Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

ایرانی انقلاب کی حقیقت

  مولانا محب اللہ قریشی

ایرانی انقلاب کی حقیقت

میرے محترم قارئین کرام!

1979ء ایران میں ایک انقلاب آیا اس انقلاب کے لیڈر نے نعرہ لگایا تھا کہ لا شرقیہ ولا غربیہ: لا شیعہ ولا سنیہ: اسلامیہ اسلامیہ اِس نعرہ کو سن کر اس انقلاب کی تائید اُس وقت پاکستان میں اکثر مکاتبِ فکر کے علماء کرام بھی کر چکے تھے لیکن جب اس انقلاب کے داعیوں نے ایران پر اپنا قبضہ جما لیا اور برسر اقتدار آنے کے بعد سب سے پہلے ایرانی آئین کی آرٹیکل نمبر12 میں یہ بات تحریر اور منظور کرالی کہ ایران کا سرکاری مذہب شیعہ اثنا عشری ہوگا اور ایران کا صدر، وزیراعظم، ہائی کورٹس، سپریم کورٹس کے ججز حتّٰی کہ تمام کلیدی عہدوں پر شیعہ ہی آ سکتے ہیں جبکہ ایران میں اہل سنت و الجماعت کی 35 فیصد اکثریت موجود ہے۔ 

 انقلاب کے بعد ایران کو شیعہ اثناء عشری اسٹیٹ قرار دیا

 انقلاب کے فوری بعد مذہبی رہنماؤں کی ایک ٹیم خمینی کی سربراہی میں ایران کا آئین بنانے میں مصروف ہو گئی، اس ٹیم کے ایک رکن نے کہا کہ سعودی عرب کےآئین کی بنیاد چونکہ قرآن ہے، اس لئے اس کو اپنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، انہوں نے کہا کہ ایران کے آئین کی بنیاد صرف شیعہ اسلام ہوگی۔

 کردستان، بلوچستان اور دوسرے صوبوں کی سنی آبادی نے بھی ایرانی شیعہ آئین کی مخالفت کی اور مطالبہ کیا کہ ایران کا آئین شیعیت کی بجائے اسلام پر مبنی ہونا چاہئے۔ تو ایران کے حکمرانوں نے ان سنیوں کو کمیونسٹ اور انقلاب کے مخالف کا نام دے کر اُن پر اور اُن کی عورتوں اور بچوں پر تشدّد کیا اور بے پناہ مظالم ڈھائے۔ اور ان کا سفاکانہ قتل عام کیا گیا، سنیوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک دوسرے علاقوں میں بھی کیا گیا، اور اب تک کیا جا رہا ہے۔

(ایران افکار و عزائم صفحہ 19-15)

ایرانی شیعہ رہنما گو خود کو مسلمان کہتے نہیں تھکتے لیکن اپنے آئین میں انہوں نے اپنا سرکاری مذہب اسلام کی بجائے جعفری اثنا عشری قرار دیا ہے۔ ایران کے سرکاری حلقے اور ذرائع ابلاغ بار بار دوہراتے ہیں کہ یہی سچا اسلام ہے۔ اور انقلاب کے رہنما نے انقلاب سے پہلے جو نعرہ لگایا تھا اس نعرے کی مخالفت کرتے ہوئے وہاں اہلِ سنّت آبادی کے حقوق غصب کئیے۔اور تہران میں 90 لاکھ سنی موجود ہیں جن کو مسجد بنانے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔ اور اسی انقلاب کی سرپرستی میں حضرات انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن، قرآن مقدس اور تمام مسلمانوں کے خلاف غلیظ لٹریچر شائع کرنا شروع کر دیا جس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو (معاذ اللہ) منافق، کافر، مرتد، جہنمی تک لکھا گیا اور پھر یہ کتابیں کئی زبانوں میں چھپوا کر دنیا بھر میں مفت تقسیم کی جانے لگیں۔  


