Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اہل کتاب کے علاؤہ دوسرے کفار و مشرکین کا ذبیحہ


تذکیه شرعی کے حصول کی اہم شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ ذبح کرنے والا مسلمان ہو کتابی ہو، اس کے ساتھ ساتھ وہ عاقل بالغ ہو۔ لہٰذا اہلِ کتاب کے علاؤہ کفار و مشرکین کا ذبیحہ جائز نہیں۔ اس شرط پر تمام فقہاء کرامؒ کا اتفاق ہے، میرے علم کے مطابق فقہاء کرامؒ کے درمیان اس بارے میں اختلاف نہیں ہے، حتیٰ کہ بعض علماء نے اس مسئلہ پر اجماع نقل کیا ہے۔

اور کفار کے ذبیحہ کے حرام ہونے کا مطلب یہ نکلا کہ جو کافر اہلِ کتاب میں سے نہیں ہے، اگرچہ وہ مسلمان کے ذبح کے طریقے پر ذبح کرے تو بھی اس کا ذبیحہ حلال نہیں ہو گا۔

امام ابوبکر حصاصؒ فرماتے ہیں کہ ذبح کی شرائط سے معلوم ہوا کہ مشرکین اگرچہ جانور ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیں تب بھی وہ جانور نہیں کھایا جائے گا۔

بعض معاصر علماء نے اس مسئلہ میں شذوذ اختیار کرتے ہوئے صرف اہلِ عرب کے بت پرستوں کے ذبیحہ پر حرمت کو منحصر کر دیا ہے اور ان کے علاؤہ دوسرے کفار کے ذبیحہ کو مباح قرار دیا ہے چاہے وہ دوسرے بت پرست ہوں یا دہرئیے ہوں یا چاہے آتش پرست ہوں۔ بعض معاصرین کا یہ قول غلط ہے، قرآن و حدیث اور اقوال سلف سے اس کی کوئی مناسبت نہیں۔

دراصل ان کو اشتباہ یہاں سے پیش آیا کہ انہوں نے یہ دیکھا کہ قرآن و حدیث میں صریح نص ایسی نہیں ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہو کہ اہلِ کتاب کے علاؤہ دوسرے کفار کا ذبیحہ حرام ہے اور اشیاء کے اندر اصل اباحت ہے، لہٰذا کسی چیز کی حرمت کے لئے نص کا ہونا ضروری نہیں۔

لیکن صحیح بات یہ ہے کہ حیوانات کے اندر اصل حرمت ہے اور وہ جانور اس وقت تک حلال نہیں ہو سکتا جب تک شریعت اس کے حلال ہونے کا حکم نہ لگا دے، اس کی دلیل سیدنا عدی بن حاتمؓ کی وہ حدیث ہے جو ماقبل میں گزری، جس میں انہوں نے حضور اقدسﷺ سے پوچھا یا رسول اللہﷺ! میں اپنا کتا شکار کے لئے چھوڑتا ہوں، اب دوسرا کتا بھی اس کے ساتھ شامل ہو جاتا ہے، اور یہ پتہ نہیں چلتا کہ شکار کس کتے نے کیا ہے۔ حضور اقدسﷺ نے فرمایا اس شکار کو مت کھاؤ، اس لئے کہ تم نے صرف اپنے کتے پر بسم الله پڑھی ہے، دوسرے کتے پر نہیں پڑھی۔

یہ حدیث اس پر دلالت کر رہی ہے کہ جب ذکاۃ شرعی کے حصول میں شک پیدا ہو جائے اور دونوں احتمال برابر ہوں تو اس جانور کا کھانا حرام ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ حیوانات کے اندر اصل حرمت ہے کیونکہ اگر اصل اباحت ہوتی تو شک کی حالت میں وہ حیوان حرام نہ ہوتا۔

