غیر مسلم ممالک سے درآمد شدہ گوشت خریدنے کا حکم
آج بازار غیر مسلم ممالک مثلاً انگلینڈ، امریکہ، ہالینڈ، آسٹریلیا اور برازیل وغیرہ سے درآمد گوشت سے بھرے ہوئے ہیں۔ پیچھے دلائل سے یہ بات واضح ہو کر سامنے آ چکی ہے کہ اہلِ کتاب کا ذبیحہ مُسلمانوں کے لئے اُس وقت حلال ہے جب وہ لوگ ذبح کی شرعی شرائط کی رعایت کریں۔ اور جس زمانے میں قرآن کریم نے اُن کے ذبیحہ کو مسلمانوں کے لئے مُباح قرار دیا تھا اُس وقت ان کے ذبیحہ میں یہ بات موجود تھی، اور جہاں تک (موجودہ دَور) کے یہودیوں کا تعلق ہے اُن کے بارے میں مشہور یہ ہے کہ یہ لوگ آج بھی گوشت کے سلسلے میں اپنے مذہب کے احکام کی پابندی کرتے ہیں اور اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ اپنے علماء کی نگرانی میں اپنے لئے علیحدہ مذبح خانے بنائیں اور اپنے گوشت کو کوثر نام کے ذریعے ممتاز کرتے ہیں، اور جہاں یہودیوں کی آبادی ہوتی ہے وہاں یہ گوشت آسانی سے دستیاب ہوتا ہے
جہاں تک (موجودہ دَور کے) نصاریٰ کا تعلق ہے وہ تو ذبح کے سلسلے میں تمام شرائط اور پابندیوں کا طوق اُتار کر بالکل آزاد ہو چکے ہیں، چنانچہ آج زبح کے سلسلے میں یہ لوگ اُن احکام کا لحاظ بھی نہیں کر رہے ہیں جو آج بھی ان کی مقدس کتابوں میں موجود ہیں۔
ان حالات میں اُن کا ذبیحہ اُس وقت تک حلال نہیں ہو گا جب تک کسی جانور کے بارے میں یقینی طور پر یہ بات معلوم نہ ہو جائے کہ اس میں اُنہوں نے تمام شرعی شرائط کا لحاظ کیا ہے۔
بہرحال وہ گوشت جو آج مغربی ممالک کے بازاروں میں فروخت ہو رہا ہے اسلامی ممالک میں غیر اسلامی ممالک سے درآمد کیا جا رہا ہے، اس کو استعمال سے روکنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ جو مندرجہ ذیل ہیں
(1) پہلی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں ذبح کرنے والے کے مذہب کے بارے میں پتہ چلانا مشکل ہے، کیونکہ ان ممالک میں بت پرست، آتش پرست، دہریے اور مادہ پرست بھی بکثرت آباد ہیں، لہٰذا یہ یقین حاصل کرنا مشکل ہے کہ جس جانور کا گوشت بازار میں فروخت ہو رہا ہے، اس کا ذبح کرنے والا اہلِ کتاب ہے۔
(2) دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر تحقیق سے یا غالب آبادی پر حکم لگانے کی وجہ سے یہ ثابت بھی ہو جائے کہ ذبح نصرانی ہے، پھر یہ پتہ نہیں چلے گا کہ فی الواقع وہ نصرانی ہے یا اپنے عقیدے میں اللہ جلّ شانہ کا منکر اور مادہ پرست ہے۔
ہم پیچھے تفصیل سے یہ بیان کر چکے ہیں کہ آج نصرانیوں کی بہت بڑی تعداد وہ ہے جو اس کائنات کے لئے خدا تعالیٰ جلّ شانہ کے وجود کی مُنکر ہے (معاذ اللہ)۔ لہٰذا ایسی صورت میں وہ ذابح فی الواقع نصرانی نہ ہوا۔