ایرانی انقلاب کے بعد ایران کے مسلمانوں کی حالت اور ان کے حقوق

        ایران کی تاریخ کی درسی کتابوں کے مطابق صفوی بادشاہوں سے پہلے ملک کی مسلم (سنی) آبادی شیعوں سے کہیں زیادہ تھی, اور ایران کا سرکاری مذہب بھی سنی تھا، شاہ اسماعیل نے جب 1501 عیسوی میں شیعیت کو سرکاری مذہب قرار دیا تو اس کے کچھ درباریوں نے اس کو بتایا کہ گرد و نواح پر سنی کثرت سے آباد ہیں جو حکومت کے خلاف بغاوت کر سکتے ہیں، شاہ اسماعیل نے جواب دیا کہ میں اس کام کے لیے خدا تعالٰی کی طرف سے مقرر کیا گیا ہوں، اگر کوئی شخص میرے اس فیصلے کے خلاف آواز اٹھائے گا تو میں اس کو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ 

      کتابوں کے مطابق شاہ اسماعیل نے اعلان کیا کہ سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ، سیدنا عثمانؓ غنیؓ کو سرعام گالیاں دی جائیں اور ہر وہ شخص جو ان گالیوں کو سنے، تو کہے کہ زیادہ سے زیادہ گالیاں دو۔ اس نے اعلان کیا کہ جو شخص بھی اس حکم کی خلاف ورزی کرے گا اس کا سر قلم کر دیا جائے، اس نے اذان کو بھی تبدیل کیا اور تعزیہ، سینہ کوبی اور مرثیہ خوانی کو بھی رواج دیا۔۔   

        درسی کتابیں لکھتی ہیں کہ ایران کے لوگ جو 900 سال پہلے سنی مذہب پر تھے زبردستی شیعہ بنا دئیے گئے۔ یہ کتابیں لکھتی ہیں کہ صفویوں کے ہاتھوں سنیوں کے ہولناک قتل عام اطلاعات کے مطابق 4 ملین سے زیادہ سنی قتل کئیے گئے۔ مسلمانوں پر اتنے مظالم ڈھائے گئے کہ وہ اپنے آپ کو سنی کہتے ہوئے بھی ڈرتے تھے۔ نہ صرف سرکاری اور غیر سرکاری دفتروں میں نوکریوں کے دروازے ان پر بند تھے بلکہ تعلیمی درسگاہوں میں بھی ان کو داخلے نہیں ملتے تھے، اور وہ علاقے جہاں سنی اکثریت میں تھے جان بوجھ کر پسماندہ رکھے گئے تھے۔

        یہ حیران کن بات ہے کہ تہران میں لاکھوں سنی آباد ہیں لیکن ان کی ایک مسجد بھی نہیں ہے جہاں وہ آزادی سے ہاتھ باندھ کر نماز پڑھ سکیں حالانکہ درجنوں آتش کدے، گرجا گھر، یہودی صومینے، ہندو مندر اور سکھ گردوارے بھی موجود ہیں۔ خمینی نے دنیا کو دھوکہ دینے کے لئیے ایک آزاد خیال شخص (بازرگان) کو وزیر اعظم بنا دیا جبکہ پس پردہ شیعہ پادری ایران کا آئین  مرتب کرنے میں لگ گئے. 

       اس دوران آیت اللہ خمینی سنی رہنماؤں کو بار بار یقین دلاتے رہے کہ ایران کا آئین اسلامی ہوگا اور سنیوں کے حقوق کا پورا پورا تحفظ کیا جائے گا لیکن اچانک ایک اعلان کے ذریعے شیعیت کو سرکاری مذہب قرار دے دیا گیا اور سنیوں کو بہ یک قلم تمام جائز حقوق سے محروم کر دیا گیا۔ ایرانی آئین کے تحت سنیوں کو یہودی، عیسائی، پارسی اور آرمینی اقلیتوں جیسے علیحدہ حقوق بھی نہ دئیے گئے۔ ایرانی مجلس میں باقی ادیان و مذاہب کے لیے نشستیں مخصوص کردی گئی لیکن سنیوں کو اس حق سے بھی محروم رکھا گیا، مزید ظلم یہ کہ اگر کوئی سنی اپنے علاقے میں مجلس کا اُمیدوار بننے کی کوشش بھی کرتا تو اسے قتل کروا دیا جاتا ہے یا اس کے انتخاب میں دھاندلی کی جاتی ہے۔ 