دوسری طرف قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد نے صرف اہلِ کتاب کے ذبیحہ کے حلت کی تخصیص فرما دی ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا: وطعام الذین اوتو الکتاب حل لکم ان لوگوں کا تعام تمہارے لئے حلال ہے جن کو کتاب دی گئی ہے۔ لہٰذا اگر سب کا تعام مسلمانوں کے لئے حلال ہوتا تو پھر اللہ تعالیٰ اہلِ کتاب کے ذکر کی تصخیص نہ فرماتے۔

بعض معاصرین نے مندرجہ بالا استدلال کو استدلال بمفہوم اللقب قرار دے کر رد کیا ہے۔ یہ بھی درست نہیں بلکہ یہ استدلال مسکوت عنہ چیز میں اصل کی طرف رجوع کرنے کے اصول سے ہے اور حیوانات میں اصل حرمت ہے۔ جیسا کہ ما قبل میں بیان کیا۔

بہرحال صحیح بات! جس پر ہر زمانے میں امت کا اجماع رہا ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمان کے لئے ذبیحہ اس وقت تک حلال نہیں جب تک اس کو ذبح کرنے والا مسلمان یا اہلِ کتاب نہ ہو، اور اہلِ کتاب سے مراد یہود و نصارٰی ہیں۔ البتہ بعض اقوال شاذہ میں مجوسی کو اہلِ کتاب میں شمار کیا ہے، اور اس حدیث سے استدلال کیا ہے، جس میں حضور اقدسﷺ نے فرمایا سنو بھم سنۃ اہل الکتاب مجوسی کے ساتھ اہلِ کتاب جیسا معاملہ کرو۔

لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ حدیث مجوسی سے جزیہ وصول کرنے کے بارے میں ہے اور جزیہ کے بارے میں یہ حدیث پیش کرکے اس سے استدلال کیا گیا تھا جس کا واقعہ یہ ہوا کہ سیدنا فاروقِ اعظمؓ کو مجوسی سے جزیہ وصول کرنے کے بارے میں تردد تھا تو اس وقت سیدنا عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے یہ حدیث سنائی چنانچہ اس حدیث کی بنیاد پر سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے مجوسی سے جزیہ وصول فرمایا۔ یہ واقعہ امام مالکؒ نے مؤطا میں اس طرح نقل کیا ہے۔

سیدنا محمد بن علیؓ سے مروی ہے کہ سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے مجوسی کا ذکر فرمایا اور یہ سوال کیا کہ ان کے بارے میں کیا معاملہ کروں؟ سیدنا عبدالرحٰمن بن عوفؓ نے فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے حضور اقدسﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ان کے ساتھ اہلِ کتاب جیسا سلوک کرو۔

جمہور فقہہ کرامؒ نے اس بات پر کہ اہلِ کتاب کا لقب صرف یہود و نصارٰی میں منحصر ہے اس آیت سے استدلال کیا ہے

اَنۡ تَقُوۡلُـوۡۤا اِنَّمَاۤ اُنۡزِلَ الۡـكِتٰبُ عَلٰى طَآئِفَتَيۡنِ مِنۡ قَبۡلِنَا ۖ وَاِنۡ كُنَّا عَنۡ دِرَاسَتِهِمۡ لَغٰفِلِيۡنَۙ ۞ (سورۃ الانعام: آیت، 156)

دوسری بات یہ ہے کہ مندرجہ بالا حدیث میں حضور اقدسﷺ نے مجوسی کو اہلِ کتاب میں شمار نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ جزیہ وصول کرنے میں ان کے ساتھ اہلِ کتاب جیسا معاملہ کرو۔

اس سے معلوم ہوا کہ مجوس اہلِ کتاب میں سے نہیں ہے البتہ ان کا جزیہ قبول کرنے کے معاملے میں ان کے ساتھ اہلِ کتاب جیسا معاملہ کیا جائے گا (جس طرح اہلِ کتاب سے جزیہ وصول کر سکتے ہیں، اسی طرح مجوسی سے بھی جزیہ وصول کر سکتے ہیں) 

(فقہی مقالات: جلد، 4 صفحہ، 205)