(3) تیسری وجہ یہ ہے کہ اگر تحقیق یا ظاہر حال پر حکم لگانے کی وجہ سے یہ ثابت بھی ہو جائے کہ وہ ذابح نصرانی ہے، تب بھی نصرانیوں کے بارے میں یہ بات معروف ہے کہ وہ ذبح کرتے وقت شرعی طریقہ التزام نہیں کرتے، بلکہ بعض نصرانی تو جانور کا گلا گھونٹ کر ہلاک کر دیتے ہیں، اور بعض جانور کو بےہوش کرنے کے لئے وہ مشتبہ طریقے کو اختیار کرتے ہیں جن کو پیچھے بیان کر چکے ہیں۔
(4) چوتھی وجہ یہ ہے کہ یہ بات یقینی طور پر ثابت ہے کہ نصاریٰ ذبح کے وقت تسمیہ نہیں پڑھتے۔ اور جمہُور اہلِ علم کے نزدیک راجح ہے کہ اہلِ کتاب کے ذبیحہ کے حلال ہونے کے لئے بھی ذبح کے وقت تسمیہ شرط ہے۔
بہرحال! ممانعت کی مندرجہ بالا وجوہِ قویہ کی وجہ سے کسی مسلمان کے لئے مغربی ممالک کے بازاروں میں فروخت ہونے والے گوشت کو کھانا جائز نہیں جب تک کسی معین گوشت کے بارے میں یہ یقین نہ ہو جائے کہ یہ گوشت زکاۃِ شرعی کے ذریعہ حاصل کیا گیا ہے، اور سیدنا عدی بن حاتمؓ کی حدیث سے یہ ثابت ہو چکی ہے کہ گوشت کے اندر اصل حرمت ہے، جب تک اس کے خلاف ثابت نہ ہو۔ اور حضور اکرمﷺ نے اُس شکار کو کھانے سے منع فرمایا ہے جس شکار میں شکاری کے کتے کے علاؤہ دوسرا کتا بھی شامل ہو جائے۔
اسی طرح ایک حدیث شریف میں شکار کے بارے میں حضور اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا ان وجدتہ غریقاً فی الماء فلاتأکل فانک لا تدری الماءقتلہ أو سھمک یعنی اگر تم اپنے شکار کو پانی میں غرق پاؤ تو اُس شکار کو مت کھاؤ، اس لئے کہ تمہیں معلوم نہیں کہ وہ جانور پانی میں غرق ہونے کی وجہ سے مرا ہے یا تمہارے تیر سے مرا ہے۔
اس سے معلوم ہوا اگر کسی جانور میں حِلت اور حرمت دونوں وجہیں پائی جائیں تو جانبِ حرمت کو ترجیح ہو گی۔ یہ حدیث بھی اس اصول پر دلالت کرتی ہے کہ گوشت کے اندر اصل: حُرمت: ہے جب تک یقینی طور پر یہ بات ثابت نہ ہو جائے کہ وہ حلال ہے۔یہ اصول کئ ہی فقہاء کرام نے بیان فرمایا ہے۔
یہی حکم مغربی ممالک سے امپورٹ شدہ گوشت کا ہے۔کیونکہ اس میں ممانعت کی مندرجہ بالا چاروں وجوہات پائی جاتی ہیں۔ جہاں تک اس شہادت کا تعلق ہے جو گوشت کے ڈبے اور اس کے کارٹن پر لکھی ہوتی ہے کہ انھا مذبوحہ علی الطریقۃ السلامیہ یعنی یہ گوشت اسلامی طریقے پر ذبح کیا گیا ہے۔
بہت سے بیانات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اس شہادت پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ سعودی عرب کی ھیئۃ کبار العلماء نے اپنے نمائندے اُن غیر ملکی مذبوح خانوں میں بھیجے جہاں سے اسلامی ممالک کو گوشت بھیجا جاتا ہے، چنانچہ اُن نمائندوں نے ان مذبوح خانوں کاجائزہ لینے کے بعد اپنی جو رپورٹیں پیش کی ہیں، اُن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان ڈبوں اور کارٹنوں پر جو شہادت درج ہوتی ہے، اس پر بالکل اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