ایران میں شیعت کو سرکاری مذہب بنانے اور سنیوں کے ساتھ کی گئی بے انصافی اور زیادتیوں کے خلاف سنی اکثریتی صوبوں میں آواز اٹھائی گئی لیکن شنوائی اور دادرسی کے بجائے طاقت کا طاغوتی طریقہ کار اپنایا گیا، اور سنی آبادیوں کو سنگین ظلم و ستم کا نشانہ بنا کر ان کی آواز کو بے دردی سے دبا دیا گیا۔شیعہ حکومت کا پہلا ہدف۔۔۔۔ سنی اکثریتی صوبہ کردستان بنا، جہاں ان پر کمیونسٹ اور ایرانی انقلاب کے دشمن ہونے کا الزام لگا کر کُرد آبادیوں پر نیپام بم برسائے گئے اور ہزاروں مردوں، عورتوں اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، اور لا تعداد عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ حافظ علی اکبر ملا زادہ سنی رہنما نے ایک مضمون میں سنی مسلمانوں کی حالت زار نہایت دردناک لفظوں میں بیان کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ: 

     تہران کے موجودہ شیعہ حکمران سنی مردوں کا قتل عام کرنے اور انہیں زبردستی شیعہ مذہب اختیار کرنے اور سنی نوجوانوں کو نقلِ وطن کرنے پر مجبور کر کے ایک سہ جہتی 10 سالہ منصوبہ پر عمل پیرا ہے۔ اور اندیشہ ہے کہ اس طرح اپنے مردوں اور نوجوانوں سے محروم ہو کر لاوارث سنی بیوہ عورتیں اور یتیم بچے عملی طور پر شیعہ حکومت کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ ایران کے شیعہ حکومت میں آج ریاست یا انتظامیہ کا کوئی عہدہ دار سنی نہیں ملے گا، حد تو یہ ہے کہ سنی علاقوں میں متعین قاضی جج اور سکولوں وغیرہ میں استاد بھی سارے کے سارے شیعہ ہی ہیں۔

   حافظ علی اکبر ملازادہ سنی رہنما لکھتے ہیں کہ:

   ایران میں تمام ذرائع ابلاغ شیعہ عقائد و نظریات کے پرچار کی پالیسی اپنا کر اہلِ سنّت اور اسلام کے خلاف ایک مسلسل مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسلامی اقدار و شعائر اور اسلاف کو تضحیک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سنی طلبہ کو یونیورسٹی سطح پر حصولِ تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے، زاہدان یونیورسٹی میں دوہزار طلباء میں سے صرف نو سنی طلبہ کو داخلہ دیا گیا ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ: 

 کاروبار، زراعت اور صنعت کی سکیموں میں امداد کے لیے بنک کے قرضے، لائسنس اور دیگر مراعات اور سہولتیں صرف شیعہ کے لئیے مختص ہیں، خواہ ان سکیموں کا تعلق سنی علاقوں سے ہی کیوں نہ ہو۔ 

حد تو یہ ہے کہ ایران اپنی 40 فیصد سنی آبادی کو اپنی طاقت کے بل بوتے پر انتہائی ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہا ہے جبکہ پاکستان نہ صرف خاموش تماشائی بنا ہوا ہے بلکہ اپنی معذرت خواہانہ پالیسی کے سبب سے ایک طرح سے گویا اس کی معاونت کر رہا ہے اور دوسری طرف پاکستان کی شیعہ اقلیت  جو دو فیصد سے زیادہ نہیں، شہ پا کر اس ملک میں شیعہ انقلاب لانے کی باتیں کر رہی ہے۔

( ایران افکار و عزائم صفحہ 47 تا52)

اصفہان شہر میں عمر بن عبدالعزیز کے نام سے موسوم مسجد ہے لیکن اہلِ سنت اس میں نماز ادا نہیں کر سکتے۔ شیراز میں مظفری قوم تازہ تازہ اہلِ سنت میں داخل ہوئی ہے، انہوں نے مسجد بنائی تو ان کے امام ودکتور کا سر قلم کر دیا گیا،

