کمالات نبوت کے آئینہ دار
نقیہ کاظمیکمالاتِ نبوت کے آئینہ دار:
نبی کریمﷺ کی پاک زندگی کو پہچاننے کے لیے حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی کی زندگی معیار ہو سکتی ہے کیونکہ یہی وہ مقدس طبقہ ہے جس نے براہِ راست فیضانِ نبوت سے نور حاصل کیا اور اسی پر آفتابِ نبوت کی کرنیں بلا کسی حائل و حجاب کے پڑیں اس لیے قدرتی طور پر جو ایمانی حرارت اور نورانی کیفیت ان میں آ سکتی تھی وہ بعد والوں کو مسیر آنی طبعاً ناممکن تھی اس لیے قرآنِ حکیم نے من حیث الطبقہ اگر کسی پورے کے پورے طبقہ کی تقدیس کی ہے تو وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی کا طبقہ ہے۔ اس نے انہیں مجموعی طور پر رَاضِی مَرضِی اور رَاشِد ومُرْشَد فرمایا، ان کے قلوب کو تقویٰ و طہارت سے جانچا پرکھا، بتلایا اور انہیں کے رکوع و سجود کے نورانی آثار کو جو اُن کی پیشانیوں پر بہ طورِ گواہ نمایاں تھے، ان کی عبودیت اورہمہ وقت سرنیاز خم کیے رہنے کی شہادت کے طور پر پیش فرمایا اس لیے امت کا یہ اجماعی عقیدہ مسلسل اور متواتر چلا آ رہا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کل کے کل عَدول اور متقن ہیں، ان کے قلوب نیات کے کھوٹ سے بَری ہیں اور ان کا اجماع شرعی حجت ہے، جس کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے اس لیے بہرحال صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی کے مقدس طبقہ کو بلا جھجک کہا جا سکتا ہے کہ وہ کمالاتِ نبوت کے آئینہ دار اور جمالاتِ رسالت کا مظہر اتم ہے حضور انورﷺ کے عاداتِ کریمہ، خصائل حمیدہ، شمائلِ فاضلہ، اخلاقِ عظیمہ اور شریعت کے تمام مسائل ودلائل اور حقائق و آداب کا علماً و عملاً سچا ترجمان ہے اوراس لیے ان کی راہ کا اتباع اک بے غل و غش اور مطمئن راستہ ہے، جو امت کو ہر گمراہی سے بچاسکتا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ فرمایا کرتے تھے کہ:
من کان مُسْتَنًّا فَلْیَسْتَنَّ بِمَنْ قَدْمَاتَ فإن الحیّ لا تؤمنُ علیہ الفتنۃ أولٰٓئِک أصحابِ محمّدﷺ کانو أفضل ہٰذہ الأمۃ أبرہا قلوبا وأعمقہا علما وأقلہا تکلفًا اختارہم اللہ لصحبۃ نبیہ ولإقامَۃ دینہ فاعرفوا لہم فضلہم واتّبعوہم علی أثرہم وتمسّکوا بما استطعتم من اخلاقہم وسیرہم فانّہم کانوا علی الہدی المستقیم۔
(رواہ رزین، مشکوٰۃ: صفحہ، 32)
ترجمہ: جسے دین کی راہ اختیار کرنی ہے وہ ان کی راہ اختیار کرلے جو اس دنیا سے گزر چکے ہیں اور وہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں جو اس اُمت کا سب سے افضل ترین طبقہ ہے قلوب ان کے پاک تھے علم ان کا گہرا تھا تکلف و تصنع ان میں کالعدم تھا اللہ نے انہیں اپنے نبی کی صحبت اور دین کے برپا کرنے کے لیے چن لیا تھا اس لیے ان کی فضیلت وبرگزیدگی کو پہچانو ان کے نقشِ قدم پر چلو اور طاقت بھر ان کے اخلاق اور ان کی سیرتوں کو مضبوط پکڑو اس لیے کہ وہی ہدایت کے سیدھے راستے پر تھے۔