فتاویٰ ھیئۃ کبار العلماء میں غیر مسلم ممالکی امپورٹ شدہ گوشت کے بارے میں جو قرارداد منظور کی گئی ہے، وہ مندرجہ ذیل ہے۔
غیر مسلم ممالک سے در آمد شدہ گوشت کے بارے میں ھیئۃ کبار العلماء کی قرارداد
امریکہ اور دوسرے ممالک سے جو گوشت سعودی عرب میں امپورٹ کیا جاتا ہے، اس پر کوئی حکم لگائے بغیر صرف جانور ذبح کر دینے کا شرعی طریقہ بیان کر دینے سے اس شخص کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا جو حلال کھانے کی فکر کرتا ہے اور حرام سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔
لہٰذا جن غیر مسلم ممالک سے سعودی عرب میں گوشت امپورٹ کیا جاتا ہے، وہاں کی کمپنیوں کے بارے میں یہ معلومات حاصل کرنا ضروری ہے کہ وہاں کس طرح جانور کو ذبح کیا جاتا ہے اور ذبح کرنے والے کون کون لوگ ہوتے ہیں؟ لیکن عام مسلمان یہ سب معلومات کس طرح حاصل کر سکتا ہے؟ اس لئے کہ ان ممالک کے مسافتِ بعیدہ کی وجہ سے ان کی طرف سفر میں بڑی مشقّت پیش آتی ہیں، جس کی وجہ سے بہت کم لوگ ان ممالک کا سفر کرتے ہیں، جو لوگ وہاں کا سفر کرتے ہیں، ان میں اکثر یا تو علاج کی غرض سے سفر کرتے ہیں یا کمانے کی خواہشات کی تکمیل کے لئے یہاں معلومات حاصل کرنے کے لئے لیے وہاں کا سفر کرتے ہیں، لیکن اس مقصد کے لئے کوئی سفر نہیں کرتا اور نہ ہی اس کی تفتیش کے لئے اور اس کی حقیقت سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے کوئی شخص اپنے آپ کو مشقت میں ڈالتا ہے۔
اس لئے ادارات البحوث العلمیۃو الافتاء والدعوہ والارشاد کے صدر دفتر کی طرف سے ایک خط انہیں اداروں کے ذمہ داروں کی طرف لکھا گیا ہے جو گوشت اور دوسرے کھانے کی اشیاء سعودی عرب میں درآمد کرتے ہیں، جس میں ان اداروں سے حقیقتِ حال پوچھے گئے اور اُن سے درخواست کی گئی کہ وہ دینی اور شرعی نقطہ نظر سے ان امپورٹ شدہ گوشت کا خاص خیال رکھیں تا کہ مسلمانوں کو اُن کھانوں سے بچایا جائے جن کو اللہ تعالیٰ جلّ شانہ٘ نے حرام قرار دیا ہے۔
ان اداروں کی طرف سے جو جواب آیا وہ بہت مجمل تھا جس سے نہ تو اطمینانِ قلب حاصل ہو سکتا تھا اور نہ ہی شک دُور ہو سکتا تھا۔ لہٰذا اس ادارے نے یورپ اور امریکہ میں اپنے نمائندوں کو خط لکھا کہ وہ اُن مذبوح خانوں میں ذبح کی کیفیت اور ذبح کرنے والوں کی دیانت کے بارے میں تحقیق کرکے اطلاع دیں۔ چُنانچہ اُس خط کے جواب میں بعض نے اجمالی جواب لکھ کر بھیج دیا، لیکن بعض غیرت مند حضرات نے اس کے بارے میں رسالہ کی صورت میں ذبح کی کیفیت اور ذبح کرنے والوں کے دیانت کے بارے میں تفصیل سے جواب لکھا۔ اللہ تعالیٰ جلّ شانہٗ ان حضرات کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
لیکن ان جوابات میں ان تمام غیر ملکی کمپنیوں کا احاطہ نہیں کیا گیا جو کمپنیاں سعودی عرب میں گوشت ایکسپورٹ کرتی ہیں اور جن کمپنیوں کے بارے میں بیان کیا گیا ان میں سے بعض کے بارے میں اجمالاً بیان کیا گیا۔
