علماء کو برا بھلا کہنے والے کا حکم، اور اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنا
سوال: ایک شخص علمائے دین کو لوطی کہتا ہے، اور کہتا ہے کہ دین فروشی ان کا پیشہ ہے، اور علمِ دین پڑھا کر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں، علمائے دین بدمعاش ہیں، مدارسِ عربیہ گمراہی کے اڈے ہیں، اور مسجدوں کو اصطبل خانہ قرار دے اور مزید لغویات اور بےہودہ باتوں کا کہنا اِس وقت مذکورہ شخص کا پیشہ بن گیا ہے، اور موصوف عاقل، بالغ اور زی فہم آدمی ہے۔ اب شرعاً اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: مذکورہ کلمات سخت گستاخانہ ہیں، اور تحقیق کے بغیر علماء کرام کی پوری جماعت کو اِس قسم کے قبیح و شنیع کلمات کہنا نہ صرف بدترین فسق ہے بلکہ ان کلمات کے کلماتِ کفریہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ مذکورہ شخص پر واجب ہے کہ فوراً ان کلمات سے توبہ کرے۔ بلکہ اسے احتیاطاً تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح بھی کر لینی چاہئے۔ اور جب تک وہ اپنے اس عمل سے توبہ نہ کر لے اُس وقت تک اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات نہ رکھیں۔
(فتاویٰ عثمانی: جلد، 1 صفحہ، 76)