اور یہ بھی ظاہر ہے کہ حضورﷺ کی ذاتِ اقدس زندگی کے ہر شعبے کے ہر پہلو کی خبر کی جامع تھی اور ذات بابرکات کو حق تعالیٰ نے سارے ہی علمی و عملی کمالات کا منتہا اور آخری نقطہ فیض بنایا تھا ممکن نہ تھا کہ اُمت کا ہر ہر طبقہ جس کی قابلیتیں اور علمی و عملی صلاحیتیں کم و بیش اور متفاوت اور ذہنی پروازیں الگ الگ تھیں کسی طبقہ پر علم کا، غلبہ کسی پر زہد کا، کسی پر تقویٰ و طہارت کا غلبہ، کسی پر افادہ وارشادات کا، کسی پر خلوت کا، تو کسی پر جلوت کی جلوہ آرائی کا پھر معاشرتی لائنوں میں کسی میں تجارت کا ذوق اور کسی میں صنعت وحرفت کا، کسی میں ملازمت کا شوق اور کسی میں دوسرے کاروبار کا ضروری نہ تھا کہ ہر ہر طبقہ نبوت کے ہر ہر رُخ کو پورے پورے غلبہ اور یکسانیت کے ساتھ اپنی اپنی مخصوص زندگیوں کا جوہر بنا سکے اور براہِ راست اس تک پہنچ سکے اس لیے حق تعالیٰ ان مظاہر نبوت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ہر ہر طبقہ کے افراد جمع فرما دیئے تھے ان میں امیر بھی تھے اور غریب بھی، تاجر بھی تھے اور کاشتکار بھی، صنّاع بھی تھے اور اہلِ حرفہ بھی، مزدور بھی تھے اور سرمایہ دار بھی، قاضی و مفتی بھی تھے اور محکوم بھی، ملازمت پیشہ بھی تھے اور یکسو بھی، خلوت پسند بھی تھے اور جلوت دوست بھی، اربابِ اقتدار بھی تھے اور پبلک میں بھی، صف شکن بھی تھے اور نفس کش، خواص بھی تھے اور عوام بھی غرض ہر درجہ اور ہر لائن کے لوگ اس مقدس طبقہ میں منجانب اللہ مہیا تھے مگر قدرِ مشترک ان سب میں کمالِ دین کمالِ اخلاص، کمالِ تقویٰ، کمالِ اتباعِ سنت اور کمالِ محبت خدا و رسول تھا جو رُوح کی طرح ان کے تمام عادات و افعال اور سارے ہی اخلاق و شمائل میں دوڑا ہوا تھا جس سے وہ ہر وقت سرشار اور اس کے عرفانی نشہ میں مست و مستغرق تھے۔ ان کی تجارت و ملازمت، صنعت و حرفت، دولت و شوکت، امارت و غربت، عبادت و ریاضت، جہاد و دعوت، دین و دیانت کے معیاری مقام سے ذرہ بھر بھی گری ہوئی یا ہٹی ہوئی نہ تھی اور بالفاظِ دیگر اتباع و اخلاص کی وجہ سے سراپا دین ہی دین تھی اس لیے دین کے اتباع کے ساتھ دنیا کے جس طبقہ پر دین کا جو رنگ بھی غالب ہو اور وہ دیانت کے جس رنگ میں بھی اپنی زندگی گزارنا چاہے، اُسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی میں وہ نمونہ مل جائے گا جو اس دائرہ کی سنتِ نبوی سے مستنیر ہوگا اور اس کی پیروی کر کے ایک انسان جس شعبہ زندگی میں بھی بڑھنا چاہے اتباعِ سنت کے دائرہ سے باہر نہ ہوگا۔ پس حق تعالیٰ کا یہ کتنا بڑا فضل ہے کہ اس جامع دین کے دریا کے جو مشرق و مغرب میں پھیلا ہوا ہے، گھاٹ ہزاروں بنا دئیے جو ہر سَمت اور ہر گوشہ میں ہیں، ان کی سمتیں مختلف ہیں، رُخ الگ الگ ہیں لیکن پانی ایک، اس کا ذائقہ ایک اور اس کی خوشبو واحد ہے اگر اس عالمی دریا کا ایک ہی گھاٹ اور ایک ہی مشرب جائے آبِ نوش ہوتا اور مشرق و مغرب کے لوگ پابند کیے جاتے کہ وہ اسی ایک گھاٹ پر پہنچ کر پانی پئیں اور جمع کریں تو اس عالمی اُمت کے لیے زندگی دوبھر اور وبالِ جان ہو جاتی اس لیے حق تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی کے اتنے ہی نمونے بنا دئیے جتنے زندگی کے گوشے اور اللہ تک پہنچنے کے رُخ ہو سکتے ہیں تاکہ اپنے اپنے ذوق کے مطابق ہر ہر اُمتی ان مختلف الجہات مشربوں اور رخوں سے اسلام کا آبِ حیات پیتا رہے اور اپنی روح کو سیراب کرتا رہے۔
مبارک ہیں وہ لوگ جو صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں پر چلیں اور ان زندگیوں کو پیش کرکے دنیا کو اس پر چلائیں کہ یہی سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی زریں نصیحت کی سچی پیروی اور کتاب و سنت کا صحیح اتباع ہے۔