاح کو فسخ کر دیتا ہے۔ اب اس بات پر اجماع ہے کہ غیر مسلم کو مسلمانوں پر ولایت حاصل نہیں ہو سکتی، بلکہ اگر باپ خدانخواستہ مرتد ہو جائے تو مسلمان بیٹے پر اس کی ولایت باقی نہیں رہے گی۔ خود اللہ رب العزت کا ارشاد ہے۔ لَا يَتَّخِذِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡكٰفِرِيۡنَ اَوۡلِيَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَۚ وَمَنۡ يَّفۡعَلۡ ذٰ لِكَ فَلَيۡسَ مِنَ اللّٰهِ فِىۡ شَىۡءٍ اِلَّاۤ اَنۡ تَتَّقُوۡا مِنۡهُمۡ تُقٰٮةً۔ (سورۃ آل عمران: آیت 28)
ترجمہ: نہ بنا دیں مسلمان کافروں کو دوست مسلمانوں کو چھوڑ کر اور جو کوئی یہ کام کرے تو نہیں اس کو اللہ سے کوئی تعلق مگر اس حالت میں کہ کرنا چاہو تم ان سے بچاؤ تو وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں کسی شمار میں نہیں مگر ہاں ایسی صورت میں کہ تم ان سے کچھ اندیشہ رکھتے ہو ۔
لہٰذا غیر مسلم جج کا نکاح فسخ کر دینا غیر معتبر ہے، اور اگر عدالت اس کا فیصلہ بھی کر دے تو اپنے علاقہ کے قاضی شریعت سے رجوع ہو کر دوبارہ اپنے معاملہ کی تنقیح کرانی چاہئے۔
(جدید فقہی مسائل جلد 1، صفحہ 300 حصہ اول)