مسجد شہید کر دی گئی اور وہاں پر پارک بنا دیا گیا۔ مشہد شہر کی 120 سالہ قدیم مسجد: مسجد فیض: کو منہدم کر کے اس کی جگہ پارک بنا دیا گیا ۔ زاہدان شہر میں مسجد کے نمازیوں کو ماہِ رمضان میں اندھا دھند فائرنگ کےذریعے 11 لاشے تحفے میں دیئے گئے، 80 سنی زخمی ہوئے اور 200 کو گرفتار کیا گیا، ان کاجرم صرف یہ تھا کہ "مسجد فیض" کے واقعہ کی تحقیق کرنے کے لئے علماء کیوں آئے تھے۔ بلوچستان، کردستان، سیستان اور شہرستان میں جتنے سنی مدارس ہیں سب کو ختم کر کے اپنے پروگرام کے تحت صرف چند ایک باقی رکھے گئے جن میں علماء کو شیعہ سے سند لینی پڑے گی اور وہ شیعیت کی حکمت عملی و مذہب کے مطابق ہی درس دیں گے ورنہ اجازت نہیں ہوگی۔ 

جمعہ کے دن شیعہ مشائخ (پادری) اور نوجوان سنیوں کی مساجد میں پہنچ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر برملا تنقید کرتے ہیں۔ اسکولوں میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور آئمہ اہل سنت پر تنقیص واعتراضات والے رسائل پڑھائے جاتے ہیں۔ کالج اور یونیورسٹیوں میں فقہ جعفریہ کے دلدادہ افراد کے سوا کسی کو داخلہ نہیں دیا جاتا۔ عہدوں اور ملازمتوں سے سنیوں کو دور رکھا جاتا ہے۔ ریڈیو اور ٹی وی پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف ڈرامے دکھا کر سنیوں کے زخموں پر نمک پاشی کی جاتی ہے۔ اور کسی علاقے میں سنی علماء کرام کو اکٹھے ہونے کی اجازت نہیں ہے۔

(حرمین کی پکار: صفحہ45)

 ایران کے ایک شہر سے مسلمانوں کی فریاد اور پکار....! 

وہاں کے مسلمان فریاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ۔۔۔ ہمارے انقلاب کا ضمنی مقصد سنی بلوچوں کو اثناء عشری بنانا ہے، جو اثنا عشری عقیدہ رکھتے ہوں اور اس زمین میں 9فیصد اشخاص کو شیعہ کر لیا گیا ہے اور آخری اور دراصل مقصد ایران میں بلوچ کرد اور ترکمان کو شیعہ بنانا ہے اور جب ایران میں یہ مقصد حاصل ہو جائے تو تمام عالم کے مسلمانوں کو شیعہ بنایا جائے گا۔ اب سنی عوام کے سامنے ان تین راستوں کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ 

نمبر ایک۔۔ مذهب شیعہ اثناء عشری قبول کر لیں یا اس کی مخالفت کریں۔

نمبر دو ۔۔۔ یا انکار کی صورت میں قتل ہو جائیں یا فرار ہو جائیں۔ 

نمبر تين ۔۔۔ یا ایران میں قیدی بن کر اپنی زندگی گزاریں۔ 

ہم اس وقت اپنے تمام سنی بھائیوں سے جو آمریت پسند دنیا میں آباد ہیں درخواست کرتے ہیں کہ وہ مظلوموں کے حق میں آواز بلند کریں جو ان کے خلاف شیعوں کی جانب سے جاری ہے۔ اور ایران میں ہمارا اقتصادی استحصال کیا جا رہا ہے، ہمارے عقائد اور دین کو خطرہ ہے۔ ہم کب تک ان مظالم اور زیادتیوں کو جو اسلام کے نام پر جاری ہیں برداشت کریں گے؟ اور اس کا مقابلہ کریں گے؟ خمینی انقلاب کا مقصد یہ ہے کہ صفوی دور حکومت کو پھر دوبارہ واپس لایا جائے تاکہ مذہبِ حق اہلِ سنت کے افراد جو کہ بلوچستان میں ہیں ان کو مٹا دیا جائے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا اس انقلاب نے علاقوں میں اہلِ سنت کی تنظیموں کو نیست و نابود نہیں کر دیا ہے؟ اور اہلِ سنت کے پیشوا علامہ احمد مفتی زادہ اور چارسو علماء و نوجوانان اہلِ سنت شاہی قید خانہ "اوین تہران" میں مقید نہیں؟ واضح طور پر یہ ایرانی انقلاب سوویت یونین کیلئے راہ ہموار کر رہا ہے تا کہ لادینیت اور لامذہبیت بلو چستان، مکران اور کردستان میں پھیلائے اور مذہبِ اسلام کو ختم کرے۔ خدا کی قسم ہم یہ نہیں سمجھ سکتے کہ یہ ایرانی انقلاب کونسا اسلام لانا چاہتا ہے؟

