قرآن کے ناقص ہونے پر حسن اللہیاری کا الزام
دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓقرآن کے ناقص ہونے پر حسن اللہیاری کا الزام
حسن اللہیاری کی چالاکی یہ ہے کہ وہ "حروف سبعہ" سے تحریف قرآن مراد لے رہا ہے جبکہ یہاں پر حروف سبعہ سے مراد سبعہ قرآت ہے۔
حروف بمعنی قراءت:
حروف کا یہ معنی مجازی ہے۔ اور یہ اس بنا پر کہ عرب کی عادت ہے کہ کبھی کسی شے کا وہ نام بھی رکھ دیتے ہیں جو اس چیز کا جزو یا قریب یا مناسب یا سبب یا اس سے تعلق رکھنے والی چیز کا نام ہو۔ بس چونکہ مختلف قرآءات حروف میں تغیر سے پیدا ہوتی ہیں مثلا حرکات کی تبدیلی،ایک حرف کا دوسرے سے ابدال، تقدیم و تاخیر، امالہ، زیادتی و کمی اس لئے عرب کے استعمال پر اعتماد کرتے ہوئے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے قراءت کو (گو وہ طویل کلام ہو) حرف فرما دیا۔ گویا یہاں کل کے بجائے جزو کا نام استعمال کیا ہے جس کو اصطلاح میں مجاز مرسل کہتے ہیں (یعنی حرف کہہ کر وہ کلمہ قرآنیہ مراد لیا گیا) جس میں خاص قراءت پائی جا رہی ہو۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے (فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ) سے مراد صرف گردن آزاد کرنا نہیں بلکہ پورا غلام آزاد کرنا ہوتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ حدیث میں سبعۃ احرف لفظ کا جو استعمال ہوا ہے، وہ لغوی اعتبار سے وجہ کے معنی میں ہے اور مجازا قراءت کے معنی میں ۔۔۔ لیکن اگر ان احادیث پر غور کیا جائے تو حرف کی حقیقت واضح تر ہو جاتی ہے:
حروف سے مراد "قرآءت" ہیں :
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ نے "فقرا قراءة انكرتها عليه" کہا ہے۔ حالانکہ نزول تو حروف کا ہوا تھا۔ چونکہ قراءت حروف سے مرکب ہوتی ہے اس لئے قراءت کہہ دیا اور بعد میں بھی اسی لفظ کو دھرایا ہے "ان هذا قرا قراءة، سوى قراءة صاحبه" ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف تو حروف میں تھا جس کو قراءت کہہ رہے چونکہ حروف کے مجموعہ کو قراءت کہتے ہیں لہذا انہوں نے حروف کو قراءت کہہ دیا۔