غیر مسلم طاقتوں سے بےگناہ مسلمانوں کے مفاد کے خلاف تعاؤن اور دوستی کسی صورت جائز نہیں
مسلمانوں کے مقابلے میں غیر مسلم غاصبوں کی امداد قرآن و سنت کی صریح نصوص کے بالکل خلاف ہے۔ جس کے حرام ہونے میں کسی مسلمان کو شبہ نہیں ہوسکتا۔ قرآن کریم کا واضح ارشاد ہے:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا عَدُوِّىۡ وَعَدُوَّكُمۡ اَوۡلِيَآءَ تُلۡقُوۡنَ اِلَيۡهِمۡ بِالۡمَوَدَّةِ وَقَدۡ كَفَرُوۡا بِمَا جَآءَكُمۡ مِّنَ الۡحَـقِّ ۚ يُخۡرِجُوۡنَ الرَّسُوۡلَ وَاِيَّاكُمۡ اَنۡ تُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰهِ رَبِّكُمۡ ؕ اِنۡ كُنۡـتُمۡ خَرَجۡتُمۡ جِهَادًا فِىۡ سَبِيۡلِىۡ وَ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِىۡ ۖ تُسِرُّوۡنَ اِلَيۡهِمۡ بِالۡمَوَدَّةِ ۖ وَاَنَا اَعۡلَمُ بِمَاۤ اَخۡفَيۡتُمۡ وَمَاۤ اَعۡلَنۡتُمۡؕ وَمَنۡ يَّفۡعَلۡهُ مِنۡكُمۡ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِيۡلِ ۞ (سورۃ الممتحنه: آیت، 1)
ترجمہ: اے ایمان والو! نہ پکڑو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست تم ان کو پیغام بھیجتے ہو دوستی سے اور وہ منکر ہوئے ہیں اس سے جو تمہارے پاس آیا سچا دین نکالتے ہیں رسول کو اور تم کو اس بات پر کہ تم مانتے ہو اللہ کو جو رب ہے تمہارا اگر تم نکلے ہو لڑنے کو میری راہ میں اور طلب کرنے کو میری رضا مندی تم ان کو چھپا کر بھیجتے ہو دوستی کے پیغام اور مجھ کو خوب معلوم ہے جو چھپایا تم نے اور جو ظاہر کیا تم نے اور جو کوئی کرے تم میں یہ کام تو وہ بھول گیا سیدھی راہ
یہ آیت جس واقعے کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے، اس سیدنا حاطب بن ابی بلتعہؓ نے صرف اتنا کیا تھا کہ ان کے جو اعز و اقرباء مکہ مکرمہ میں مقیم تھے اُن کی مصلحت کے پیش نظر کفار مکہ کو یہ خبر بھیجنی چاہی تھی کہ ان پر حملے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔
اگرچہ اس واقعے سے مسلمانوں کو کوئی قابلِ ذکر نقصان نہیں پہنچا، لیکن قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیات نے اس اقدام پر شدید گرفت فرمائی، اور آئندہ کیلئے یہ مستقل قانون بنا دیا کہ غیر مسلم طاقتوں سے بےگناہ مسلمانوں کے مفاد کے خلاف تعاؤن اور دوستی کسی صورت جائز نہیں۔ اس سورت میں آگے اللہ تعالیٰ جل شانہ نے اس مسئلے کی مزید وضاحت اس طرح فرمائی ہے۔
لَا يَنۡهٰٮكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيۡنَ لَمۡ يُقَاتِلُوۡكُمۡ فِى الدِّيۡنِ وَلَمۡ يُخۡرِجُوۡكُمۡ مِّنۡ دِيَارِكُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡهُمۡ وَ تُقۡسِطُوۡۤا اِلَيۡهِمۡؕ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُقۡسِطِيۡنَ ۞ اِنَّمَا يَنۡهٰٮكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيۡنَ قَاتَلُوۡكُمۡ فِى الدِّيۡنِ وَاَخۡرَجُوۡكُمۡ مِّنۡ دِيَارِكُمۡ وَظَاهَرُوۡا عَلٰٓى اِخۡرَاجِكُمۡ اَنۡ تَوَلَّوۡهُمۡۚ وَمَنۡ يَّتَوَلَّهُمۡ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ۞ (سورۃ الممتحنه: آیت، 8/9)
