Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

غیر مسلموں کے جلوس جنازہ میں شرکت کرنے، اور ان کے لئے ایصالِ ثواب و دعائے مغفرت کرنے کا حکم


غیر مسلموں کے لئے ایصالِ ثواب ان کی میت پر قرآن کریم پڑھنا یا دعائے مغفرت کرنا بالکل جائز نہیں۔ قرآن مجید نے متعدد مواقع پر اس سے منع کیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے اپنے چچا ابو طالب کے لئے دعا کرنی چاہی تو آپﷺ کو اس سے منع فرما دیا گیا۔ اسی طرح حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں قرآن کریم نے بتایا کہ انہوں نے پہلے اپنے والد کے لئے دعائے مغفرت کرنے کا وعدہ فرمایا لیکن پھر جب ان پر ظاہر ہو گیا کہ ایمان کا درِ رحمت ان پر بند ہے اور وہ حق کی عداوت میں پوری طرح مبتلا ہیں تو آپؑ نے استغفار ترک کر دیا۔ قرآن کریم میں ہے۔

مَا كَانَ لِلنَّبِىِّ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡاۤ اَنۡ يَّسۡتَغۡفِرُوۡا لِلۡمُشۡرِكِيۡنَ وَ لَوۡ كَانُوۡۤا اُولِىۡ قُرۡبٰى مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمۡ اَنَّهُمۡ اَصۡحٰبُ الۡجَحِيۡمِ ۞ وَمَا كَانَ اسۡتِغۡفَارُ اِبۡرٰهِيۡمَ لِاَبِيۡهِ اِلَّا عَنۡ مَّوۡعِدَةٍ وَّعَدَهَاۤ اِيَّاهُ‌ ۚ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهٗۤ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنۡهُ‌ (سورۃ التوبہ: آیت، 113/114)

ترجمہ: لائق نہیں نبی کو اور مسلمانوں کو کہ بخشش چاہیں مشرکوں کی اگرچہ وہ ہوں قرابت والے جبکہ کھل چکا ان پر کہ وہ ہیں دوزخ والے، اور بخشش مانگنا ابراہیم کا اپنے باپ کے واسطے سو نہ تھا مگر وعدہ کے سبب کہ وعدہ کر چکا تھا اس سے، پھر جب کھل گیا ابراہیم پر کہ وہ دشمن ہے اللہ کا تو اس سے بیزار ہو گیا۔

ایک موقع پر رسول اللہﷺ نے رئیس المنافقین عبد اللہ بن اُبی منافق کے لئے مغفرت کرنی چاہی تو منع کرتے ہوئے ارشاد ہوا کہ آپ ستر بار بھی ان کے لئے دعا کریں تو بھی مغفرت نہ ہو گی۔

اسی طرح کافروں پر نمازِ جنازہ اور ان کی قبر پر کھڑا ہونا بھی درست نہیں، رسول اللہﷺ کو اس سے منع کرتے ہوئے کہا گیا۔ وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓى اَحَدٍ مِّنۡهُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمۡ عَلٰى قَبۡرِهٖ  (سورۃ التوبہ: آیت، 84)

ترجمہ: اور نماز نہ پڑھ ان میں سے کسی پر جو مرجائے کبھی اور نہ کھڑا ہو اس کی قبر پر، وہ منکر ہوئے اللہ سے اور اس کے رسول سے اور وہ مر گئے نافرمان۔

 اس سے معلوم ہوا کہ غیر مسلموں کے جلوسِ جنازہ میں شریک ہونا، ان کی قبروں پر پھول چڑھانا یا ان کے لئے دعائے مغفرت کرنا قطعاً جائز نہیں۔ 

(جدید فقہی مسائل: جلد، 1 صفحہ، 306 حصہ اول)