بہرحال! کمیٹی کو جو رپورٹیں موصول ہوئیں اور رسائل کے ذریعے اسے جو معلومات حاصل ہوئیں، اور ذبح کرنے کا شرعی طریقہ جس کا اسے جو معلومات حاصل ہوئیں، اور ذبح کرنے کا شرعی طریقہ جس کا بیان اوپر آ چکا اور اس بحث سے متعلق جو فتوے جاری ہوئے، ذیل میں ان سب کا خلاصہ کمیٹی پیش کرتی ہے تا کہ درآمد شدہ گوشت کا حکم واضح ہو جائے۔
خلاصہ:
اولاً: رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سیکرٹری کا جو خط ادارت البحوث المعلمية والافتاء کے رئیس کے پاس آیا، جس میں یہ بات تحریر تھی کہ ان کے پاس یہ رپورٹیں آئی ہیں کہ آسٹریلیا کی بعض کمپنیاں جو اسلامی و ممالک کو گوشت برآمد کرتی ہیں، خاص طور پر الحلال المصادق کمپنی جس کا مالک ایک قادیانی حلال والمصادق ہے، یہ کمپنیاں گائے، بکریاں اور پرندے ذبح کرنے میں اسلامی طریقہ اختیار نہیں کرتی ہیں، اور ان کمپنیوں کے ذبح شدہ جانوروں کا کھانا حرام ہے۔ اور رابطہ عالم اسلامی نے اپنے کتاب میں جو قرارداد اور سفارش پیش کی ہے، اس کی رعایت ضروری ہے۔
ثانياً: استاذ شیخ احمد بن صالح محایری کی طرف سے فرانس کی کمپنی برئیسا کے طریقہ ذبح کرنے کے بارے میں جو رپورٹ آئی ہے کہ اس کمپنی میں ذبح کرنے والے کے بارے میں پتہ نہیں چلتا کہ وہ مسلمان ہے یا کتابی یا بت پرست ہے یا ملحد ہے، اور اس میں شک رہتا ہے کہ مذبوحہ جانور کی دو رگیں کٹی ہیں یا ایک رگ کٹی ہے۔ اور اس کوشت کے حلال ہونے کی تصدیق کرنے والے کی گواہی نہ تو ذبح کے عمل کو بذاتِ خود مشاہدہ کرنے پرمبنی ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے نائب کے مشاہدہ پر بنی ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی شہادت ذبح کرنے والے کو جاننے پر مبنی ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی شہادت ذبح کرنے والے کو جاننے پر مبنی ہوتی ہے۔ اس رپورٹ کی روشنی میں اس کمیٹی کے ذبح شدہ جانوروں کو کھانا جائز نہیں، اور اس کمپنی کے غیر شرعی تذکیہ کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اس کمپنی کے ڈائریکٹر نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی کہ اگر درآمد کرنے والے ملک پہلے سے گوشت کی یقینی مقدار ہمیں بتا دیں تو ہم شرعی طریقے پر ذبح کرنے کے لئے موجودہ ذبح کے طریقے میں تبدیلی کرلیں گے۔
ثالثاً: استاذ احمد بن صالح محایری کی طرف سے (سماد یا اویسۃ) کمپنی کے متعلق گائے اور مرغی کے و ذبح کے طریقہ کار کے بارے میں جو رپورٹ آئی ہے، اس میں ذابح کی دیانت مشکوک ہے، یہ معلوم نہیں کہ وہ ذابح کتابی ہے یا بت پرست ہے۔ دوسرے یہ کہ گائے کو پہلے بجلی کے کرنٹ کے ذریعہ بےہوش کیا جاتا ہے، جب وہ گائے بےہوش ہو کر گر جاتی ہے تو اس کو مشینوں کے ذریعہ پاؤں کی طرف بلند کیا جاتا ہے، پھر چھری کے ذریعہ اس کی رگیں کاٹی جاتی ہیں، جس کے نتیجے میں اس کا خون بڑی مقدار میں خارج ہو جاتا ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر اس کمپنی کے مذبوحہ جانور کھانا جائز نہیں۔