ترجمہ: اللہ تم کو منع نہیں کرتا ان لوگوں سے جو لڑے نہیں تم سے دین پر اور نکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان سے کرو بھلائی اور انصاف کا سلوک بیشک اللہ چاہتا ہے انصاف والوں کو۔ اللہ تو منع کرتا ہے تم کو ان سے جو لڑے تم سے دین پر اور نکالا تم کو تمہارے گھروں سے اور شریک ہوئے تمہارے نکالنے میں کہ ان سے کرو دوستی اور جو کوئی ان سے دوستی کرے سو وہ لوگ وہی ہیں گنہگار۔
ان آیات میں پوری صراحت کے ساتھ ایسے غیر مسلموں کی ہمنوائی اور اعانت کو حرام قرار دیا گیا ہے جو مسلمانوں سے جنگ کریں اور انہیں خانماں برباد کریں۔ یا اس کام میں ان کے ساتھ تعاؤن کریں۔
مسلمانوں کے خلاف کافروں سے دوستانہ تعاون کی حرمت متعدد آیات میں مختلف عنوانات سے بیان فرمائی گئی ہے، خاص طور پر مندرجہ ذیل آیات کریمہ مسلمانوں کے لئے سرمہ بصیرت ہیں۔
بَشِّرِ الۡمُنٰفِقِيۡنَ بِاَنَّ لَهُمۡ عَذَابًا اَلِيۡمًا ۞ الَّذِيۡنَ يَتَّخِذُوۡنَ الۡـكٰفِرِيۡنَ اَوۡلِيَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ ؕ اَيَبۡتَغُوۡنَ عِنۡدَهُمُ الۡعِزَّةَ فَاِنَّ الۡعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِيۡعًا ۞ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡكٰفِرِيۡنَ اَوۡلِيَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ ؕ اَ تُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ تَجۡعَلُوۡا لِلّٰهِ عَلَيۡكُمۡ سُلۡطٰنًا مُّبِيۡنًا ۞ (سورۃ النساء: آیت: 138/139/144)
ترجمہ: خوش خبری سنا دے منافقوں کو کہ ان کے واسطے ہے عذاب دردناک۔ وہ جو بناتے ہیں کافروں کو اپنا رفیق مسلمانوں کو چھوڑ کر کیا ڈھونڈتے ہیں ان کے پاس عزت سو عزت تو اللہ ہی کے واسطے ہے ساری، اے ایمان والو نہ بناؤ کافروں کو اپنا رفیق مسلمانوں کو چھوڑ کر کیا لیا چاہتے ہو اپنے اوپر اللہ کا الزام صریح۔
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَـتَّخِذُوا الَّذِيۡنَ اتَّخَذُوۡا دِيۡنَكُمۡ هُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ وَالۡـكُفَّارَ اَوۡلِيَآءَ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ ۞ (سورۃ المائدہ: آیت، 57)
ترجمہ: اے ایمان والو مت بناؤ ان لوگوں کو جو ٹھہراتے ہیں تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل وہ لوگ جو کتاب دیئے گئے تم سے پہلے اور نہ کافروں کو اپنا دوست، اور ڈرو اللہ سے اگر ہو تم ایمان والے
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡيَهُوۡدَ وَالنَّصٰرٰۤى اَوۡلِيَآءَ ؔۘ بَعۡضُهُمۡ اَوۡلِيَآءُ بَعۡضٍؕ وَمَنۡ يَّتَوَلَّهُمۡ مِّنۡكُمۡ فَاِنَّهٗ مِنۡهُمۡؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَ ۞ (سورۃ المائدہ: آیت 51)