(خمینی ازم اور اسلام، صفحہ90)

 ایک عراقی مظلوم کی پکار تمام مسلمانوں کو جھنجوڑ رہی ہے

     وہ کہتا ہے کہ: اے بھائیو۔۔! میں بغداد سے بات کر رہا ہوں۔ کیا مصر میں کوئی غمگین آنکھ بغداد پر آنسو بہاتی ہے؟ میرے پاس ہزاروں سنی مرد اور عورت آئے اور اُمتِ مسلمہ تک یہ آواز پہنچانے کی ذمّہ داری سونپی کہ اگر اصل اسلام کو نیست و نابود کر دیا گیا تو کون ہماری مدد کرے گا؟ کون ہمیں ظلم وستم سے بچائے گا؟ ہماری عورتیں اٹھالی گئی، اہلِ سنت کو قتل کر دیا گیا، داڑھیاں جلا دی گئی، بوڑھوں کو زندہ آگ میں جھونک دیا گیا، عمر رسیدہ لوگوں کی پشتوں پر کوڑے برسائے گئے، ان ظالموں نے ایک تین سالہ معصوم بچے کو جلا کر اس کی جلی ہوئی لاش اس کے بوڑھے باپ کے سامنے رکھ دی۔ خود مجھ پر ظلم کرتے ہوئے کہا گیا کہ اپنی ماں سیدہ عائشہ صدیقہؓ  اور اپنے باپ سیدنا ابو بکر صدیقؓ پر تہمت لگاؤ۔ ہائے۔۔۔! میں کس منہ کے ساتھ دنیا میں رہوں، میری داڑھی پر نجاست مل لی گئی، اہلِ سنت...! اپنے مسلمان بھائیوں کو شیعوں کے مظالم سے بچاؤ۔

ہائے ...! دینِ اسلام کی بے بسی! ہماری عورتوں کو اغوا کر لیا گیا، وہ ہمیں سڑکوں پر روک کر زندہ جلا دیتے ہیں، کیونکہ ہمارے ناموں میں ابو بکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور معاویہؓ  شامل ہوتے ہیں، ان ظالموں نے ہم سے کہا کہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ  کو گالی دو، ہم نے انکار کیا تو ہماری انگلیاں کاٹ دی گئی۔ ایک دفعہ میں نے ایک لڑکی کو دیکھا جس کی عصمت کو تار تار کیا جا چکا تھا وہ چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ...

اللہ کی قسم! میں کنواری تھی، اللہ کی قسم! میں قرآن کی حافظہ تھی، پھر کہنے لگی کہ کون میری مظلومیت کی داستان اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ تک پہنچائے گا۔۔۔؟ ان رافضیوں نےظلم و ستم کی تمام حدیں توڑ کر عزتِ رسولﷺ پر گھات لگائی ہے۔

اے عالمِ دین! سنئیے۔۔۔! میں نے یہ داستانِ ظلم تم تک پہنچادی۔ میرے بدن کے زخم آج بھی تروتازہ ہیں کیونکہ میرے بیٹے کا نام عمر اور بیٹی کا نام عائشہ ہے۔ اے اللہ! گواہ رہنا، تُو ہمارا مولا ہے، اے اہل اسلام! کیا مظلوم مسلمانوں کیلئے کوئی مددگار ہے؟ کیا کوئی ابن تیمیہ ہے، جو روافض کا ہاتھ روک لے۔۔؟

(حرمین کی پکار، صفحہ53)

    ایران میں گناہوں کے اڈے

جناب نذیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ تہران ایک یورپی شہر کا ماحول پیش کر رہا تھا، قدم قدم پر شراب خانے، نائٹ کلب اور عیاشی کے اڈے قائم تھے، بے حیائی عروج پر تھی۔ 

(ایران اور عالمِ اسلام، صفحہ12)