رابعاً: شیخ عبداللہ الغضیہ کی طرف سے لندن میں ذبح کے طریقہ کار کے بارے میں یہ رپورٹ آئی ہے کہ یہاں ذبح کرنے والے دین سے منحرف نو جوان، بت پرست اور دہریے ہیں۔ ذبح کا طریقہ کار یہ ہے کہ مرغی کو ایک مشین میں ڈالا جاتا ہے، جب وہ مشین سے باہر نکلتی ہے تو وہ مردہ حالت میں ہوتی ہے اور تمام پر اکھڑے ہوئے ہوتے ہیں اور اس کا سر کٹا ہوا نہیں ہوتا، بلکہ اس کی گردن پر ذبح کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا، خود مذبح کے انگریز مالک نے بھی ان باتوں کا اقرار کیا۔
اور مذبح خانے کا عملہ یہ دھوکہ دیتا ہے کہ اگر کوئی شخص اس خود کار مشین کے ذریعہ ہونے والے ذبح کے طریقے کو دیکھنا چاہے جس کے ذریعہ ذبح کرنے کے بعد وہ گوشت برآمد کیا جاتا ہے تو اس شخص کو وہ مذبح خانہ دکھایا جاتا ہے جس میں چند مسلمان اندرون ملک رہنے والے مسلمانوں کے لئے ذبح کرتے ہیں۔ یہ بات ذبح کے طریقے اور ذبح کرنے والے کی دیانت میں شک ڈال دیتی ہے، اس لئے اس کمپنی کے ذبح شدہ جانوروں کو کھانا حلال نہیں۔
خامساً: استاد حافظ کی طرف سے یونان کے بعض مشہور مقامات کے بارے میں یہ رپورٹ آئی ہے کہ وہاں پر بڑے جانوروں کو سروں پر پستول کے ذریعہ مار کر پہلے انہیں گرایا جاتا ہے اور پھر اسے ذبح کیا جاتا ہے، چونکہ ایسے جانور میں یہ شک رہتا ہے کہ ذبح کا عمل اس کی موت کے بعد ہوا یا پہلے ہوا، اس لئے ایسے جانور کو کھانا جائز نہیں۔ وہاں پر ذبح کا ایک اور طریقہ بھی رائج ہے، جس کے بارے میں رپورٹ بھیجنے والے کا کہنا یہ ہے کہ وہ طریقہ اسلامی طریقہ کے مطابق ہے، البتہ رپورٹ بھیجنے والے نے نہ تو ذبح کی کیفیت بیان کی ہے اور نہ ہی ذابح کی دیانت کی دیانت کے بارے میں کچھ بیان کیا ہے، اسی طرح نہ تو ذبح کرنے کی جگہ کے بارے میں بیان کیا ہے اور نہ ہی ذبح کرنے والی کمپنیوں کا ذکر کیا ہے۔
سادساً: ہمیں شیخ عبدالقادر ناؤط سے یوگو سلادیہ میں ذبح کے طریقہ کے بارے میں یہ رپورٹ موصول ہوئی ہے کہ یوگو سلاویہ کے دیہاتوں میں اور سرایو شہر میں اسلامی طریقے پر جانوروں کو ذبح کیا جاتا ہے اور ذابح بھی مسلمان ہوتا ہے، لہٰذا ان جانوروں کو کھانا جائز ہے۔ لیکن یوگوسلاویہ کے دوسرے شہروں میں جو جانور ذبح کئے جاتے ہیں، ان میں ذبح کرنے والا غیر مسلم ہوتا ہے جو ظاہراً تو کتابی یا شیعہ ہوتا ہے لیکن حقیقۃ الامر میں وہ ایسا نہیں ہوتا۔ لہٰذا ذابح کی اہلیت میں شک کی وجہ سے یوگوسلاویہ کے دوسرے شہروں کے ذبیحہ جانور کو کھانا جائز نہیں۔ (سابعاً) مغربی جرمنی میں ذبح کے طریقے کے بارے میں ڈاکٹر طباع نے یہ رپورٹ بھیجی ہے کہ ذبح کرنے سے پہلے گائے کے سر میں پستول ماری جاتی ہے اور پھر اس گائے کی موت واقع ہونے کے بعد اسے ذبح کیا جاتا ہے۔ لہٰذا ان ذبائح کو کھانا جائز نہیں۔
