شاتم رسولﷺ، اور شاتمِ سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا، اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے گستاخ کی سزا اور شاتمِ رسولﷺ کو پناہ دینے والے یا اس کی پشت پناہی کرنے والے ملک سے تعلق اور دوستی رکھنا جائز نہیں
حضرت مولانا مفتی محمد انعام الحق قاسمیؒ کا فتویٰ
رئیس دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
سوال: جو شخص بالحاظِ اسم مسلمان ہو اور اللہ تعالٰی اور اس کے برگزیدہ پیغمبروں اور حضرت محمدﷺ کی ہنسی اڑاتا ہو، ان کے بارے میں استہزائیہ انداز اختیار کرتا ہو، جو ازواجِ مطہراتؓ کی شان میں گستاخی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں نازیبا الفاظ کا استعمال کرتا ہو اور قرآنِ کریم کے بارے میں یہ کہتا ہو کہ یہ کوئی تاریخ نہیں، فقط ناول ہے اور ایک دیوانے شخص کا خواب ہے، جسے کہانی کا رنگ دیا گیا ہے، (معاذ اللہ) تو ایسے ملعون شخص کے لئے علمائے کرام کا کیا فتویٰ ہے؟ عام مسلمانوں کے لئے، حکّامِ وقت اور حکومتِ وقت کے لیے، ازراہِ کرم بتائیں ایسے مسلمانوں کے لئے کیا حکم ہے، جو ایسے گستاخ کو قتل کرنا چاہتے ہوں، جبکہ وہ ایک غیر اسلامی ملک (برطانیہ یا امریکہ) میں موجود ہو، کیا اس ملک کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات قائم رکھ سکتے ہیں؟ جبکہ وہ ملک اس ملعون کی کتاب کی اشاعت کی پشت پناہی بھی کر رہا ہو، اور ایسے ملعون شخص کو اپنے ہاں پناہ بھی دے رکھی ہو؟
جواب: صورتِ مسئولہ میں جو آدمی (کافر ہو یا مسلم) حضرت محمدﷺ پر ہنسی اڑاتا ہے، اور ان کی سیرت و زندگی کے کسی گوشے کے بارے میں استہزائیہ انداز اختیار کرتا ہے یا ان کی توہین و تنقیص کرتا ہے یا اُن کی شان میں گستاخی کرتا ہے یا ان کو گالی دیتا ہے یا ان کی طرف بری باتوں کو منسوب کرتا ہے یا آپﷺ کی ازواجِ مطہّراتؓ اور اُمہات المؤمنینؓ کو بازاری عورت اور طوائفوں کے ساتھ تشبیہ دیتا ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرتا ہے۔ اور قرآن مجید کو ایک دیوانہ اور مجنون آدمی کا خواب بتاتا ہے، یا ایک ناول اور کہانی سے تعبیر کرتا ہے، تو وہ آدمی سراسر کافر، مرتد، زندیق اور ملحد ہے۔
اگر ایسا آدمی کسی مسلمان ملک میں یہ حرکت کرتا ہے تو اس کو قتل کرنا مسلمانوں کی حکومت پر واجب ہے۔ اور مشہور قول کے مطابق اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ اور جو شخص اس کے کفر میں شک کرتا ہے وہ بھی کافر ہے۔ اور یہ آئمہ اربعہؒ کا مذہب ہے، اور اس پر امت کا اجماع ہے۔ جیسا کہ شیخ الاسلام علامہ ابنِ تیمیہؒ نے اپنی مشہور کتاب الصارم المسلول علی خاتم الرسول میں نقل فرمایا ہے کہ عام اہلِ علم کا مذہب ہے کہ جو آدمی خواہ مسلمان ہو یا کافر نبی کریمﷺ کو گالی دیتا ہے، اس کو قتل کرنا واجب ہے۔ ابنِ منذرؒ نے فرمایا کہ عام اہلِ علم کا اجماع ہے کہ جو آدمی نبی کریمﷺ کو گالی دیتا ہے، اس کی حد قتل کرنا ہے۔ اور اسی بات کو امام مالکؒ امام لیثؒ امام احمدؒ امام اسحاقؒ نے بھی اختیار فرمایا ہے اور امام شافعیؒ کا بھی یہی مذہب ہے۔ اور ابوبکر فارسیؒ نے اصحابِ امام شافعیؒ سے مسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے کہ شاتمِ رسولﷺ کی حد قتل ہے۔
محمد بن سخونؒ نے فرمایا کہ علماء کا اجماع ہے کہ شاتمِ رسولﷺ اور آپﷺ کی توہین و تنفیضِ شان کرنے والا کافر ہے اور حدیث میں اس کیلئے سخت سزا کی وعید آئی ہے اور امت مسلمہ کے نزدیک اس کا شرعی حکم، قتل ہے۔ اور جو آدمی اس شخص کے کفر و عذاب کے بارے میں شک و شبہ کرے گا وہ بھی کافر ہے۔
مندرجہ ذیل بالا عبارات سے یہ بات آفتابِ نیم روز کی طرح واضح ہو گئی کہ باجماعِ امت نبی کریمﷺ کو گالی دینے والا یا ان کی توہین و تنفیص کرنے والا کھلا کافر ہے اور اس کو قتل کرنا واجب ہے۔ اور آخرت میں اس کیلئے درد ناک عذاب ہے۔ اور جو آدمی اس کے کافر ہونے کا مستحقِ عذاب ہونے میں شک کرے گا وہ بھی کافر ہو جائے گا۔ کیونکہ اس نے ایک کافر کے کفر میں شبہ کیا ہے۔
پھر یہ شخص جب مسلسل اس جرم کے ارتکاب میں قائم ہے اور اس پر مصر ہے تو اس کے واجب القتل ہونے اور اس کی توبہ قبول نہ کرنے کے بارے میں کوئی شک ہی نہیں۔