ترجمہ: اے ایمان والو مت بناؤ یہود اور نصاریٰ کو دوست وہ آپس میں دوست ہیں ایک دوسرے کے اور جو کوئی تم میں سے دوستی کرے ان سے تو وہ انہی میں ہے، اللہ ہدایت نہیں کرتا ظالم لوگوں کو،
مذکورہ بالا آیات اور نبی کریمﷺ کے بہت سے ارشادات کی روشنی میں فقہائے امت نے یہ اصول بیان فرمایا ہے کہ کسی مشترک دشمن کے خلاف بھی غیر مسلموں سے مدد لینا یا ان کی مدد کرنا صرف اس صورت میں جائز ہے جب وہ غیر مسلم مسلمانوں کے پرچم تلے جنگ کریں، اور جنگ کے نتیجے میں مسلمانوں کا حکم غالب ہو۔
امام ابوبکر حصاصؒ سورۂ نساء کی مذکورہ بالا آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کفار کے مقابلے میں دوسرے کفار سے ایسی حالت میں مدد لیں جب فتح کی صورت میں کفر کا حکم غالب ہو۔
دوسری طرف اگر کوئی غیر مسلم قوم کسی دوسری غیر مسلم قوم سے لڑنے کیلئے مسلمانوں کو دعوت دیں تب بھی اصل حکم یہی ہے کہ مسلمانوں کیلئے ان میں سے کسی بھی فریق کی مدد کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ اگر غیر مسلموں کی یہ دعوت قبول نہ کی گئی تو وہ خود مسلمانوں کو بھی قتل کر ڈالیں گے تب ان کی مدد کرنا جائز ہو گا۔
امام محمدؒ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کیلئے جائز نہیں کہ وہ اہلِ شرک کی ایک جماعت کے ساتھ مل کر دوسرے اہلِ شرک سے جنگ کریں اوراگر اہلِ حرب نے مسلمان قیدیوں سے کہا کہ ہمارے مشرک دشمن سے ہمارے ساتھ لڑو اور وہ خود بھی مشرک ہے، تو اگر ان قیدیوں کی ان مشرکوں کی طرف سے اپنی جان کا خوف ہو تو ان کے لئے جائز ہو گا کہ وہ ان کے ساتھ مل کر ان کے دشمن مشرکوں سے لڑیں۔
یہ سب کچھ اُس وقت ہے جب غیر مسلموں کے ساتھ مل کر دوسرے غیر مسلموں سے جنگ کی جارہی ہو لیکن اگر غیر مسلموں کے مقابلے میں مسلمان ہوں اور پھر غیر مسلم اپنے ساتھ مل کر اپنے مدِ مقابل مسلمانوں سے لڑنے کی دعوت دیں تو اس دعوت کو قبول کرنا حالت اضطرار میں بھی جائز نہیں ہے۔ یعنی اگر مسلمانوں کو یہ اندیشہ ہو کہ اگر ہم نے غیر مسلموں کا یہ مطالبہ نہ مانا کہ ان کے ساتھ مل کر دوسرے مسلمانوں سے لڑا جائے تو یہ غیر مسلم خود ہمیں قتل کر ڈالیں گے، تب بھی ان کا یہ مطالبہ ماننا مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے، خواہ اسے خود اپنی جان دے دینی پڑے۔
امام محمدؒ فرماتے ہیں اگر وہ یہ کہیں کہ ہمارے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑو ورنہ ہم تمہیں قتل کر دیں گے، تب بھی ان کے لئے مسلمانوں سے جنگ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
امام سرخسیؒ اس کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں اس لئے کہ مسلمانوں کیلئے دوسرے مسلمانوں سے جنگ حرام لعینہ ہے۔ لہٰذا قتل کی دھمکی کی صورت میں بھی ایسا اقدام جائز نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ اس شخص کو قتل کرو ورنہ میں تمہیں قتل کرتا ہوں (کہ اس دھمکی کی وجہ سے دوسرے کو قتل کرنا جائز نہیں)۔
(فتاویٰ عثمانی: جلد، 3 صفحہ، 488)