ثامناً: رسالہ المجتمع میں ڈنمارک میں ذبح کے طریقے کے بارے میں رپورٹ شائع ہوئی ہے کہ ذبح کرنے والے عیسائیوں کی بہ نسبت شیوعیین اور بت پرستوں سے زیادہ قریب ہوتے ہیں اور یہ کہ کمپنی کو اسلامی ذبح کے طریقہ کار کے بارے میں کچھ معلومات حاصل نہیں ہیں، سوائے اس کے کہ جو باتیں افواہوں کے ذریعہ معلوم ہوئی ہیں، لہٰذا کمپنی کیلئے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اسلامی ذبح کے طریقے کا خیال رکھے اور یہ کہ وہ گوشت کے پیکٹ پر یہ عبارت لکھ دے کہ (ذبح على الطريقة الاسلامية) اس کو اسلامی طریقے پر ذبح کیا گیا ہے۔
گوشت درآمد کرنے والے یہ جملہ اس لئے لکھتے ہیں تا کہ وہ اس کی تصدیق کر دے جس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، کمپنی کے لوگ اُس شخص کو ذبح کی کیفیت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے سے روکتے ہیں جو معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے۔
اور استاد احمد صالح محایری کے واسطے سے محمد الابیض المغربی کی طرف سے ایک رپورٹ آئی ہے جو ڈنمارک میں گوشت کو پیک کرنے کا کام کرتا ہے، وہ یہ کہ پیکنگ پر جو یہ عبارت لکھتے ہیں کہ ذبحت على الطريقة الاسلامیة یہ درست نہیں ہے، اس لئے کہ جانور کا قتل ہر حالت میں بجلی کے ذریعہ مکمل ہوتا ہے۔ بہرحال مندرجہ بالا دونوں رپورٹوں کی بنیاد پر ڈنمارک سے درآمد ہ گوشت کھانا جائز نہیں۔
تاسعاً: علامه ابنِ عربیؒ کا جو قول بیان کیا گیا کہ جس چوپائے اور پرندے وغیرہ کو اہلِ کتاب نے ذبح کیا ہو، اُس کا کھانا مطلقاً حلال ہے، اگرچہ ان کے ذبح کا طریقہ ہمارے طریقے کے موافق نہ ہو۔ اور یہ کہ ہر وہ چیز جس کو وہ اپنے مذہب میں حلال سمجھتے ہیں، وہ ہمارے لئے بھی حلال ہے، سوائے اُس چیز کے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ جل شانہ نے انہیں جھوٹا قرار دیا ہے۔ ذبح کا جو طریقہ اور جو فتاویٰ بیان ہوئے ہیں، ان کی بنیاد پر ان کا یہ قول مردود ہے۔
عاشراً: ذبح کرنے کا طریقہ اور ذبح کرنے والے کی دیانت کے بارے میں جو تفصیل اوپر بیان ہوئی، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وزارت تجارت و صنعت کی طرف سے ایوانِ صدارت جو تم پر بھیجی گئی ہے جس میں لکھا ہے کہ برآمد شدہ گوشت حلال ہے، یہ تحریر کے اطمینان کیلئے کافی نہیں، بلکہ دلوں کی خلجان باقی رہتا ہے کہ یہ ذبائح اسلامی طریقہ ذبح کے موافق ہیں یا نہیں؟ اور گوشت کے اندر اصل حرمت ہے، لہٰذا اس مشکل کا حل تلاش کرنا ضروری ہے۔
(اسلام اور جدید معاشی مسائل: جلد، 4 صفحہ، 40)