چنانچہ کتب فقہ میں لکھا ہے کہ جو آدمی ارتداد کی حالت پر بدستور برقرار رہتا ہے یا بار بار مرتد ہوتا رہتا ہے اس کو فوراً قتل کر دیا جائے گا اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ جیسا کہ فتاویٰ شامی میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ اور سیدنا علیؓ سے روایت ہے کہ متعدد بار مرتد ہونے والے کی توبہ قبول نہیں کی جاتی اور امام مالکؒ امام احمدؒ امام لیثؒ کا مذہب ہے۔ امام ابو یوسفؒ سے مروی ہے کہ اگر کوئی آدمی مرتد ہونے کا جرم بار بار کرے تو اسے حیلہ سے بےخبری میں قتل کر دیا جائے۔
اسی طرح امہات المؤمنینؓ کی شان میں گستاخی کرنے سے آنحضرتﷺ کو تکلیف پہنچتی ہے اور گستاخی کرنے والے پر دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ جل شانہ کی لعنت ہوتی ہے۔
اس لئے سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا کہ امہات المؤمنینؓ کی شان میں گستاخی کرنے والے کی وبہ قبول نہیں کی جائے گی اور وہ مباح الدم ہے۔
چنانچہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ کو گناہ کی تہمت لگانے والوں کے جرم کا ثبوت اور سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی پاک دامنی کا ثبوت تو قرآن مجید میں مذکور ہے۔ فقہائے کرامؒ نے بھی اس کی رُو سے ایسے شخص کو مباح الدم کہا ہے جو سیدہ عائشہ صدیقہؓ پر گناہ کی تہمت لگاتا ہے۔ جیسا کہ فتاویٰ شامی میں ہے کہ نعم لا شک فی تکفیر من قذف السیدۃ عائشهؓ سیدہ عائشہ صدیقہؓ کو تہمت لگانے والا شخص بلاشبہ کافر ہے۔
دنیا کے تمام مسلمانوں کا عقیدہ اور ایمان ہے کہ حضرت محمدﷺ اللہ تعالیٰ جل شانہ کے بندے اور رسول ہیں، تبلیغ دین اور اشاعت حق میں بالکل امین اور حق گو ہیں، اور اس منصب کو بالکل صحیح صحیح طریقہ سے انجام دینے والے ہیں، اور دین اسلام کی تکمیل فرما دی گئی ہے اس میں کسی قسم کی کوتاہی اور خامی نہیں ہوئی ہے، اسی طرح قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ جل شانہ کا کلام پاک سمجھتے ہیں۔ قرآن مجید کو غیر اللہ کا کلام کہنا سراسر کفر ہے۔
اسی لئے تمام اسلامی حکومتوں کیلئے ضروری ہے کہ اگر کافر، مرتد، زندیق ان کی حکومت کے ذریعہ اس پر دباؤ ڈالنا کسی بھی طریقہ سے ممکن ہے تو اس پر دباؤ ڈال کر اس کو قتل کر دینا ضروری ہے، ورنہ ایک بد بخت ازلی اور شاتم رسولﷺ کو پناہ دینے والے یا اس کی پشت پناہی کرنے والے ملک سے تعلق اور دوستی رکھنا جائز نہیں ہو گا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے لَا تَجِدُ قَوۡمًا يُّؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ يُوَآدُّوۡنَ مَنۡ حَآدَّ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَلَوۡ كَانُوۡۤا اٰبَآءَهُمۡ اَوۡ اَبۡنَآءَهُمۡ اَوۡ اِخۡوَانَهُمۡ اَوۡ عَشِيۡرَتَهُمۡ(سورۃ المجادلہ: آیت نمبر، 22) تو نہ پائے گا کسی قوم کو جو یقین رکھتے ہوں اللہ پر اور پچھلے دن پر کہ دوستی کریں ایسوں سے جو مخالف ہوئے اللہ کے اور اس کے رسول کے خواہ وہ اپنے باپ ہوں یا اپنے بیٹے بھائی یا اپنے گھرانے کے۔
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا عَدُوِّىۡ وَعَدُوَّكُمۡ اَوۡلِيَآءَ تُلۡقُوۡنَ اِلَيۡهِمۡ بِالۡمَوَدَّةِ (سورۃ الممتحنہ: آیت، 1)
اے ایمان والو! نہ پکڑو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست تم ان کو پیغام بھیجتے ہو دوستی سے
اور اگر حکومت اس امر عظیم کو انجام دینے کیلئے تیار نہیں ہے تو ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ طاقت بشری کے مطابق کوشش کرکے اللہ تعالیٰ جل شانہ کی زمین کو شاتم رسولﷺ سے پاک و صاف کر دے۔ کیونکہ یہ اظہار دین خداوندی کی تکمیل اور اعلائے کلمتہ اللہ کا ذریعہ ہے۔ جب تک زمین سے شاتم رسولﷺ کو ختم نہیں کیا جائے گا اس وقت تک مکمل دین، اللہ تعالیٰ جل شانہ کے لئے نہیں ہوتا جو اللہ تعالیٰ جل شانہ نے دیا ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے کہ ایسے تمام مرتکبین کبیرہ جن کے گناہوں کا ضرر دوسروں کی طرف متعدی ہونا ہے ان کو قتل کرنا جائز ہے اور قاتل ثواب کا مستحق ہے۔
(فتاویٰ بینات: جلد، 1 صفحہ، 98/106)